پیش لفظ - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 2 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-27

پیش لفظ - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 2

paudey-krishan-chander-02

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

پیش لفظ

کیسی سخت ہوگی وہ زمین جہاں دس سال کی مسلسل عرق ریزی کے اور پودے اگیں۔ اور کیسا سخت جان ہوگا وہ بیج جس نے دس سال تک مٹی اور دھول اور کیچڑ میں لت پت ہونے کے باوجود ارتقاء کی طاقت ضائع نہ ہونے دی۔ یہاں تک کہ اس کا سینہ چاکہوا اور اس میں سے نئی زندگی کی نرم و نازک و ریشمیں سبز کونپلیں پھوٹ پڑیں۔
ترقی پسند ادب کی تحریک کو شروع ہوئے دس سال ہوگئے۔ 1936ء سے 1946ء تک۔ اور آج ہم ان پودوں پر نظر ڈال سکتے ہیں جن کی تصویر کرشن چندر نے اتنے دلگساز ارتعاش اور لطیف احساس کے ساتھ کھنچی ہے۔ یہاں اس تصویر میں شخصیتیں فروعی ہیں۔ ان کے افعال دلچسپ طرح سے پیش کئے جانے کے ب اوجود معمولی ہیں۔ ان کی صورتیں، وہ تو معمولی سے بھی کچھ کم ہیں اور ان کے کردار خطا، نسیان کے مرکب ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کسی آتشیں تصور سے یہ ساری محفل گرم ہے۔ کسی اجتماعی جذبے کی حرارت نے اس میں سوز و ساز بھر دیا ہیا ور کسی نے شرریار وجدان نے ساری فضا میں سرخ کپ کپاہٹ پیدا کر دی ہے۔

ترقی پسند کا لفظ جس قدر سپاٹ، کتنا شاعرانہ، کتنا ٹھنڈا ہے اور اس مفہوم کے لئے کتنا ناموزوں، جو اس سے وابستہ ہوگیا ہے ، مگر اس دس سال میں وہ تصور ہو اس لفظ سے وابستہ ہے ایک انجمن اور انجمن ایک تحریک کی شکل۔ آخر کیسے اور کیوں اختیار کر گئے ؟

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں، جب دو تین نوجوان ایک اعلان نامہ کا مسودہ لئے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے۔ پریم چند جوش اور عبدالحق نے دستخط کئے تو ہم سمجھے کہ بہت بڑی کامیابی ہوئی۔ اس کے بعد جب لکھنومیں ہماری پہلی کانفرنس ہوئی۔ تو عام ہال میں بڑی مشکل سے ہم نے دو ڈھائی سو روپے جمع کئے تھے رات بھر سارے شہر کی دیواروں پر کانفرنس کے اشتہار چسپاں کئے تھے اور تھکے ہارے کانفرنس کے ہال میں صبح سویرے سے ہی پہنچ گئے تھے کہ شاید ایسا نہ ہو پندرہ بیس آدمیوں سے زیادہ اس میں شریک بھی نہ ہوں۔ گھنٹے دو گھنٹے ٹکٹ سے داخلہ کا اصول جاری رکھنے کے بعد کانفرنس میں شرکت عام کی اجازت دے دی تھی تاکہ کم از کم غریب طالب علم تو شریک ہوجائے۔ سارے ہندوستان سے کل پندرہ بیس ڈیلی گیٹ آئے تھے کافی گھبرائے ہوئے اور پریشان تھے ہم ان دنوں! بہت چھوٹا سا ڈائس تھا اور صدر کی میز اور کرسی پرانی اور بوسیدہ تھی۔ دوہی کرسیاں اور تھیں ایک پر پریم چند بیٹھے تھے۔ اور دوسری پر حسرت موہانی۔ رفتہ رفتہ ہال بھر گیا کوئی ڈیڑھ سو آدمی ہوں گے، جن میں سے زیادہ تر ادیب نہ تھے۔ جبھی تو لوگوں نے فقرے کسے کہ یہ لوگ ترقی پسند زیادہ ہیں اور مصنف کم، مگر اس اعتراض میں سچائی تھی اور جب کبھی ہم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنتے تو سینے میں ایک تیر سا لگتا تھا۔لیکن سچائی کا ایک اور پہلو بھی تھا جسے یہ لوگ نہیں سمجھتے تھے۔ اور جس سے ہم اب دس برس کے بڑے تلخ تجربوں سے گزرنے کے بعد کسی قدر واقف ہوئے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ترقی پسند ہونا اپنی سمجھ اور شعور کو ترقی پسند بنانا اور اپنے کردار میں ترقی پسندی پیدا کرنا ، یعنی اپنی ذات کو بدن اور برابر بدلتے رہتا۔ تاکہ ہم ایک ترقی پسند انسان بن سکیں یہ عمل زیادہ اہم زیادہ ضروری اور زیادہ مشکل ہے اور بغیر ترقی پسند انسان بنے ہوئے کسی کا ترقی پسند مصنف ہونا بہت دشوار ہے کہ میں کہونگا کہ ناممکن ہے ہم اپنی ناسمجھی میں دستخطوں اور مجمعوں اوربڑے آدمیوں کی حمایت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ حالانکہ ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہمارا نصب العین تھا۔ جسے ہم نے اپنے منشور میں متعین کیا تھا جس کی اہمیت اس وجہ سے نہیں تھی کہ اس پر بعض لوگوں نے دستخط کردئے تھے۔ بلکہ اس وجہ سے تھی کہ وہ ایک نئے شعور اور ایک زندہ صداقت کا حال تھا۔ اس میں وہ نیا جذبہ اور نیا ارادہ جھلک رہا تھا۔ جو صرف ہندوستان کے لوگوں کو ہی نہیں ساری دنیا کے محنت کش عوام اور۔۔۔ دیانت دار اہل علم اور دانش وروں کو متحرک کررہا تھا۔ ہم نے کہا کہ:
ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہوں،افلاس، سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں۔ ہم ان تمام آثارکی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری، سستی اور توہم پرستی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اور رسموں اور دوروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں۔ تغیر اور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔
(ترقی پسند مصنفین کا اعلان نامہ)

ترقی پسندوں کی یہ خواہش اور ان کا یہ مقصد ہوائی نہ تھا یہ ہماری معاشرت اور زندگی کے تقاضے تھے جو ترقی پسندوں کی زبان سے ادا ہورہے تھے یہی سبب ہے کہ آزادی وطن اور اشتراکیت کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ترقی پسند ادب کی تحریک تیزی سے پھیل گئی اور اپنی تنظیمی خامیوں کے باوجود ہندوستان کی بڑی بڑی زبانوں کے سب سے زیادہ ہونہار لکھنے والے اس تحریک کے احاطہ میں آئے، مزید برآں ہمارے ملک کے اکثر مستند اور مشہور ادیب بھی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔

حیدرآباد (دکن) میں گزشتہ سال (ستمبر 1945ء) اردو کے ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کل ہند کانفرنس ہوئی، جسک ی بنیاد پر کشن چندر نے "پودے" لکھا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ کانفرنس ہماری تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز کرتی ہے۔ ادبی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزرنے کے لئے ہم نے نو دس سال لگائے، ہماری تحریک نے جڑ پکڑ لی ہے۔ اب ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ یہ پودے بڑھیں، بڑھ کر مضبوط اور تناور پیڑ بنیں، پھلیں اور پھولیں اگرہم میں کوئی شخص ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نئے دور میں ہمارا کام پہلے کے مقابلے میں سہل ہے تو وہ سخت غلطی کررہا ہے۔ اس لئے کہ وہ بنیادی مسائل جن کا ہم نے د س سال پہلے اپنے اعلان نامے میں ذکر کیا تھا۔ اگر انقلاب کی قوتوں کے زیادہ مضبوط ہونے کے باعث حل ہونے کے زیادہ قریب ہیں۔ تو ساتھ ہی ساتھ انقلابی بحران میں گرفتار بخش توانا اور شاداب فضا میں سانس لے سکے۔

ہندوستان میں عوامی تحریکوں کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی گئیں۔ کانگریس، مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی ان تینوں عوامی جماعتوں نے جنگ کے دوران میں اپنے حلقہ اثر کو مضبوط کیا ہے اور اپنے حلقہ اقتدار کو پھیلایا ہے۔ یہ تینوں جماعتیں ملک کے ہر گوشے میں پھیلی ہوئی ہیں اور گرسیاسی پلیٹ فارم پر ان کی ایک جہتی کے آثار ابھی نمایاں نہیں ہیں تاہم مقام شکرہے کہ ادبی محاذ پر تینوں جماعتیں ہمارے ترقی پسند گروہ میں شیر و شکر کی طرح گھلی ہوئی ہیں۔ ترقی پسند مصنفین میں بیشتر اصحاب ایسے ہیں جو کانگریس مسلم لیگ یا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اگر نہیں رکھتے ہیں جب بھی وہ اپنے خیالات میں اور اعتقادات میں ان ہی میں سے کسی ایک نہ ایک عوامی جماعت سے ضرور متاثر ہیں۔ لیکن ان مخالفت اور بظاہر متضاد رجحانات کے باوجود ان کے بالغ اذہان میں اس مستقبل کی ترتیب و توازن کا خاکہ ضرور موجود ہے جو ان تینوں جماعتں کی ایک جہتی کے سوا شرمندہ تکمیل نہیں ہوسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے ادبی اور سیاسی مستقبل کے لئے یہ برادرانہ یک جہتی جو ترقی پسند مصنفین میں پائی جاتی ہے ایک نیک فال ہے۔ ہمیں ہر پنج سے اور ہر صورت سے اس یک جہتی کی تائید کرنا چاہئے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ کام جو آج ہمارے ملک کے نوجوان ادیب کررہے ہیں۔ ہمارے بڑے بزرگوں کی سمجھ میں بھی آجائے یا خود ہمارا کام انہیں اس بات کے لئے مجبور کردے کہ وہ پھر ایک ہوجائیں اور ملک کی آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے کام کرنا شروع کردیں تاکہ ہماری قومیں ایشیائی قوموں کی برادری میں اور پھر پوری دنیا کی قوموں کی برادری میں اپنی صحیح جگہ لے سکیں۔ اس وقت ملک کی فضا شائد اس کام کے لئے زیادہ سازگار نہیں ہے شائد انتخابات کی سر گرمی میں اس وقت منافقت اور الگ الگ جستے بندی پر زور دیاجارہا ہے۔ لیک یہ امر کم از کم میرے لئے تو اس قدر واضح اور روشن ہے کہ میں اسے دوہرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ بھی ہو عوامی جماعتوں مین لڑائی کتنی شدید کیوں نہ ہوجائے۔ ہمیں اپنا دائمی توازن نہیں کھونا چاہئے اور اس بات کو ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ کہ ایک دن فیصلہ ہوگا ، ایک دن اتحاد ہوگا۔ ایک دن ہندوستان کی جمہوری اور عوامی تحریکوں کو اپنے مقصد اعلیٰ اپنے نصب العین کے حصول کی خاطر متحدہ محاذ بتانا پڑے گا۔ اس دن کو قریب لانے کے لئے اس نصب العین کی خاطر اس محاذ کی تخلیق کے لئے اور پھر اس اشتراک کی ترقی کے لئے جو آج ہمارے پلیٹ فارم پر ایک واضح، عملی صورت میں جلوہ گر ہے۔ ہمیں اپنی ساری ادبی کاوشوں اور صلاحیتوں سے کام لینا چاہئے۔ اس لئے عوام کی بہتری پر عمومی جماعت کا فرض اولین ہے اور موجودہ دور میں اس ملک کے ادیبوں کے لئے بھی اس سے بہتر تخلیقی کارنامہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی کاوشوں سے اس دن کو قریب لے آئیں۔ جب یہاں کے چالیس کروڑ انسانوں کے لئے ایک صورت حال کو وجود میں لانا اشد ضروری ہے۔

ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ میں تو ادب کی وقتی اضافی اور ہنگامی قدروں سے بحث کررہا ہوں۔ ادب کی کچھ دوامی ابدی قدریں بھی ہوتی ہیں ان کے متعلق ہمیں کیا کانر چاہئے۔ اول تو مجھے یہ معلوم نہیں کہ ادب کی ابدی، قدریں کیا ہیں میں صرف ایک ابدی قدر سے واقف ہوں اور وہ ہے تغیر، ارتقاء انسان کی سماجی زندگی میں تغیر مجھے اس کے ارتقا کی ایک لازمی قدر معلوم ہوتی ہے اور یہی ایک دوامی قدر ایسی ہے جس کا وجود میں تسلیم کرسلتا ہوں۔ باقی جتنی بھی قدریں ہیں وہ انسان کے حواس خمسہ اور اس کے احساسات کے دائرے میں رہ کر بدلتی رہتی ہے اور اس لئے دامی نہیں۔ اضافی، وقتی او رہنگامی ہیں۔ کچھ لوگ عشق کو ایک دوامی قدر سمجھتے ہیں لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ مرد اور عورت کی محبت میں بھی انقلابات آتے رہتے ہیں بارہویں صدی کا عشق بیسویں صدی کا عشق نہیں ہے۔ پتھر اور دھات کے زمانے سے لے کر موجودہ مشینی دور تک عورت اور مرد کے باہمی تعلقات پر نظر ڈالئے، آپ کو برابر تغیر ارتقا تبدیلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اب مختلف سماجی ماحول میں انسانی عشق کی مختلف قدریں پائیے گا۔ شادی سے پہلے ، شادی کے بعد، شادی کے رسم و رواج میں گھر میں، گھر سے باہر ، بچوں کی نگہداشت اور ان کے مالکانہ تصرف میں جائداد میں، رشتہ داری میں ، باہمی سوجھ بوجھ اور اشتراک عمل میں زندگی کے ہر لحظہ میں اور ہر لمحہ میں ، آپ عورت اور مرد کی باہمی محبت میں برابر تغیر دیکھئے گا اور اس کی مختلف صورتیں دیکھئے گا۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی سماج میں عورتیں مردوں کی غلام ہوتی ہیں تو دوسرے سماج میں مرد عورتوں کے غلام ایک سماج میں مرد اپنا حرم عورتوں سے لمباتا ہے تو دوسرے سماج میں عورت اپنا گھر مردوں سے بساتی ہے کسی سماج میں مرد جائداد کا مالک ہے اور عورت اس سے محروم ہے تو دوسرے سماج میں شخصی جائداد کا مرکز ومرجع عورت کی ذات ہے۔ معاشی حالات سازگار ہوں تو عشق زندہ رہتا ہے اور نہ ہو تو مرجاتا ہے اور پھر خالص حالات میں ایک عشق کے بعد دوسرا عشق کرتا ہے۔ اور عورت ایک مرد کی محبت میں خود کشی کی ناکام کوشش کے بعد زندہ رہتی ہے اور کسی دوسرے سے محبت کرکے پانچ بچے پیدا کرتی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ محبت کی قدر بھی ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ ان میں ہمیشہ تغیر پیدا ہوتا رہتا ہے۔ زندگی میں ہر عورت لیلی نہیں ہے۔ اور ہر مرد مجنوں نہیں ہے۔ اس لئے ادب میں ہر داستان لیٰلی مجنوں کی داستان نہیں ہوسکتی۔ بلکہ زندگی میں بھی اس قسم کی تمثیلیں بہت کم ہیں۔ ان کی حیثیت کلیہ کی نہیں ہے بلکہ مستثنیٰ کی ہے تو گویا یہاں بھی عشق کی ایسی قدر مستثنیات میں سے دکھائی دیتی ہے اس لئے اسے ابدی قدر کا مترادف جتانا حقیقت کو جھٹلانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صرف انقلاب کو اور تغیر کو اس دنیا میں درام حاصل ہے اور کسی چیز کی نہیں اور جس روز انسان نے اوراس کے سما ج نے اور اس کے ادب نے اور اس کے تخیل نے اس تغیر، اس انقلاب کا ساتھ نہ دیا وہ بھی مٹ جائے گا۔ ان جانوروں کی طرح جو آج سے ہزارہا سال پہلے موجو د تھے۔ لیکن ارتقائی عملے پر کاربند نہ ہونے کی وجہ سے معدوم ہوگئے۔ اس لئے ہم تو کسی ایسی موہوم غیر واضح غیر متعین ابدی قدر کے قابل نہیں ہے۔
ادب میں ابدیت ایک بہکانے والا فلسفہ ہے اور اس میں بیکار کی موشگافیوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور مجھے تو اس امر کا اعتراف کرلینے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم ابدیت ، اور ابدی قدروں کے پجاری نہیں، ہم تو لمحے کے شاعر ہیں۔ ایک لمحے کے داستان گو ایک لمحہ جواب ہے۔ ایک لمحہ جو کبھی تھاایک لمحہ جواب آئے گا۔ تینوں لمحے جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں جسے بیج زمین میں اور جڑیں کھاد میں ، اور پھول پتیاں ہوا میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ہم اس زندگی کے پجاری ہیں جو حرکتی ہے ، جامد نہیں ، جو زندہ ہے مردہ نہیں ہے جو تغیر پذیر ہے موت کی طرح ساکن نہیں ہے۔ کیچڑ اورکنول میں جو کیچڑ سے پیدا ہوتا ہے اوراس شہد میں جو کنول سے نکلتا ہے بہت فرق ہے اور یہ امتیاز تغیر سے پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ تغیر پہلے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درجہ میں مل جاتا ہے اور ہر منزل پر بلند ہوتا جاتا ہے۔
لوگ جسے حسن کہتے ہیں وہ تغیر ہی کی ایک صورت ہے۔ اور اگر حسن کی تخلیق ہی ادب کا بہترین مصرف ہے تو اس کی تخلیق کم از کم ان ادیبوں سے نہیں ہوسکتی جو دوامی قدروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ اور اپنے ذہن کے غیر سماجی مرمریں محل میں اپنے جامد تخیل کے ہیولے میں ایک فرضی اور موہوم غیر حقیقی فلسفے کی تشکیل و تربیت سے ایک زندہ متحرک توانا ادب کے پہاڑ کو روکنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ادب کا ناطہ عوام سے توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور اسے ادب کے نقطی حسار میں قید کردینا چاہتے ہیں۔ عوام سے مونہہ موڑ کر اور عوام کے جذبات کو نہ سمجھتے ہوئے یہ بھی نہ جانتے ہوئے کہ عوام کیا سوچتے ہیں ، کیاکھاتے ہیں کیا پہنتے ہیں ،کس طرح رہتے ہیں کس طرح محبت کرتے ہیں۔ ان سب زندہ حقیقتوں سے پرے جاکر جن میں زندگی کی خوشیاں ، زندگی کا کرب اور اس کا بیکراں درد چھپا ہوا ہے ان سے بھاگ کر خالی خولی اپنے ذہن کے تاریک گھروندے میں چھپ کر ہم کس طرح اس ادب کی تخلیق کرسکتے ہیں۔ جو انسان کے لئے معراج مسرت ہے اور اس کی آرزوؤں اور تمناؤں کا منبع ہے؟ زندگی سے بھاگ کر نہیں بلکہ اس سے بے قرار ہر دم بدلتی ہوئی زندگی کے درمیان کھڑے ہوکر اس کی کشاکش اور کشمکش میں حصہ لے کرہی ہم سچائی اور حسن اور خوبصورتی کی ترتیب وتواتر سے آگاہ ہوسکتے ہیں، ایک سچے ادب، ایک حسین ادب، ایک خوبصورت اور توانا ادب کی تعمیر کسی اور ڈھنگ سے ممکن نہیں!

ایک اور بات ہے کہ جس کے امکانات پر ہمیں غور کرنا ہے وہ ہے ذراتی قوت کا دور جو ہیرو شیما کی بمباری سے شروع ہوتا ہے۔ اور جس کی تکمیل کے امکانات ، اگلے پچیس برسوں میں پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذراتی انرجی کے بہم پہنچ جانے سے جہاں سائنس کے سامنے ایک نیا تجرباتی دور کھل گیا ہے وہاں اس کے تخریبی پہلوؤں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ابھی تو ذراتی انرجی کی تباہ کاریوں کی شروعات ہیں۔ اور اگر ہمارے سائنس داں اور سیاست داں ، اور ماہرین جنگ اس کے تخریبی عناصر پر اسی طرح زور دیتے رہے اور اگر جلد یا بدیر اس کا کوئی توڑیا تعمیری حل دریافت نہ کیا گیا تو اگلے بیس پچیس برسوں میں موجودہ انسانی نسل کی بقاء کا مسئلہ بہت مشکل نظر آنے لگے گا۔ اس بات کی تو مجھے امید ہے کہ سائنس کبھی کبھی ذراتی انرجی کی تباہ کاری کا توڑ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن جو چیز میرے پیش نظر اس وقت ہے وہ ہے جنگ کے بڑھتے ہوئے مہلک اثرات۔ پچھلی تمام جنگوں سے گزشتہ جنگ عظیم زیادہ مہلک تھی۔ اور موجودہ جنگ جو کرہ ارض کے تمام خطوں پر پھیلی ہوئی تھی گزشتہ جنگ عظیم سے عظیم تر تھی۔
اور اگر سائنس کی ترقی کی وجہ سے موجودہ جنگی اسلحہ جات میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا اور اس کی ہولناکی اسی طرح بڑھتی رہی تو بہت ممکن ہے کہ اگلی جنگ میں نہ آدی زندہ رہے نہ اس کا ادب۔سائنسدانوںکو کچھ کچھ احساس بھی ہوچلا ہے اور اب وہ انگلینڈ میں اور امریکہ میں اپنی انجمن بنا کر خود ہی ذراتی انرجی کے تخریبی عناصر کی روک تھام کے لئے تجاویز پیش کررہے ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں کو بھی ان تمام تجاویز کی حمائت کرنا چاہئے۔ جو جنگ کے مہلک اثرات کی روک تھام کے لئے مختلف ممالک کے لئے ترقی پسند عناصرکی طرف سے پیش کی جائیں۔
لیکن اس سال کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک تو ہے ذراتی انرجی کے کنٹرول کو کسی بین الاقوامی انجمن کے سرپد کردینا۔ لیکن یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا آسان اسے سمجھا جارہا ہے۔ کیونکہ مجھے تو یہ بھی شبہ ہے کہ امریکہ کی تجارتی اداروں کو شاید ذراتی انرجی کا استعمال اب تک معلوم ہوگیا ہوگا۔ اور اگر نہیںہوا تو دو چار سال میں ضرور ہوجائے گا۔ یہ کوئی ایسا بھید نہیں، جو چھپایاجاسکے۔ اس لئے آئندہ جب بھی جنگ ہوئی اسے استعمال کیاجائے گا۔ اور پھر اس کے جو مہلک اثرات ہوں گے وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اس لئے ذراتی انرجی کے بین الاقوامی کنٹرول سے کوئی خاص فائدہ نہ ہوگا۔ ہاں شروع شروع میں اس کی روک تھام کے لئے وقتی نتائج ضرور حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اصلی چیز تو جنگ ہی کی روک تھام ہے اور جنگ کی روک تھام اس وقت تک نہیں ہوسکتی۔ اور اس کا مکمل انسداد اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک دنیا میں فاسیسیت اور استعماریت اور دوسرے ایسے سماجی ادارے موجود ہیں جو ایک انسان کو دوسرے انسان کی غلامی میں منسلک کرتے ہیں۔
جب تک دنیا میں منافعہ کا رواج ہے جب تک کہ ذرائع پیدائش شخصی جائدادہیں جبتک ادب سرمایہ پرستی کا غزلخواں رہتا ہے جب تک پریس پر بینکروں کا قبضہ رہتا ہے اور جب تک مشینوں کو اور انسانی ہاتھوں کی پیداوار کو جمہوری اشتراک کے اصولوں پر تقسیم نہیں کیاجاتا۔ اس دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ سچی آزادی نہیں آسکتی آزاد اور پائندہ ادب نہیں تعمیر ہوسکتا۔ اور مسرت اور ہمت اور توانائی اور ترقی اور حسن کی تجلیوں سے انسانی کائنات کا سینہ نہیں معمور ہوسکتا۔ اسی لئے جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے ذراتی انرجی کی ہولناکیوں سے نجات پانے کے لئے ایک ہی راستہ ہے۔ زندہ متحرک، آگے بڑھتی ہوئی پھیلتی ہوئی رواں دواں اشتراکیت اس کے بغیر انسان کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اور میں تو یہاں تک کہتاہوں کہ اب انسانی سماج اس درجے پر پہنچ گیا ہے اور جماعتی تضاد اس قدر تیز ہوگیاہے کہ اب اس مسئلہ سے گریز ممکن نہیں اب تو ہمیں یہاں آگے بڑھنا ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جانا ہے جس طرح آج سے قرن ہا قرن پہلے بہت سے جانور مٹ گئے اور اب ان کی ہڈیوں کی نشان آثار قدیمہ کی کھدائی میں دستیاب ہوتے ہیں اسی طرح اگر انسانی شعور نے اس وقت فیصلہ نہ کیا اور تاریخ کے تقاضے کو اور اس کی انقلابی اہمیت کو نہ سمجھا تو یہ انسانیت اور اس کی تہذیب اپنے ہاتھوں خود کشی کرے گی۔ اور پھر آج سے سینکڑوں ہزاروں سال بعد جب کوئی نیا جانور اس دنیا کو بسائے گا تووہ اس دور کے آثار قدیمہ میں اس احمقانہ نظام زندگی کا سراغ ڈھونڈے گا جس نے اسے مرجانے پر مجبور کیا۔ جس نے انسان کے لئے ابدیت کو اور اس کی نسلی تہذیبی ، ادبی، سماجی بقا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناممکن الحصول بنادیا۔ اور وہ سوچے گا کہ اگر انسان ایسا فیصلہ نہ کرتا تو کیا ہوتا۔ یہ اگر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اگرہوگالیکن میں انسان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔
میرا اعتقاد ہے کہ ہم لوگ صحیح فیصلہ کریں گے اور اپنی متحدہ کاوشوں سے اپنے ملک کے رہنماؤں کو اور دنیا کے ر ہنماؤں کو اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ صحیح راہ اختیار کریں اور جب منفعت کی خاطر یا جماعتی مفاد کے لئے یا عدم تدبیر کی بنا پر پوری انسانیت کو خود کشی کرنے پر مجبور نہ کریں اس لئے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہر ترقی پسند ادیب کو اس وقت نہایت شدومد سے اشتراکی نظا م زندگی کی حمایت کرنا چاہئے کہ انسانیت اب ایک نازک موڑ پر آگئی ہے۔ جہاں اب اس سے گریز ممکن نہیں ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ ایک ایسی مجرمانہ غفلت ہوگی جس کی سزا ہم سب لوگ بھگتیں گے۔ وہ لوگ جو اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں اور وہ لوگ جو اس مسئلہ کو نہیں بھی سمجھتے ہیں۔

یہاں تک تو مقاصدکا تعلق تھا۔ اب ایک آخری بات رہ گئی ہے اور وہ ہے ترقی پسند مقاصد و اغراض کی نشرواشاعت چونکہ یہ اردو کے مندوبین کی کانفرنس ہے۔ اس لئے میں اپنی زبان کے مسائل پر اکتفا کروں گا۔ یہاں میں یہ بات نہایت صراحت سے کہدینا چاہتا ہوں کہ میں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھتاہوں اور مجھے اس کی تاریخی ارتقاء کا مطالعہ ابھی تک اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ میں اسے صرف مسلمان قوم کی زبان سمجھوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس زبان کے غالب حصہ پر ہر مسلم قوم کی تہذیبی چھاپ ہے۔ اور ہندوؤںنے اس کی ترویج و اشاعت میں بھی مسلمانوں سے کم حصہ لیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلانے سے خود فریبی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لیکن اس بدیہی امر کے باوجود اس بات کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ ہندوؤں نے اور اس ملک کی دوسری قوموں نے بھی اردو کی اشاعت میں اسے پھیلانے میں بڑھانے اور اپنانے میں ایک معتد بہ حصہ لیا ہے اور دوسری قومی ،زبانوں کی ترقی کے باوجود اور فرقہ وارانہ رجحانات کی افزائش کے باوجود اور اس بد نصیب ملک کی کوتاہ سیاست کے باوجود مسلمانوں نے اور ہندوؤں نے اور سکھوں نے اور دوسری قوموں نے سب نے مل کر اس کی ترقی کے لئے اپنے بہترین انسان کا لہو دیا ہے۔ منافقت کی دنیا میں بھی وہ ایک پودا ہے جس کی آبیاری ہم سب نے مل جل کر کی ہے اور سے ایک پھول کی طرح ایک معصوم تبسم کی طرحح ایک مقدس گیت کی طرح حرز جاں بنا رکھا ہے۔ اس لئے ایک ایسی زبان کو جسے ہندوستان کی مختلف قوموں نے مل کے تخلیق کیا ہے کسی ایک قوم کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وقف کردینا ایک ایسی زبردست تہذیبی اور تاریخی غلطی ہوگی۔ جس کی مثال دنیا میں مشکل سے ملے گی۔
اگر امریکہ اور انگلینڈ دو مختلف قومیں ہوتے ہوئے ایک ودسرے سے ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے بھی ایک زبان کو رکھ سکتے ہیں۔ اور اسے اپنی تہذیبی روح کا مرکز بناسکتے ہیں تو ہندوستان اور پاکستان ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی کیوں اس زبان کو اپنا نہیں سکتے جسے انہوں نے خود تعمیر کیا ہے۔ پھیلایا ہے، آگے بڑھایا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی مختلف قوموں کو حق خود ارادیت دینے کے باوجود اور دوسری صوبائی زبانوں کو پروان چڑھانے کے باوجود ایک ایسی زبان کی ضرورت باقی رہتی ہے جو اس ملک کی تمام قوموں کی زبان بن سکے۔ میرے خیال میں اردو اس ضرورت کو کما حقہ طور پر پورا کرتی ہے اور ہمیں تمام پریشانیوں اور وقتوں اور مزاحمتوں اور سیاسی مناقشات کے باوجود اس کی ترویج و اشاعت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنی چاہئے۔ اس کے دائرہ اقتدار کو ایک ہی قوم پر محدود نہ کرکے یہ کوشش کرنی چاہئے۔ کہ یہ ہندوستان کی تمام قوموں کی باہمی زبان بن جائے۔ اس کے لئے اگر ہمیں دوسری قوموں کے تہذیبی عناصر کو جگہ دینا پڑے تو دینا چاہئے۔ ہمیں ہر نہج سے ہر ڈھنگ سے ہر ممکن کوشش سے اسے پورے ہندوستان کی ، اس کی ساری قوموں کی ان کے کلچر کی اور ان کے تہذیبی کارناموں کی زبان بنانا چاہئے۔ میں اس میں اردو کی ترقی دیکھتا ہوں اور اسی میں ہندوستانی کلچر کے HIGHER کی بنیاد دیکھتا ہوں۔ جو آگے چل کر پوے ایشیا کی تہذیبی ترقی میں برابر کی حصہ دار ہوسکتی ہے۔
ترقی پسند اغراض و مقاصد کی اشاعت کے لئے جہاں ہمیں اپنی زبان کے دائرہ عمل کو وسعت دینا ہے وہاں ہمیں اپنے ادب کے ان پہلوؤں پر بھی غور کرنا ہے جن پر ابھی کوئی کام نہیں ہوا۔ جو ابھی ہماری کوتاہیوں کے پیش نظر تشنۂ تکمیل ہیں۔ جدلیاتی تاریخ، سائنس فلسفہ ، معاشیات، سیاست ان تمام امور پر عملی کتابوں کی شدید ضرورت ہے۔ سستی کتابوں کی ض رورت ہے۔ اور آسان سلیس زبان میں لکھنے کی ضرورت ہے اور اس نقطۂ نگاہ کی ضرورت ہے جو مزدوروں اور کسانوں کی ضرورت کو پورا کرسکے اور انہیں زندگی کے مسائل سے آگاہ کرے وہاں ان کے لئے ایک صحت مند نشاط کا سامان بھی مہیا کرسکے۔
ہمارا ادب اور ہماری ادبی کاوشیں اس لحاظ سے بڑی حد تک بار آور اور مشکور نہیں ہیں۔ ہمارے ترقی پسند ادب کے موادکا بیشتر حصہ اور اس کا ضمیر متوسط طبقے سے اٹھایا گیا ہے۔ اور یہی طبقہ ہماری توجہ کا مرکز ہے ایک حد تک موجودہ صورت حال میں یہ ناگزیر بھی ہے لیکن اب ہمیں اس حصار کو توڑنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے اپنی آواز کو مزدوروں اور کسانوں اور کسانوں کا ترجمان بنانا چاہئے۔اس تک نہ صرف متوسط طبقہ ہماری آواز سے بلکہ کسان اور مزدور بھی اس سے مستفید ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اگر ہمیں عام فہم بننا پڑے۔ صحافیت کا سہارا لینا پڑے۔ اپنے ادبی معیار کو کم کرنا پڑے تو بھی میں اسے اپنے اغراض و مقاصد کے پیش نظر اسے جائز سمجھوں گا اس لئے ادب کا منبع اور شر چشمہ عوام ہیں اسی سر چشمہ سے ہم لوگ سیراب ہوتے ہیں ، یہی سر چشمہ ہمیں قوت بخشتا ہے اور حیات عطا کرتا ہے اور اگر ہم نے بدستور اس سر چشمہ سے اپنا موڑے رکھا اور اسے قابل اعتنانہ رکھا تو ہمارا ادب سوکھ جائے گا اور اس کی جیتی جاگتی بہاروں میں خزاں آجائے گی اور وہ مقصد جسے ہم لے کر اٹھے ہیں کبھی پورا نہ ہوگا۔

- کرشن چندر

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:2.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں