بیکل اتساہی (پ: یکم/جون 1928 ، م: 3/دسمبر 2016)
کی تیسری برسی پر ان کی غزلوں کا ایک یادگار مجموعہ "پروائیاں" پیش خدمت ہے۔ محمد شفیع علی خاں بیکل اتساہی اردو اور ہندی کے نامور شاعر تھے جن کی پیدائش ریاست اترپردیش کے ضلع بلرام پور میں ہوئی تھی۔ شاعر اور مصنف ہونے کے علاوہ وہ ایک کانگریسی سیاستداں تھے جو 1986 تا 1992 ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ وہ "پدم شری" کے علاوہ یش بھارتی اعزاز سے بھی نوازے گئے۔ وہ اردو، ہندی اور اودھی میں شاعری کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ ان کے کلام میں کہیں حمد و نعت کو نمایاں مقام حاصل ہے تو کہیں ہندی لب و لہجے کا چلن زیادہ ہے۔ 1975 میں پہلی بار شائع شدہ ان کے اس مجموعہ کلام "پروائیاں" کی بیشتر غزلوں میں بطور خاص ہندی کے سبک اور سجل الفاظ شامل رہے ہیں۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ منفرد غزل مجموعہ پیش ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس مجموعہ کلام کے مقدمہ بعنوان "اعترافیہ" کے تحت صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔اس حقیقت سے کوئی بھی سنجیدہ آدمی انکار نہیں کر سکتا کہ صنفِ غزل ہر دور میں اردو شاعری کی آبرو رہی ہے اور آج بھی دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں سربلند ہے۔ غزل کی اس توانائی کا راز خصوصیت کے ساتھ اس امر میں پوشیدہ ہے کہ ماہ و سال کے سفر کے ساتھ ساتھ وہ بھی ارتقا پذیر رہی ہے۔ اور اس نے اپنے کو لغوی معنوں تک محدود نہیں رکھا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب غزل کو عورت کی یا عورت سے بات چیت تک محدود سمجھا جاتا تھا اور محض وارداتِ قلبی اور معاملات حسن و عشق کی عکاسی کو اس کا منصب قرار دیا جاتا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ غزل اپنے ابتدائی دور میں بھی لغات کے ان معنوں تک محدود نہیں رہی اور اس میں حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات کے دیگر مسائل بھی دخیل ہوتے گئے۔
دبستان لکھنؤ نے اس کے خارجی پہلوؤں پر زور دیا اور کاریگرانِ شعر نے غزل کی بندشِ الفاظ کے نگینے جڑنے اور مرصع سازی سے تعبیر کیا۔ مگر رفتہ رفتہ زندگی کے مسائل میں اتنے گوشے پیدا ہوتے گئے کہ دور حاضر کا ذہن بھی اس سے استفادہ کرنے کا خواہش مند ہوتا گیا اور ننگنہائے غزل کے اندر مزید وسعت کی ضرورت محسوس ہوئی۔
خیریت یہ گزری کہ غزل کے پاس رموز و علائم کے طلسمی چراغ تھے جن کی روشنی میں غزل اپنی قدیم بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے بھی جدید میلانات اور نئے خیالات سے ہم آہنگ ہوتی گئی، پھر اس کے امکانات کی سرحدیں روز بہ روز وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تغزل اور شگفتگی کے ساتھ ساتھ اچھے غزل گو شعرا دورِ حاضر کے تہہ دار الجھے ہوئے گمبھیر مسائل کو آئینہ دکھلانے لگے۔
میں بنیادی طور پر نظموں اور گیتوں کا شاعر رہا ہوں۔ نظمیں تفضیل و توضیع کی متقاضی رہی ہیں مگر میرے گیتوں سے مجھے یہ فائدہ ضرور حاصل ہوا کہ سبک، شیریں اور نرم لب و لہجہ میں گفتگو کرنے کا انداز حاصل ہوتا گیا۔ یہی شیرینی اور شگفتگی میری غزلوں کے تخلیقی عمل کے لیے مشعلِ راہ بنی۔ میری تشکیل فکر اس ہندوستان میں ہوئی جو غلامی کی بیڑیوں کو کاٹ چکا تھا مگر غلامی کی لعنتوں سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوا تھا۔ میرے سامنے حسن و عشق کے بنیادی جذبات کے ساتھ ساتھ وہ مسائل بھی تھے جن سے ہماری انسانیت مجموعی طور پر اس دور میں دوچار رہی ہے۔
مجھے اس بات کے اظہار میں ذرا بھی تکلف نہیں ہے کہ میں نے حسن و عشق، ناز و نیاز، ہجر و وصال، شوق و انتظار کے روایتی مسلمات کے ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ ان تقاضوں کو بھی نظرانداز نہ کروں جن کا مطالبہ دورِ حاضر غزلوں سے کیا کرتا ہے۔
غزل کا فنی آبگینہ بہت نازک ہوا کرتا ہے اور جب اس میں کوئی غیرمانوس اور نیا لفظ یا لب و لہجہ شامل ہوتا ہے تو غزل بڑی مشکل اور برسوں کے ریاض کے بعد اسے قبول کر پاتی ہے۔
میں نے جس ہندوستان میں اپنی غزلیں کہی ہیں اس میں مجھے اس بات کا شدید احساس رہا ہے کہ اردو زبان کا رشتہ فارسی اور عربی سے کم، ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ زیادہ استوار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ میں نے اپنی کچھ غزلوں میں اس بات کی شعوری کوشش کی ہے کہ ہندی کے سبک اور سجل الفاظ جو ابھی تک ہماری غزلوں میں شامل نہیں ہوئے تھے، ان کو شامل کروں اور ان کی نشست و بندش کچھ ایسی رکھوں کہ وہ عربی اور فارسی الفاظ کے ساتھ مل کر تاثر کو دو آشتہ بنائیں اور صوتی آہنگ کے اعتبار سے اپنے سیاق و سباق میں اس طرح سے ہم آہنگ ہو جائیں کہ لفظی غرابت کا احساس باقی نہ رہے۔ زبان و بیان پرکھنے والے ممکن ہے کہ اسے بدعت سے تعبیر کریں مگر میں یہ جانتا ہوں کہ بدعت اپنے دور میں بدعت ضرور رہتی ہے لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی مستقبل اسے اجتہاد کا درجہ عطا کر دیتا ہے۔
ان چند الفاظ کے ساتھ میں اپنی غزلوں کا یہ مجموعہ "پروائیاں" ارباب نقد و نظر اور ہندوستان کے عوام ، دونوں کی خدمت میں یکساں خلوص و اعتماد کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
- بیکل اتساہی بلرام پوری
26/جنوری 1975
***
نام کتاب: پروائیاں
شاعر: بیکل اتساہی
تعداد صفحات: 141
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Purwaiyan_Bekal Utsahi.pdf
پروائیاں - غزلیں از بیکل اتساہی :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | مصرع اول | صفحہ نمبر |
1 | ڈگر ڈگر انگارے برسیں گلی گلی پتھراؤ | 15 |
2 | آج بلاعنوان سنا ہے، افسانوں کا چرچا ہے | 16 |
3 | زلف بکھیری آج کسی نے، رند نے سمجھا کالی گھٹا ہے | 17 |
4 | آج نہ جانے کیا جادو ہے یادوں کی رعنائی میں | 19 |
5 | بات بات میں کھو کھو جانا یہ کیا بھید ہے کھولو ہو | 21 |
6 | گیتوں کے مکھڑے نکھرے ہیں پھولوں سے بھرے آنگن کی طرح | 22 |
7 | جب سے سنا ہے اہل جنوں کا آ گیا نام اسیروں میں | 24 |
8 | دھوپ سے چہرے پر یہ کب تک سایے سا آنچل نرموہی | 26 |
9 | زندگی جب بھی کبھی غم کے بسیروں میں ملی | 28 |
10 | آج اجالا یہ کہتا تھا لگ کر گلے اندھیرے سے | 30 |
11 | کب تک ہاتھ کی ریکھاؤں میں ڈھونڈے گا تقدیر رے جوگی | 32 |
12 | دوہے | 34 |
13 | اٹھ گئے دور جام سے پہلے | 36 |
14 | فصل بہار جھومے، حسیں گلستاں بنے | 37 |
15 | راس نہ آئے جب طوفان | 39 |
16 | دلبستگئ عشق کا ساماں نہیں رہا | 40 |
17 | محبت اک زبانِ بےزباں معلوم ہوتی ہے | 41 |
18 | مری ہر سانس روداد جوانی بنتی جاتی ہے | 42 |
Purwaiyan, selected Ghazals by Bekal Utsahi, pdf download.
ماشائ اللہ بہت اچھی پیش کش ہے،
جواب دیںحذف کریں