بوری بندر - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 3 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-30

بوری بندر - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 3

paudey-krishan-chander-03

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

بوری بندر

جب کرشن چندر بوری بندر کے سٹیشن پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سید سجاد ظہیر جو کمیونسٹ ہونے کے باوجود اپنے نام کے پہلے "سید" لکھتے ہیں۔ کچھ اداس، کچھ پریشان سے کھڑے گیارہ نمبر کے پلیٹ فارم کے باہر اس کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ پستہ قد مصنف نے جس کے فراخ ماتھے سے بال بڑی تیزی سے غائب ہو رہے تھے اور جس نے اپنی بے چین آنکھوں کو عینک کے دبیز شیشوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔ سید سجاد ظہیر کے قریب جا کر ملتجیانہ انداز میں معذرت پیش کرنے کی جرات کی۔
بھئی۔۔۔ سید سجاد ظہیر نے شروع کیا، لیکن۔۔۔ کرشن چندر اسی لمحے بول اٹھا:
"بھئی معاف کرنا، دیر ہو گئی" اس نے اپنے لبوں پر ایک جھوٹی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
"یہ تو دیکھو۔ ملاڈ سے آ رہا ہوں۔ یہاں سے اٹھارہ میل کا فاصلہ ہے۔ پھر بیوی بچوں سے بھی رخصت ہونا تھا اور کمبخت یہ سامان تھا اور نوکر عین وقت پر کہیں بھاگ گیا اور۔۔۔"
بس کرشن چندر اسی طرح بے ربط جملے کہتا جا رہا تھا، بظاہر بے ربط لیکن بباطن بدرجہ غایت مرتب جملے۔ یہ بے ربطی اس کے افسانوں میں ہے۔ اس کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ لوگ بہر صورت دھوکا کھاتے ہیں۔ بے چارے، وہ مسکرا رہا تھا۔ سید سجاد ظہیر کے لبوں تک بھی اک مسکراہٹ آئی۔ٍ
کس قدر لطیف پاکیزہ۔ نورانی مسکراہٹ تھی۔ سید سجاد ظہیر اطوار و گفتار میں بالکل چمڑے کے سوداگر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی متین اور خاموش صورت دیکھ کر کوئی ان کی جودتِ طبع کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن جب وہ مسکراتے ہیں تو ذہانت بے نقاب ہو جاتی ہے۔
تبسم ہے کہ ہنستا ہوا کنول ہے۔ شوخ ہے ، خوبصورت ہے، دل کش ہے ، نور کا فوارہ ہے ، تخیل کا کوندا ہے ، ذہانت کی لہر ہے، امڈتی ہوئی، بل کھاتی ہوئی، آگے بڑھتی ہوئی ، ہیجانی، سیلابی، طوفانی، چشم زدن میں ایک سیدھے سادے موٹے موٹے ، روکھے روکھے، چہرے کو سرسبز و شاداب بنا دیتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سید سجاد ظہیر کے پاس اس تبسم کے سوا اور کچھ نہیں۔ (شاید اب وہ ہر روز نئے آئینے میں دیکھ کر مسکرایا کریں گے، ایں۔۔۔ واللہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ تبسم سچ مچ۔۔۔۔ بخدا)
سید سجاد ظہیر نے مسکرا کر صاف کر دیا۔
چلو بھئی بس اب۔۔۔ یہ لو اپنا ٹکٹ، گاڑی چھوٹنے میں چند منٹ باقی ہیں۔
اتنا کہہ کر انہوں نے گھبرا کر پلیٹ فارم کی گھڑی کی طرف دیکھا۔
دفعتاً علی سردار جعفری سر پر آن کھڑے ہوئے ان کی بے کربز پتلون، بڑھے ہوئے بال اور گھونسہ مارکہ چہرہ بڑے بڑے جغادری ادیبوں پر رعشہ طاری کر دیتا ہے۔
کرشن چندر نے انہیں آتے دیکھ کر اپنی پلکیں جھپکائیں اور ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا۔ لیکن حرکتوں سے کیا ہوتا تھا۔ سردار نے بڑے زور سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
"کیوں بھائی، یہ کیا حرکت ہے ، اس وقت چلے آ رہے ، گیارہ بجے کا وقت نہیں دیا تھا۔ اب دیکھو ایک بج رہا ہے۔ خیر، اب جلدی سے سامان۔۔۔ "
یکایک سید سجاد ظہیر نے چونک کر کہا: "ہاں بھئی چلو"
خدا جانے اب تک وہ وہاں کھڑے کیا سوچ رہے تھے۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:3.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں