وضعِ اصطلاحات - اصطلاح کی ضرورت کیوں ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-12

وضعِ اصطلاحات - اصطلاح کی ضرورت کیوں ہے؟

urdu-terminology
اعلیٰ حضرت فرماں روائے دکن نے جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمہ کی بنیادیں اٹھا کر تمام دنیائے اردو پر وہ احسان کیا ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ ہندوستان کی نسلیں جب اردو زبان کی روز افزوں ترقی دیکھیں گی اور اس میں ہر قسم کے ادبی اور علمی خیالات کے ادا کرنے کی قابلیت پائیں گی تو "زندہ باد عثمان علی خاں" کا نعرہ بلند کریں گی۔
صاف ظاہر ہے کہ اگر اردو زبان میں ہر علم کی تعلیم عام نہ کی جاتی اور یورپ کی زبانوں سے اس زبان میں علمی کتابوں کے ترجمہ کرنے کا ایسا وسیع انتظام نہ کیا جاتا تو اردو زبان کے دائرہ کو وسیع کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہ ہوتی اور ان اصولوں اور طریقوں کا سراغ کبھی نہ لگایا جاتا جن پر اردو زبان کے آئندہ ارتقا کی بنیاد ہے اور اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ درج کئے گئے ہیں۔ پس اردو زبان کے جدید انقلاب کی صبح کا طلوع ہونا اسی مبارک اور روشن عہد کی برکات میں سے ہے جو "عہد عثمانی" کے نام سے مشہور ہے۔

اصطلاح کی ضرورت کیا ہے؟
اصطلاح کی ضرورت ایسی نہیں ہے جس سے لوگ آگاہ نہ ہوں۔ اگر اصطلاحیں نہ ہوں تو ہم علمی مطالب کے ادا کرنے میں طول لاطائل سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، جہاں ایک چھوٹے سے لفظ سے کام نکل سکتا ہے وہاں بڑے بڑے لمبے جملے لکھنے پڑتے ہیں اور ان کو بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ لکھنے والے کا وقت جدا ضائع ہوتا ہے اور پڑھنے والے کی طبیعت الگ ملول ہوتی ہے۔ اصطلاحیں درحقیقت اشارے ہیں جو خیالات کے مجموعوں کی طرف ذہن کو فوراً منتقل کر دیتے ہیں۔

بعض حضرات کی رائے ہے کہ اصطلاحیں وضع کرنے سے حافظہ پر بار پڑتا ہے۔ سہولت اسی میں ہے کہ ہر اصطلاح سے جو معنی مطلوب ہیں، وہ تشریح و تفصیل کے ساتھ بیان کر دئے جائیں مگر ایسا کرنے میں یہی دقت ہے کہ لکھنے والے اور پڑھنے والے دونوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور کاغذ کا صرفہ جدا ہوتا ہے۔ حافظہ پر بار پڑنے کی شکایت جو ان حضرات نے کی ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ جو شخص کسی علم یا فن کو سیکھنا چاہتا ہے ، بس اسی علم یا فن کی اصطلاحیں اسے یاد کرنی پڑتی ہیں۔ اس سے یہ باز پرس نہیں کی جاتی کہ وہ تمام علوم و فنون کی اصطلاحیں کیوں نہیں جانتا؟ یورپ میں بھی جہاں تعلیم عام اور جبری ہے کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جو دنیا بھر کے علوم و فنون کی اصطلاحیں ازبر رکھتا ہو۔ ہر صاحب فن صرف اپنے فن کی اصطلاحات اور اس فن کی معلومات سے آگاہ ہوتا ہے۔

اصطلاحات ہی پر کیا موقوف ہے۔ اگر آپ عام زبان پر غور کریں تو ہر لفظ ایک آوازی اشارہ ہے جو خیالات کے ایک بڑے مجموعے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، لفظوں کے بنانے کی ضرورت ہی اس بنا پر پیش آئی کہ خیالات کے مجموعوں کو بول چال میں بار بار دہرانا نہ پڑے تاکہ بولنے والے اور سننے والے کا وقت ضائع نہ ہو اور ایک شخص کا مافی الضمیر دوسرے شخص کے دل میں آسانی سے اتر جائے۔
ان آوازی اشاروں سے جن کے مجموعے کا نام "زبان" ہے بلاشبہ حافظہ پر کسی قدر بار پڑتا ہے ، مگر یہ تھوڑی تکلیف اس بڑی تکلیف سے بچنے کے لئے گوارا کی گئی ہے جو اعضائی اشاروں سے کام لینے میں برداشت کرنی پڑتی تھی۔ جب زبان ایجاد نہیں ہوئی تھی تو آوازوں کی جگہ اعضائی اشاروں سے کام لیا جاتا تھا۔ ہر شخص اپنے دل کا مطلب دوسرے شخص کو سمجھانے کے لئے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں کے اشاروں سے کام لیتا تھا۔ یہ اشارے عجیب و غریب اورمختلف قسم کے ہوتے تھے۔
پالن ایشیا کے جزائر میں بعض وحشی قومیں اب بھی ایسی موجود ہیں جو آوازوں کی جگہ ایسے اشاروں سے کام لیتی ہیں۔ بات چیت کرنے کے وقت ان سے عجیب عجیب حرکات ظہور میں آتی ہیں، جن جزائر کی وحشی قوموں میں کچھ آوازیں پیدا ہو گئی ہیں ، ان میں اشاروں کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ آوازوں یا لفظوں کی ترقی سے اعضائی اشارات بتدریج کم ہوتے گئے ہیں۔ جن قوموں کی زبان میں نسبتاً الفاظ زیادہ ہیں، وہ بمقابلہ ان قوموں کے جن کی زبان میں لفظوں کی کمی ہے ، اعضائی اشارات کا استعمال بہت کم کرتی ہیں۔
چونکہ آوازی اشاروں میں اعضائی اشاروں کی نسبت بہت کم تکلیف ہے ، اس لئے الفاظ کی تعداد زبانوں میں رفتہ رفتہ بڑھتی گئی ہے اور ان کے یاد رکھنے کی کوشش برابر ہوتی رہی ہے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ الفاظ کے یاد رکھنے میں حافظہ پر جو بار پڑتا تھا، وہ بھی متواتر یاد کرنے کی مشق سے کم ہوتا گیا اور خود حافظے بھی قوی ہوتے گئے۔
چنانچہ مورخوں نے بیان کیا ہے کہ دنیا کی وہ قدیم قومیں جو سنسکرت ، لاطینی، یونانی اور عربی زبان بولتی تھیں، ان کے حافظے بمقابلہ دیگر ہم عصر اقوام کے نہایت قوی تھے۔ یہ وہ زبانیں ہیں جن میں الفاظ کی تعداد بمقابلہ دیگر قدیم زبانوں کے بہت زیادہ ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ اس لئے ایجاد کئے گئے تھے کہ اعضائی اشاروں میں جو سخت تکلیف ہوتی تھی اس سے بچیں۔ الفاظ کے یاد رکھنے میں بےشک حافظہ پر بار پڑتا تھا مگر یہ تکلیف بمقابلہ اس تکلیف کے کم تھی ، اس لئے خوشی سے برداشت کی گئی۔ پھر لفظوں کے یاد رکھنے کی متواتر کوشش سے حافظہ کا بار بھی کم ہو گیا اور اس مشاقی سے خود حافظہ طاقتور ہو گیا۔ پس لفظوں کی افزائش سے حافظہ پر بار پڑنے کی شکایت کسی طرح معقول نہیں ہے، کیونکہ اول تو یہ تکلیف بمقابلہ اس تکلیف کے بہت ہی کم ہے جو لفظوں کے نہ ہونے کی صورت میں ہم کو برداشت کرنی پڑتی۔ دوسرے موجودہ صورت میں خود حافظہ کی مشق اور اس کی تقویت متصور ہے۔

اس کے علاوہ ہم کو ایک اور اہم بات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ الفاظ معلومات پر دلالت کرتے ہیں، اور الفاظ کی بہتات معلومات کی بہتات پر دلالت کرتی ہے۔ پس جس قوم کی زبان میں الفاظ کی تعداد کثیر ہے، اس کی معلومات کا دائرہ بھی بمقابلہ اس قوم کے جس کی زبان میں الفاظ کی قلت ہے نہایت وسیع ہوگا۔ اس بنا پر پہلی قوم بمقابلہ دوسری قوم کے لازمی طور پر زیادہ مہذب ہوگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو حضرات الفاظ کی افزائش کے شاکی ہیں اور حافظہ پر بار پڑنے کا عذر پیش کرتے ہیں، وہ گویا اپنی قوم کو تہذیب و تمدن سے دور بھگانے اور وحشت و بربریت کی طرف گھسیٹ کر لے جانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ وہ اپنے ابنائے جنس کو ترقی کی بلندی سے نیچے اتار کر تنزل کے غار میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں۔
ان حضرات کو سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ زندگی اور تمدن کی ضروریات ہی الفاظ کو عدم سے وجود میں لاتی ہیں۔ گاؤں میں تمدن کی ضروریات کم ہیں، اس لئے گاؤں کے رہنے والے کم و بیش دو سو الفاظ سے اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ مگر جب ان کو شہروں میں آنا پڑتا ہے اور شہریوں سے معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ضرورتاً ان کے الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے اور اب تین چار سو الفاظ کے بغیر ان کا کام نہیں چل سکتا۔
گاؤں والوں کی نسبت شہر والوں کی ضروریات زندگی زیادہ ہیں، اس لئے ان کی زبان میں الفاظ کی تعداد کثیر ہے اور گاؤں والوں کی زبان کو شہر والوں کی زبات سے کچھ نسبت نہیں۔ پھر بڑے شہروں ، دارالسلطنتوں ، تجارتی منڈیوں، صنعتی کارخانوں اور علمی مرکزوں میں زندگی بسر کرنے والوں کی ضروریات تمدنی اور بھی زیادہ ہیں۔ ان کو لازمی طور پر الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اگر یہ لوگ معترض حضرات کی طرح اپنے حافظہ پر بار ڈالنا نہ چاہیں تو ان کو چاہئے کہ ان بڑے تمدنی مرکزوں سے بھاگیں اور عام شہروں میں زندگی بسر کریں۔ پھر اگر عام شہری باشندے حافظے پر بار ڈالنے سے بچنا چاہیں تو ان کو لازم ہے کہ وہ دیہات میں جا کر آباد ہوں۔ اسی طرح اگر دیہات کے باشندوں کے دماغ دو تین سو الفاظ کے بوجھ کا بھی تحمل نہ کر سکیں، تو پھر ان کے لئے پالن ایشیا کے ان جزیروں میں سکونت اختیار کرنا موزوں ہوگا، جہاں آوازی اشاروں یعنی الفاظ کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم شائستہ اور مہذب قوموں کی صف میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور اگر ہم علوم و فنون حاصل کرنا زندگی کا اہم مقصد جانتے ہیں تو زبان میں جدید الفاظ اور اصطلاحات کے اضافہ سے ہم کو ڈرنا نہیں چاہئے کیونکہ ترقی کے لئے اس بوجھ کا برداشت کرنا ناگزیر ہے۔

ماخوذ از کتاب: وضع اصطلاحات (مولوی وحیدالدین سلیم) (اشاعت: 1954، کراچی)۔

Terminology and its need, Article by: Waheeduddin Saleem.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں