حیدرآباد اسٹیشن - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 5 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-09

حیدرآباد اسٹیشن - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 5

paudey-krishan-chander-05

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

حیدرآباد اسٹیشن

دوسرے روز صبح جو آنکھ کھلی تو گاڑی نظام اسٹیٹ کی حدود میں داخل ہو چکی تھی ، اور ایک اندھا لڑکا ہاتھ میں کھجری لئے دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ اپنی دلدوز آواز میں گاکر بیان کررہا تھا۔ باہر میلوں تک مکا کے کھیت تھے۔۔۔ یا میلوں تک چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کا جنگل تھا۔ خرگوش اور تیتر، گاڑی کی آواز سے چونک کر جھاڑیوںسے نکل کر بھاگتے تھے۔ پگڈنڈی پر چرواہا ریوڑلئے جارہا تھا۔ اور بیلوں کے پاؤں سے اڑتی ہوئی گرد میں سورج کی کرنیں ایک زریں دھندلکے میں کھوئی گئی تھیں۔ یہی دھندلکا افق پر بھی تھا۔ جہاں سورج سرخ لحاف سے سر نکال کر نئے دن کو دیکھ رہا تھا۔ چلتی ہوئی گاڑی کو دیکھا تھا۔ ترقی پسند ادیبوں کے تھکے ہوئے چہرے دیکھ رہا تھا۔ کھجری کا نغمہ سن رہا تھا۔ جو مچلتی ہوئی زندگی کو برفیلی موت کا پیغام دے رہی تھی۔
مسافر آنے والی موت سے مرعوب ہوکر اندھے کو خیرات بانٹ رہے تھے ہزاروں سالوں سے یہی آساکی دھن اور یہی موت کا نغمہ صبح سویرے سارے ہندوستان میں گونج اٹھتا ہے ، چھوڑ دو دنیا، چار دن کی چاندنی ہے۔ پھر اندھیر ی رات ہے۔ مایا کا جنجال ہے، مسافر کس بھول میں پڑا ہے۔ ان گیتوں میں سراب ہے ، اندھیرا ہے ، تاریکی ہے، موت ہے، زندگی نہیں، حرکت نہیں، خوشی نہیں، خود اعتمادی کی وہ جگمگاتی ہوئی کرن نہیں جو انسان کو صبح سے شام تک دنیا کے تکلیف دہ کاموں میں بہ مسرت و شادمانی مصروف رکھتی ہے اسی لئے تو یہاں ہر فرد فاقہ مست ہے۔ ہر شخص کا چہرہ ستا ہے۔ جیسے ابھی ابھی اس نے اپنے والد کے انتقال کی خبر سنی ہو۔ اسی لئے یہاں ہنسی ہونٹوں سے غائب ہے۔
کرۂ ارض پر شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں ہنسنا بدتمیزی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور رونا عین ثواب ہے۔ رونا ہمارے نغمے میں ہے، ہمارے فلسفے میں ہے۔ ہمارے سماج میں ہے ، ہمارے فن میں ، ہمارے مذہب میں ہے۔ رونا ہمارے تمدن کی معراج کا مل ہے۔۔۔
"سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا۔۔۔"
کھجری واے اندھے نے دوسرا رونا شروع کر دیا۔ اور سردار نے جھلا کر اسے دونی دی اور کہا: بس کرو، اور اگر ضروری کچھ گانا چاہتے ہو تو کوئی کام کی چیز گاؤ۔
اندھا بے چارہ چند لمحے چپ رہا۔ اس کے ساتھی نے ادھر ادھر دیکھا۔ اندازہ لگایا، کہ ڈبے میں مسلمان مسافروں کی تعداد زیادہ ہے، اس نے اندھے کے کان میں کچھ کہا۔ اور اندھے نے کھجڑی کی تھاپ سے ایک نعت شروع کی۔ اور جب وہ نعت گا چکا، اور صرف مسلمان مسافروں سے پیسے وصول کر چکا تو اب دوسری چیز شروع کی۔
"مرلی والے گھنشام ۔۔"
اب کے صرف ہندو مسافروں نے اسے پیسے دئیے۔ اس وقت گاڑی میں بیٹھا ہوا ہر ہندو مسلمان مسافر ایک دوسرے کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے اسے کچا کھا جائے گا اور کرشن چندر کو ایسا محسوس ہوا۔ گویا گاڑی کے ڈبے میں اک گہری خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے۔ دو قوموں کے درمیان، دو نظریوں کے درمیان، دو زندگیوں کے درمیان ، جیسے سویا ہوا احساس نفرت یکایک بیدار ہو گیا تھا۔ اور سانپ کے پھن کی طرح سر اٹھا کر لوگوں کے دلوں میں لہرا رہا تھا۔ ہر چہرہ زہریلا تھا اور کمینہ اور بھوکا۔ جسے وہ لوگ اپنی زندگی کی تمام تر صعوبتوں۔۔۔ ناکامیوں اور نامرادیوں کے ذمہ دار مخالف فریق کو ٹھہرانا چاہتے تھے۔ اور اپنی بھوک اور پستی اور کمزوری اور نامرادی کا انتقام، اس سے لینا چاہتے تھے۔

یکایک گاڑی رک گئی اور اندھا اتر کر دوسرے ڈبے میں چلا گیا۔ وہاں سے پھر وہی صدا آنے لگی۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا۔۔ کملی والے۔۔ مرلی والے گھنشیام۔۔۔ اور کیفی اعظمی نے اس طرح برا سا منہ بنایا، جیسے کسی نے زبردستی اس کے گلے میں زہر انڈیل دیا ہو۔
مدن گوپال نے سر ہلا کر کہا۔۔۔ ظالم نے کیا اچھا گلا پایا ہے؟
"ہائیں!" یکایک سب ترقی پسند ادیب جھلا کے اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اسے اسی وقت گاڑی سے نیچے اتار دیتے۔ لیکن پھر یہ سوچ کے چپ ہو رہے کہ اس آدمی نے منشی پریم چند پر ایک کتاب لکھی ہے۔
ہر طرف بیزار سے چہرے تھے ، عادل رشید کھٹے ڈکار لے رہے تھے ، ملک راج آنند منہ پر ہاتھ رکھے شریفانہ جمائیاں لے رہے تھے۔ رفعت سروش بے وجہ مسکرا رہے تھے۔ کرشن چندر پائینچوں میں دونوں ہاتھ ڈالے سیٹ پر اکڑوں بیٹھا تھا۔ قدوس اپنے حلق میں یوکلپٹس کی گولی رکھ رہے تھے۔ سبطے آنکھیں مل رہے تھے۔ اور سجاد اونگھ رہے تھے، اور علی سردار جعفری لوٹا لئے باتھ روم کی طرف اس طرح بڑھ رہے تھے ، گویا کسی انقلابی مہم پر روانہ ہو رہے ہوں۔
"مسلم چائے، مسلم چائے" کسی نے پکارا، یہاں بہت سے لوگوں نے ایک ساتھ کہا۔۔
"لاؤ" کتنی چائے؟
پندرہ، بیس پچیس ، چالیس، جتنی بھی ہو لے آؤ۔ عادل رشید نے حکم دیا۔
چائے والے نے کہا۔۔ اگلے اسٹیشن پر ملے گی، اور یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

اگلا اسٹیشن بیگم پور تھا۔ اور جب تک یہ لوگ چائے ختم کرتے، حیدرآباد کا اسٹیشن آ گیا۔ یہاں استقبالیہ کمیٹی کے دس پندرہ ارکان حاضر تھے اور صبح سویرے یوں چلے آنے پر برافروختہ سے دکھائی دیتے تھے۔ ان کے چہرے خوش آمدید کہنے کی کوشش میں مصروف تھے مگر بشرے سے عیاں ہوتا تھا۔ میاں اگر انسان ہو تو ابھی واپس لوٹ جاؤ۔ صبح سویرے ہمیں جگایا، یہ کوئی شرافت نہیں ہے۔ بھاڑ میں جائے تمہاری ترقی پسندی! یاں حیدرآباد میں ہم لوگ دس بجے سے پہلے نہیں اٹھتے، دکانوں کے دروازے گیارہ بجے کھلتے ہیں، اور بارہ بجے کے قریب کوئی اکا دکا خریدار سردی میں ٹھٹھرتا ہوا شیروانی کے بٹن کالر تک بند کئے اک معذرتی انداز میں گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور ایک آپ ڈھیٹ ہیں کہ نو بجے ہی اسٹیشن پر آدھمکے ہیں۔ لعنت !

چند لمحوں تک مہمانوں نے میز بانوں اور میزبانوں نے مہمانوں کو دیکھا۔ پھر ہونٹوں پر تبسم آتے گئے۔ یہ تبسم بھی خوب ہے، کاروباری، تجارتی، معذرتی، احمقانہ ہر طرح کا تبسم ہوتا ہے۔ مایوس تبسم، عیار تبسم، محبوب تبسم، منغض تبسم، جاہل تبسم، عالم تبسم، جیسے ہم سب کچھ جانتے ہیں اور آپ نرے چغد ہیں۔ کامراں تبسم جیسے میاں بتاؤ اب کیا کرو گے تمہاری لونڈیا تو ہم لے اڑے۔
اور تبسم جس میں حسرتوں کی خاک بھری ہوتی ہے۔ ابراہیم جلیس کے چہرے پر یہی تبسم تھا، کچھ عجیب قسم کا، ملتجیانہ، مٹیالہ مایوس تبسم ، گویا کہہ رہا ہے:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔
قد چھ فٹ سے کچھ نکلتا ہوا اس پر ایک فٹ کی اونچی رومی ٹوپی پہن کر ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ابھی ابھی کسی سرکس سے نکل بھاگے ہیں۔ یہ شہاب ہیں، پستہ قد، گندمی رنگ، گول چہرہ ، سیدھا سارا، لیکن آنکھیں بےحد ذہین، گویا کہہ رہی ہوں: ہم تمہیں پہچان گئے۔ ایک ہی لمحے میں۔ یہ نظر حیدرآبادی ہیں، چوڑا سیاہ چہرہ ، چوڑا ماتھا، چوڑا دہانہ ، بڑے بڑے الجھے ہوئے بال۔ ہر چیز میں وسعت کا احساس۔ دکن کا مثالی باشندہ جیسے دکن نے خود اپنی وسیع و عریض چٹانوں سے تراشا ہوا بے باک قہقہہ جھجھک تبسم جو خو د بخود لبوں پر آیا جاتا ہے۔ نظر شاعر ہو کر بھی زمین کے اس قدر قریب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ اسے دیکھ کر ہی ہو سکتا ہے۔
یہ مسلم ضیائی ۔۔۔ پستہ قد، سنولا رنگ، گنجا سر ، آنکھوں پر دبیز شیشے، ہونٹوں پر شرمیلی کنواریوں کی سی مسکراہٹ، مسکراہٹ جو کم ہو جاتی تھی اور آ جاتی تھی۔ پیچھے ہٹ جاتی تھی اور سامنے آ جاتی تھی۔ اس قدر حساس مسکراہٹ تھی کہ وہ کہ فیصلہ ہی نہ کر سکتی تھی۔ یہ باہر کے لوگ میرے دوست ہیں یا دشمن؟ اجنبی ہیں یا عزیز۔ مسکراہٹ جو کہہ رہی تھی میں اکیلی ہوں، میں تنہا ہوں، میں نے بہت کچھ کھویا ہے۔ سب کچھ کھو دیا ہے۔ پھر بھی میں معصوم ہوں ، اکیلی ہوں، مجھے نہ چھوڑو، میں تمہیں اپنا بنانا چاہتی ہوں۔ لیکن مجھے تم پر اعتبار نہیں اپنے آپ اعتبار نہیں، اس ذلیل ماحول پر اعتبار نہیں۔ جو آدمی کو آدمی نہیں رہنے دیتا۔ تم میرے رفیق ہو سکتے ہو ، ہاں ہاں۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ مجھے چھوؤ نہیں۔ میرے پاس اپنا چک نہیں۔۔۔ ایک نام تھا وہ بھی اپنا نہیں رہا۔ عیسائی میرا ایک دوست تھا، وہ مر گیا، اس کا نام میں نے اپنا لیا۔ اب وہ مجھ میں زندہ ہے۔ تم میری ہنسی اڑانا چاہتے ہو۔ ایلو میں چلی، نہیں تم مجھے نہیں جانتے۔ اس دوست نے مرتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ میں شراب نہ پیوں، اس دن سے میں نے کبھی شراب نہیں۔۔۔۔ تم پھر ہنسنے لگے۔ ایلو میں ہونٹوں سے غائب ہوتی جا رہی ہوں۔۔ تم مجھے نہیں سمجھو گے ، میں جو معصومیت کی میراث ہوں، میں جو محبت کے آںسو سے پیدا ہوتی ہوں اور ناکامی کی گود میں موتی بن کر چھپی رہتی ہوں۔
مسلم ضیائی اور مہندر ناتھ گلے ملنے لگے۔
"آپ سے ملئے۔۔" کسی نے کرشن چندر سے کہا۔ اور کرشن چندر نے مڑ کر دیکھا، معمولی قد و قامت کا بےڈول انسان ، چہرے پر اک لایعنی، بے مطلب تبسم، پراسرار تبسم، نہیں کہ جسے آدمی نہ سمجھ سکے۔ بلکہ ایسا تبسم جو اپنی تفسیر میں کسی طرح اسم مہمل نہ پڑھ سکے۔ بے حد روکھا پھیکا چہرہ، نہ لبوں پر چمک نہ آنکھوں میں ذہانت، نہ پیشانی پر نور ، چپ چاپ گم سم، مٹی کا مادھو، چہرے کا رنگ، پیلا نہیں مٹیالا۔ نہیں خاکستری، نہیں کچھ خاکستری کچھ سبز سا۔ بالکل مینڈک ایسا ، لاحول والا۔ کرشن چندر نے دل دہی دل میں کہا۔۔ اسے دیکھ کر متلی سی ہو رہی تھی۔۔ کس کا منہ دیکھنا پڑھا صبح سویرے۔۔
"آپ جگر حیدرآبادی ہیں، ابراہین جلیس کے بڑے بھائی ہیں"۔
"اوہ جگر حیدرآبادی ہیں، بڑی مسرت ہوئی ، آپ سے مل کر"۔ کرشن چندر نے مصافحہ کرتے ہوئے اپنے غلیظ کثف دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔ اور پھر مڑ کر سبطے کے کان میں:
جگر جہاں بھی دیکھو، جلا بھنا ہی ملتا ہے کمبخت!
سبطے نے ہنس کر کہا: ہاں حیدرآباد میں ہو یا مرادآباد میں یا اردو شاعری میں، اس کا ایک ہی رنگ ہے۔
سردار نے سبطے اور کرشن چندر دونوں کو ڈانٹا: آئینے میں اپنی صورتیں ملاحظہ فرمائیے ذرا۔ پھر دوسرے پر انگلی اٹھائیے گا۔
"کچھ بھی ہو مجھے تو اس شخص سے نفرت ہو گئی ہے"۔ کرشن چندر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
یہ آپ کی بد قسمتی ہے کیوں کہ قیام و طعام کے تمام انتظامات جگر صاحب کے ذمہ ہیں۔ سردار نے ہر لفظ پر زور دے کر کہا۔
"باپ رے"۔ کرشن چندر چونک کر اچھل پڑا۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:5.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں