واپسی - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-09

واپسی - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 10

paudey-krishan-chander-10

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

واپسی
اب وہ لوگ فارغ ہو کر حیدرآباد کے سٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔ ریلوے مزدوروں نے تھرڈ کا ایک چھوٹا سا ڈبہ ان کے لئے وقف کر دیا تھا۔ تاکہ انہیں دوران سفر میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اب اس کمرے میں ان کا سامان رکھا ہوا تھا۔ سٹیشن کا پلیٹ فارم تھرڈ کلاس کی مخلوق سے اٹا ہوا تھا۔ اور غلیظ بستروں اور زنگ آلود سیاہ ٹرنکوں ، بدبودار ٹوکریوں اور کھانچیوں سے ایک غلیظ مال گودام کی صورت میں مبدل ہوچکا تھا۔ جالی والی ٹوکریوں میں مرغیاں کڑ کڑ ا رہی تھیں۔ اور ان کے قریب سیاہ فام گھاٹنیں اپنی کمر کے گرد لپٹی ہوئی مرہٹی، ساڑھی کے پلو سے جوئیں چننے میں مصروف تھیں۔ اتنے میں زور سے ایک موٹر کے ہارن کی آواز کانوں میں آئی۔ اور ایک سیاہ رنگ کی سیڈان سٹیشن کے پلیٹ فارم پر جہاں موٹر گاڑیوں کا آنا ممنوع ہے چلتی ہوئی دکھائی دی۔۔ پوں پوں۔۔ آگے سے ہٹ جاؤ، پوں پوں۔۔۔ پولیس کے آدمی ہنٹر لئے لوگوں کو پرے ہٹانے لگے۔ قلی اسباب راستے سے اٹھانے لگے۔ راستہ صاف ہوتا گیا ، پوں پوں۔ موٹر پلیٹ فارم پر چلتی گئی۔ اور آخر اک ایسے ڈبے کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی ، جو کسی بڑے آدمی کا اسپیشل سیلون معلوم ہوتا تھا۔ کار میں سے پہلے سنہری وردی میں ملبوس ایک اردلی اترا پھر اس نے کار کے دروازے کا پٹ کھولا۔ اور جب تک پولیس کے لوگوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا۔ اور پھر کوئی کچھ نہ دیکھ سکا کہ کیا ہے۔
کیا ہے؟ ایک نے پوچھا۔
سر سلطان احمد کا سپیشل سیلون ہے۔
سرسلطان احمد جو وائسرائے کونسل کے ممبر ہیں۔
جی ہاں۔ وہی۔
یہاں حیدرآباد میں کیا کرنے آئے ہیں؟
اپنے کسی عزیز کی شادی یہاں کرنے آئے تھے۔ وہ دلہن کے لئے کمپارٹمنٹ ہے۔
اور یہ باہر کیا رکھا ہوا ہے؟
دیکھتے نہیں ہو، یہ جہیز کا سامان ہی تو ہے۔

مرغی کے بدبو دار ٹوکروں اور غلیظ جام سے بھری ہوئی کھانچیوں اور زنگ آلود ٹرنکوں سے نظریں پھسلتی ہوئیں اس سازو سامان پر پڑیں، جہاں چاندی کے برتن پڑے تھے۔ اور اخروٹ کی بیش قیمت چیزیں ، اور روپہلے پایوں والے پلنگ اور صراحیاں جن پر طلائی آب و رنگ تھا اور پھر وہاں سے نظریں پھسلتی ہوئیں جوئیں چنتی ہوئی مٹیالی کالی سلونی ، غلیظ گھاٹنوں کے جسموں کو بہ انداز تنفر دیکھتی ہوئیں اس کھڑکی کے باہر جاکر رک گئیں۔
یہاں ریشمی پردہ لہرا رہا تھا۔ آگے مت جاؤ۔ ریشمی پردہ کہہ رہا تھا۔ آگے مت جاؤ۔ ریشم کی دیوار ہے ، اس دیوار کے ادھر تمہاری دنیا ہے۔
غریبی کے متعفن کیچڑ میں کلبلاتی ہوئی مخلوق ، ریشم کی دیوار کے اس طرف دوسری دنیا ہے، جس کی ہر سانس میں آسودہ تعیش کی تعطر ہے۔ ہر تبسم میں کامراں، امنگوں کی شراب ہے۔ ہر لے میں فتح کا مغرور نغمہ ہے اور ان دونوں دنیاؤں کے بیچ میں ایک پتلی شفاف سی ریشم کی دیوار ہے۔ اتنی پتلی اور ایسی شفاف کہ لوگ آر پار دیکھ سکتے ہیں۔ اس دنیا کے لوگ اس دنیا کے لوگوں کو اجنبی نگاہوں سے۔ دشمن نگاہوں سے ، نفرت کی نگاہوں سے تک رہے ہیں۔ تک رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں، ڈر رہے ہیں۔ لیکن کوئی اُدھر یا ادھر سے اِدھر نہیں آتا۔ کوئی اس پتلے شفاف سے پردہ کو ہاتھ کے ایک ہی جھٹکے سے چاک کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔

آؤ۔ آؤ۔ ساتھیو، دیکھو ، یہ سر سلطان احمد کا سپیشل سیلون ہے۔ تمہارا تھرڈ کلاس کا ڈبہ ہے۔ یہ ان کا سبز وردی میں ملبوس بیرا ہے۔ یہ پھٹے ہوئے کالروں والا علی سردار جعفری ہے۔ یہ اخروٹ کا میز ہے۔ جس پر کشمیر کے کاریگروں نے حسین پچی کاری کی ہے۔ وہ رفعت روش کا بھورا بستر ہے۔ جس میں درجنوں پیوند لگے ہیں۔ یہ طلائی صراحی ہے۔ وہ تانبے کا لوٹا ہے۔ یہ کمخواب کی رضائی ہے۔ وہ کھدر کی اوڑھنی ہے۔ یہ موت ہے، وہ زندگی ہے۔
یہ ماضی ہے، وہ مستقبل ہے
یہ اندھیرا ہے وہ اجالا ہے
دیکھو۔ دیکھو، وہ دیوار ٹوٹ گئی۔ موت زندگی سے ، ماضی مستقبل اور رات سحر سے گلے مل رہی ہے۔
لیکن ہیں! دیوار کہاں ٹوٹی ہے؟ یہ توگاڑی چل رہی ہے ، آہستہ آہستہ لوگ الوداع کہہ رہے ہیں۔ مسلم ضیائی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ ابراہیم جلیس کے رخساروں کے گڑھے اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں، نظر کے بال اور بکھر گئے ہیں۔ اور بشیر حاتمی کی محجوب نگاہیں کہہ رہی ہیں: ہم شرمندہ ہیں، بےحد شرمندہ ہیں۔ نہ جانے کیوں۔
گاڑی چل رہی ہے۔
جگر صاحب ہاتھ ہلا کر جلیس سے کہہ رہے ہیں۔۔۔ میں بہت جلد گاڑی سے لوٹ آؤں گا۔ اور چھوٹی بہن کو ساتھ لیتا آؤں گا۔ فکر نہ کرنا۔ اچھا ہے ، اپنے مہمانوں کے ساتھ جا رہا ہوں ، تھوڑی دور ساتھ رہے گا۔۔۔ میرا خیال ہے اب وہ اچھی ہو گئی ہوگی چھوٹی بہن۔۔۔
گاڑی چل رہی ہے۔
سورج ڈوبتا جا رہا ہے۔
سورج ڈوب گیا۔
حیدرآباد غائب ہو گیا۔

گاڑی پھر آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ گویا ان بھک منگوں کا منہ چڑا رہی تھی۔ جو پلیٹ فارم کے کنارے کنارے بھاگ رہے تھے۔ سگنل بینوں کے کبین سور کے چھوٹے چھوٹے ڈربوں کی طرح سطح زمین سے اوپر اٹھے ہوئے تھے۔ گاڑی آگے چل جا رہی تھی۔ لیکن انجن نے ابھی اپنی رفتار تیز نہیں کی تھی کیوں کہ وہ ابھی ابھی گودام سے کوئلہ اور نل سے پانی لے کر فارغ ہوا تھا۔ اور تازہ دم حقے کی طرح گڑگڑا رہا تھا۔ بھکاری جلا رہے تھے۔ بابو صاحب۔ پیسہ، بابو صاحب پیسہ۔ گاڑی شہر سے باہر میدان مین آ گئی تھی۔ سٹیشن کی عمارت، بہت دور پیچھے رہ گئی تھی۔ اور اب یہاں سطح مرتفع پر گارے کی بنی ہوئی ، جھونپڑیاں نظر آتی تھیں۔ ان پر کھپریل کی چھت تھی۔ سوکھیا کی ماری ہوئی بھینسیں میدان میں کھڑی جگالی کر رہی تھیں اور سورنیاں اور سور آس پاس چر رہے تھے۔ اور اتنی دور سے وہ بھی بھینس کے بچے معلوم ہوتے تھے۔ جوہڑوں میں بدبودار غلیظ گہرا سبز پانی ٹھہرا ہوا تھا۔ اور کہیں کہیں کھائیوں میں لوگ رفع حاجت کے لئے گاڑی کی طرف پیٹھ کئے ہوئے بیٹھے تھے۔ بھک منگوں کی آواز بار بار کانوں میں آ رہی تھی۔ بابو صاحب ، پیسہ۔ بُدھ کے وقت میں یہی ہندوستان تھا۔ یہی غلیظ جوہر، یہی گارے کی جھونپڑیاں، یہی بھک منگے، اشوک کے عہد میں بھی یہی ہندوستان تھا۔ اکبر کے عہد میں بھی یہی۔
اور آج دو سو سال کی انگریزی حکومت کے بعدبھی لوگ اسی طرح گاڑی کی طرف پیٹھ کئے بیٹھے تھے۔ آئے۔ آئے۔ کہیں سے آئے۔ وہ زندگی کی بیدار افق اس ساکن منجمد بے حس دنیا میں، اس گہری اتھاہ تیرگی میں آئے۔ کہیں سے آئے وہ نور کی کرن۔ وہ صبح کی سرخ لکیر۔ محبوب کے پائل کی ناچتی ہوئی آواز آئے۔ کہیں سے آئے۔ اور تاروں بھری افشاں کی طرح چمک کر ہندوستان کے ماتھے پر جگمگائے۔۔

پھر گاڑی تیز چلنے لگی۔ اندھیرابڑھتا گیا۔ تاریکیاں شبنمی لبادے اوڑھ کر چاروں طر ف چھاگئیں۔ دل کسی نامعلوم خوف اور اداسی سے معمور ہو گئے۔ سب چپ تھے۔ صرف جگر ملتجیانہ تبسم سے ادیبوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
میں اپنے گاؤں جا رہا ہوں۔
سب خاموش تھے۔
میری بہن بیمار ہے۔
کوئی نہیں بولا۔
مجھے اپنی بہن سے بڑی محبت ہے۔ مجھے گھر میں سب سے چھوٹی بہن ہی پیاری لگتی ہے۔ ہماری ایک ہی بہن ہے اور ایک عرصے سے بیمار ہے۔ لیکن یہی اسے چندوجوہات سے اب تک حیدرآباد نہ لا سکا۔

چپ چاپ۔۔۔ گاڑی چلتی رہی۔
میں اسے حیدرآباد لے آؤں گا۔ ڈاکٹر اجنکیا سے اس کا علاج کراؤں گا۔ ڈاکٹر نائیڈو کو بھی دکھاؤں گا۔ میں نے دو سو روپیہ۔۔۔۔۔ اس کی بیماری کے علاج کے لئے بچا کے رکھا ہے۔
ہم دونوں کیسے امرود توڑ کے کھایا کرتے تھے۔ میں اس کے لیے لچھمن کے گھر سے املی چرا کر لایاکرتا تھا۔ اسے میٹھے بیربہت پسند ہیں۔۔۔
وہ اپنی یادوں میں کھو سا گیا۔ سب لوگ چپ رہے۔

ہولے ہولے کیفی گنگنانے لگا۔ اپنی مخروں محبت کا گیت۔ وہ گیت جس میں اس نے اپنے کھانستے ہوئے سینے کی آرزوئیں، اپنی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کا فور اور اپنے زرد چہرے کی راکھ کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔ وہ ہولے ہولے گارہا تھا جیسے اپنے دل کے بچے کو لوری دے رہا ہو۔ وہ خود اپنے لئے گا رہا تھا۔ صرف اپنے لئے۔۔۔
لیکن اس ڈبے میں کون تھا جس نے اس گیت کو اپنے لئے نہیں سمجھا۔ جسے اس کے ہر شعر میں ، ہر مصرعے میں، ہر لفظ میں، اپنے عشق کی جھلک ، اپنی ناکامی کی تصویر اور اپنے محبوب کی تنویر نظر نہیں آئی جیسے تصور میں کوئی مسکرا اٹھا۔ کسی نے انگڑائی لی۔ کہیں سے پائیل بج اٹھی اور نغمہ ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا۔۔
اک گرانبار افسردگی بہ محل غبار بن کر سانس روکنے لگی۔ اور پھر ساحر اپنے چیچک زدہ چہرے کے داغوں کو سہلاتا ہوا اپنی سیٹ پر جھک گیا اور اپنے ہاتھ ٹھوڑی پر رکھے ان نغموں کا ذکر کرنے لگا جو اس نے اپنے محبوب کے پیار کی خاطر لکھے تھے۔ وہ نغمے جن کی پہنائیوں میں اس کی زندگی کی بہاروں کے سر چشمے ابلتے تھے۔ اور جس کے زعفران رنگ کھیتوں میں اس کی سر مست آرزوؤں کی مہک تھی۔ ہولے ہولے آہستہ آہستہ۔ شرماتے ہوئے ، مجرمانہ اندازمیں وہ گا رہا تھا۔
گاڑی جتنی تیز تھی، گیت اتنا ہی ہولے تھا۔ کہیں کوئی سن نہ لے۔ اس کے پیار کا گیت۔ اس کی محبت کی شکست ، اس کی زندگی کی موت۔ لیکن کون اس وقت ساحر نہ تھا۔ یہ نغمے کس نے بازار میں نہ بیچے تھے۔ کس نے کیفی کی طرح اپنے لئے ہر غم کی بھاری سل نہ باندھی تھی جس کے بوجھ سے سینہ یوں چور چور ہو گیا تھا۔ کس نے غم جاناں کی منزل سے گزر کر غم دوراں کو اپنایا نہ تھا۔ کون تھا جو زخمی نہ رہ چکا تھا۔ مخروں نہ رہ چکا تھا۔ شکستہ دل نہ رہ چکا تھا۔۔۔۔

یکایک سبطے نے آہستہ سے کہا۔ آہستہ سے ۔ جیسے اپنے الفاظ کو چوم رہا ہو۔
"وہ ، ہر روز سٹیشن پر ملنے کے لئے آتی تھی ۔۔۔۔"
پھر چپ ہو گیا۔
سب یادوں میں کھو گئے۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ مگر شاید سینکڑوں ہزاروں، لاکھوں،کروڑوں آدمی ایک خاموش گویائی کے طلسم سے مجبور ہوکر وہاں بیان کر رہے تھے۔۔۔ اپنا نوحہ، اپنی حسرتیں، اپنی آرزوئیں، اپنی مسرتیں، جو وہ تھے، جو وہ نیند چاہتے تھے ، سپنے جو ادھورے سے رہ گئے۔۔۔ خوبصورتی، جسے ہونٹ چوم نہ سکے۔ کسی گم شدہ ماضی کی حسرت ، کسی نامعلوم مستقبل کی آرزو، آرزو۔ اور پھر کشمکش حیات کا لہکتا ہوا شعلہ ، تھا، اب نہیں ہے ، اب ہوگا ضرور ہوگا۔۔۔ ضرور۔۔۔

سب یادوں میں کھو گئے۔ اور پھر آنکھیں بند کر کے سپنے دیکھنے لگے۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:10.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں