واپسی - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 11 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-13

واپسی - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 11

paudey-krishan-chander-11

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

منزل
یکایک کرشن چندر کی آنکھ کھلی۔ گاڑی ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر کھڑی تھی۔ جگر صاحب بستر لپیٹ رہے تھے۔ اور اسٹیشن پر جانے والے تھے۔ بستر لپیٹ کر انہوں نے سوئے ہوئے ادیبوں کی طرف دیکھا اور یکایک کرشن چندر پر ان کی نظر پڑ گئی اور جگر نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ کرشن چندر نے دیکھا کہ جگر رو رہے ہیں۔
جگر!
کرشن چندر اسے خدا حافظ نہ کہہ سکا۔ گاڑی چلنے لگی۔
ساحر لدھیانوی کرشن چندر کے قریب سیٹ پر لیٹے تھے۔ کرشن چندر نے آہستہ سے کہا، ساحر۔۔۔ ساحر۔
ساحر نے اسی طرح لیٹے لیٹے کہا: "میں خوب جانتا ہوں اس شخص کو ، یہ ابراہیم جلیس کابھائی ہے"۔
کرشن چندرنے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا: "تم جانتے ہو اس کی چھوٹی بہن مر گئی ہے"۔
"ہاں میں سن رہا تھا"۔ ساحر نے نپے تلے لہجے میں، جو ہر قسم کے جذبات سے عاری معلوم ہوتا تھا، کہا:
"میں جانتا ہوں ، اس کی بہن مر گئی ہے۔ اس کی ایک ہی بہن تھی۔ سارے گھر میں اسے وہی سب سے پیاری تھی۔ لیکن اتنی محبت کے باوجود وہ اس کا علاج اب تک حیدرآباد میں نہ کرا سکا۔ کیونکہ اب تک وہ دو سو روپے اکٹھے نہ کرسکا تھا"۔
"مگر۔۔۔" کرشن چندر نے کہنا چاہا، لیکن ساحر نے اسے بولنے نہیں دیا۔
"۔۔۔ اور جب اس نے دو سو روپے اکٹھے کرلئے تو یہ کانفرنس آ گئی، اور اس نے یہ روپے کانفرنس کے لئے دے دئیے۔ اور اس نے گاؤں گاؤں گھوم کر مخدوم کے ساتھ ہر جگہ جاکر چندہ اکٹھا کیا۔ کسانوں سے، مزدوروں سے، طلباء سے، غریبوں سے چندہ جمع کیا۔ تاکہ کلچر زندہ رہے۔ اس کی بہن مر جائے ، لیکن تہذیب زندہ رہے۔ تمدن زندہ رہے ، فنکار کا خیال زندہ رہے۔ اس کی بہن اچھی خوراک اور مناسب دوا نہ ملنے سے سسک سسک کر جان دے دے۔ لیکن کتاب زندہ رہے ، زبان زندہ رہے۔ قوم کی روح زندہ رہے۔ اس کی پیاری پیاری، املی کھانے والی، امرود توڑ کر چرا کر کھانے والی، اس کے بچپن کی ساتھی بہن مر جائے۔ لیکن کالیداس زندہ رہے۔ غالب زندہ رہے ، اقبال زندہ رہے ، پریم چند زندہ رہے۔ موت اس کی بہن کے ہونٹوں کو یخ بستہ کر دے اور اس کی آنکھوں کو بے نور کردے لیکن زندگی اور اس کا زندہ ادب اپنے نور سے اور اپنی حرارت سے اور اپنے ایمان سے لاکھوں دلوں کو روشن کر دے"۔
"مگر۔۔۔"
کرشن نے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن ساحر اب بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔ بہت سے ادیب جاگ اٹھے تھے۔
"کانفرنس کامیاب رہی، مگر اس کی بہن مر گئی۔ کانفرنس کے دوران میں جگر کو اپنی بہن کی شدید علالت کے تین تار آئے ، لیکن وہ اسے لانے نہیں گیا۔ چپ چاپ کانفرنس کا کام کرتا رہا۔ جب پہلا تار ایا ، اس روز تم اپنا مقالہ پڑھ رہے تھے۔ جب دوسرا تار آیا اس روز تم پریم چند سوسائٹی کے مہمان ہو کر ڈنر کھا رہے تھے۔ جب تیسر ا تار آیا تم لوگ راجہ شامراج کے ہاں مدعو تھے۔۔۔"
"ساحر۔۔۔" کرشن چندر زور سے چلایا۔ جیسے کسی نے اس کے دل میں آہنی کیل گاڑ دی ہو۔ اور ھپر جیسے اس کیل سے لہو کی سرخ دھار پھوٹ نکلی۔
کسی نے اپنی جان سے پیاری ہمشیرہ کی زندگی کا لہو دے کر ادب کو زندہ کر دیا تھا۔ لہو چاروں طرف بہہ رہا تھا۔ اور اس میں طلائی صراحیاں اور اخروٹ کے میز اور نقرئی پلنگ ڈوب رہے تھے۔حریری پردے سرک گئے تھے۔ اور دیوار ٹوٹ گئی تھی۔ جس نے انسان اور انسان کے مابین امتیاز پیدا کر دیا تھا۔ چاروں مینار سرنگوں تھے۔ اور تیز دوڑتی ہوئی سیاہ سیڈان سیاہ فام گھاٹنوں کے آگے سر بسجود تھی۔ وہ لوگ اکیلے تھے۔ کمینے تھے ، احساس کمتری اور خود غرضی کے شکار تھے ، لیکن سب مل کر وہ جیسے کچھ اور ہو گئے تھے۔ کسی نئی ہمت، کسی نئی قوت، کسی نئی عظمت سے ، سرشار ہو گئے تھے۔ جیسے مل کے ان کی برائیاں دب گئی تھیں۔ اور اچھائیاں ابھر آئی تھیں۔
ساحر اب چپ تھا لیکن اس کا سینہ کسی انجانے طوفان سے رستا خیز تھا۔ اس نے کنکھیوں سے اپنے رفیقوں کی طرف دیکھا۔ کوئی ایسا نہ تھا۔ جس کی آنکھیں پرنم نہ ہوں۔ پرنم اور دور۔۔۔بہت دور۔۔۔ جیسے وہ ماضی اور حال اور مستقبل کے پرے جاکر بھی کچھ تلاش کررہی ہوں۔ کچھ ڈھونڈھ رہی ہوں۔
کچھ پا رہی ہوں۔
وامق آہستہ سے گانے لگا۔
پورب دیس میں ڈگی باجے
بھوکا ہے بنگال رے ساتھی۔
بھوکا ہے بنگال
رے ساتھی
یہ بھوکے بنگال کا گیت تھا۔ اداس دلوں کا گیت تھا۔ مرتی ہوئی روحوں کا گیت تھا۔ لیکن اس وقت نہ جانے اس گیت میں کون سی طاقت آ گئی تھی۔ کہ یہ گیت موت کا گیت نہیں۔ زندگی کا نغمہ معلوم ہوتا تھا اس کی لے میں اداسی کی جھلک نہیں ، اک کامراں تبسم کی ضوفگن معلوم ہوتی تھی۔ اس کی پہنائی میں یاس و حسرت نہیں، اک پر امید للکار کی گونج سنائی دیتی تھی۔ جیسے اس گیت کا سویا سویا مدھم نوحہ کسی کے خون سے جاگ اٹھا تھا۔ اور اک بے خطر بغاوتی طوفانی انداز میں کہہ رہا تھا:
پورب دیس میں ڈگی باجے۔

ڈگ۔۔۔ ڈگ۔۔۔ ڈگ۔۔ ڈگی باج رہی تھی۔ پورب دیس میں نہیں، پورب، اتر، دکھن پچھم ، ہندوستان کی چاروں کھونٹوں میں یہ ڈگی بج رہی تھی۔ ہندوستان کا وہ کون سا گوشہ ہے جو بنگال نہیں۔
وامق کے گاتے گاتے یکایک وہ سب ایک دم اکٹھے پوری قوت سے گانے لگے:

پورب دیس میں ڈگی باجے
بھوکا ہے بنگال رے ساتھی۔
بھوکا ہے بنگال
رے ساتھی!
ساتھی! یہ ڈگی سن لے۔ یہ خطرے کی ڈگی۔ اک غیر مختم للکار۔۔۔ اک پیہم پیکار
آؤ، آؤ ساتھی

ساتھی جو بھوکے تھے،ساتھی جو مدقوق تھے۔ ساتھی جوجیل کی سختیوں کے آثار لئے ہوئے تھے۔ ساتھی جو لتھڑی ہوئی ناکام آرزوؤں کے مزار تھے۔ ساتھی جو درد کی تفسیر تھے۔ اب یکایک اٹھ کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور اپنی روح کی پوری قوت سے گانے لگے۔ خود ہی گا رہے تھے اور خود ہی سن رہے تھے۔ اک نیا گیت۔ اک نیا خیال۔ اک نئی آواز۔ اک نیا تبسم جیسے آدھ کھلی کلی یکایک کچھ سوچ کے مسکرا اٹھے۔

باہر گاڑی بھاگی جا رہی تھی ، لیکن اندر سکون۔ باہر چاروں طرف اندھیرا تھا۔لیکن گاڑی کے اندر روشنی تھی۔ باہر راستہ تاریک اور دشوار گزار تھا، لیکن منزل معلوم ہو چکی تھی۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:11.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں