غالب کی تین غزلوں کی پیروڈی - از راجہ مہدی علی خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-31

غالب کی تین غزلوں کی پیروڈی - از راجہ مہدی علی خاں

ghalib-ghazals-parody

پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کہتے ہیں:
طنز و ظرافت کے قبیلے کی ایک صنف "پیروڈی" بھی ہے۔ کسی سنجیدہ چیز کو مضحکہ خیز بنا دینا یا کسی راست بات کو الٹ پھیر [topsy turvy] کے ساتھ بیان کر دینے کو پیروڈی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیروڈی محض الفاظ کے الٹ پھیر کا نام ہے۔ یہ ذہانت کا فن ہے۔ پیروڈی نگار موضوع اور الفاظ کے ساتھ ساتھ اپنے ذہنی شعور کو وابستہ کر دیتا ہے
چند منتخب کردہ پیروڈیوں پر مشتمل ظہیر احمد کی مرتب کردہ کتاب "پیروڈی : اردو شاعری میں" سے غالب کی تین مشہور غزلوں کی پیروڈی ذیل میں پیش ہے۔

غالب ، باٹا شو کمپنی میں سیلزمین

کبھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
کبھی تیری چپل کو ہم دیکھتے ہیں

ترے سرو قامت سے چھ فٹ کم از کم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

بھلا کیسے لیں گے وہ چپل کی قیمت
جو تیری طرف دم بدم دیکھتے ہیں

ہمیں پیٹ دے تو اگر ہم بتا دیں
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

جنہوں نے نہ سجدہ کیا تھا خدا کو
تجھے ہو کے وہ "سر بہ خم" دیکھتے ہیں

یہ مہدی رچا پاؤں چپل میں رکھ دے
ذرا آج اسے چھو کے ہم دیکھتے ہیں

بنا کر "چماروں" کا ہم بھیس غالب
"تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں"

غالب کے گھر کے سامنے رشتے کی بات چیت

حشمت آرا سے کہیں میرا کمال اچھا ہے
مت کہو مجھ سے کہ خورشید جمال اچھا ہے

رشتہ کرتی نہیں اور پیسہ پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتی ہیں کہ مفت ائے تو مال اچھا ہے

دیکھ مر جائیں گے ہم اتنا چڑھاوا مت مانگ
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

جیب کترا بہت اچھا ہے ہمارا لڑکا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
میرے گھر میں تری لڑکی کا مآل اچھا ہے

رشتہ کرنے میں نہ اب دیر لگا اے ظالم
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو اچھا یہ خیال اچھا ہے

غالب ایک ریسٹوراں میں
ایک اینگلو انڈین حسینہ کے ساتھ


(1)
ہے گال پہ اس تل کے سوا ایک نشاں اور
تم کچھ بھی کہو ہم کو گزرتا ہے گماں اور

تم کہتی ہو "انگلش میں محبت کا کرو بات"
آتی نہیں اردو کے سوا مجھ کو زباں اور

سعدی کی زباں ہی میں کچھ ارشاد کروں میں
ڈر ہے کہ یہ گذرے کہ کہیں تجھ کو گراں اور

یارب یہ نہ سمجھی ہے نہ سمجھے گی مری بات
ملک اور دے اس کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

(2)
کب سے ہم ادھر بیٹھا ہے اے بوائے ادھر آؤ
لیمن کے سوا بھی ہے کوئی چیز یہاں اور

لے آؤ "وہ شے" جلدی سے اب ورنہ یہ سن لو
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

گر حکم ہو میڈم تو میں منگواؤں مٹن چاپ
کہہ دینا اگر چاہیے "دل" اور "زباں" اور

"دل" اور "زباں" کر لا فرائی ارے بیرا
"دل" اور دے اس کو جو نہ دے مجھ کو "زباں" اور

مرتا ہوں اس آواز پہ بل کتنا ہی بڑھ جائے
تو بوائے سے لیکن یہ کہے جائے کہ ہاں اور

(3)
ٹانگہ بھی میرے پاس ہے ٹم ٹم بھی مرے پاس
ہوٹل کے علاوہ تجھے لے جاؤں کہاں اور

(4)
پاتے نہیں جب راہ تو رک جاتے ہیں تانگے
اگ دیکھ کے پبلک تجھے ہوتی ہے "رواں" اور

کالوں کو بھگاتا ہوں تو آ جاتے ہیں گورے
تم ہو تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

(5)
ٹانگوں پہ ہیں کوڑوں کے نشاں پیٹھ پہ ہیں نیل
ہر روز دکھاتی ہے تو اک داغِ نہاں اور

تو بھاگ گئی سیج سے گر ہاتھ چھڑا کر
لے آئیں گے بازار سے اک حورِ جناں اور

اے جانِ تمنا تجھے اک دوں گا میں گھونسہ
ہنگامِ شبِ وصل جو کی آہ و فغاں اور


Parody of Ghalib's ghazals. By: Raja Mehdi Ali Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں