لیڈی چیٹرلی کا عاشق - انگریزی ادیب ڈی۔ایچ۔لارنس کا وہ شاہکار ناول ہے جس نے بیسویں صدی کے وسط میں ساری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اخلاقی قدروں کی پامالی پر مبنی ایک فحش ناول قرار دیتے ہوئے اس پر امریکہ و برطانیہ سمیت غیرمنقسم ہندوستان، کنیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ دنیا کی عدالتوں میں اس ناول پر مختلف مقدمات دائر کیے گئے مگر بالآخر یہ ناول ہر مقدمہ سے بری ہوا اور دیگر زبانوں میں اس کے تراجم بھی کیے گئے۔ بیسویں صدی ہی کی ساتویں دہائی میں اس کا ایک اردو ترجمہ حیدرآباد (انڈیا) کے ایک مصنف نے بھی پیش کیا تھا۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں اپنے دور کا یہ متازعہ ترین ناول "لیڈی چیٹرلی کا عاشق (اردو ترجمہ)" پیش خدمت ہے۔ تقریباً پونے دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
یہ ناول جنگل کے ایک معمولی رکھوالے اور اعلیٰ طبقے کی ایک مہذب عورت کی وابستگی کا چونکا دینے والا ایک ایسا افسانہ پیش کرتا ہے جس نے اونچے طبقے کی مروجہ نام نہاد اونچی اخلاقی قدروں کی بنیادیں ہلا دیں تھیں۔ اسی ناول پر اپنے دور میں فحاشی کے مختلف مقدمات قائم کیے گئے لیکن معاشرے کی معتبر شخصیات دانشور، ادیب، صحافی، اساتذہ، سیاست داں وغیرہ نے اس ناول کے موضوع و متن کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی احتساب کا دندان شکن جواب دیا جس پر بالآخر یہ ناول تمام مقدمات سے بری ہوا اور اس پر عائد پابندی ختم کر دی گئی۔
سہ ماہی "اثبات" (ممبئی) کے خصوصی شمارہ (12-13 ، اپریل 2012 تا ستمبر 2012) بعنوان "عریاں نگاری اور فحش نگاری" کے ایک مضمون "دنیا کے 10 معروف ممنوعہ ناول" میں مضمون نگار مکرم نیاز لکھتے ہیں ۔۔۔1960 کے دوران جب برطانیہ میں ناول "لیڈی چیٹرلی کا عاشق" شائع ہوا تواس وقت کی بی۔ بی۔ سی رپورٹ کے مطابق، اس کی فروختگی کا ریکارڈ بائبل کی فروختگی سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ اشاعت کے فوری بعد 2 لاکھ نسخے فروخت ہوئے اور ایک سال کے اختتام پر یہ تعداد 20 لاکھ تک جا پہنچی۔
حالانکہ یہ وہی ناول تھا جو سب سے پہلے 1928 میں اٹلی میں جب شائع ہوا، تو برطانیہ نے اس پر فحش ہونے کے سبب پابندی عائد کر دی تھی۔ عریانی و فحاشی کے سبب اس کا داخلہ برطانیہ میں ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
بالآخر 1959 میں فحاشی سے متعلق اشاعتی قانون [Obscene Publications Act] متعارف کروایا گیا، جس کے مطابق ۔۔۔
"اگر کسی کتاب میں کچھ فحش مواد ہو مگر مجموعی طور پر اس کتاب سے سماجی معاشرتی فوائد کا حصول ممکن ہو تو ایسی کتاب بلا روک ٹوک شائع کی جا سکتی ہے۔"
مصنف کی وفات کی تیسویں برسی (1960 ) کے موقع پر پینگوئین بکس نے ناول کے دو لاکھ نسخے شائع کر دیے۔ اس کے باوجود اکتوبر 1960 کے بدنام زمانہ عدالتی مقدمے میں ناشر کو طلب کر لیا گیا۔ وکیل دفاع مائیکل روبنسٹین نے نہایت ہوشیاری سے 300 سے زائد معتبر شخصیات مثلاً ٹی۔ ایس۔ الیٹ، ڈورس لیسنگ، آلڈس ہکسلے ، ڈیم ربیکا ویسٹ ونیز دیگر معروف ادیب، صحافی، اساتذہ، سیاست داں ، ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیات اور فنون لطیفہ کے ماہرین وغیرہ سے رابطہ کر کے انھیں اس مقدمے میں ناول کے حق میں گواہی پر راضی کر لیا۔ کئی ادیبوں نے براہ راست مائیکل روبنسٹین کو خط لکھ کر اپنے تعاون کا یقین دلایا۔
ای۔ ایم۔ فوسٹرنے اپنے پیغام میں لکھا تھا :
"لیڈی چیٹرلی کا عاشق" بیسویں صدی کے ایک معروف ناول نگار کی جانب سے تحریر کردہ ایک اہم ادبی شاہکار ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس ناول پر کیوں اور کیسے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ؟ اور اگر اس ناول کی مذمت بھی کی گئی ہو تو پھر ہمارا ملک یقینی طور پر امریکا اور دیگر ممالک میں مضحکہ خیزی کا نشانہ بنے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ناول فحش ہے۔ لیکن مجھے کچھ کہنے میں اس لیے تردد ہے کہ میں "فحاشی" کی قانونی تعریف سے کبھی مطمئن نہیں ہو سکا۔ قانون کہتا ہے کہ فحاشی، بدچلنی اور بدعنوانی کی راہ پر لے جاتی ہے مگر مجھے ایسی تعریف سے اتفاق نہیں ۔ یہ ناول نہ تو فحش ہے اور نہ شہوت انگیزی کی ترغیب دلاتا ہے ، حتیٰ کہ جتنا میں مصنف کو جانتا ہوں، اس بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ناول کو تحریر کرتے وقت اس کے دل میں شہوت یا فحاشی کے فروغ کی نیت یقینانہیں رہی ہوگی۔
گراہم گرین نے 22/اگست 1960 کو تحریر کیا :
میرے نزدیک یہ فیصلہ انتہائی نامعقول ہے کہ اس کتاب پر فحاشی کا الزام دھرا جائے۔ لارنس کی نیت اور اس کا رجحان تو یہ تھا کہ محبت کے جنسی پہلو کو قدرے بالغانہ انداز میں بیان کیا جائے۔ میں یہ تک تصور نہیں سکتا کہ کوئی نابالغ ذہن محض جنسی لطف کشید کرنے کی غرض سے اس ناول کا مطالعہ کرے گا۔ ہر چند کہ میرے نزدیک یہ معاملہ کچھ پیچیدہ ہے کہ ناول کو تحریر کرنے کی غرض و غایت کتنی کامیاب رہی، اس کے باوجود ناول کے کچھ حصے مجھے فضول محسوس ہوتے ہیں اور اسی سبب میں اس مقدمہ میں بطور گواہ پیش ہونے سے معذور ہوں اور خاص طور پر اس وقت جب میری کسی گواہی سے مدعی علیہ (پینگوئین بکس) کے موقف کو کوئی نقصان پہنچے۔
آلڈس ہکسلے 9/اکتوبر 1960 کو یوں رقم طراز ہوئے :
"لیڈی چیٹرلی کا عاشق"بنیادی طور پر ایک نہایت مفید کتاب ہے۔ جنسیت کے پہلو کو جس خوبی سے بیان کیا گیا ہے ،وہ حقیقت افروز اور موسیقی ریز ہے ۔ اس میں نہ ہوسناکی ہے اور نہ شہوت کی ترغیب دلانے والے وہ جذبات بیان ہوئے ہیں جو کمتر درجے کے ناولوں اور کہانیوں میں ہمیں اکثر و بیشتر پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ اس ناول کے مصنف نے اگر ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو قدامت پرست معاشرے میں معیوب سمجھے جاتے ہیں اور اسی بنیاد پر اس ناول پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ یقیناً بے وقوفی کی انتہا ہے۔"
اسی ناول کے باب اول سے چند اقتباسات ذیل میں پیش ہیں ۔۔۔
سر کلیفورڈ چیٹرلی کی بیوی کانسٹینس چیٹرلی، جسے گھر میں کونی کے نام سے پکارا جاتا تھا، ملائم بھورے بالوں اور بڑی بڑی بھیگی آنکھوں والی اکھڑ سی لڑکی تھی۔ اس کی مترنم آواز سن کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی بڑی جاگیر کی مالکن نہیں بلکہ گاؤں سے نووارد کوئی سہمی ہوئی لڑکی ہو۔ کونی کا میکہ بھی مالدار اور ذی عزت تھا۔ اس کے والد سر مالکم ریڈ اعلی سوسائٹی کے ایک معزز فرد تھے اور ماں ایک تعلیم یافتہ فنکار خاتون تھیں۔ کوئی کے کوئی بھائی نہ تھا صرف ایک بڑی بہن تھی، ہلڈا۔
شادی کے وقت کانسٹینس کی عمر لگ بھگ 23 سال اور کلیفورڈ کی 27 رہی ہوگی۔ لیکن صرف ایک مہینے تک ہنی مون منانے کے بعد ہی کیلفورڈ کو پہلی جنگ عظیم کے محاذ پر چلا جانا پڑا۔ لڑائی کے میدان سے کلیفورڈ چیٹرلی واپس صحیح سلامت لوٹ تو آیا مگر اس کا سارا جسم بری طرح ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر اسے زندہ رکھنے کے لیے تین سال تک موت سے لڑتے رہے۔ وہ بچ تو گیا لیکن اپاہج ہو گیا۔ اس کے جسم کے نچلے حصے کو ہمیشہ کے لیے فالج مار گیا۔
میکائلس نے امریکہ میں اپنے ڈراموں سے دولت اور شہرت دونوں کمائی تھی۔ وہ لندن آیا تو لندن والوں نے پہلے پہل اسے سر آنکھوں پر بٹھایا لیکن جب انہیں پتا چلا کہ وہ اپنے ڈراموں میں کسی کا بھی مذاق اڑانے سے نہیں چوکتا تو اعلیٰ طبقہ نے ناک بھوں چڑھانا شروع کر دیا اور رفتہ رفتہ میکائلس اتنا بدنام ہو گیا کہ لندن کی سوسائٹی کے اعلیٰ طبقے کے افراد کھلم کھلا اس کے نام پر تھوکنے لگے۔ کلیفورڈ سب کچھ جانتا تھا لیکن اس نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی میکائلس کو اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔ کلیفورڈ جانتا تھا کہ ابھی تک لاکھوں لوگ میکائلس کو پڑھنے لگے تھے اور میکائلس ان قارئین تک کلیفورڈ کا ادبی نام و کام پہنچانے میں مدد کر سکتا تھا۔
۔۔۔ میکائلس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ کونی اس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ جبکہ اسے معلوم تھا کہ وہ انگریز سوسائٹی میں کھپ سکنے کے قابل نہ تھا کیونکہ اس میں وہ سب کچھ نہ تھا جسے برٹش، انگلش اور مہذب سمجھتے ہوں لیکن اس کے باوجود عورتیں اس پر اکثر مر مٹتی تھیں۔ اس کا کنوارا پن انہیں مقناطیس کی طرح کھینچتا تھا اور میکائلس اس بات سے واقف تھا۔
لیکن میکائلس سر کلیفورڈ چیٹرلی کو بخوبی جانتے ہوئے بھی کونی چیٹرلی کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ ناشتے کا انتظام کمروں میں ہی ہوتا تھا۔ میکائلس نے لیڈی چیٹرلی کے نام ایک ملازم کے ہاتھ پیام بھجوایا کہ وہ گاؤں جا رہا ہے اور اگر انہیں کوئی کام ہو تو بتا دیں۔ تھوڑی دیر بعد ملازم نے آ کر جواب دیا کہ لیڈی چیٹرلی نے اپنے کمرے میں ہی اسے یاد کیا ہے۔
کونی کا کمرہ تیسری منزل پر سب سے اوپر تھا۔ کمرے میں پہنچ کر میکائلس نے مسکراتے ہوئے کہا: "واہ! آپ کا کمرہ تو واقعی بہت شاندار ہے"۔
"بس دیکھ لیجیے۔ جیسا بھی ہے آپ کے سامنے ہے"۔ کونی آہستہ سے مسکرا کر بولی۔ دراصل سارے گھر میں کونی کو صرف اپنے کمرے سے ہی لگاؤ تھا۔ وہ جب بھی اکیلی ہوتی تو بیٹھی بیٹھی کھڑکیوں کے پار تکتی رہتی۔
کچھ دیر بعد دونوں کی بات چیت دوبارہ شروع ہو گئی۔ اور کونی نے میکائلس کے والدین، خاندان اور نجی زندگی کے بارے میں عام عورتوں کی طرح متعدد سوال پوچھ ڈالے۔ میکائلس اس کے سوالوں کا جواب دیتا رہا۔ آخر جب کونی سے نہ رہا گیا تو اس نے میکائلس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بےتکلفی سے پوچھا:
"لیکن آپ اس قدر اکیلے کیوں رہتے ہیں؟"
"کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں!" میکائلس نے بات کو ٹالنے کے لیے مختصر سا جواب دے کر چپ ہو جانا چاہا، لیکن تب ہی اس نے محسوس کیا کہ اس سوال کے پیچھے صرف تجسس ہی نہیں، بلکہ کچھ اور بھی ہے اور اس نے کونی کے سوال کو دہراتے ہوئے کہا:
"لیکن صرف میں ہی تو اکیلا نہیں ہوں، آپ اپنے آپ کو بھی تو دیکھیے۔ کیا آپ بھی میری ہی طرح بالکل اکیلی نہیں ہیں؟"
کونی کو اتنی جلدی میکائلس سے اس سوال کی امید نہیں تھی۔ پہلے تو وہ کچھ چونک گئی، لیکن پھر سنبھل کر بولی: "ہاں، ایک طرح سے ہوں تو ۔۔۔ لیکن آپ جیسی نہیں۔"
"کیوں؟ کیا میں ایسا اکیلا ہوں؟"
"اور کیا؟" کونی نے میکائلس کی طرف دیکھا۔ یکایک اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی کشش کی وجہ سے اپنا توازن کھوتی جا رہی ہے۔
"شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں"۔ میکائلس نے دیوار پر ٹنگی ہوئی آئیل پینٹنگ کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا، پھر اس نے کونی کی طرف دیکھا۔ ایک لمحہ کے لیے دونوں کی نظریں مل گئیں اور کونی نے محسوس کیا کہ رات کے اندھیرے میں کوئی بچہ اس کے دودھ کے لیے چھٹپٹا رہا ہے۔ کوئی دو ننھے ننھے گلابی ہاتھوں کی ریشمی انگلیاں اس کے پیٹ پر رینگ رہی ہیں۔
"کیا میں آپ کو چھو سکتا ہوں؟" میکائلس نے اسی طرح کونی کو مسحور کن نگاہوں سے مسلسل تاکتے ہوئے کہا۔
کونی نے محسوس کیا، گویا وہ بےبس ہو گئی ہے۔ میکائلس اٹھا اور گھٹنوں کے بل چل کر کونی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس نے کونی کے دونوں پاؤں سلیپروں سے نکال کر اپنی ہتھیلیوں میں رکھ لیے اور اپنا سر اس کی رانوں سے ڈھلکتے ہوئے گاؤن پر رکھ دیا۔ کونی نے اپنی گود میں رکھے ہوئے سر کو دیکھا اور بےقابو ہو کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ میکائلس نے ایک بار پھر اوپر کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں جانے ایسا کیا تھا کہ کونی کا رواں رواں بےقابو ہونے لگا۔ اس نے محسوس کیا، گویا اس کے اندر سے نکلنے والی ساری ندیاں میکائلس کی طرف دوڑ رہی ہیں۔ سپردگی کی ایک انتہائی خواہش آہستہ آہستہ کونی کی رگوں میں پھیلنے لگی۔ پھر وقت ٹھہر گیا اور دونوں جذبات کے سمندر میں ڈوب گئے۔ الگ ہو جانے کے بعد کونی کو پتا چلا کہ میکائلس تو بڑا بانکا عاشق ہے۔ لیکن ان لمحوں میں کونی کے لیے جسمانی سکھ سے بھی زیادہ اہم سپردگی کی خواہش تھی۔
***
نام ناول: لیڈی چیٹرلی کا عاشق
مصنف: ڈی۔ ایچ۔ لارنس
تعداد صفحات: 170
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Lady Chatterley's Lover by D.H.Lawrence (Urdu).pdf
Lady Chatterley's Lover, a novel (Urdu translation) by D.H.Lawrence, pdf download.
پڑھ لیں پھر تبصرہ کروں گا
جواب دیںحذف کریں