پرانا محل - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 8 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-30

پرانا محل - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 8

paudey-krishan-chander-08

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

پرانا محل
کرشن چند نے مسلم ضیائی سے پوچھا۔۔۔ بھئی تم شادی کیوں نہیں کرتے ہو۔ اب تو تمہاری آنکھوں پر عینک بھی آ چکی ہے۔
مسلم ضیائی نے اپنی عینک کے شیشوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ تم نہیں جانتے۔ آہ!
کون ہے وہ ظالم ! کرشن چند نے پوچھا۔
"وہ ہر روز کانفرنس میں آتی ہے۔ آہ!"
گاڑی چارمینار کے گرد گھوم کر ایک گل فروش کی دکان پر کھڑی ہو گئی۔ مسلم ضیائی اتر کر گجرے خریدنے لگے۔
"یہ گجرے کیا کرو گے؟"
میں اسے بھیج دوںگا۔ اسے یہ گجرے بہت پسند ہیں۔
"آہ!" کرشن چند نے کہا: مجھے اپنی بیوی کے لئے چوڑیاں خریدنی ہیں۔ اور تھوڑا سا ہمرو اور ایک مرادآبادی پاندان۔
واہ! یہ سب چیزیں تو قریب ہی کے بازار سے مل سکتی ہیں۔ مسلم ضیائی نے جواب دیا۔
"آہ!" کرشن چندر نے کہا۔
قریب کے بازار سے یہ سب چیزیں مول لے کر وہ لوگ واپس ہوئے تو چارمینار کے قریب گاڑی روک کر ایک طرف کھڑی کر دی گئی۔ مینار پر گھڑی میں ابھی پانچ نہ بجے تھے۔ چاروں طرف سیٹیاں بج رہی تھیں۔ سائیکل والے سائیکلوں سے اتر کر، گھوڑا گاڑی والے، گاڑی والے گاڑی ٹھہرا کر۔ کار والے، کار ایک طرف کر کے اور پیدل چلنے والے جہاں تھے وہیں رک کر جامد و ساکت ہو گئے۔ چاروں طرف جدھر نگاہ جاتی تھی خاموشی تھی۔ گہرا سناٹا۔ اور مخلوق کے سر جھکے ہوئے تھے۔ اور شیروانیوں کے بٹن گلے تک بند تھے۔ اور آنکھیں آسمان کی پہنائیوں کو چھوڑ کر زمین کی پتھریلی سطح پر جھکی ہوئی تھیں اور پسینے میں عرق عرق پیشانیاں کسی نظر نہ آنے والے خد ا کے آستانے کی جبہ سائی کر رہی تھیں۔ یکایک کہیں سے اک سیاہ موٹر گذر گئی۔ مینار کے سامنے کھڑے ہوئے سپاہیوں نے سلامی اتاری ، اور گاڑی بہت دور چلی گئی۔ اور یکایک مینار کے گھڑیال نے پانچ بجائے اور یکایک جیسے ساری فضا کی خاموشی جھن سے ٹوٹ گئی۔ اور جھکی ہوئی گردنیں اوپر اٹھ گئیں اور موٹر اور سائیکل اور گھوڑا گاڑیاں چلنے لگیں اور دکاندار گاہکوں کو سودا دینے لگے۔۔۔ اب پھر وہی شور و غل تھا۔ وہی ہاو ہو۔ وہی زندگی۔
"کیاہوا تھا بھئی" کرشن چند نے ایک چاؤش سے پوچھا۔ جو اس کے قریب ہی کھڑا تھا۔
چاؤش نے اسے گھور کر دیکھا اور اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا: "ابھی سرکار کی سواری ادھر سے گزر کر گئی ہے۔ اندھے ہو کیا، تمہیں اتنا بھی نہیں معلوم؟"
"چلو ، چلو، گاڑی بڑھاؤ"۔ مسلم ضیائی نے ٹیکسی والے سے کہا۔ اور پھر مڑ کر کرشن چند سے کہنے لگا۔
"یہ چاؤش آزاد عرب کے لوگ ہیں۔ ان سے۔ 'یا چاؤش' کہہ کر گفتگو کرنا چاہئے۔ بھئی، کہہ کے نہیں، وہ تو یوں کہو، شریف چاؤش تھا۔ لڑاکا ہوتا تو ابھی اس بات پر تمہارے پیٹ میں چھری بھونک دیتا"۔
"یا چاوش!" کرشن چند ر نے گھبرا کر کہا۔ "اب کہاں چلو گے؟"
"راجہ شامراج جی کے ہاں دعوت ہے چھ بجے!"

راجہ شامراج کا محل ، پرانا محل ، شہر میں واقع ہے۔ اونچی فصیل کے اندر ایک خوشنما باغیچہ ہے، باغیچے میں ایک مور ناچ رہا تھا۔ جب ادیب لوگ وہاں پہنچے تو دس بارہ موٹریں ایک طرف استقبال کے لئے کھڑی تھیں۔ راجہ صاحب غائب تھے، ادیبوں کو موٹر ڈرائیوروں سپاہیوں اور راجہ صاحب کے مصاحبوں نے جھک کر سلام کیا۔ اور یہ بے چارے کچھ حیران، کچھ پریشان ، کچھ پشیمان سے۔ محل کی سیڑھیوں پر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ اتنے میں کسی نے کہا: اوپر تشریف لائیے، ادھر لائبریری کی طرف۔
یہاں راجہ صاحب سے تعاون ہوا۔ بظاہر صدق و صفا کی مورت۔ دبلے پتلے ، پیشانی پر تلک۔ اتنی بڑی لائبریری اتنی اچھی لائبریری ہر موضوع پر کتابیں جنہیں غالباً آج تک کسی نے کھول کر پڑھا نہ تھا۔ بہت سی کتابوں کے ورق بھی کاٹے نہیں گئے تھے۔ پوری لائبریری میں صرف دو بچے پڑھ رہے تھے۔ یہ سنگ مرمر کے مجسمے تھے۔ اور ایک سنگ مرمر کی کتاب کھولے ہوئے اس پر جھکے ہوئے تھے اور نہ جانے کتنے سال سے اس طرح جھکے ہوئے اسی کتاب کے اسی صفحے کو پڑھ رہے تھے۔ یہ سنگ مرمر کی کتاب۔ یہ سنگ مرمر کے محل۔۔۔
لیکن ہم لوگ یہاں کیا کر رہے تھے۔ کیوں اس دیار غیر میں اجنبیوں کی طرح گھوم رہے تھے۔ وہ گھر جو اپنا نہ تھا جس کے ہر سنگ مرمر کی رگ کا خون سفید ہو چکا تھا۔ سامنے مور ناچ رہا تھا۔ ایک کمرہ اشتراکیت کے موضوع سے متعلق تھا۔ یہاں ہزاروں کتابیں جمع تھیں۔ مصاحب ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے ، گویا ہم تماشہ ہوں، اور وہ تماشائی۔ ان کی نظریں گویا کہہ رہی تھیں تمہارے ایسے سینکڑوں لوگ یہاں آتے ہیں۔ اور دعوت کھا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہم ادیبوں کو بلاتے ہیں، اور سرکس والوں کو بھی اور مداریوں کو۔ اور مسخروں کو، یہاں سیاح آتے ہیں اور بھک منگے بھی۔ اور سیاست داں بھی۔ ہمارے راجہ صاحب بہت اچھے ہیں لیکن ان کے اچھا ہونے سے آپ لوگ اچھے نہیں ہو سکے۔
سردار صاحب آپ کی قمیص پھٹی ہوئی ہے۔ آپ کی شیروانی کا بٹن غائب ہے ، سبطے میاں۔ قدوس صاحب آپ نے یہ جھولا کیسے لٹکا رکھا ہے۔ مہندر بھائی آپ نے سر پر یہ جنگل سا کیا لگا رکھا ہے۔ کرشن صاحب آپ کی پتلون پر دس پیوند ہیں۔ آپ لوگ، یہاں کیا کھا کر ترقی پسندی کا دعوی کریں گے۔۔۔
سامنے مور ناچ رہا تھا۔
ایک صاحب جو غالباً راجہ صاحب کے وزیر معلوم ہوتے تھے بولے:
سرکار کا عجائب گھر بھی دیکھئے گا۔

سرکار کا عجائب گھر؟
اس وقت تو یہ سارا محل عجائب گھر معلوم ہو رہا تھا۔ جس میں نمونے کے طور پر ترقی پسند ادیب مختلف کمروں میں رکھ دئیے گئے تھے۔ اس بالکونی میں سجاد ظہیر ، ڈاکٹر تارا چند اور ملک راج آنند قید تھے۔ اس کمرے میں سردار اور عادل رشید، سبط حسن اور رفعت سروش محبوس تھے۔ اس شیشیے کی الماری کے قریب کرشن چندر، مدن گوپال اور فراق گورکھپوری استادہ تھے۔ فراق صاحب کے چہرے پر غیض و غضب کے آثار نمایاں تھے اور ان کی گول گول پتلیاں حیرت و استعجاب میں ڈوب کر ادھر اُدھر مجذوبانہ انداز میں تک رہی تھیں۔
ایں۔ ہم لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ ہم دعوت کھانے آئے ہیں، یا اپنا خون پینے آئے ہیں۔
فرق بولے بلند آواز میں۔
"بھئی میں تو چلتا ہوں"۔ یہ کہہ کر وہ چلے۔
"ٹھہرئے، ٹھہرئے" وزیر نے کہا۔
"وہ راجہ صاحب کا عجائب گھر"!
اچھا صاحب، فراق صاحب نے ہار مان کر کہا۔
"وہ بھی ہو جائے۔"

ایک کمرے میں پتھر کے بت۔ ایک کمرے میں دیوتاؤں کے بت۔ پتھر کے نہیں، دھات کے۔ ایک کمرے میں آصفیہ خاندان کے خطوط ، جو راجہ صاحب کے بزرگوں کو لکھے گئے تھے۔ راجہ صاحب کے بچوں کے خط ، جو انہوں نے اردو میں لکھے تھے۔ یہ خط شاید اردو سے محبت کے ثبوت میں تھے۔ ایک کمرے میں مختلف تصاویر۔
وزیر نے کہا۔۔ "مجھے وہ تصویر بہت پسند ہے"۔
کوئی خاص بات اس تصویر میں نہ تھی۔ ایک خوبصورت عورت کی تصویر تھی۔ جس نے ایک سپید ساڑھی پہن رکھی تھی۔ اس طرح کی ساڑھی کے اندر عورت تقریباً ننگی نظر آتی تھی۔ کمر کے خم میں گاگر لئے کھڑی تھی۔
"بے حد پسند ہے"۔ وزیر کے ہونٹ کھلے تھے۔ ہائے وہ موٹے موٹے کھلے کھلے بدصورت ہونٹ!
سامنے مور ناچ رہا تھا۔

"میں جا رہا ہوں بھئی کرشن"۔ فراق نے جھلا کے کہا۔
ٹھہرئے، ٹھہریے۔ وزیر نے گھبرا کے کہا۔ چائے پی کے جائیے۔
ہوں، فراق صاحب نے کھرج میں کہا۔ اور باغیچہ میں جا کے چائے پینے لگے۔
چائے پینے کے بعد راجہ صاحب کے ساتھ ترقی پسند ادیبوں کا فوٹو کھینچا گیا۔ دائیں طرف سجاد ظہیر، بائیں طرف کرشن چندر، اور کرسیوں پر دوسرے ادیب اور بہت سے ادیب مصاحبوں کی طرح پیچھے کھڑے تھے ، سردار اور سبطے، اور دوسرے انقلابی ادیب۔
"میں حاضر ہوں سرکار"۔ فوٹو گرافر نے کہا۔
راجہ صاحب نے اشارہ کیا۔ اور فوٹو لے لیا گیا۔
فراق کے بدن میں کانٹے چبھ رہے تھے ، لیکن اب فوٹو لے لیا گیا تھا۔ فوٹو جو بے حد ضروری تھا۔ فوٹو سے راجہ صاحب کی ترقی پسندی تو کیا ظاہر ہونی تھی۔ اپنی ذلت پسندی کی انتہا ہو گئی تھی۔۔
سردار نے کہا۔۔ اگر مجھے معلوم ہوتا۔۔۔
سبطے بولا: انقلاب کے دوران میں جاگیر دار ایسے ایسے کئی فوٹو پیش کرکے اپنے آپ کو اشتراکیت کا علمبردار ثابت کریں گے اونہہ۔ ان باتوں سے کیا ہوتا ہے۔
قدوس صہبائی بولے: فوراً گردن ناپ دی جائے گی۔
مگر ایسا ہوا کیوں؟ مدن گوپال چیخے۔
ہم یہاں آئے کیوں؟ فراق بولے۔ اگر کوئی میرے ساتھ چلتا ہے تو چلے۔ ورنہ میں تو ابھی چلا۔
"ٹھہرئیے ، ٹھہرئیے" وزیر نے چلا کر کہا۔
"پان اور عطر حاضر ہے"۔
سونے کا عطر دان۔ اور چاندی کا پاندان ، اور پان کھلا کے اور عطر لگا کے اور ہاتھ میں ایک گلدستہ تھما کے ادیبوں کو رخصت کردیا گیا۔ چلتے وقت یہ محسوس ہو رہا تھا۔ گویا کسی نے منہ پر تھوک دیا ہے۔ پیشانی پر کیچڑ مل دی ہے اور روح میں غلاظت کے انبار لگا دئیے ہیں۔ ہر شخص الو کا پٹھا معلوم ہورہا تھا۔
سامنے مور ناچ رہا تھا۔

واپس قیام گاہ پہنچ گئے۔ تو دیکھا سامنے صحن میں جگر حیدرآبادی کھڑے کھڑے مسکرا رہے تھے ۔ کہئے صاحب ، راجہ صاحب کی دعوت سے فارغ ہو گئے۔
اس کے بعد ہنسے۔ ہونٹ لال، مسوڑھے لال، دانت لال، زعفران رنگ چہرے پر رستا ہوا سرخ زخم۔ جی میں آیا گلا گھونٹ دیا جائے ، سردار نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں اور اپنے آپ پر بےحد جبر کر کے بولے۔۔۔ "بندۂ خدا بتا تو دیا ہوتا۔ کہاں دعوت ہے۔ ہمیں کیا معلوم یہ شامراج کون ہیں۔۔۔؟ ہم تو سمجھے تھے کوئی ادب نواز صاحب ہوں گے"۔
ادب نواز تو وہ ہیں۔ ورنہ آپ کو بلاتے کیوں۔
یہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔ مگر یہ راجہ یہ نواب، یہ یار جنگ بہادر، تم کچھ سمجھوگے بھی کہ نہیں۔
جگر گھوم گئے۔ مطبخ کی طرف جاتے ہوئے بولے:
آپ کے لئے شام کے کھانے کا انتظام کرنے جا رہا ہوں۔ شام کے کھانے سے پہلے اردو مجلس کے ہاں سے تمام مندوبین کو بلاوا آیا ہے۔ جانا ہوگا۔
وہ مڑ کر گھوم گئے۔ فراق نے انہیں معاف نہیں کیا تھا، اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھماتے ہوئے بولے۔ یارو، عجب آدمی ہے۔ چوبیس گھنٹے سر پر سوار رہتا ہے۔ جب دیکھو قیام گاہ میں حاضر ہے۔ یہ شخص سوتا نہیں ، کھاتا نہیں، پیتا نہیں جب دیکھو ، ادھر سے ادھر ، اُدھر سے ادھر گھومتا رہتا ہے اسے کیا ہوا ہے۔
اس کے بعد خود ہی سر جھکا کے حیران و ششدر کھڑے رہ گئے۔ دیر کے بعد سبطے سے مخاطب ہوئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آؤ بھئی تمہی کچھ رباعیاں سنائیں۔
آپ چلئے، میں ابھی آتا ہوں۔
سبطے نے کرشن کو بھی گھسیٹنا چاہا: چلو، رباعیاں سنو تم بھی۔ کمبخت رباعی بہت اچھی کہتا ہے۔
عادل رشید پتلون کی کریز درست کرتے ہوئے بولے: بہت بڑا شاعر ہے۔ سبطے نے کہا۔۔ ان کی شاعری ہند سماجی کلچر کی معراج ہے۔
کرشن چندر نے کہا۔۔ میں نہیں جاؤں گا ، رباعیاں سننے اس وقت۔
لہجے میں ضرورت سے زیادہ تلخی تھی۔ حسد اور رشک اور اک مجبور، گرانبار، حریصانہ رقابت کہ ہائے میں شاعر کیوں نہیں۔ یہ ہر محفل میں شاعر کیوں چھا جاتا ہے اور کیوں افسانہ سنتے ہی لوگوں کو جماہیاں آنے لگتی ہیں۔ کاش میرا ہر افسانہ فراق کی رباعی کی طرح خوبصورت ہوتا۔۔۔۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:8.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں