علی اکبر ناطق کے ناول کماری والا کا تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-16

علی اکبر ناطق کے ناول کماری والا کا تجزیاتی مطالعہ

علی اکبر ناطق کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب 'اثبات' میں ان کے کچھ افسانے اور شاعری شائع ہوئی تھی۔ ان افسانوں کو پڑھ کر میرے ذہن میں جو تاثر قائم ہوا تھا وہ یہ تھا کہ یہ افسانے نوک پلک سے درست ہیں۔ ان میں کوئی خامی نہیں ہے اور اس کی نثر بہت اچھی ہے۔ لیکن ان چند افسانوں کو پڑھ کر کچھ ایسا بھی نہیں لگا تھا کہ یہ کوئی بڑا تخلیقی تجربہ ہو، یا ان میں اسلوب یا تکنیک کی کوئی نمایاں خلاقی ہو۔ اس کے بعد مجھے ناطق کے ایک دو افسانے اور پڑھنے کو ملے۔ لیکن ان کی فکشن کی زیادہ تر تخلیقات ہندستان میں شائع نہ ہو سکیں، یا شائع ہوئی ہوں، تو مجھے ان تک میری رسائی نہ ہو سکی۔
دیکھتے دیکھتے چند برسوں میں ان کے دو افسانوی مجموعے، ایک ناول اور دو شعری مجموعے بھی شائع ہو گئے۔ تنقید و تحقیق، سفر نامے اور نہ جانے کیا کیا وہ لکھتے رہے۔ جب ناطق کا ناول نو لکھی کوٹھی شائع ہوا تھا، تو اس کا بھی کافی ہنگامہ رہا۔ لیکن ہندستان میں ان کی کتاب اب تک شائع نہ ہوئی تھیں اور پاکستان سے شائع کتابوں تک میری رسائی نہ تھی، اس لیے میں ان کے فکشن کے بارے میں اپنی کوئی رائے بنانے سے قاصر رہا۔

دسمبر 2020 میں ان کا نیا ناول 'کماری والا' ہندستان سے شائع ہوا تو مجھے تجسس ہوا کہ اب اسے پڑھنا چاہیے۔ اشعر نجمی اور ان کے دوست اس ناول پر کافی کچھ لکھ چکے تھے اور کھل کر تعریف کر رہے تھے۔ جب میں نے یہ کتاب خریدنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلی آزمائش یہ تھی کہ کماری والا میرے کتب خانے کی اب تک کی سب سے مہنگی کتاب ہونے جا رہی تھی (کل ملا کر 1100 روپے کی) میرے کتب خانے میں انگریزی ہندی اور اردو میں کوئی بھی کتاب اتنی مہنگی نہیں ہے۔ بہرحال میں نے اسے خرید لیا۔ جب ناول میرے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ناول 638 صفحات کا ہے۔ اب دوسری آزمائش یہ تھی کہ اس ناول کو پڑھنے کے لیے اتنا وقت کہاں سے لاؤں؟
میں نے اردو ناول کی تاریخ کو یاد کرنے کی کوشش کی تو یاد آیا کہ اردو میں ایسے ضخیم ناول بہت کم ہیں۔ فسانۂ آزاد، لہو کے پھول، آگ کا دریا، اداس نسلیں اور کئی چاند تھے سرِ آسماں۔۔۔ مجھے فوری طور پر یاد آئے۔ پہلے دونوں ناول تو میں کبھی پورے نہ پڑھ سکا، ہمیشہ کچھ حصوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ البتہ آخری تینوں ناول میں نے نہ صرف پڑھے بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ ناول اردو ناول کی تاریخ کے سب سے روشن باب ہیں۔ یہ میرا ہی خیال نہیں ہے بلکہ اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ یہ تینوں ناول اردو کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔

اس صورت حال میں کماری والا سے بھی مجھے کچھ ایسی ہی توقع تھی۔ اور میں نے اس ناول کا مطالعہ شروع کیا۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے پہلی بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ وہ زبان بہت اچھی اور رواں لکھتے ہیں۔ یہاں میں اتنی وضاحت کرتا چلوں کہ میرے خیال میں بہت رواں نثر ایک اچھے ناول میں ہوتی ہے، جب کہ بڑے ناول کی نثر بہت رواں نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ بڑے ناول کو بہت ٹھہر ٹھہر اور سوچ سوچ کر پڑھنا پڑتا ہے۔ خالد جاوید سامنے کی مثال ہیں، ان کا فکشن آپ اتنی روانی سے نہیں پڑھ سکتے ہیں، انھیں پڑھتے ہوئے بار بار ٹھہر کر سوچنا ہوتا ہے، جس سے نئی نئی جہتیں کھلتی ہیں اور نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن کماری والا پڑھتے وقت میں فراٹے بھرتا ہوا آگے بڑھا چلا گیا، ایسا بھی نہیں ہے کہ کماری والا میں نے پوری روانی کے ساتھ پڑھا ہو، یہاں کچھ الفاظ میرے لیے نئے بھی تھے، غالباً وہ علاقائی الفاظ تھے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کے علاقائی الفاظ آنے میں کوئی برائی نہیں ہے، بھلے وہ میری سمجھ میں نہ آئیں، اس سے ایک طرف ناول میں علاقائی مہک آتی ہے، وہیں زبان میں بھی لفظوں کا خزانہ بڑھتا ہے۔ مثال کے طور ایک درخت ٹہلیوں کا اس ناول میں بار بار ذکر ہے۔ یہ لفظ میرے لیے نیا ہے، لغات میں بھی مجھے اس کے معنی نہ مل سکے۔ مجھے یقین ہے کہ اس درخت کو میں جانتا ہوں گا لیکن میرے علاقے میں اسے کچھ اور کہتے ہوں گے۔

جیسے جیسے آگے پڑھتا گیا، قصہ گوئی بھی بڑھتی گئی۔ اور یہ بیانیہ کئی نسلوں تک پھیلتا چلا گیا، جسے انھوں نے بڑے سلیقے سے اور ناول کے ایک سوچے سمجھے نظام کے تحت پھیلایا ہے۔ ایک بات جو پورے ناول میں محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ قدرت خاص طور سے پیڑ، پودوں، راستوں، کھیتوں اور چرند پرند وغیرہ کا ذکر اس ناول میں بہت کثرت سے کیا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے اگر ان سب کو اس ناول سے نکال دیا جائے تو عجب نہیں کہ ناول میں سو صفحات کم ہو جائیں۔ لیکن جب میں غور کرتا ہوں تو ان سب سے کوئی خاص کام نہیں لیا گیا ہے۔ بس یہ کہ راوی جس راستے سے گذر رہا ہے، وہاں جو کچھ نظر آتا ہے اس کو بیان کرتا چلا گیا ہے۔ تھوڑا بہت تو ٹھیک ہے لیکن کئی بار یہ سب ناقابلِ برداشت بھی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلا باب جو 17 صفحات پر مبنی ہے، جس میں مرکزی کردار پندرہ کوس کا سفر طے کرتا ہے۔ یہ باب تقریباً پورا کا پورا راستوں، کھیتوں، کھلہانوں، گاؤں، چرند و پرند اور آنے جانے والی گاڑیوں کے بارے میں ہے۔ ہم اس مرکزی کردار کے بارے میں بھی کچھ نہیں جان پاتے ہیں، جو سفر کر رہا ہے۔ نہ یہ جان پاتے ہیں کہ وہ کس سے اور کیوں ملنے جا رہا ہے؟ پورے ناول میں فطرت کی تمام تفصیلات کے باوجود ناول پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے، وہ کبھی پیش منظر میں نہیں آ پاتا ہے، فطرت کا مسئلہ ناول کا موضوع نہیں بن پاتا ہے اور وہ پس منظر میں ہی رہتا ہے۔

ایک ایسا سماج جہاں نوخیز لڑکے لڑکیوں کو نہ صرف ہوس کا شکار بنایا جا رہا ہو بلکہ ان کی عصمت کا کاروبار بھی کیا جا رہا ہو اور دوسرے ملکوں میں انھیں بیچا جا رہا ہو۔ ساتھ ہی مذہبی تنگ نظری اور دہشت گردی میں ان کو پھنسا دیا جاتا ہو۔ اس کاروبار میں مذہبی رہنما اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں، ایسے سماج میں ایک عام آدمی پس کر رہ جاتا ہے، سکون سے زندگی کرنے کے حالات نہیں رہتے۔ ان سب حالات کا علی اکبر ناطق نے بڑی جسارت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

یہ ناول جن باتوں کے لیے خاص طور سے یاد رکھا جائے گا وہ ملک کے سیاسی، بیورو کریٹک اور مذہبی زوال کی عکاسی ہے۔ اقلیتوں خاص طور سے شیعہ مسلک کے ساتھ ہونے والی زیاددتیوں کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان کا وجود ہی ایک طرح کی تنگ نظری کے نتیجے میں آیا تھا، کہ ہندو مسلم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ پھر حالات ایسے بنے کہ وہ بنگلہ دیش (اس وقت مشرقی پاکستان) کے ساتھ بھی نہیں رہ سکے اور اب شیعوں کے ساتھ بھی وہی تنگ نظری ہے۔ کوئی کسی بھی مذہب، مسلک اور اعتقاد کا ماننے والا ہو، ان کی تعداد کم یا زیادہ ہو، انھیں پورے وقار کے ساتھ زندگی کرنے اور اظہار خیال کا حق بہرحال حاصل ہونا چاہیے۔

اس ناول میں ایک مسئلہ اور بڑے عبرت ناک طریقے سے اٹھایا گیا ہے، وہ حکومت کے اعلیٰ ترین افسران کا اخلاقی زوال ہے۔ ایک طرف یہ افسر اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا استعمال دوسرے ممالک کے امبیسڈر اور دوسرے نمائندوں سے ربط پیدا کرنے کے لیے پارٹی کیا کرتے ہیں۔ پھر انھیں رابطوں کا استعمال کر کے اپنے ملک کے قیمتی خفیہ دستاویز انھیں کچھ لالچ میں آ کر فراہم کرا رہے ہیں۔ جب راوی اس کی اطلاع اخبار میں چھپوا دیتا ہے۔ تو اسے اغوا کر کے سخت ترین اذیتیں دی جاتی ہیں۔ لیکن چھ مہینے بعد جب وہ بے ضرر ثابت ہوتا ہے تو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

کینسر کی بیماری میں مبتلا شیزا جو روز بہ روز موت کی طرف بڑھ رہی ہے کہیں نہ کہیں وہ اس پورے سماج کی ترجمانی کرتی ہے، جن حالات کی طرف پورا ملک بڑھ رہا ہے۔ شیزا کا آخری وقت تک ساتھ دینے کے لیے کسی بھی حد تک قربانی دینے والا مرکزی کردار ضامن علی امید کی ایک کرن بھی ہے۔ یہ ناول ان سب حالات کا ایک قیمتی دستاویز ہے۔ یہ سب حالات بڑی خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب کوئی بڑا انکشاف ہو، اخباروں میں اس طرح کی خبریں اکثر شائع ہوتی رہتی ہیں۔
میں ناطق کو ذاتی طور پر زیادہ تو نہیں جانتا لیکن میں انھیں جتنا جانتا ہوں، کماری والا کا مرکزی کردار ضامن علی کہیں نہ کہیں علی اکبر ناطق سے بہت کچھ مطابقت رکھتا ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ ناول کا ایک مثبت پہلو ہے کہ وہ اپنی دانشورانہ زندگی کے بجائے زندگی کے ہمہ جہت تجربات سے ناول کو سجاتے، سنوارتے ہیں اور اپنے تخلیقی تجربے کو روشن کرتے ہیں۔ حالانکہ ذاتی تجربہ کا بیان خطرے سے خالی نہیں ہوتا ہے اسے بہر حال انسانی تجربہ بننا ہی پڑتا ہے۔

جہاں تک اس ناول کی قدر و قیمت کا سوال ہے، تو کماری والا یقیناً آگ کا دریا، اداس نسلیں اور کئی چاند تھے سرِ آسماں کی بلندیوں تک نہیں پہنچتا ہے۔ خیر وہ تو اردو ناولوں کی دنیا کے شاہ کار ناول ہیں لیکن ہندستان میں عہد حاضر کے اہم ناول نگاروں مثلاً خالد جاوید، سید محمد اشرف اور صدیق عالم کے ناولوں تک بھی یہ ناول نہیں پہنچتا ہے۔ ان ناول نگاروں نے بڑی فن کاری کے ساتھ اپنے بیانیہ، اسلوب اور نئی نئی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ایک خاص پہچان بنائی ہے، اور انسانی وجود کے مختلف پہلوؤں کو بہت گہرائی سے تلاش کیا ہے۔ ہم ان کے ناولوں کی بہت آسانی سے شناخت کر لیتے ہیں۔ ایسے میں جب کہ یہ ناول اشرف کے 'نمبر دار کا نیلا'، خالد جاوید کے 'موت کی کتاب' اور صدیق عالم کے 'صالحہ صالحہ' کے بھی آس پاس نہیں پہنچتا ہے، جو ڈیڑھ سو سے بھی کم صفحات کے ہیں، پھر تقریباً ساڑھے چھ سو صفحات کے ناول کا جواز میری سمجھ میں نہیں آیا۔

عہد حاضر کے پاکستانی ناولوں تک میری رسائی بہت کم ہے، اس لیے میں اعتماد کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مستنصر حسین تارڑ، مرزا اطہر بیگ، مرزا حامد بیگ، محمد شاہد حمید، کاشف رضا اور رفاقت حیات وغیرہ کے مقابلے میں کہاں ٹھہرتے ہیں؟ وہ انھیں کے برابر ہیں یا ان سے آگے پیچھے ہیں؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ناطق کو اچھی نثر لکھنے پر قدرت حاصل ہے، لیکن فکشن صرف اچھی نثر سے نہیں بنتا، اسے بیانیہ کے ایسے اسالیب تلاش کرنے ہی ہوں گے، جس میں وجود کی گہرائیاں سما سکیں۔
کماری والا پڑھنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں، ناطق کو اپنی منفرد شناخت بنانے اور اپنی آواز کو پہچاننے کے لیے ابھی تلاش و جستجو جاری رکھنی ہوگی۔ کماری والا اردو ناول کا شاہ کار ناول نہ سہی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائیں، یہ ناول ہمارے عہد کا بہرحال ایک قابل ذکر ناول ہے۔

'کماری والا' ہندوستان میں اثبات پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے اور جسے آن لائن آرڈر کے ذریعہ منگوایا جا سکتا ہے:
https://store.pothi.com/book/ali-akbar-natiq-kamari-wala

علی اکبر ناطق کے فن پر چند مشاہیر کی آرا :
  • "ناطق کے لیے اب یہ حکم لگانا مشکل ہے کہ ان کی اگلی منزل کہاں تک جائے گی کہ ہربار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ ان کے تمام کام میں تازگی ہے، روایت اور تاریخ کا شعور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔۔۔ علی اکبر ناطق سے اردو ادب جتنی بھی توقعات اور امیدیں وابستہ کرے، نامناسب نہ ہوگا۔ اِن کا سفر بہت طویل ہے، راہیں کشادہ اور منفعت سے بھری ہوئی ہیں۔" (شمس الرحمٰن فاروقی)
  • "علی اکبر ناطق کا فکشن حقیقت اور کہانی کے پیچیدہ پہلوؤں کو سامنے لے کر آتا ہے۔ وہ دیہات اور اس کے کرداروں کی بازیافت کا آدمی ہے اور حقیقی طور پر سن آف سوئل ہے۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی طرح دیہات کا رومان پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے کرداروں کو حقیقت کی زندگی عطا کرتا ہے۔" (انتظار حسین)
  • "علی اکبر ناطق ایک عجیب سا لااُبالی نوجوان ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اگلے لمحے آپ کا دشمن ہو جائے یا فوراً ہی آپ کو گلے لگا لے لیکن یہ طے ہے کہ افسانے، ناول یا شاعری میں اس کی صلاحیتیں بلاخیز ہیں۔" (مستنصر حسین تارڑ)
ڈاکٹر رضوان الحق
Ali Akbar Natiq's novel 'Kamari wala', a critical review. Article by: Dr. Rizvan ul Haq.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں