گاڑی میں - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-04

گاڑی میں - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 4

paudey-krishan-chander-04

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

گاڑی میں

تھرڈ کے ڈبے پر "سکندرآباد" لکھا ہوا تھا۔ سکندرآباد جو حیدرآباد دکن میں واقع ہے۔ تھرڈ کا ڈبہ جو نظام اسٹیٹ ریلوے کی ملکیت تھا اس وقت بوری بندر کے سٹیشن پر کھڑا تھا اور مسافر اس میں گڑ کی بھیلیوں کی طرح لدے ہوئے تھے۔ نظا م اسٹیٹ ریلوے کے تیسرے درجے کے ڈبوں میں بھی بجلی کے پنکھے لگے ہوتے ہیں، چنانچہ جہاں ترقی پسند ادیبوں کا گروہ بیٹھا تھا وہاں اتنی گھٹن نہ تھی۔ دراصل ان لوگوں نے اپنے بیٹھنے کے لئے اچھی جگہ حاصل کر لی تھی۔ پورے ڈبہ میں صرف دو پنکھے تھے اور جہاں یہ پنکھے تھے ، وہیں ترقی پسند ادیب بھی تھے، دونوں پنکھوں کے نیچے آمنے سامنے ٹولیاں بنا کے بیٹھ گئے تھے۔ گاڑی میں اس لئے بیٹھے تھے کیوں کہ حیدرآباد دکن جا رہے تھے۔ اور حیدرآباد دکن اس لئے جا رہے تھے کہ وہاں اردو کے ترقی پسند ادیبوں کی کل ہند کانفرنس تھی۔

ایک ٹولی میں سید سجاد ظہیر ، ڈاکٹر ملک راج آنند، مدن گوپال، سبط حسن، اوپندر ناتھ شامل تھے۔ دوسری ٹولی میں علی سردار جعفری ، رفعت سروش، قدوس صہبائی، عادل رشید ، کرشن چندر اور کیفی اعظمی تھے۔ کیفی اعظمی نے اپنی ہیئت ایک چرس پینے والے فقیر کی سی بنا رکھی تھی، وہ ایک بوسیدہ کمبل اوڑھے ہوئے، کھڑکی سے پیٹھ لگائے آنکھیں بند کئے اونگھ رہے تھے اور دوران سفر میں کبھی کبھی آنکھیں کھول کر کمالِ حیرت و استعجاب سے ا پنے ساتھیوں کی طرف دیکھ لیتے۔ ان کی نگاہ گویا کہہ رہی تھی۔۔
"ہائیں! تم لوگ ابھی تک اس ڈبے میں ہو، کچھ کھا کے سو کیوں نہیں گئے؟"
ان کی شکایت آمیز نگاہوں کا نوحہ ادیبوں کے لئے اک مسلسل مرثیہ تھا۔ عادل رشید اپنی سیٹ پر اس طرح بیٹھے تھے گویا فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے ہوں۔ سبط حسن، اور مہندر ناتھ نے دنیا کی بے ثباتی اور موجودہ دور کی رجعت پسندی پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد شطرنج بچھالی تھی اور مہروں کو پیٹنے میں مصروف ہو گئے کیوں کہ امیر لوگوں کو پیٹنے سے تو یہ لوگ رہے۔ رفعت سروش کا سانولا چہرہ اپنی معصومیت اور خطرناک سادگی کی مکمل رعنائیاں لئے ہوئے ایک سرمئی کبوتر کی طرح نظر آرہا تھا۔ جو اپنی چھتری پر بیٹھا ہوا بڑی بے صبری سے دانے کا اظہار کر رہا ہو۔ جی چاہتا تھا کہ کوئی اس کے کان میں چپکے سے کہدے: "غٹر غوں۔۔۔ بول کبوتر بول!"
گاڑی کے چھوٹنے میں ابھی دو منٹ باقی تھے، کرشن چندر نے جو حال ہی میں کسی فلم کمپنی میں ملازم ہوا تھا، اپنی نئی امارت جتانے کے لئے چار روپے کے سنگترے پھل والے سے خریدے، اور انہیں اپنے ساتھیوں میں بانٹنے لگا۔ ازل کا بھوکا اور کمینہ، ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا:
"لو بھئی کھاؤ نا۔ ارے یار بہت میٹھے ہیں یہ سنگترے" اور چہرے پر وہی جھوٹی مسکراہٹ تھی۔ "خوب ہیں یہ سنگترے۔ رنگترے، رس بھرے، ارے بھائی اس میں وٹامن بھی ہے۔ اماں یار ایک تو چکھو"۔ پلکیں جھپکا جھپکا کر وہ سنگترے تقسیم کر رہا تھا۔ راک فیلر کا سالا!

ادیبوں کے کاہن ملک راج آنند اور سید سجاد ظہیر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ دونوں براق کھدر میں ملبوس تھے۔ سجاد ظہیر کے کھدر کا رنگ سپید تھا تو ملک راج آنند کا رنگ جوگیا تھا لیکن لباس دونوں کا وہی تھا۔ وہی ٹوپی، وہی جواہر جیکٹ، وہی پائجامہ۔ ملک راج آنند کے منہ میں پائپ تھا ، تو سید سجاد ظہیر کے لبوں پر تبسم۔ ملک راج آنند کے گداز اور سرخ کلے اور اس کے بھرے بھرے فربہ ہونٹ انگلستان کی آسودگی کے مظہر تھے۔ ان کے پائپ کا دھواں اڑ کر چھت کی طرف جاتا تھا۔ اور پھر یکایک پنکھے کی ہوا سے فضا میں منتشر ہو جاتا تھا۔ آنند اور سجاد ظہیر دونوں ادبی کانفرنس کے پروگرام طے کر رہے تھے۔ اور مدن گوپال جنہوں نے منشی پریم چند کے آرٹ پر ایک کتاب انگریزی میں لکھی ہے۔ ان کے قریب بیٹھے ہوئے ان دونوں ادیبوں کی گفتگو اس انہماک سے سن رہے تھے گویا کسی الہامی تفسیر سے روشناس ہو رہے ہوں۔ مدن گوپال کا خاصہ یہ ہے کہ وہ محض اپنی خاموشی ہی سے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
مہندر ناتھ اور سبط حسن کبھی کبھی بسار سے گردن اٹھا کر نگاہ پھیر کر ڈبے میں چاروں طرف دیکھ لیتے۔ اور کہیں آسودگی نہ پاکر پھر مہروں کو پیٹنے میں مصروف ہو جاتے۔ قدوس صہبائی مدیر "نظام" تکیہ کا سہارا لئے منہ میں یوکلپٹس کی گولی ڈالے ، دونوں ٹانگیں سکیڑے اس طرح بیٹھے تھے، گویا پرانی بواسیر کے شکار ہیں۔ کرشن چندر نے از راہ ہمدردی ان سے کہا۔۔۔ "لیجئے۔ آپ بھی کھائیے نا۔۔۔!"
"شکریہ" وہ بولے۔۔ "مجھے تو نزلہ ہے"۔ اس کے بعد انہوں نے خود سگریٹ پیش کیا۔۔ "لیجئے۔"
"شکریہ۔" کرشن چندر نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ "مجھے تو پیچش ہے، اور پیچش میں تمباکو۔۔ آپ خود جانتے ہیں ؟ میں خوب جانتا ہوں"۔
قدوس صہبائی نے شہیدوں کا سا تبسم اپنے چہرے پر لاکر کہا۔۔۔" مجھے دس سال سے پیچش ہے۔"
"مجھے پندرہ سال سے ہے۔" کرشن چندر نے عاجزی سے کہا۔
" اور میرے نرخرے کے اعصاب میں ورم بھی ہے۔" قدوس صہبائی نے نہایت انکسار سے جواب دیا۔
"میری آنتوں میں سوزش ہے اور دل میں اختلاج ہے اور جگر میں پتھری ہے۔" کرشن چندر نے نہایت ہی مسکین ، میٹھے لہجے میں کہا:
"ڈاکٹر کہتے ہیں میں صرف تین سال تک زندہ رہوں گا۔ خدا خیر کرے ، میرا وہ ناول مکمل ہو جائے۔"
"کون سا ناول؟" قدوس صہبائی نے پوچھا۔"کوئی نیا ناول آپ لکھ رہے ہیں۔ بھئی ، ذرا جی لگا کے لکھئے گا وہ آپ کا ناول۔۔۔شکست۔۔۔ تو بالکل۔۔ معاف کیجئے گا۔۔۔ بھئی فلاپ ہے۔۔ بالکل۔۔۔"
کرشن چندر سنگترے کی پھانک کھاتے کھاتے اس کے کڑوے بیج بھی نگل گیا۔ کہنے لگا۔۔ " ذرا یہ۔۔۔ اس پنکھے کا رخ اس طرف موڑ دیجئے۔ اف کس قدر گرمی ہے دم گھٹا جا رہا ہے"۔
قدوس صہبائی نے مسکرا کر کہا۔۔۔"یہ یوکلپٹس کی گولی لیجئے، مفرح ہے۔"
"وہ مارا۔۔۔ وہ مارا۔۔۔ دوستو۔۔ وہ مارا۔" یکایک مہندر ناتھ دہاڑا۔
"کیا بات ہے، کیا بات ہے؟" یکایک کیفی اعظمی نے گھبرا کر اور آنکھیں کھول کر پوچھا۔
"دوستو، میں کچھ نہیں کہتا۔ بس اس سبط حسن سے پوچھو۔ مات دیدی اسے کہ نہیں۔ وزیر اور فیل اور سب پیادے دھرے کے دھرے رہ گئے دوستو۔"
سبط نے اپنے گھنگھریالے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اک نستعلیق انداز میں کہا:
"اماں، ہٹاؤ بھی۔ کیوں شور مچاتے ہو، بے کار، آخر پنجابی ہونا۔ تو آؤ، اب کے تمہیں مات نہ دیدیں تو۔۔۔"

گارڈ نے یا خدا جانے کس نے سیٹی بجائی اور گاڑی چلنے لگی۔ ادیب گاڑی سے باہر جھانکنے لگے۔ لیکن ان بیچاروں کو الوداع کہنے والا وہاں کون تھا۔ ایک خوب صورت ایرانی عورت اپنے خاوند کو الوداع کہہ رہی تھی۔ ایک پارسی لڑکی قوس قرجی ساڑھی پہنے دوسرے درجے میں کھڑی رومال ہلا رہی تھی۔ اور اس کا محبوب پیار بھری نگاہوں سے اسے تکتا گیا۔ اور گاڑی آہستہ آہستہ چلتی گئی ایک مرہٹے نے اپنے بیٹے سے کہا:
" گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ شولا پور پر بھائی صاحب تجھے گاڑی سے اتاریں گے۔ گھبرائیو نہیں"۔
لیکن ان ادیبوں کے لئے وہاں کوئی نہ تھا۔ نہ باپ ، نہ محبوب، نہ مداح ، بے چارے خود ہی ہاتھ ہلا ہلا کے رہ گئے۔ اور جب گاڑی پلیٹ فارم سے باہر نکل گئی تو پھر اپنی سیٹوں پر آن بیٹھے اور بے بسی کے عالم میں اونگھنے لگے۔
کرشن چندر جب اداس ہوتا ہے تو سگریٹ پیتا ہے ، لیکن خود خریدکے کبھی نہیں پیتا ہے۔ ہمیشہ دوسروں سے مانگ کر پیتا ہے ، اس کی اس عادت سے، اس کے دوست اچھی طرح واقف ہیں۔ اور اسے اکثر پریشان بھی کیا کرتے ہیں۔ اس وقت بھی کرشن چندر کو سگریٹ کی طلب محسوس ہوئی ، لیکن اسے کسی نے سگریٹ نہیں دیا۔ نہ جانے ان لوگوں کے پاس سگریٹ نہیں تھا، یا ان لوگوں نے اسے پریشان کرنا ہی مناسب سمجھا۔ بہرحال اسے اپنے ساتھیوں سے سگریٹ نہیں ملا۔ اور وہ مایوس ہو کر اور گردن جھاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اور اس کے دل کی ویرانی اور بڑھ گئی۔ یکایک اس کے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہنی مار کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ کرشن چندر نے دیکھا، ایک کالا بھجنگ بدصورت نوجوان ہے، جس کے دانت بے حد سپید ہیں۔ اور اپنی جلا سے موتیوں کو بھی شرماتے ہیں اور وہ اسے سگریٹ پیش کر رہا ہے۔ کرشن چندر نے شکریہ کے ساتھ اس سگریٹ کو قبول کیا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ نوجوان نظام اسٹیٹ ریلوے میں مزدور ہے۔ اور حیدرآباد دکن جا رہا ہے، کرشن چندر کو یاد آیا۔ سنگترے تقسیم کرتے وقت اس نے اپنے ہمسائے کو سنگترہ نہیں پیش کیا تھا۔ کیونکہ اس کے کپڑے نیلے رنگ کے تھے اور میلے کچیلے تھے، اور اس کا رنگ کالا تھا۔ اور وہ بدصورت ، بے ڈول اور کریہہ منظر تھا اور مزدور تھا۔
کرشن چندر نے سگریٹ پیتے پیتے سوچا کہ وہ ابھی تک بورژوائی اخلاق کے تضاد میں گرفتار ہے۔ سردار نے اس کی ذہنی کشمکش کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا:
"دیکھا تم نے ایک پرولتاری کا اخلاق؟"
اور پھر فوراً چپ ہو گیا۔ رفعت سروش نے عادل رشید سے کہا:
"بھئی، ہمیں تو بھوک لگی"
سیٹ کے نیچے ایک ٹوکری میں کچھ سامان خورد و نوش بھی تھا۔ عادل رشید نے وہ ٹوکری اٹھا کر اپنی ران پر رکھ لی۔ اور اب وہ دونوں انڈے اور روٹی مکھن نکال نکال کر کھانے لگے۔ مکھن ٹین کے ڈبے میں بند تھا۔ اور چاقو کسی کے پاس نہ تھا۔ اس وقت وہی مزدور اپنے کام آیا۔ اور سب لوگ کھانے میں مصروف ہوگئے۔ اس مرتبہ بھی کرشن چندر اپنے ہمسائے کو کھانے کے لئے پوچھنا بھول گیا۔ سب لوگ جلدی جلدی انڈے توس مکھن اور پھل ڈکار گئے۔ بہت عرصہ بعد یکایک کرشن چندر کو خیال آیا اور اس نے چونک کر کہا:
"ارے بھئی، کچھ اسے بھی دے دیا ہوتا اپنے ساتھی کو۔"
مزدور مسکرایا، وہ ان کا ساتھی تھا۔ لیکن انڈے توس، مکھن، پھل کھانے والا ساتھی نہیں۔ وہ تو فرش خاک پر بیٹھ پر تقریریں سننے والا ساتھی تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنے چاقو سے مکھن کو الگ کیا۔ اور اسے بند کر کے اپنی جیب میں ڈال کر چارمینار کا سگریٹ پینے لگا۔

ترقی پسند ادیبوں کے علاوہ اس ڈبے میں کوئی سو ڈیڑھ سو آدمی اور ہوں گے ، دو مولوی تھے ، چار سود خوار پٹھان تھے۔ آٹھ دس بنئے تھے جو دوسرے درجے میں سفر کر سکتے تھے۔ لیکن روپیہ بچانے کی خاطر تھرڈ میں آلتی پالتی مار ے بیٹھے تھے ، کوئی پندرہ بیس ریلوے کے مزدور تھے۔ ایک چنا جور گرم بیچنے والا تھا۔ ایک دیسی عیسائی اپنی بیوی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ بیوی نے اپنے تین بچے سیٹوں پر سلا رکھے تھے، اور خود بھی نیلا سا عبایہ پہن کر پھکڑا مارے بیٹھی تھی ، اس کی سیاہ اور مضبوط ٹانگیں گھٹنوں تک ننگی نظر آتی تھیں۔ اور بالوں سے پر تھیں۔ ٹخنوں پر اونچی ایڑی کے سپید سینڈل کا تسمہ بندھا تھا۔
اس ڈبے کے چار دروازے تھے ، ہر دروازے پر مفلوک الحال کسان بوسیدہ چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے کھڑے تھے۔ اور بلند آواز میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ کتنی عجیب باتیں تھیں وہ، زمین کی باتیں، پٹواری کی باتیں، جریب اور کھتونی کی باتیں، ہل کی باتیں، بیل کی باتیں، قحط کی باتیں ، بیاہ کے لئے بنئے سے سود پر رقم حاصل کرنے کی باتیں، گھر کو گروی اور زمین کو رہن کرنے کی باتیں، عجیب و غریب باتیں، نہ عشق و محبت کی باتیں، نہ حسن جہاں سوز کی باتیں، ساقی کی باتیں نہ شراب ناب کی باتیں، مذہب کی باتیں، نہ جنت کی باتیں۔۔۔ اک بے پناہ شور تھا ، اک مسلسل ہنگامہ ایک مستقل دوزخ ، اک آگ اک بو، اک سٹراند جیسے وہ تھرڈ کا پورا ڈبہ انسانیت کا سنڈاس تھا۔ اور جس میں ترقی پسند ادیب اس طرح دھرے تھے جس طرح کوئی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سیب کی سرخ و شپید قاش پھینک دے۔

ڈاکٹر ملک راج آنند نے کہا: "ادب کی دوامی قدریں ، بھی ہوتی ہیں"۔
بے شک ، بے شک۔ مدن گوپال نے طوطے کی طرح رٹتے ہوئے کہا۔
کون سی دوامی قدریں ہوتی ہیں جناب؟ علی سردار نے گویا گھونسہ دکھاتے ہوئے کہا، سردار کے چہرے پر سیاسی مجرموں کی صعوبتوں کے تمام نشانات موجود ہیں۔ اسکی پیشانی پر مستقبل کے نئے عزائم روشن ہیں ، وہ جب بات کرتا ہے دانت پیس کر، قہر میں ڈوب کر، ایک جلالی مجذوب انداز میں۔ جو بات چہرے میں ہے، وہی چال ڈھال میں، وہی گفتار میںِ، اک تنا ہوا ٹھوس گھونسہ، اک جامد ہتھوڑا، اور ہنسیا سرخ جھنڈا، گویا اس کے چہرے پر گڑا ہوا ہے! سردار کی ذاتی شخصیت اب گھٹتے گھٹتے صفر ہو کے رہ گئی ہے، اس سے بات کیجئے، معلوم ہوتا ہے، آپ ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ایک تحریک کا سامنا کر رہے ہیں۔ فلسفہ کی اک مشق کا مطالعہ کررہے ہیں۔ اک نئے انداز فکر سے دوچار ہورہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ کس نے اس کے دل کو شاعر بنا دیا ہے۔ پھول سے کھل گئے تصور میں۔ دامن شوق بھر گیا کوئی۔۔

ملک راج آنند نے پائپ کی راکھ جھاڑ کر ایک مخصوص مدبرانہ انداز میں کہا:
یہی خوبصورتی۔ بترتیب، بہترین جمال مجھے یہ جان کر افسوس ہوتا ہے۔ کہ جہاں ہندوستانی ادیبوں نے سماجی مواد کی فراہمی میں اتنی مستعدی سے کام لیا ہے وہاں وہ اسے پیش کرنے میں کمالِ فن کا ثبوت نہیں دے سکتے۔۔۔ میری مراد ہیئت سے ہے۔ سماجی مواد خوبصورتی سے پیش کرنا ہی صحیح حسن کاری ہے۔ جنگ کے دوران میں ہندوستانک ے ترقی پسند ادیبوں نے کون سا ایسا قابل فخر کارنامہ۔۔
کشن چندر نے جھلا کر کہا۔۔ اور آپ کے انگریزی ادیبوں نے کون سا ایسا کمال کرکے دکھادیا ہے۔ آپ کے آڈن نے۔۔۔
آڈن بہت بڑا شاعر ہے جناب، آنند نے جواب دیا۔ اس کی شاعری میں شیکسپئیر کے کلام کی عظمت ہے۔
کرشن چندر نے سنی ان سنی کرکے کہا۔ آپ کے آدن نے، سنڈر نے، لیک مینس نے، سکسلے نے، بریسٹلے نے، کوئی یوگا میں الجھ کے رہ گیا تو کوئی سٹینٹ فلموں کے مکالمے لکھنے لگا۔ بریسٹلے سیدھا سادا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ انگریزی استعماریت کے حق میں ، نیور ے نکلس ہندوستانیوں کو صلواتیں سناتے ہیں۔ کچھ اگ اے۔ آر۔پی پر کتابیں لکھ رہے ہیں۔ واہ رے حسن کاری۔۔
یہ میں مانتا ہوں کہ ابھی تک بیشتر امریکی اور انگریزی مصنف اس نیم جمہوری استعماریت کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ اس لئے ان کا خیال ہے ، کہ ان کی تہذیب اور ان نکا سماج اور ان کا اقتصادی نظام ابھی بیس پچیس برس اور چلے گا۔ اس لئے وہ کیوں خواہ مخواہ اس سے لڑائی مول لیں۔ اور اپنی روزی خطرے میں ڈالیں۔ وہ اتنے بے وقوف نہیں ہیں۔ اب یوروپی مصنفوں کو لیجئے، جدید یوروپی شاعری کو جو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

"کہاں ہو رہا ہے؟" سردار نے جل کر کہا۔ ایک آراگان کو چھوڑ دیجئے۔ اور وہ ایک اور کو۔۔ باقی شاعروں نے کیا اپنے آپ کو اور اپنے فن کو نازیوں کے حوالے نہیں کردیا تھا۔ خاص طور پر فرانسیسی زوال پسندوں نے، کہئے تو ایک نہیں، درجنوں مثالیں پیش کردوں۔ ابن الوقتی پر آدرش کو قربان کردینے سے کبھی آرٹ یا آرٹسٹ عظیم نہیں ہو سکتا۔ APOCALYPTIES آنند نے شروع کیا۔ لیکن اب اس پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے تھے۔
کیفی نے جھنجھلا کر کہا۔ اس گروپ کا کیا کہتے ہو۔ ایک ہی مجموعہ چھاپ کے رہ گئے ، لغویات کا پندہ چلے تھے۔ ومیش دیو مالا کے بل قوم کی حالت سدھارنے ، ومیس دیو مالا جس میں انسانی بھیڑیوں کے قصے ہیں۔ اور جہاں دوست کی بیوی کو بہکانا بھی دیوتائی میں شامل ہے۔ کیا یہی ادب کی دوامی قدریں ہیں۔ کیا انہی قدروں کی بناء پر ایک نئے، بہتراور بھرپور سماج کی داغ بیل ڈالی جائے گی؟
"ارے کن لوگوں کا ذکر کر رہے ہو؟" سردار نے کہا۔ وہ بیچارے تو کب کے ختم ہو گئے۔ اب تو شاعری چھوڑ چھاڑ کے اپنے پیٹ کا دھنداکر رہے ہیں۔
بے شک ، بے شک۔۔ مدن گوپال نے دریں چہ شک کی گردان دہرائی۔ اور عادل رشید بے ساختہ ہنس پڑے، جس پر انہیں غصہ آگیا۔ اور وہ عادل رشید کو گھورنے لگے۔
آنند نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ بھئی ہم نے بھی بہت پڑھا ہے۔ ہم نے بھی اقبال اور جوش کا مطالعہ کیا ہے۔ لندن میں بیٹھ کے جھک نہیں مارتا رہا ہوں۔ مجھے تو معاف کیجئے ، ان میں کوئی عظیم بات نظر نہیں آتی۔ اقبال بہت اچھے ہیں، لیکن ان کا فلسفہ متضاد خیالات کا مجموعہ ہے اور جوش اردو میں توبہت شوروغل مچاتے ہیں۔ لیکن جب بھی انگریزی میں ترجمہ کرو گھاس معلوم ہوتے ہیں۔ بالکل گھاس۔

آپ خود گھاس کھا گئے ہیں۔۔۔ سردار نے غصے میں آکر کہا۔۔ آنند صاحب پہلے آپ اس ملک کی حالت اندازہ کیجئے اس کی ادبی تحریکات کا مطالعہ کیجئے۔ اس کے سیاسی رجحانات کا تجریہ۔۔۔۔
دوستو! مہندر ناتھ نے چیخ کر کہا۔ دوستو۔ مارڈالا۔ کچل کے رکھ دیا۔ دوستو میدان جنگ سے بھگا دیا۔
کیا ہوا بھئی؟ سجاد ظہیر نے سخت پریشان ہوکے پوچھا۔
"کچھ بھی تو نہیں" سبطے نے چیں بجیں ہوکے کہا۔ بس ایک دفعہ اور مات کھلادیویں۔ جب سے گلا پھاڑ پھاڑ کے چلا رہے ہیں میرے یار۔ پنجابی ڈھگے ہیں نا آخر۔ تہذیب چھو تک نہیں گئی ہے۔ ہ ٹاو یہ بساط ہم نہیں کھیلتے۔
لاؤ ہم تمہاری مدد کرتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
بہت خوب۔ آپ میری مدد کریں گے۔ آپ؟ سبطے نے طنزیہ انداز میں کہا۔
کیوں مجھے کیاہوا ہے؟ سردار نے چونک کر پوچھا۔
آپ؟ سبطے ہنسا۔
ہاں میں!
آپ!
ہاں! ہاں میں! اب سردار کو واقعی غصہ آگیا۔
تم!
میں!!
تم!!!!
بے شک ، بے شک، مدن گوپال نے سرہلا کر کہا۔ اور سب ہنس پڑے۔

گفتگو ایک لمبے عرصے کے لئے خو دبخود بند ہوگئی، سجاد ظہیر، رفعت سروش، عادل رشید، اور مہندر ناتھ کسی نہ کسی طرح سو گئے۔ جب یہ سب سو گئے تو چرس پینے والا فقیر کیفی اعظمی اک گونہ بے خودی سے سرشار ہوکر گنگناے لگا۔ قدوس صہبائی چسکی لے کر یوکلپٹس کی میٹھی گولی چوسنے لگے۔ آنند الکسی ٹالسٹائی کی ROAD TO CALYENY پڑھنے لگے۔ مدن گوپال نے پریم چند کے متعلق اپنا انگریزی شاہکار پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ اور اس پر پنسل سے نشان لگاتا گیا۔ گویا دوسرے ایڈیشن کے لئے اسے نئی نئی باتیں ابھی سے سوجھ رہی تھیں۔ کرشن چندر کا جی پان کھانے کو چاہتا تھا۔ لیکن گاڑی کہیں رکتی نظر نہ آتی تھی۔ اس نے سبط حسن سے کہا: دم گھٹا جا رہا ہے۔
اگلے اسٹیشن پر اتر کر ڈائننگ کار میں چلیں گے۔ سبطے نے تجویز پیش کی۔
میں بھی چلوں گا۔ سردار نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
پھر خاموشی چھا گئی۔
یعنی ڈبے کے بیچ میں خاموشی تھی۔ ورنہ چاروں طرف شور تھا۔ اور کسان اور مزدور اور غریب بد صورت مفلوک الحال لو گ چلاچلا کر باتیں کررہے تھے۔ اس قدر اکیلے، کمینے اور بھوکے لوگ وہ تھے۔ کہ اگر نہ چلاتے تو شاید پاگل ہوجاتے۔ اس خاموش کائنات کی اندھی بسیط گناہ گار خاموشی میں دب کر رہ جاتے۔ اسی لئے تو ان کی روحیں چیخ چیخ کر اپنی زندگی کا نوحہ بیان کررہی تھیں۔ وہ ہنستے تھے، بات کرتے تھے ، مسکراتے تھے ، خوش ہوتے تھے ، غصے میں آکر چیختے تھے لیکن بات ایک تھی۔ نوحہ، مرثیہ، دفنائی ہوئی کفنائی ہوئی آرزؤں کے ننگے مزار۔ ہر ہنسی کے پیچھے، ہر تبسم کے پیچھے، ہر انداز گفتگو سے مرکز میں گویا اپنا سینہ کھولے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ لو ، جاہل وحشی ظالم درندو۔ ہمیں بھنبھوڑ کر کھاجانے والو، دیوتا نما شیطانو ، آہا آہا۔۔ ہمیں قریب سے دیکھ لو۔۔۔
کرشن چندر نے منہ پھیر لیا، باہر شفق کھل گئی تھی۔

سبطے کے ذہین چہرے پر کرب کی لہر آئی۔ اس نے آہستہ سے کہا، وہ دیکھا تم نے۔۔۔
سبطے کے چہرے پر کرب کی بے شمارلکیریں ہیں، جیسے سمندر کا جھاگ ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر پختہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ذہنی اساسات کا تموج سالہا سال سے اس کے نازک چہرے پر یخ بستہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اس کا چہرہ خفیف ہے خفیف انسانی جذباتکا بھی عکاس ہے اور اکثر ایسا معلو م ہوتا ہے۔ گویا سبطے نے زندگی سے کرب ہی اخذ کیا ہے۔ زندگی کی بے پناہ صعوبتوں اور گہری سے گہری مسرتوں سے بھی اس نے کرب ہی حاصل کیا ہے۔ غالباً اس کے انداز فکر میں ایک ایسی نازکی ہے اور اس کے احساسات اور جذبات پر اک ایسی شدت کی کیفیت ہے جو اسے ہر غم سے اور ہر مسرت سے اک خاص قسم کا درد محسوس کراتی ہے۔ اک حسین کلی کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ جیسے ایک نکہت زدہ بھکاری کو دیکھ کے اس کا چہرہ شدت احساس کا وہ مرکز اتصال ہے جہاں حسن اور غربت ، دونوں ایک درد کی تفسیر بن جاتے ہیں۔ اپنی جوان سالی کے باوجود یہ چہرہ، بوڑھا ہوچلا ہے۔ اس میں صدیوں کی پختگی آچلی ہے۔ کرب کی ننھی ننھی لاکھوں لکیریں اس چہرے کے ہر روزن سے شب و روز جھانکتی نظر آتی ہیں جیسے انہوں نے دنیا کے سارے غم کا احاطہ کرلیا ہو۔

شفق کے نازک رنگوں سے سبطے کے چہرے پر وہی مخصوص کربناک کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے آہستہ سے کہا۔۔ وہ دیکھو۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔
کرشن چندر نے شفق کی طرف دیکھا، افق پر پھولی ہوئی سرسوں کی کیاریاں کشمیر کی کشت ہائے زعفران، اسے بھی شفق بے حد پسند ہے۔ شفق جو اس کے دل میں نہ تھی۔ یہ پیلا پیلا سنہرا جادو جو اس کی روح میں نہ تھا۔ یہ شادابی، یہ رنگینی یہ حسن کاری جس کے نہ ہونے سے اس کا رواں رواں بھوکا تھا۔ یہ شفق جواب زعفرانی بھی نہ تھی، جو اب گل مہر کے پھولوں کی طرح شعلہ بداماں تھی۔ سورج نیچے ڈھل گیا تھا۔ بادلوں کا ہر غرفہ پھول پھول تھا۔
سبطے نے کہا۔۔ وہ دیکھو۔۔ وہ دیکھو۔۔۔
سیاہ بادلوں کے پیچھے سونا ابل رہا تھا۔ سیاہ بادلوں کے مرکز میں آسمان نیلا تھا۔ سمندر پر کھڑکی سی کھل گئی تھی۔ اور سورج غروب ہورہا تھا۔ اور وہ کھڑکی میں بیٹھ کر ڈوبتے ہوئے سورج کو تک رہا تھا۔ اور لہریں ریت کو چوم کر واپس چلی جارہی تھیں۔ یہ نور کی لہریں، یہ سورج کا سمندر، یہ خدائی کا مرکز
وہ دیکھو۔۔۔ وہ دیکھو۔
شام بڑھنے لگی، شفق ڈوبنے لگی۔ تاریکی پھیلنے لگی، ہر چیز ڈوب جاتی ہے ، اس تاریکی کے سمندر میں وہ سنہرے رنگ میں گھو گیا۔ وہ گلابی تاج محل شہابی ہوگئے۔ مرمریں سے گلابی، گلابی سے شہابی، شہابی سے قرمزی ، محل ہاتھی بن گئے اور پھر تاریکی۔ نور کی آخری لہر افق سے ٹکرا کر ڈوب گئی اور چاروں طرف اندھیرا چھاگیا۔ اب کچھ نظر نہیں آیا۔ سبطے نے افسردگی سے کہا، اور اسے ڈائننگ کار یاد آئی۔ اگلے اسٹیشن پر وہاں چلیں گے۔
اب کچھ نظر نہیں آتا۔ کرشن چندر نے کہا، بجلی کے کھمبے اور ہرے بھرے کھیت اور پھونس کے جھونپڑے اور دھرتی کے بیٹے اور بیٹیاں۔۔۔
عورت کا ذکر تم ضرور کرو گے۔۔ سردار نے چڑ کر کہا۔ میں کسی ڈاکٹر سے علاج کرواؤ اپنا۔ شفق کو دیکھ کر تمہیں عورت ہی یاد آتی ہے۔ اس خونیں منظرکو دیکھ کے بھلا تمہیں میدان جنگ کیوں یاد نہیں آتا۔

گاڑی دھیمی ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ چلتی چلتی رک گئی۔ سردار سبطے اور کرشن چندر اتر کر ڈائننگ کار میں بیٹھ گئے۔

ڈائننگ کار میں خوبصورت فانوس تھے۔ شفاف بلوری میزیں تھیں، انگریزی شراب تھی، ہنستے ہوئے چہرے تھے ، اور عورتیں جن کے چہرے گلاب تھے۔ قد بوٹا، ہنسی نقرئی اور جسم بر ناب، خون کے لباس کا سرسراتا ہوا ریشم اپنے رنگ و نور سے نگاہوں کو خیرہ کئے دیتا تھا۔ اور وہ بیٹھی ہوئیں مسکرائی ہوئیں اور چلتی ہوئیں اس طرح دکھائی دیتی تھیں ، گویا کسی شیشے کی صراحی میں رنگین مچھلیاں تیررہی ہوں۔ یہ ڈائننگ کار مچھلیاں تھیں۔ یہ وہ مچھلیاں ںہ تھیں جو ساحل سمندر پر گھومنے والی ماہی گیرو ں کی میراث ہوتی ہیں۔

سبطے سردار اور کرشن چندر کو معلوم ہوا ، گویا وہ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔ بیرا سپید مکلف لباس پہنے صروب کھڑے تھے۔ تین کورس کا انگریزی کھانااس کے بعد کافی۔ پھر وہ لوگ اخروٹ کھانے لگے ، صاحب لوگ اخروٹ توڑنے والا ہتھوڑا استعمال کررہے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے دانتوں سے وہی کام لیا۔ مقابل کے میز پر تین انگریز فوجی بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے سے شناسا نہ تھے۔ اس لئے بات نہ کرسکتے تھے۔ ہاں وہ ان قہقہہ مار کر ہنسنے والے ادیبوں کی بد تمیزیون کو بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان تین انگریز فوجیوں کے ساتھ چوتھی کرسی پر ایک موٹا پارسی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بار بار کہہ اٹھتا۔ میں پریشان ہوں میں بے حد پریشان ہوں جیلائی!
ٹھیک ہے، ایک انگریز فوجی افسر نے مسکرا کرکہا۔
نہیں تم نہیں جانتے۔ میں زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔ بیرا ایک لارج برانڈی لاؤ۔ آپ پئیں گے؟
نو، تھینکس ، دوسرے فوجی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
تمہاری مرضی، لیکن میں بہت پریشان ، میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں کس قدر پریشان ہوں۔
فوجی افسر اٹھ گئے۔ موٹے پارسی نے سبطے کی طرف نگاہ دوڑائی اور کہا۔ بھائی میں بہت پریشان ہوں۔
آپ پر یشان نہ ہوں، سبطے نے مشورہ دیا۔
کیسے پریشان نہ ہوں۔ میں تو پریشان ہوں، میں اس زندگی سے اس دنیا سے پریشان ہوچکا۔ یہ سب دھوکا ہے۔ سراب ہے۔ اس نے گلاس ختم کرتے ہوئے کہا۔
بیرا ایک لارج برانڈی اور لاؤ، آپ پئیں گے۔
نہیں، شکریہ! کرشن چندر نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
آپ کی مرضی،مگر میں بہت پریشان ہوں۔
اتنے میں ایک موٹا پارسی آخری میز سے اٹھ کر ادھر آیا۔ دونوں پارسیوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ بڑے ٹھاٹ سے صائب جی، ہوا۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے۔
کیا حال ہے؟ نووارد نے پوچھا۔
کیا پوچھتے ہو دوست، یہ دنیا ایک دھوکا ہے ، سراب ہے، مایا ہے، میں تو بے حد پریشان ہوں۔
آخر ہوا کیا ہے؟
ارے بھئی، امسال ایک کروڑ انکم ٹیکس میں جارہا ہے، اس سال کے بزنس پر۔ بتاؤ ہم لوگ کیا کمائیں گے، جب اسی فی صدی تو سرکار ہی منافع میں سے لے جائے گی۔
تو میں بہت پریشان ہوں۔ کہیں بھاگ جانا چاہتا ہوں، بوائے! دو لارج برانڈی لاؤ۔ اتنا کہہ کر وہ موٹا پارسی میز پر سرپٹک کر رونے لگا۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:4.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں