پودے - کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 1 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-25

پودے - کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 1

paudey-krishan-chander-01

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

خطبہ صدارت
کل ہند ترقی پسند مصنفین کانفرنس حیدرآباد دکن (اکتوبر - 1945)

ترقی پسند ادیبوں کی یہ کانفرنس ایک نہایت نازک مرحلہ پر آئی ہے۔ جنگ ختم ہو چکی ہے اور مابعد جنگ کے تمام دقیق مسائل الجھے پڑے ہیں۔ میں اس موقع پر اس بنیادی سوال سے بحث نہیں کروں گا کہ ایک ادیب کو ان مسائل کو سلجھانے سے کیا حاصل یا اسے اس قسم کے جھگڑوں سے کیا سروکار؟ چونکہ یہ کانفرنس اپنے ساتھیوں کے لیے ہے، اس لیے میں اپنے لیے اور آپ کے لیے بھی ترقی پسند ادب کی تمام مبادیات کو قبول کیے لیتا ہوں۔
یہ کہ ادب کا زندگی سے گہرا تعلق ہے اور جب زندگی اور اس کے شواہد و عوامل بدلتے ہیں تو ادب بھی بدل جاتا ہے۔ یہ کہ ادب اور سیاست الگ نہیں ہو سکتے۔ یہ کہ ہر ادب مقصدی اور افادی ہوتا ہے، وہ کس مقصد کے لیے لکھا جاتا ہے اور اس کا فائدہ کن جماعتوں کو پہنچتا ہے۔ یہ ادب کی ذہنی افتاد طبع اور اس کے جماعتی رجحان پر منحصر ہے۔ یہ کہ جس طرح اقتصادی، سماجی اور معاشی ادارے نظامِ زندگی میں بنیادی اختلافات پیدا کرتے ہیں، اسی طرح وہ ادب پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور مختلف ادبی جماعتوں کو وجود میں لاتے ہیں۔
وہ جماعتیں جو ادب میں ایسی زبان استعمال کرتی ہیں جو عوام سے کوسوں دور ہے، وہ جماعتیں جاگیردارانہ نظامِ زندگی کے بچے کھچے عناصر کے کیف و نشط کے لیے آراستہ ہیں ، وہ جماعتیں جو ہر منزل پر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے ساتھ رہتی ہیں اور پھر وہ جماعتیں جن کی نگاہ ماضی اور حال اور مستقبل کو ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی یہ نگاہ تاریخ کا مطالعہ کرتی ہوئی انسانوں میں ایک نئی تمدنی تہذیبی سیاسی اور معاشی اشتراک کی داغ بیل ڈال رہی ہے۔۔۔
ہمارے ادب میں یہ تمام جماعتیں مصروف کار نظر آتی ہیں۔ اور ادیبوں کے مختلف گروہ شعور ی یا غیر شعوری طور پر ان جماعتوں میں سے کسی ایک نہ ایک جماعت سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ موخر الذکر جماعت ترقی پسند ادیبوں کی ہیا ور ہم لوگ اس لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں کہ اپنے گردو پیش کے حالات پر نظر ڈالیں اور اس کی روشنی میں اپنے لئے ایک صحیح لائحہ عمل مرتب کریں۔

پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے نتائج میں جو نمایاں فرق مجھے معلوم ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس جنگ خاتمہ پر ہم اپنے جمہوری مقاصد کے زیادہ قریب آگئے ہیں۔ پورے ایشیا میں آزادی کی روح غزلخواں نظر آتی ہے۔
ایشیائی روس کے ادیبوں کے افکار میں اس بادۂ آہنگ کی گونج سنائی دیتی ہے جب قوم آزاد ہوجاتی ہے جب اس کے تہذیبی افق پر سے غلامی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ جب اس کا مذہب غیروں کی ریشہ دوانیوں سے رہائی حاصل کرلیتا ہے اور جب اس کا سماج باہمی اشتراک کے اصولوں پر کار بند ہوکر ایک غیور خودی سے سرشار ایک بلند وبالا مستقبل کی طرف بے کھٹکے بڑھتا ہے۔ سوویت ایشیا کے ادیبوں کے نظمے، پہاڑی چڑیوں کے چہچہے میں وہ اپنے مستقبل کو ایسی طمانیت سے دیکھتے ہیں، جو ابھی ہماری نگاہوں کو میسر نہیں ، ہمیں ابھی اپنے سوئے ہوئے مرغزاروں کو جگانا ہے۔ اس کی خوابناک وادیوں کو گونجاتا ہے اپنے خزاں رسیدہ چمن میں اس بہار کو تازہ کرنا ہے۔ جس کی کلیاں ہمارے دلوں میں پھوٹ رہی ہیں اور جس کا سنگیت ہماری روحوں میں نغمہ سنج ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کیا۔ پورے ایشیا میں آزادی کی لہر جاری وساری ہے ایشیا ہی میں نہیں افریقہ میں بھی عربستان اور ایشیا ئے کوچک کا علازہ خط بحر روم کے عرب علاقہ، اور شام و لبنان میں یہ تحریک زور پکڑ چکی ہے وہاں کے نئے ادیبوں کے افکار میں اور صحافیوں کی تحریر وں میں یہی رنگ غالب ہے یہی آواز ہر جگہ سے بلند ہورہی ہے، نعرہ آزادی، حق خود ارادیت اور مغربی استعمار یت سے نجات اور دیوار اور رنگ و نسل و خون کے خلاف ایک شدید احتجاج جو مغربی افریقہ کے نیگروادیب ہیں ان کی تحریروں میں بھی آپ کو آزادی کے متعلق اسی تجسس اور بیقراری کا پتہ چلتاہے۔ زنجیروں کو توڑ دینے کی آرزو ہے، خود نئے ایرانی ادیبوں کصوصاً آزر بائیجان کے علاقے کے ادیبوں میں جو اشتراکی فلفسہ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ساقی و ینا و جام کا بہت کم نظر آتا ہے اس لئے کہ جب ساقی قحط سالی سے مرجائے اور شراب مین زہر ملادیا جائے اور جام ان کے ہاتھ سے چھن جائے تو نغمے کی نوعیت بدل جاتی ہے جی چاہتاہے بہار پھر آجائے شہد آگیں ہونٹ پھر مسکرانے لگیں اور آنکھوں میں ہنسی کے کنول کھلنے لگیں لیکن جب ادیب دیکھتا ہے کہ یہ بہار سامنتی ادب میں ممکن نہیں تو وہ اشتراکی ادب کی تخلیق پر مجبور ہوجاتا ہے اس نظام زندگی کی تخلیق پر جہاں ٹراکٹروں کی کاوش سے زمین سونا اگلتی ہے اور فارم اور کارخانے مزدوروں اور کسانوں کی باہمیا شتراک سے چلتے ہیں اور ملک کا ہر فرد اپنے مستقبل اپنے ہاتھوں میں محفوظ سمجھتا ہے۔

پچھلی جنگ میں ایسا نہیں ہوا تھا ، کم از کم اس حد تک جنتا کی لڑائی آگے نہیں بڑھی تھی۔ اس وقت مخالف استعماری قوتوں کی ٹکر تھی۔ ایسی قوتیں جن میں سے چند ایک مخالف جماعتوں کے مقابلے پر زیادہ ترقی پسند جمہوری اداروں کی حامل تھیں۔ پھر بھی گزشتہ جنگ نے انقلاب روس کو جنم دیا۔ اور اشتراکی فلسفے کو فلسفے کی حدود سے نکال کر عمل کا جامہ پہنایا اور ادھر استعماری علاقوں میں انقلابی قوتوں کو مضبوط کیا اور نو آبادیات کے باشندوں میں آزادی اور اس سے متعلق خیالات کی ترویج کی۔ لیکن اس جنگ میں جنتا کی لڑائی اور آگے بڑھی ہے۔ اب کے مقابلہ صرف استعماری توپوں میں نہ تھا۔ اب کے مقابلہ اشتراکیت اور فاشیت میں تھا۔ برطانیہ اور امریکہ کی ٹیم استعمار ی نیم جمہوری حکومتوں نے بھی حق ارادیت اور چاز آزادیوں یعنی فورفریڈس کے نام پر یہ لڑائی لڑی ہے۔ اور اپنے ملکی عوام کے سامنے باربار انہیں خیالات کی اشاعت کی تاریخ نے انہیں مجبور کردیا۔ کہ وہ فاشیت کے مقابلہ میں اشتراکیت کا ساتھ دیں اور اس طرح سے خود ہی استعماریت اپنے ہاتھوں استعماریت کے ہاتھ کمزور کرے۔ چنانچہ اسجنگ میں جہاں فاشیت کو مکمل شکست ہوئی ہے وہاں استعماریت کو مستحکم دیواریں بھی ہل گئی ہیں۔ ہندوستان سے لے کر مانچھ یاتک اور آزادی کے جذبے کی پشت پناہی کے لئے دنیا بھر کی ترقی پرور جماعتوں کی آواز بلند ہورہی ہے۔ اس میں دیوار رنگ و نسل کی تفریق بھی نہیں ہے۔ اگر انڈو چائنا میں حریت کا نعرہ بلند ہوتا ہیت و فرانس کی تحریک مقاومت اور وہاں کے ادیب اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اگر جاوا میں ایشیائی آزادی چاہتے ہیں تو آسٹریلیا کے ہزاروں گورے مزدور ان اسلحہ جا ت کو جہازوں میں بھرنے کے لئے انکار کردیتے ہیں۔ جو نا ترقی پسند جماعتوں کی طرف سے اس تحریک کو کچلنے کے لئے جاوا میں بھیجے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایشیا میں اور امریکہ میں جنتا کی لڑائی کواور بھی تقویت پہنچانی چاہئے۔ اور اس RESISTANCE MOVEMENT کا جو مراکش سے لے کر ہند چینی تک ایک آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ خیر مقدم کرنا چاہئے، اسے اپنی تحریروں میں ایک نمایاں جگہ دینا چاہئے۔ تاکہ نو آبادیات کا غریب انسان دبا کچلا ہوا انسان ایک ہمت رجعت پسندی کا مجنونانہ رقص پہلے سے بھی زیادہ ہلاکت خیزی لئے ہوئے ہے۔ پہلے اگر انگریزی سامراج محبان وطن کو پھانسی کے تختوں پر لٹکاکر نہتوں پر گولیاں چلاکر اور بے گناہوں کو گرفتار کرکے، آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کرتا تھا تو آج ہندوستانی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں اور نفع خوروں کے دو متضاد گروہوں کی آڑ لے کر اور اپنے مکروہ چہرے پر نقاب ڈال کر وہ ملک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتا ہے تاکہ انقلابی عوام متحد ہوکر اس سے لڑنے کی بجائے آپس میں دست و گریباں ہوجائیں اور اس طرح سامراجی طاقت اور ہندوستانی رجعت پسند مفاد فنا ہونے سے بچ جائیں۔

سیاسی محاذ پر اگر خانہ جنگی کے حربے سے انگریز بھی شکست دینا چاہتے ہیں تو تہذیبی اور ادبی محاذ بھی ان کے اور ان کے ساتھ مل جانے والے ہندو اور مسلمان فرقہ پرست امیروں کے خطرناک حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ ترقی پسندو کی تحریک کے لئے سب سے زیادہ تشویشناک امریہ ہے کہ پڑھے لکھے درمیانی طبقے میں فرقہ پرستی کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے اور بہت سے وہ لوگ بھی جو اپنے آپ کو آزادی خواہ سمجھتے ہیں ، انگریزوں سے پہلے اپنے ہم وطنوں سے لڑنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ سیاسی حقیقت بینی کے فقدان کے ساتھ ساتھ معمولی انسانیت اور معمولی شرافت تک کو بھلا دینا ان لوگوں میں عام ہوتا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس فضا میں جہاں انسانیت کی بنیادی قدروں اور ابتدائی مفروضات کو پیروں سے کچلاجائے۔ ترقی پسند ادیبوں کا کام بہت دشوار ہوجائے گا۔ اور انہیں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن سستی مقبولیت کے لئے ہم نے کبھی اپنے اصولوں کو ترک نہیں کیا۔
آج تو اس کی اور ضرورت ہے کہ مسلمان اور ہندو فرقہ پرستی کے اس طوفان میں ہم انسانیت کے اس ہمہ گیر نصب العین کو جو مذہب اور فرقوں کی تفریق کو بے کار اور نقصان دہ سمجھ کر عالمگیر انسانیت کی برادری اور مساوات پر قوم کی آزادی اور اشتراکیت کے اصول کو اپناتا ہے، جو ملک کی خانہ جنگی کو انگریز سامراجیوں اور ہندوستانی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی ایک نحس سازش تصور کرتا ہے اور جو ہر مذہب و ملت اور فرقے کے محنت کش عوام اور درمیانی طبقے کے باہمی انقلابی اتحاد کو ہندوستان کی انقلابی جدو جہد کی کامیابی اور مستقبل کی معاشرت کی کنجی سمجھتا ہے، اپنی ادبی تخلیقوں میں زیادہ سے زیادہ اور مختلف پہلوؤں سے پیش کریں۔
میری رائے میں اس وقت ہندوستانی ادبیوں سے ترقی پسندی کا یہی سب سے اہم تقاضہ ہے جو شخص بھی پودے پڑھے گا وہ ہم سے اس کی توقع کرے گا۔ اور مجھے تو اس کا یقین ہے کہ جیسے اور بہت سے مراحل ترقی پسند کام نے طئے کئے اسی طرح اور موقع پر بھی ان کی قلم اور ان کی زبانیں حرکت میں آئیں گی۔ جو ترقی پسند کام کے ارتقاء کی ضمانت ہے۔

- (سید) سجاد ظہیر

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:1.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں