بطخوں کے ساتھ ایک شام - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 9 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-07

بطخوں کے ساتھ ایک شام - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 9

paudey-krishan-chander-09

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

بطخوں کے ساتھ ایک شام
شام اور رات کے بیچ کے وقفے کے دھندلی دھندلی اداسی، ادیبوں کی پھیکی پھیکی اکتائی ہوئی ، تھکی ہوئی صورتیں مرزا فرحت اللہ کے وسیع و عریض برآمدے کے باہر بطخوں کا بے ہنگم خرام، اردو مجلس میں چائے اور مشاعرے کا بندوبست۔ شاعروں کی آوازیں اور چینی کے پیالوں میں چلتے ہوئے چمچے ، اور سرکیوں کے پیچھے پردہ پوش خواتین کی کڑی تنقید۔
ہائیں، یہ کرشن چندر ہیں۔
کون، وہ ٹھنگنے سے۔۔۔ اری وہ۔۔۔
کرشن چندر نہیں چغد چندر معلوم ہوتے ہیں۔
قہقہہ۔
کرشن چندر کا کھانسنا، وہ کھانسی گویا کہہ رہی ہو، دیکھئے ہم بھی سن رہے ہیں۔
عادل رشید اس طرح بیٹھے ہوئے تھے، گویا میر مشاعرہ وہی تھے۔
قدوس صہبائی۔۔ گویا ابھی چوتھے درویش کی سرگزشت سنا کے سستا رہے ہوں۔
فضا میں اجلے پن کے باوجود تیرگی، عرصہ زماں میں حال کے باوجود ماضی کا دھندلکا۔ متکلف محبت کے باوجود اک کھنچاؤ۔ جیسے رگیں ٹوٹ رہی ہوں۔ جیسے دو زمانے ، دو نسلیں اور دو زاویہ ہائے ایک دوسرے کے قریب آنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں۔ جیسے اندھیرا اجالے میں اور ماضی مستقبل میں اور موت زندگی میں اپنا عکس ڈھونڈ رہی ہو۔
کیفی نے اپنی نظم مرثیہ خوانوں کے اندازمیں سنائی۔ خاموشی، گہرا سناٹا۔
ایک پیر مرشد نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا: آ پ شاعر ہیں۔
پھر خاموشی۔ لوگ اس جملے کی اہمیت پر غور کر رہے ہیں۔
سب مودب بیٹھے ہوئے ہیں۔ گویا کسی ایٹم بم کا انتظار کر رہے ہیں۔
پھر کسی نے کہا: مرزا صاحب ، آپ کچھ سنائیے۔
میرزا صاحب سنانے لگے۔۔ "جمنا کا کِنارہ"۔
حریری پردوں کے پیچھے کسی نے کہا: کِنارہ نہیں، کَنارہ کہئے۔

تہذیب اور کلچر موت کے زہراب میں گرفتار ہوں، لیکن گرامر نہیں بدل سکتی۔ زندگی بدل جائے ، لیکن زبان کی ہیئت نہیں بدل سکتی۔ زمان و مکان میں تغیر کی نمو ہو سکتی ہے۔ ملک و ملت اور افراد و کردار کی ہیئت میں، اطوار و گفتار میں، ان کی سماجی، سیاسی شعوری زندگی میں انقلاب آ سکتا ہے۔ لیکن زبان میں کوئی تغیر ممکن نہیں۔ وہ موت کی طرح اور خدا کے آخری حکم کی طرح قطعی ہے۔
اے لسانی مقابر کو پوجنے والی مخلوق سرجھکائے مودب بیٹھی رہ۔ اس کی فکر نہ کر کہ سر سے طوفان گزر رہا ہے۔ قائزر کی بیش قیمت چائے دانیوں میں ابلتی ہوئی چائے انڈیل، صحن میں آہستہ خرام، کڑکڑاتی ہوئی بدصورت بطخوں کو دیکھ اور سن، جمنا کا کنارہ۔۔ نہیں نہیں جمنا کا کَنارہ! معاف کیجئے گا۔۔۔
کرشن چندر نے جھک کر نظر کے کان میں کہا: خود کشی کے لئے کون سی جگہ بہتر رہے گی۔
نظر نے بہت سوچ بچار کے بعد کہا۔۔ ایکاجی کا ہوٹل۔
"تو چلو پھر وہیں"۔۔

آخر کانفرنس ختم ہو گئی۔
سبطے نے فن صحافت پر اپنا مقالہ بھی پڑھ لیا۔ کسی شخص نے ٹوکا نہیں۔ سردار نے اقبال کے رجعت پسندوں، نقادوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی نے اس کے پیٹ میں چھرا نہیں بھونکا۔ ڈاکٹر تارا چند نے اردو کا شجرۂ نسب دو ہزار سال کے پرانے ہندوستان کی تہذیب سے جا ملایا۔ کسی ہندو مہا سبھائی نے اف تک نہ کی۔ لیکن جب کانفرنس ختم ہونے کے بعد مخدوم نے آہستہ سے کہا:
بھئی! وہ ریلوے کے مزدور تم لوگوں کو اپنے جلسے میں بلانا چاہتے ہیں۔۔۔
تو بہت سے لوگ زکام اور پیچش اور بخار سے بیمار پڑ گئے۔ جگر صاحب نے بڑی مستعدی سے لوگوں کے بستر باندھنا شروع کر دئے ، کچھ لوگ بازار میں خرید و فروخت کرنے چلے گئے۔ کچھ لوگ P.E.N کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے سٹیشن سے جے پور کا ٹکٹ لانے کے لئے چلے گئے۔ کچھ لوگ بیمار ہو کر بستر پر دراز ہو گئے۔ مزدورں کے جلسے کے لئے صرف کیفی، سردار اور ساحر بچے۔
مخدوم نے تعارف کرایا:
یہ کیفی ہیں
انقلاب زندہ باد
یہ سردار ہیں
انقلاب زندہ باد
یہ ساحر لدھیانوی ہیں
انقلاب زندہ باد

مشینوں پر کام کرنے والے لوگ۔ سانولے کالے لوگ، موٹے، موٹے جبڑوں، کھردرے ہاتھ پاؤں والے لوگ۔ بد صورت لوگ، غلیظ لباس پہننے والے لوگ ، برا کھانا کھانے والے لوگ لوگ جو نہ "واللہ" کہہ سکتے تھے ، نہ مکرر ارشاد، نہ 'ہے کیا شعر ہوا ہے'۔
لوگ جن کے آداب ان کی زندگیوں کی طرح کھردرے تھے۔ ان کے لباس کی طرح وحشی تھے۔ اور ان کے اعتقاد کی طرح مضبوط تھے۔ یہ لوگ جو خوبصورت الفاظ میں شاعروں کی تعریف نہیں کر سکتے تھے۔ جو خاموش تھے اور سن رہے تھے۔ اور مکرر ارشاد نہ کہنے کے باوجود ان کے چہروں کی آب، اور ان کی آنکھوں کی چمک ، اور ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گویا کہہ رہی تھی ، ہم خوش ہیں، کیوں کہ تم ہمارے ہو ہم میں سے ایک ہو، ہماری خوشیوں اورغموں کے گیت گاتے ہو اوراپنے الفاظ کی حسین تصویروں میں ہمارے دکھ کا مداوا ڈھونڈتے ہو۔ تم ہماری برادری میں سے ہو۔ ان انسانوں کی عظیم برادری میں سے جہاں کسی انسان کا حق دوسرے انسان کے حق پر فائق نہیں سمجھا جاتا۔
آؤ۔ آؤ۔ ہم تمہارا استقبال کرتے ہیں، چمکتی ہوئی آنکھوں سے، خاموش کانپتے ہوئے ہونٹوں سے۔ اور بھینچی ہوئی مضبوط مٹھیوں سے۔ خوش آمدید ساتھیو۔ اب تک تم ویرانے میں گھومتے رہے۔ آج تم گھر میں آئے ہو۔ ہمارے پاس حریری پردے نہیں، ننگی دیواریں ہیں۔ سونے کے پلنگ نہیں ، پتھر کا فرش ہے۔ ہماری جیبیں خالی ہیں لیکن دل آنسوؤں سے معمور ہیں۔ محبت کے آنسو، رفاقت کے آنسو۔۔! آؤ۔۔۔ ساتھیو!
ساھر لدھیانوی کی آنکھیں بھر آئیں۔ اور وہ شعر کہتے کہتے رک گیا۔ اور اس کی غمناک آنکھوں میں جیسے سارا مجمع ناچ گیا۔ اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہوا اپنے عزیزوں سے گلے مل رہا ہو۔ یہ اس کی ماں تھی، یہ بھائی، یہ بہن ، یہ بچپن کا محبوب ساتھی۔
آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔ ساتھیو!

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:9.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں