اجلاس - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 7 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-23

اجلاس - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 7

paudey-krishan-chander-07

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

اجلاس
کانفرنس کا پہلا اجلاس۔
افتتاح کے موقعہ پر سروجنی نائیڈو صاحبہ کی شعلہ بیانی۔ کیا عورت ہے۔ معمر ہونے پر بھی آنکھوں کی جواں سالی نہیں کھوئی ، تبسم کی حیرانی نہیں کھوئی۔ روح کی جستجو اور پیہم کاوش نہیں کھوئی۔ بدلتا ہوا زمانہ ہر بار اک نیا مرحلہ سامنے لے آتا ہے۔ اور یہ شاعرہ اس مرحلے کا یوں استقبال کرتی ہے، گویا وہ مدت سے اس کی منتظر تھی۔ اٹھتی ہوئی لہریں بار بار ساحل سے ٹکراتی ہیں، اور ان رواں دواں بلند و بالا موجوں کے تخت پر آپ اس عورت کو دیکھیں گے۔ جس نے ہندوستانی سیاست اور ادب کے سارے رنگ دیکھے ہیں۔ فن سے زندگی تک اور ہوم رول سے اشتراکیت تک ، وہ کبھی پیچھے نہیں رہی۔ اس کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔ وہ زمانے سے ہمیشہ دو قدم آگے رہی ہے ممکن ہے اپنے باغیانہ خیالات کی بنا پر اب کے اسے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی میں بھی جگہ نہ ملے۔ سردار نے سبطے سے کہا۔ ش سبطے نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے کہا۔ سنو کرشن ، اپنا مقالہ پڑھنے جارہا ہے۔ ہال میں خاموشی تھی۔پانچ ہزار آدمی چپ چاپ بیٹھے ہوئے ایک ادبی مقالہ سن رہے تھے۔ اس سے پہلے ایسا نہ ہوا تھا۔ یہاں مشاعرہ نہ تھا۔ خطیبانہ انداز تکلم نہ تھا۔ کوئی گہری فلسفہ طرازی نہ تھی، لیکن لوگ خاموشی سے سن رہے تھے۔ پانچ ہزار آدمی، کالج کے طالب علم، سکول کی لڑکیاں سرکاری ملازم، دکاندار ، ریلوے کے مزدور ، بے کار، ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ اور خاموشی سے سن رہے تھے۔ اور جب مقالہ نگار نے مراکو سے لے کرجاوا تک کے آزادی پسندوں کی تحریک کا ذکر کیا تو ہال نعروں سے گونج اٹھا۔ اور جب ادب میں اشتراکیت کا ذکر آیا انسانیت کا ذکر آیا ، ایک بہترین نظام زندگی کا ذکر آیا، عشق کی انقلابی ماہیت کا ذکر آیا۔ اور ان طبقوں کا ذکر آیا۔ جن پر ہمارے ادب کے دروازے ابھی تک بند ہیں۔ تو سامعین کے دلوں کے تار جھنجھنااٹھے ، جیسے مقالہ نگار کی زبان اور ان کے دل دہل گئے تھے۔ جیسے اس مقالے میں وہ لوگ خود بول رہے تھے۔ پہلے روز بھی یہ ہوا دوسرے روز بھی اسی طرح ہوا۔ تیسرے اور چوتھے روز بھی یہی ہوا۔ یہ مکمل انہماک۔ یہ سچائی کو پالینے کی پاکیزہ جستجو ، ہرچہرہ سے عیاں نظر آئی۔ گزشتہ دس سال سے لوگ، تہذیبی اور ادبی کاوشوں کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔ انہیں اپنی قومی زندگی کا عنصر سمجھنے لگے ہیں۔ اور گوتعمیری تنقید نے اتنی ترقی نہ کی تھی۔ پھر بھی با شعور پ ڑھے لکھے طبقے میں ان ہی باتوں کا چرچا تھا۔ نئی تحریروں پر بحثیں ہوتی تھیں۔ بہ تعمق نگاہ ہر مضمون کے حسن و قبح پر اس کے افادی یا غیر افادی پہلوؤں پر ، اس کے ترقی پسند یا نا ترقی پسند رجحانات پربڑی تفصیل سے گفتگو ہوتی تھی۔ مختلف نظرئیے تھے، مختلف اذہان تھے، مختلف زاویہ ہائے نگاہ ، لیکن ایک چیز ان سب میں وجہ اشتراک تھی۔ ادب اور کلچر اور تمدن سے دلچسپی، حقیقی دلچسپی ، اور قومی اور ملکی ادب کو اس راہ پر گامزن کرنے کی آرزو جہاں وہ اس کی بڑھتی اٹھتی،مچلتی ہوئی زندگی کا ترجمان بن جائے۔ ہندوستان کے نوجوان کا دل جاگ اٹھاتھا۔ اور ادب کی ہر تفسیر میں ، اپنی تمناؤں کے فانوس خیال روشن کررہی تھی۔ یہ گیت جس کے ہر مصرعے میں اک نئی لے کی چمک تھی۔ اور جس کی ہر لے میں کروڑوں انسانوں کی آرزوؤں کی گونج تھی۔ اس نئے نغمے نے ہر ادیب کے دل کو بہجت اور مسرت سے لبریز کردیا۔ اور ان ہزاروں دلوں کی دھڑکنوں میں کھوئی گیئں جو اس وقت ہال میں موجود تھے روشن چہرے ، ذہین آنکھیں ، تالیوں کا شور اور نئی زندگی، نیا ادب ، نئے انقلابات کے نعرے یکایک کئی ادیبوں نے حیران ہوایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ گویا سب کے دل معاً ہی شدت سے محسوس کرنے لگے کہ ادب صرف تخیل کی چار دیواری میں محبوس رہ کر کس قدر مجبور ہوجاتا ہ ے اور اس بڑھتی ہوئی زندگی۔ کشمکش حیات کی آویزشوں سے ٹکراتی ہوئی زندگی کے بحرانی لمحوں میں گھل مل کے ادب اور ادیب کیسے اب نئی وسعت، اک نئے رخ، اک نئے کیف و کم سے سرشار ہوجاتا ہے۔
پہلے اجلاس کے ختم ہونے کے بعدبہت رات گئے اجلاس کی کامیابی پر گفتگو ہوتی رہی۔ کالجوں کے لڑکے بڑے انہماک سے ادیبوں کی گفتگو سنتے رہے۔ اور آٹو گراف لیتے رہے۔ یہ آٹو گراف کی بدعت بھی خوب ہے۔ ادیب جلدی میں یوں دستخط کرتے تھے ، گویا کہہ رہے ہوں ارے بھئی۔ ان لوگوں نے تو پریشان کردیا۔ اب کوئی کہاں تک دستخط کرے ، کبھی کبھی کسی لڑکی کی آٹو گراف بک آجاتی تو قلم لے کے بیٹھ جاتے۔ اور سوچتے کہ کس طرح ایک فقرے میں لیلیٰ و مجنوں کی پوری داستان بیان کردیں بعض لوگ بہت ہی کلبی بننے کی کوشش کرتے۔ ایں۔ اس میں ہے کیا آخر۔ آخر تو عورت ہی تو ہے۔ شوپن ہار والی عورت ، جا، معاف کردیا۔ تجھے مدن گوپال سے کسی نے آٹو گراف نہیں مانگا، تو آپ بتیسی نکالے ہر ایک سے پوچھ رہے ہیں۔ بھئی، اس خوبصورت لڑکی کی بے حد بد صورت آٹو گراف بک پر تم نے کیا لکھا ہی ہی ہی۔ اب کوئی پوچھے اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی۔ آٹو گراف بک جو مسلم ضیائی کے پاس تھی ، کئی اعتبار سے بہت دلچسپ تھی، سجاد ظہیر نے لکھا تھا۔اشتراکیت زندہ باد۔ کرشن چندر نے لکھا تھا۔ انسانیت زندہ باد۔ جوش نے لکھا تھا ، ابھی تم دونوں بچے ہو۔ آگے ساغر نے لکھا تھا ، تو بڑا چار سو بیس ہے۔ یہاں آکے تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔اور جو ش اور ساغر کے مناقشات پر گفتگو ہونے لگی۔ جوش کی رباعیوں کا ذکر آیا۔ فراق نے بھی رباعیاں کہنا شروع کی تھیں، موازنہ ہوا۔ اسی جھگڑے میں رات کے دوبج گئے۔ صبح ہی سردار کو نظام کالج میں ایک تقریر کرنا تھی۔ اس نے سوچا، لاؤ ابھی شیو کر ڈالو۔ کرشن تمہارا شیو کا سامان کہاں ہے کرشن کا سامان غائب تھا، اس نے بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملا۔ اس نے گھور کر جگر صاحب کی طرف دیکھا۔ جگر نے کوئی توجہ نہ کی کرشن چندر کے دل میں نفرت اور بڑھ گئی۔ خوب، اب یہ پوچھتے تک بھی نہیں کہ بھئی آپ کا شیو کا سامان کہاں ہے کیسے گم ہوا۔ یہیں کہیں ہوگا۔ میں ڈھونڈوادیتا ہوں، جگر نے جمائی لے کے کہا۔ میںتو چلتا ہوں ، صبح فراق اور احتشام اور ڈاکٹر عبدالعلیم تشریف لائیں گے۔ اور ہمیں تو نظام کالج جانا ہے۔ کرشن چندر نے کہا ،گاڑی کا انتظام کردیجئے،میں دیکھتا ہوں ، جگر نے سرسری طور پر کہا۔ اور کرشن چندر کاجی جل کے کباب ہوگیا۔اور وہ اسی لمحے اپنے کمرے میں جاکے بستر پر درواز ہوگیا۔ اور اس نے سوچا میں کل صبح نظام کالج نہیں جاؤں گا۔ چاہے مجھے کوئی کچھ ہی کہے۔ میری بلا سے۔ وہ صبح اٹھا تو شیو کا سامان غائب ہی تھا۔ دوبارہ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملا۔ سردار بے چارہ ایک کمرہ سے دوسرے کمرے گھوم رہا تھا، لیکن کسی کا شیو کا سامان خالی نہ تھا۔ آنند داڑھی مونڈ رہے تھے ، سبطے نیند میں کراہ رہا تھا۔ سجاد ظہیر اپنے شیو کا سامان کسی کو مستعار نہ دیتے تھے۔ قدوس صہبائی نے جب دونوں کو نظام کالج کا عزم کرتے دیکھا تو بولے۔ آپ شیو بنالیتے تو اچھا تھا۔ سنا ہے نظام کالج میں لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں۔سردار کا چہرہ ایک تنا ہوا گھونسہ تھا اور کرشن چندر کا چہرہ ایک بھوکی بھیڑ کا تھا۔ اتنے میں جگر گاڑی لے آئے۔ چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری، نہ غم، نہ حسرت، نہ حیرانی ، نہ دلچسپی، نہ وہ ادیبوں سے مرعوب تھے۔ نہ ان سے بیزار نظر آتے تھے۔ جیسے کوئی خاص دلچسپی انہیں ان لوگوں سے نہ تھی۔ اور پھر کوئی اجنبیت بھی نہ تھی۔ کچھ عجب قسم کی لا تعلقی چہرے پر عیاں تھی۔ جسے دیکھ کر کرشن چندر اور بھی جھنجھلا گیا اور اپنے چہرے کے بڑھے ہوئے بالوں پریوں ہاتھ پھیرنے لگا گویا جگر ہی نے اس کے شیو کا سامان گم کیا تھا۔
جب سردار اور کرشن چندر نظام کالج سے لوٹے تو فراق اور احتشام اور ڈاکٹر عبدالعلیم لکھنو سے تشریف لے آئے تھے۔ یہ سب لوگ کھانے پر بیٹھے عریانی پر بحث کررہے تھے۔ سردار نے آتے ہی قلم ہاتھ میں لے کر ایک تجویز اس امر کے متعلق لکھنا شروع کی۔ اور بحث طویل ہوتی گئی۔ فراق حسن کار ہیں، اس لئے انہیں عریانی سے اتنی نفرت نہیں۔ احتشام کی طبیعت میں نوجوانی کے باوجود اتنا ٹھہراؤ کہ وہ عریانی کو دیکھ کر بدکتے نہیں۔ برافروختہ نہیں ہوجاتے۔ صلواتیں سنانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر عبدالعلیم کا انداز یہ تھا۔ میاں ابھی تم سچے ہو۔ کیا طفلانہ باتیں کررہے ہو۔ ان کے ہشاش بشاش چہرے پر مسکراہٹ کی لہر دوڑ دوڑ کے کم ہوجاتی تھی۔ وہ اپنی داڑھی اور وضع قطع سے فرانسیسی معلوم ہوتے ہیں۔ اور اپنے درشت انداز تکلم سے ہیڈ ماسٹر ، اور آگ بگولہ ہوتے وقت سو فیصدی کمیونسٹ نظر آتے ہیں۔ اکثر لوگ غلط بات موقع پر کہتے ہیں۔ یا غلط بات صحیح موقع پر کہتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر عبدالعلیم کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح بات کہتے ہیں اور ہمیشہ غلط موقع پر کہتے ہیں۔ چدر گھاٹ کالج میں انہوں نے تقریر رکتے ہوئے طلباء کے مجمع میں کالج کے استادوں کو وہ ڈانٹ بتائی کہ بے چارے اب تک یاد کرتے ہوں گے۔ اسی طرح P.E.N کانفرنس کے موقع پر جب ڈاکٹر ملک راج آنند نے تجویز پیش کی کہ ہندوستان میں بھی فرانسیسی انسائیکلو پیڈیسٹ کی طرح ایک تحریک جاری کی جائے۔ تو بہت سے لوگوں نے اس انقلابی تجویز کی حمایت کی۔ ان میں ریاست بیکانیر کے وزیر سردار پائیکار بھی شامل تھے۔ لیکن صرف ایک آدمی کی پر زور مخالفت سے یہ تحریک رہ گئی۔ یہ مخالفت کرنے والا جانتے ہو کون تھا۔ یہی اپنے ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب۔ آپ نے اٹھ کر کہا، تجویز تو بہت معقول ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ فرانس میں اس تحریک کے چلانے والوں میں بڑے بڑے لوگ تھے۔ روسو اور والیٹر۔ یہاں ایسا کون ادیب ہے، کون ایسا مفکر ہے۔ آپ نے پورے مجمع پر نظر ڈال کر کہا۔ مجھے تو آپ لوگوں میں سے ایک آدمی بھی اس پائے کا نظر نہیں آتا۔ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ پھر مجمع میں سے کسی من چلے نے کہا۔۔۔ اور کیا ڈائس پر بھی کوئی ایسا آدمی آپ کو نظر نہیں آتا۔
ڈائس پر سروجنی نائیڈو تشریف فرما تھیں، جواہر لال نہرو تھے۔۔ فلسفہ دان رادھا کرشنن ، ہرمین اولڈ اور۔۔۔ فارسٹر۔ اور ملک راج آنند احمد شاہ بخاری پطرس۔ اور دوسرے لوگ۔ ڈاکٹر صاحب نے دائس پر نگالی ڈالی۔ سب کی طرف دیکھا ، اور پھر مجمع کی طرف مڑ کر کہنے لگے۔ میں، ان میں بھی کوئی نہیں۔۔۔!
تحریک گر گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب سچائی کو اس شدت احساس کے ساتھ پیش کرتے ہیں ، اور اس پر اس سختی سے کار بند ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات ہمدرد بھی مخالف ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کی انہیں کوئی پروا نہیں وہ ادیبوں کے مہاتما گاندھی ہیں۔ لیکن ذرا عدم تشدد کے قائل نہیں۔ اور اگر کبھی ہندوستان میں ایسا قانون نافذہوا کہ ادیبوں کو ان کی فکری۔ ذہنی یا خارجی غلطیوں کی سزا ملنے لگی تو اس احتساب کا محکمہ ڈاکٹر صاحب کے ہی سپرد ہوگا۔ ان کی صاف گوئی سے بہت سے لوگ ان سے گھبراتے ہیں۔ لیکن اس میں ان کی عظمت ہے۔ اور اگر اس صنف میں کوئی ان سے ٹکر لے سکتا ہے۔ تو وہ حسرت موہانی ہیں جو خوش قسمتی سے اس کانفرنس میں تشریف رکھتے تھے۔ اور بلا ناغہ اس کے ہر جلسے میں شرکعت کرتے رہے۔ چنانچہ جب ترقی پسند ادیبوں کی طرف سے عریانی کے خلاف قرار داد پیش کی گئی تو اس کی مخالفت کرنے والے مولانا حسرت موہانی تھے۔ اور قاضی عبدالغفار، مزے کی بات یہ تھی کہ نوجوان عریانی کے خلاف تحریک پیش کررہے تھے اور بزرگ اس تحریک کی مخالفت کررہے تھے۔ کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اس طرح نوجوان اذہان کی قوتیں مسلوب ہوجائیں گی اور ان کی تخیلی نمو رک جائے گی۔ مولانا حسرت موہانی کی پرزور تقریر سے قرار داد مسترد کردی گئی۔ سبطے بے حد ناخوش تھا۔ کہنے لگا۔ اماں، مولانا کا ہمیشہ یہی رول رہا ہے۔ وہ جہاں گئے لوگوں کو مصیبت میں ڈالتے گئے۔ جب کانگریس میں تھے تو ہوم رول کے دنوں میں آزادی کا ذکر کر کے کانگریس ہائی کمانڈ کو خائف کیا کرتے تھے۔ اور جب کانگریس نے لاہور کانفرنس کے موقع پر مکمل آزادی کی قرار داد منظور کرلی۔ تو آپ نے اشتراکیت کی یخ لگادی۔اور کانگریس سے ایسے ناخوش ہوئے کہ مسلم لیگ میں چلے گئے۔ وہاں پہنچے ہیں تو اب بے چارے شریف خان بہادروں کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔ اور مکمل آزادی کا ریزلیوشن پاس کئے دے رہے ہیں۔ ہر جگہ مصیبت میں ڈالتے ہیں۔ یہ لوگوں کو۔ بھئی اب اچھا بھلا یہ ریزولیوشن پاس ہورہا تھا۔ خیر۔۔ ہٹاؤ اب اس قصے کو۔۔۔ یہ کہہ کر وہ رک گیا اور اس کے چہرے پر ہزاروں درد کی لکیریں یکایک معدوم ہوگئیں۔ اور پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ مگر بھئی۔ یہ خوب ہیں مولانا چٹان ہیں۔ بس کسی کی نہیں سنیں گے۔ اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہٹیں گے۔

دوپہر کو پریم چند سوسائٹی کا افتتاح تھا۔ حسین ساگر میں جو کلب ہے وہاں دعوت بھی تھی۔ ادیبوں کو کشتیوں میں سوار کر کے کلب میں پہنچایا گیا۔ درحالیکہ رایک راستہ خشکی سے بھی جاتا تھا۔ غالباً موٹر بوٹ کی نمائش مقصود تھی۔ کلب کی عمارت جھیل میں تعمیر کی گئی ہے کوئی پچاس کے قریب ملازم ہوں گے۔ آٹھ کورس کا کھانا۔ اس دعوت پر اتنا صرف کیا گیا تھا کہ غالباً پریم چند کو اپنی زندگی میں اتنی رائیٹی نہ ملی ہوگی۔ یورپ میں جب ادیب زندہ ہوتا ہے تو اس کی قدر ہوتی ہے۔ ہندوستان میں مرنے کے بعد اسے پوچھاجاتا ہے۔ چنانچہ آج پریم چند سوسائٹی کا افتتاح تھا۔ قاضی عبدالغفار خان تقریر کررہے تھے۔ اور مرغن کھانے دعو ت میں شامل تھے۔ اورجھیل کے منظر سے ادیب لطف اندوز ہورہے تھے۔ قاضی عبدالغفار کی شخصیت پر متانت کا ایک دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ لیکن اتنا دبیز بھی نہیں کہ ان کی جبلی خوش طبعی اس متانت کے اندر جھلک نہ اٹھے۔ متانت ہے لیکن بوجھل نہیں ہے۔ خوش طبقی ہے لیکن کھل کر نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ، کسی چیز نے، کسی خاص واقعے نے۔ یا کسی خاص ماحول نے۔ ان کے ذہن کے۔ ان کے فکر کے ، ان کی فطری صلاحیت کے دو ٹکڑے کردئیے ہیں۔ وہ اس پر بھی مجبور ہیں۔ اس پر بھی دونوں رنگ ایک ہی شخصیت میں جھلکتے نظر آتے ہیں۔ پیرس کی رنگینی بھی ہے، عالمانہ زہد بھی ہے۔ شگفتہ انشا پر دازی بھی ہے۔ اور فکری ٹھہراؤ بھی، لباس میں امارت کی جھلک ہے۔ اور گفتگو میں حلم کی چاشنی۔ تیوار جاگیردارانہ ہیں۔ اور ذہن باغیانہ، قاضی صاحب اک ایسے نوجوان جسے عرصے سے کسی نے گدگدایا نہ ہو لیکن خود اس کے دل میں شوخیاں چٹکیاں لے رہی ہوں۔ کاش کوئی مصنف لیلیٰ کے خطوط کو گدگداد ے۔ اس طرح کہ وہ بھری محفل میں یاروں کی محفل میں نہیں ، ہزاروں لاکھوں معمولی آدمیوں کی محفل میں کھلکھلاکر ہنس پڑے یہ گدگدی ایک بہت بڑے شاہکار کا پیش خیمہ ہوگی۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:7.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں