کشور کمار - بالی ووڈ فلمی صنعت کا لاثانی گلوکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-08

کشور کمار - بالی ووڈ فلمی صنعت کا لاثانی گلوکار

kishore-kumar

کشور کمار (اصل نام: ابھاس کمار گنگولی، پیدائش: 4/اگست 1929، کھنڈوا، مدھیہ پردیش)
اپنے دور کے معروف و مقبول گلوکار، موسیقی ہدایتکار، اداکار کے علاوہ فلمساز، ہدایت کار، اسکرین پلے رائٹر اور نغمہ نگار رہے ہیں جن کی وفات ممبئی میں بعمر 58 سال ، 13/اکتوبر 1987 کو ہوئی۔
مشہور اداکار اشوک کمار کے چھوٹے بھائی کشور کمار کی وفات پر بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے مختلف فنکاروں نے اپنے دلی تاثرات سے "مسافر" کو آگاہ کیا، جو "شمع" دہلی کے شمارہ دسمبر-1987 کے مخصوص و منفرد کالم "ستاروں کی دنیا" میں شائع ہوئے۔ وہی تحریر یہاں پیش ہے۔

کشور کمار کے بڑے بھائی اشوک کمار نے کہا:
میری ترغیب دلانے پر کشور نے فلم انڈسٹری جوائن کی تھی۔ میرے اصرار پر ہی اس نے گلوکاری اور اداکاری کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ میں کشور کمار کا صرف بڑا بھائی ہی نہیں تھا اس کا گائیڈ اور رہنما بھی تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں کشور بہت زیادہ روتا تھا اور ماں اسے "کوا" کہتی تھی۔ کشور جب چھوٹا سا ہی تھا کہ اس کی ٹانگ میں پھوڑا نکل آیا، ان دنوں درد دور کرنے کی دوائیں نہیں تھیں، اس لیے بچارہ کشور چوبیس گھنٹے گلا پھاڑ کر روتا اور درد سے چیختا چلاتا رہتا تھا۔ یہ بیماری قدرت کا عطیہ سمجھیے کیونکہ مسلسل چیخنے چلانے کی وجہ سے اس کا گلا صاف ہو گیا اور آگے چل کر گائیکی میں کام آیا۔ کشور عام طور سے گانے کی ریہرسل اسی طرح چیخ چلا کر کرتا تھا جیسے اس کے پھوڑا نکلا ہو۔
ایک دن میں رجسٹرار کے دفتر گیا۔ وہاں مجھے پتا چلا کہ کشور نے روما سے شادی کر لی ہے۔ جب میں نے کشور سے اس سلسلے میں بات کی تو اس نے جواب دیا تھا:
"دادامنی، میں نے شادی کہاں کی ہے، میں نے تو اسے صرف رجسٹرڈ کرایا ہے"۔
ایسا تھا میرا کشور، میرا بیٹا۔

لتا منگیشکر نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا:
"کشور جی سے میرا تقریباً چالیس سال ساتھ رہا۔ ان کا پہلا دوگانا میرے ساتھ ہوا تھا۔ فلم کا نام "ضدی" تھا جو 1948 میں بنی تھی اور گانے کے بول تھے:
"یہ کون آیا رے"
اس فلم میں کشور نے مالی کا ایک چھوٹا سا رول بھی کیا تھا۔ وہ مجھ سے صرف ایک مہینے بڑے تھے۔ میں ستمبر 1929 میں پیدا ہوئی اور کشور جی اگست 1929 میں پیدا ہوئے تھے۔ ہر رکھشا بندھن کے موقع پر میں ان کو راکھی باندھتی تھی اور وہ بھی مجھ سے بہن جیسا سلوک کرتے تھے۔
پچھلے کچھ برسوں سے وہ دیس بدیس میں کافی اسٹیج پروگرام کرنے لگے تھے۔ میں بھی ان کو منع کرتی اور ان کی بیوی لینا بھی۔

شترگھن سنہا نے مسافر کو بتایا: "وزیراعظم راجیو گاندھی نے کشور کمار کے انتقال پر غم اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ایمرجنسی کے دنوں میں ریڈیو اور ٹی وی سے اسی کشور کمار کے گانے بجانے بند کرا دئے گئے تھے۔ ان کی صرف یہ خطا تھی کہ وہ دہلی میں ہونے والے فیملی پلاننگ کے شو میں نہیں آئے تھے۔ اتنی سی بات کی کتنی بڑی سزا؟ اور یہ سزا کشور کے لیے نہیں، ان کے کروڑوں چاہنے والوں کو دی گئی تھی جو ان کے گانوں سے محروم ہو گئے تھے۔"

لکشمی کانت پیارے لال نے بتایا:
جس طرح رفیع صاحب اور مکیش جی اپنا الگ مقام رکھتے تھے، ویسے ہی کشور جی کا اپنا الگ مقام تھا، منفرد انداز تھا۔ رفیع صاحب کے انتقال کے بعد ان کا خلا کشور جی نے پورا کیا تھا۔ مگر اب سوچنا پڑے گا کہ کس گلوکار سے گیت لیں؟ خاص طور پر کامیڈی گیت کے بارے میں تو اب سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ دیکھا جائے تو مردانہ گائیکی سے ہر اچھی آواز اٹھ گئی، یہ میدان خالی ہو گیا ہے۔
کشور جی کسی زمانے میں اپنے معاوضے کے لیے بڑا سخت رویہ اپناتے تھے، کسی پر ایک پیسہ بھی نہیں چھوڑتے تھے، کبھی اتنے موڈی ہو جاتے تھے کہ ریکارڈنگ کی تاریخ دینے کے بعد بھی ریکارڈنگ تھیٹر نہ پہنچتے اور اگر پہنچتے بھی تو گھنٹوں انتظار کراتے تھے۔ مگر پچھلے سات آٹھ ماہ سے ہم نوٹ کر رہے تھے کہ کشور جی تقریباً بالکل بدل گئے تھے، بار بار یہ کہتے تھے کہ پیسہ تو میں نے بہت کمایا، اب پیٹ کے لیے سوچنا بند کر دیا ہے۔ اب میں ان لوگوں کے کام آنا چاہتا ہوں جو مجھے میرا معاوضہ نہیں دے سکتے۔

نوشاد صاحب نے کشور کمار کو اپنا خراج عقیدت اس طرح پیش کیا:
مکیش گئے، محمد رفیع گئے اور اب کشور کمار بھی چل بسے۔ مکیش جی اور محمد رفیع کا انتقال بھی تقریباً اسی عمر میں ہوا تھا جس عمر میں کشور کمار کا ہوا ہے۔ آسودہ زندگی گزارنے والے اتنی کم عمر میں چل بسیں، آخر اس کا راز کیا ہے؟ ان اموات کا ذمہ دار کون ہے؟ میری دانست میں ان فنکاروں پر کام کا بوجھ زیادہ نہیں ہونا چاہیے، مگر ہم فلم والے بڑے خودغرض واقع ہوئے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ جس سے وہ گیت گوانا چاہتے ہیں وہ بیمار ہے، کمزور ہے۔ انہیں تو وہ گلوکار یا گلوکارہ چاہیے جو آسانی کے ساتھ گیت گا دے، انہیں محنت نہ کرنا پڑے اور جس کا نام بھی بکتا ہو۔ کشور کی موت ایسی ہی گستاخیوں کا انجام ہے۔ کشور دل کے مریض تھے اور ان پر کام کا بےحد بوجھ تھا۔
میری کسی فلم میں کشور کمار کا گانا شامل نہیں ہوا، اس کا مطلب یہ نہیں لگانا چاہیے کہ وہ اچھے گلوکار نہیں تھے بلکہ حقیقت یہ تھی کہ میں جس قسم کے گیت کمپوز کرتا ہوں، ان میں کشور کمار کی آواز میل نہیں کھاتی تھی۔ ان کے ساتھ گیت کا موقع فلم "سنہرا سنسار" میں آیا جب میں نے پہلی بار کشور کمار اور آشا بھونسلے کی آواز میں ایک دوگانا ریکارڈ کرایا تھا مگر بعد میں ایڈیٹنگ کے وقت اسے فلم سے نکال دیا گیا۔

آر۔ ڈی۔ برمن نے کہا:
میں اور کشور دا 1949 سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشور دا نئے نئے انڈسٹری میں ائے تھے اور میرے پتاجی ایس۔ ڈی۔ برمن کے ساتھ کچھ فلموں میں گیت گا رہے تھے۔
لوگ کشور دا کے بارے میں ہزار طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کنجوس ہیں، پیسے کے دیوانے ہیں، سرپھرے انسان ہیں، وقت کے پابند نہیں۔ مگر یہ سب ان کا ظاہری روپ تھا، وہ حقیقت میں بےحد مہربان، کسی کی برائی نہ کرنے والے، لوگوں کی بےلوث اور خاموشی کے ساتھ مدد کرنے والے انسان تھے۔ اور یہ سب باتیں میں وثوق کے ساتھ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں کشور دا کو ذاتی طور پر جانتا تھا۔
کشور دا کتنے عظیم انسان تھے کہ ریکارڈنگ کے بعد کشور دا کو کئی بار ایسے چیک دئیے گئے جو کبھی کیش نہیں ہوئے مگر کشور دا نے اس کی شکایت کبھی متعلقہ پروڈیوسر سے نہیں کی۔ ان کی زندگی گزارنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ جو ہو رہا ہے ہونے دو۔ کشور دا کے انتقال سے مردانہ گائیکی کا ایک سنہرا دور ختم ہو گیا۔ انہوں نے جو جگہ چھوڑی ہے وہ کبھی پوری نہیں ہوگی۔

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، کشور کمار اپنی کسی فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے یعنی ڈائیرکٹر بھی خود تھے اور ایکٹر بھی خود۔ یہ راج کمل اسٹوڈیو کی بات ہے۔ لنچ کا وقت ہوا تو ان کی بیوی لینا کار میں آئی اور ٹفن کیریر دے کر چلی گئئی۔
"لینا مجھے باہر کا کھانا کھانے نہیں دیتی۔ خود کھانا لے کر آتی ہے اور اپنے سامنے کھلاتی ہے، آج شاید اسے کہیں جانا ہوگا تب ہی ملازم کو کھانا دے کر چلی گئی ہے"
مسافر نے کشور کے اچھے موڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ان کی بیویوں روما، مدھوبالا، یوگیتا بالی اور لینا چنداورکر کے بارے میں بات چھیڑی تو کشور نے بلاتکلف بولنا شروع کر دیا۔۔۔
میری پہلی بیوی روما تھی۔ شادی کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہم دونوں کے نقطۂ نظر میں کافی تضاد ہے۔ روما کو گھر کے ساتھ اپنے کیریر کی بھی فکر تھی جبکہ مجھے ایک ایسی جیون ساتھی کی ضرورت تھی جو صرف گھر کی دیکھ بھال کرے۔ میں ٹھہرا سیدھا سادا دیہاتی انسان۔ میں ان جھمیلوں کو کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ بیوی کو گھر سے زیادہ اپنے کیریر کی فکر ہو۔ میرے نزدیک تو بیوی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے خاوید، اپنے گھر اور اپنے بچوں کی ہو کر رہے۔ اور پھر ایک گرہستی عورت کے لیے یہ مشکل بھی ہے کہ وہ ایک ساتھ اتنے کام آسانی کے ساتھ نبھا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے راستے جدا ہو گئے۔
مدھوبالا سے جس زمانے میں میں نے شادی کا وعدہ کیا تھا، ان دنوں بھی وہ بیمار تھی اور جب میں نے شادی کی تو ان دنوں تو وہ بہت زیادہ بیمار تھی۔ مگر میں نے شادی کا وعدہ کیا تھا لہذا اسے پورا کیا حالانکہ اس حقیقت سے میں پوری طرح واقف تھا کہ میں جس عورت کو اپنی بیوی بنا رہا ہوں وہ دل کی مریضہ ہے اور ہر پل اس کی زندگی موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نو سال تک میں نے مدھوبالا کی تیمارداری کی۔ میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ مدھو جتنی حسین عورت تھی اس سے زیادہ المناک زندگی اس نے گزاری، اسی طرح نہایت تکلیف دہ اس کی موت ثابت ہوئی۔ بیماری سے پہلے مدھوبالا کتنی مصروف رہتی تھی، مگر یہی مصروف عورت نو سال تک بستر پر پڑی رہی اور ان تمام برسوں میں مدھو کے قریب رہا، اسے ہنساتا تھا، اسے لطیفے سناتا تھا تاکہ موت کے قریب کھڑی مدھو کو یہ احساس نہ ہو کہ اس کا دنیا میں کوئی نہیں۔
میں یوگیتا بالی سے اپنی شادی ایک مذاق سمجھتا ہوں۔ میری رائے میں یوگیتا نے شادی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسے اپنے شوہر اور گھر کے بجائے ہمیشہ اپنی ماں کا خیال لگا رہتا تھا، یہی وجہ تھی کہ شادی کے بعد بھی وہ زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارتی تھی۔ اچھا ہی ہوا کہ ہم دونوں نے جلد ہی اپنے راستے بدل لیے۔
لینا چنداورکر بھی حالانکہ فلم ایکٹریس تھی مگر سب سے جدا، سب سے مختلف۔ لینا کے پہلے شوہر سدھارتھ بندروکر کی اچانک موت نے لینا کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ زندگی کا مفہوم سمجھ گئئی۔ اس حادثے نے لینا کو سنجیدگی اور متانت کی تصویر بنا دیا۔ لینا کی صورت میں مجھے ایک آئیڈیل بیوی مل گئی جسے ہر دم میری، گھر کی اور بچوں کی فکر رہتی ہے۔

جس دن کشور کمار کا انتقال ہوا، اسی روز وہ ڈینی سے ملنے والے تھے۔ کشور کمار کا ارادہ پہاڑوں کے پس منظر پر ایک فلم بنانے کا تھا جس کے لیے کشور ڈینی کو سائن کرنا چاہتے تھے۔
اگلے دن کشور کمار مدراس کی ایک فلم بطور ہیرو سائن کرنے والے تھے جس میں ان کے ساتھ دونوں بھائی اشوک کمار اور انوپ کمار بھی کام کرتے اور فلم بینوں کو فلم "چلتی کا نام گاڑی" کے تینوں کرداروں کو ایک بار پھر ایک اور فلم میں دیکھنے کا موقع ملتا۔ کشور کمار کا یہ ارادہ بھی تھا کہ وہ اور دیوآنند مل کر ایک اسٹیج شو منعقد کریں مگر موت نے اس کی مہلت نہ دی۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: دسمبر 1987

Kishore Kumar, a legend Singer of Bollywood film industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں