حیدر گوڑہ - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 6 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-17

حیدر گوڑہ - پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ - قسط - 6

paudey-krishan-chander-06

نام کتاب: پودے (رپورتاژ)
مصنف: کرشن چندر
سن اشاعت: 1947
مکمل کتاب (11 اقساط میں)

مضامین:
(1) خطبۂ صدارت | (2) پیش لفظ | (3) بوری بندر | (4) گاڑی میں | (5) حیدرآباد اسٹیشن | (6) حیدر گوڑہ | (7) اجلاس | (8) پرانا محل | (9) بطخوں کے ساتھ ایک شام | (10) واپسی | (11) منزل

حیدر گوڑہ
جس مکان میں مہمان ادیبوں کو ٹھہرایا گیا ، وہ حیدر گوڑے میں واقع تھا۔ علی سردار جعفری نے کرشن چندر کو حیدر گوڑہ جاتے راستے میں ایک محل کی طرف اشارہ کر کے بتایا: "گزشتہ مرتبہ اردو کانفرنس کے موقع پر ہم لوگ اسی محل میں ٹھہرائے گئے تھے۔ قیام و طعام کا اس قدر اچھا انتظام، بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی اچھا تھا۔ ہر مہمان کے لئے دو نوکر وقف کئے گئے تھے۔ جو ہر وقت اس کے کمرے کے باہر بیٹھے رہتے تھے۔ اس وقت کے نظم و نسق میں جاگیرداری کا مکمل شکوہ موجود تھا"۔
اور کرشن چندر نے سوچا۔ اب پرولتاریت کی حد ہو گئی ہے۔ دراصل اسے جگر سے بعض للہّٰی ہو گیا تھا۔ اس لئے اسے یہ مکان بھی پسند نہ آیا۔ حالیکہ مکان نیا نیا تعمیرکیا گیا تھا۔ اور پورا مکان ان لوگوں کے قبضے میں تھا۔ کرشن چندر نے دل ہی دل میں مہتمم کو گالیاں دیتے ہوئے سب سے اچھا کمرہ اپنے قبضے میں کر لیا۔ باقی تین کمروں میں چھ چھ سات سات آدمی گولیاں بنا کے بس گئے۔ اور بستر فرش پر بچھ گئے۔ اونہہ۔ چار پائی تک تو میسر نہیں۔ اور یہ باتھ روم کی کنڈی بھی غائب ہے۔ اور نہانے کے لئے برتن بھی موجود نہیں۔ جگر اس کے ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے۔ اور اس کے دل کی وحشت بڑھتی جا رہی تھی۔ یکایک اس نے رک کر جگر صاحب کو مخاطب کیا:
"بہت اچھا مکان لیا ہے آپ نے۔"
"اجی صاحب، ابھی ابھی بنا ہے" جگر معصومیت سے فرمانے لگے۔
"وہ دیتا نہیں تھا، بڑی مشکل سے اسے حاصل کیا۔ آپ لوگوں کے لئے۔ بالکل نیا ہے ڈپٹی جلال الدین جو ہیں نا۔۔۔"
کرشن چندر نے دل میں کہا۔ "اب آپ اس مکان کی کہانی سنائیں گے۔ اس کا شجرہ نسب بیان کریں گے ٹھیک ہے صاحب۔ آپ کہئے، ہم سنیں گے۔ آپ کے مہمان جو ٹھہرے"۔
اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا۔۔۔
"جگر صاحب، سجاد ظہیر صاحب پلنگ مانگ رہے ہیں۔ ان کے کمرے میں پلنگ ڈلوا دیجئے"۔
جگر صاحب نے کہا:
"پلنگ تو یہاں نہیں ہیں۔ مگر ٹھہرئیے، میں انتظام کرتا ہوں"۔
اتنا کہہ کے وہ اپنی کہانی ادھوری چھوڑ کے چل دئیے ، اور کرشن چندر نے سوچا۔ کس قدر عجیب آدمی ہے۔ بھئی تم اپنی کہانی تو پوری کرتے جاؤ۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ کہ عین گفتگو کے بیچ میں اٹھ کے چل دئیے، کس قدر بری بات ہے یہ۔ اچھی تہذیب ہے یہ۔ واہ۔
پھر اسے سجاد ظہیر کے پلنگ کا خیال آیا۔ بنے پلنگ ہی پہ سو سکتے ہیں، فرش پر نہیں۔ آخر ان کے لئے پلنگ کیوں منگایا جائے۔ وہ کیوں پلنگ پر سوئیں اور ہم کیوں پلنگ پر نہ سوئیں۔ واہ۔ یہ اچھی رہی۔
کرشن چندر نے سوچا۔ بنے (سجاد) پلنگ پر سوئیں گے تو میں بھی پلنگ پر سوؤں گا۔ بنّے کے لئے پلنگ آئے گا۔ تو میرے لئے بھی آئے گا۔ میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ اور یہ جگر صاحب کس صفائی سے مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کے بنّے کے لئے پلنگ کا انتظام کرنے کے لئے چلے گئے۔ میں بھی تو ان کا مہمان ہوں۔ مہمان ہوں، خاک مہمان ہوں گھنٹوں سے یہاں اس خالی کمرے میں کھڑا ہوں۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے۔ اور بنّے کے لئے پلنگ منگایا جا رہا ہے۔ اور میں یہاں فرش پر سوؤں گا۔
میرا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا۔ جب میں نے جگر کو اسٹیشن پر دیکھا تھا۔ خباثت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پلنگ لائے گئے ہیں۔ سجاد ظہیر کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ کیا میں یہاں فرش پر سوؤں گا۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں لیکن۔۔ لیکن میں جب سے یہاں کھڑا ہوں ، کوئی نوکر بھی تو اس کمرے میں جھاڑو دینے نہیں آیا۔ اور دوسرے کمروں میں پلنگ بچھائے جا رہے ہیں۔ کون پوچھتا ہے مجھے؟ میں کون ہوں جو مجھے کوئی پوچھے گا۔ دراصل یہ سب سازش ہے۔ مجھے ذلیل کرنے کے لئے یہاں بلایا ہے۔ وہ بیچارہ احمد علی ٹھیک کہتا تھا۔ کرشن چندر کو اپنے آپ پر رحم آنے لگا۔ اور اس کی آنکھیں غم و غصے کے آنسوؤں سے غمناک ہو گئیں۔ اتنے میں مجلس استقبالیہ کے ایک رکن تشریف لائے۔
"چلئے چائے پی لیجئے"۔
"نہیں! میں چائے نہیں پیوں گا"۔ کرشن چندر نے کہا۔
"آپ چائے نہیں پیتے؟"
"پیتا ہوں، مگر اس وقت نہیں پیوں گا"۔
"کیوں؟ کوئی خاص بات ہے؟"
"جی نہیں۔ مجھے ذرا۔۔۔ پیچش ہے"۔
"تو پیچش میں تو چائے مفید ہوتی ہے"۔
"ہوتی ہوگی۔ مگر میرے لئے نہیں"۔
"اچھا تو چلئے ، تھوڑا سا ناشتہ ہی کر لیجئے"۔
"ناشتہ؟ میں ناشتہ بھی نہیں کروں گا"۔
"چلئے بھائی۔ تکلف نہ کیجئے۔ آپ ناشتہ نہیں کریں گے تو جگر صاحب مجھ پر خفا ہوں گے"۔
"جگر صاحب کہاں ہیں؟ انہیں میرے پاس بھیج دیجئے"۔
"وہ ابھی آتے ہوں گے۔ سجاد ظہیر کے لئے پلنگ کا انتظام کرنے گئے ہیں"۔
"نہیں صاحب"۔ یکایک کرشن چندر نے چلا کر کہا۔
"مجھے پیچش ہے۔ سر میں درد ہے۔ ہلکی ہلکی حرارت بھی ہے"۔
"بخار ہے، پیچش ہے ، سر میں درد ہے۔ تو ٹھہرئیے میں ڈاکٹر کو بلا کے لاتا ہوں"۔
کرشن چندر نے کہا۔۔۔ "ٹھہرئیے ، ٹھہرئیے۔ مگر وہ رکا نہیں اور ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا"۔
اتنے میں سردار قریب سے گزرا۔
"یہاں کھڑے کھڑے کیا کررہے ہو کرشن، چلو ناشتے پر لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں"۔
اور وہ دونوں بازو میں بازو ڈال کر چل دئیے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر جب وہ اپنے کمرے کو گیا۔ تو دیکھا کہ باہر دہلیز پر جگر کھڑے ہیں۔ اور اس کے کمرے میں۔۔۔ پلنگ بچھوایا جا رہا ہے۔
جگر نے کہا:
"ڈاکٹر ابھی آتا ہوگا۔ میں ابھی بستر کئے دیتا ہوں۔ آپ اس پر آرام کیجئے"۔

***
ماخوذ از کتاب:
پودے (رپورتاژ) ، از: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947

Paundey by Krishan Chander. part:6.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں