انگلینڈ اور ہالینڈ کے علمی ادارے - سابق ریاست حیدرآباد کی امداد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-26

انگلینڈ اور ہالینڈ کے علمی ادارے - سابق ریاست حیدرآباد کی امداد

hyderabad-state-donation-england-holland-institutions

سابق ریاست حیدرآباد کے آخری فرماں روا نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی فراخ دلی اور فیاضی بلکہ فیض رسانی کی شہرت نہ صرف سارے بر صغیر ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بلاوجہ نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں سے بھی اور جس نے بھی علمی و تہذیبی نقطہ نظر سے کسی اہم مقصد کے لئے امداد کی درخواست کی آصف سابع نے بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ مجوزہ اعانت میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کیا۔ یورپ کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک بھی حکومت ریاست حیدرآباد سے اس سلسلے میں رجوع ہوئے اور انہیں اس ریاست اور اس کے والی سے مایوس نہیں ہونا پڑا۔ آصف سابع کی علمی فیاضیوں سے نہ صرف علی گڑھ یونیورسٹی، بنارس یونیورسٹی، آندھر ایونیورسٹی، شانتی نکیتن، جامعہ ملیہ، بھنڈار کر اورنٹیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، انسٹیٹ آف سائنس، بنگلور اور ملک کے دوسرے مقامات سے تعلق رکھنے والے ادارے اور افرادفیض یاب ہوئے بلکہ یورپ کے ممالک انگلستان اور ہالینڈ کے علمی اداروں نے بھی استفادہ کیا۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس تعلق سے جو مواد بکھرا پڑا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس مضمون میں انگلستان اور ہالینڈ کے چار اہم علمی اداروںں کو دی گئی مالی امداد کی کار روائیوں کے مختصر خلاصے پیش کئے جا رہے ہیں جن سے علمی دنیا پوری طرح آگاہ نہیں ہے یا جن کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ امداد اعانت اور یہ فیاضی کس درجہ اہم اور وقیع کہلا سکتی ہے۔

آرام اسٹرانگ کالج، نیو کیاسل (یونیورسٹی آف ذرہم) کے پرنسپال سر تھیوڈور میوریسن نے نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے نام اپنی ایک درخواست مورخہ 10/ جون 1926ء میں لکھا کہ لندن کے باہر انگلستان کے لوگوں میں ہندوستان کے بارے میں بڑی لا علمی پائی جاتی ہے۔ آبادی کے بڑے مراکز میں تعلیم یافتہ اور متمول طبقہ بھی ہندوستان کے بارے میں کچھ واقف نہیں ہے۔ اس لاعلمی کو دور اور ختم کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ کتب خانوں کو ہندوستان کے بارے میں کتابیں فراہم کی جائیں۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر وہ ہندوستان پر کتابوں کی ایک اچھی لائبریری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لائبریری میں وہ ہندوستانی مصوری اورہندوستان کے فن تعمیر کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ پر کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں وہ خصوصیت کے ساتھ عہد وسطی کی اہم معاصر تاریخ کی کتابوں کے ترجمے جیسے ابو الفضل کا اکبر نامہ و آئین اکبری عبدالقادر بدایونی کی منتخب التواریخ، ابو القاسم کی تاریخ فرشتہ، تزک بابری اور تزک جہانگیری وغیرہ اس لائبریری میں رکھنا چاہتے ہیں۔ سر تھیوڈور مورسین نے متذکرہ بالا کتابوں کے ذخیرے کی خریدی کے لئے ایک ہزار پونڈ کی ضرورت ظاہر کرتے ہوئے درخواست کی کہ ہندوستان پر کتابوں کی خریدی اورکتب خانے کے قیام کے لئے ایک ہزار پونڈ کا عطیہ منظور کیا جائے۔
جب باب حکومت کے اجلاس میں یہ کار روائی پیش ہوئی تو بہ غلبہ آرا یہ قرار داد منظور کی گئی۔ سرکار میں عرض کیا جائے کہ خاص حالات کے لحاظ سے اس کام میں پانچ سو پونڈ چندہ دیا جائے تو نامناسب نہ ہو گا مگر لطف الدولہ بہادر کو اس رائے سے اختلاف ہے۔ ان کی رائے میں یا تو کچھ نہیں دینا چاہئے اور اگر دیں تو پوری رقم جس کی استدعا سر تھیوڈور موریسن نے کی ہے یعنی ایک ہزار پونڈ دینا چاہئے۔ جب یہ کار روائی ایک عرضداشت کے ذریعہ آصف سابع کے ملاحظہ میں پیش ہوئی تو انہوں نے فرمان مورخہ 26/اگست 1926ء کے ذریعہ کتب خانے کی امداد کے لئے ایک ہزار پونڈ کی منظوری صادر کی۔

اسکول آف اورینٹیل اسٹیڈیز، لندن یونیورسٹی کی جانب سے مالی امداد کی درخواست پر باب حکومت نے امداد دینے کی سفارش کی۔ اس سفارش کے مطابق آصف سابع نے بذریعہ فرمان 16/ اگست 1928ء تین سال کے لئے پانچ پونڈ سالانہ منظور کئے۔ مالی امداد منظور ہونے کی اطلاع ملنے پر اسکول کی مجلس انتظامی نے شکریے کا رزولیوشن منظور کیا اور ڈائرکٹر نے صدر المہام فینانس کے نام اپنے مراسلے مورخہ 25/اکتوبر 1928ء میں اس رزولیوشن کو درج کر کے استدعا کی کہ اسے آصف سابع کے ملاحظے میں پیش کیا جائے۔ جب اسکول کی امداد کی سہ سالہ مدت قریب الختم تھی تو اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کی مجلس انتظامی کے صدر سرہار کو رٹ بٹلر نے ایک درخواست روانہ کی جس میں انہوں نے اسکول کی اچھی کار کردگی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے گزارش کی کہ اسکول کے لئے جو فیاضانہ امدادمنظور کی گئی تھی وہ بدستور جاری رکھی جائے۔ اس درخواست پرباب حکومت نے امداد کی رقم گھٹا کر اسے مزید تین سال تک جاری رکھنے کی سفارش کی۔
آصف سابع نے اس سفارش کو قبول کرتے ہوئے فرمان مورخہ 6/ ستمبر 1932ء کے ذریعہ اس اسکول کے لئے ڈہائی سو پونڈ سالانہ مزید تین سال کے لئے منظورکئے۔ دوسری بارامداد کے جاری ہونے کے کچھ عرصہ بعد سرہار کورٹ بٹلر نے ایک مکتوب کے ذریعہ استدعا کی کہ اسکول آف اورینٹیل اسٹیڈیز کی دوسرے مقام پر تعمیر کی جانے والی عمارت کے لئے امداد دی جائے لیکن اس مرتبہ کوئی مالی امدادمنظورنہیں کی گئی اور آصف سابع نے فرمان مورخہ 15اپریل 1935 ء کے ذریعہ حکم دیا، مدرسہ السنہ مشرقیہ کوکسی امداد کی ضرورت نہیں کیونکہ قبل ازیں کافی رقم دی جا چکی ہے۔

اسکول آف اورینٹیل اسٹیڈیز کو دوسری بار تین سال کی مدت کے لئے جو امداد منظور کی گئی تھی وہ مدت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اس اسکول کے ڈائرکٹر سروڈینسن راس کی یادداشت مورخہ 18 نومبر 1936ء حکومت ریاست حیدرآباد کے نام وصول ہوئی جس میں انہوں نے درخواست کی کہ اس اسکول کے شعبہ اردو کے لئے ریڈر شب منظور کی جائے جسے دی نظامس ریڈر شب ان اردو کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ اس درخواست پر باب حکومت نے امداد جاری کرنے کے سلسلے میں جو سفارش پیش کی تھی اسے قبول کرتے ہوئے آصف سابع نے فرمان مورخہ 16 ستمبر 1937ء کے ذریعہ اسکول آف اورینٹیل اسٹیڈیز، لندن یونیورسٹی میں اردو ریڈر شب قائم کرنے کی غرض سے ڈہائی سو پونڈ سالانہ کی امداد منظور کی۔
(اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کی امداد کی بارے میں ایک علاحدہ مضمون اس کتاب میں شامل ہے۔ )

لیڈن یونیورسٹی (ہالینڈ) کے ڈاکٹر ووگل نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک یادداشت روانہ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ ہندوستانی علم آثار کو ترقی دینے کے لئے لیڈن یونیورسٹی (ہالینڈ) آرکیالوجی کی چھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں جنہیں علمی دنیا میں کافی پسند کیا گیا ہے۔ اب سا تویں جلد زیر تربیت ہے لیکن اس کام کی تکمیل میں مالی مشکلات درپیش ہیں۔ چونکہ حکومت ریاست حیدرآباد نے ایسے کاموں کی امداد میں دریا دلی سے کام لیا ہے اور یہ کام ہندوستان کے ارباب ذوق کوبھی فائدہ پہنچائے گا اس لئے اگر دو یا تین سو روپے سالانہ امداد جاری کی جائے تو مشکلات دور ہو جائیں گی اور یہ علمی کام بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکے گا۔ ناظم آثار قدیمہ نے اس یادداشت پر یہ لکھا کہ چونکہ ڈاکٹر ووگل نے دو یا تین سو روپے سالانہ کی امداد مانگتے ہوئے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ کتاب میں حکومت ریاست حیدرآباد کی مالی اعانت کا تذکرہ کیا جائے گا اور ریاست کے سر رشتہ ( محکمہ) آثار قدیمہ کی کارگزاری پربھی نمایاں تبصرہ شامل ہو گا اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سر رشتہ مذکور کی گنجائش سے پانچ سال کے لئے دو سو روپے کلدار کی امداد منظور کی جائے اور ڈاکٹر وگل کو لکھا جائے کہ وہ سر رشتہ آثار قدیمہ کے علاوہ کتاب کے نسخے کتب خانہ آصفیہ، نظام کالج، عثمانیہ یونیورسٹی اور باب حکومت کے کتب خانوں کو بھی بلا قیمت روانہ کریں۔ معتمد وصدرالمہام آثار قدیمہ کی رائے سے اتفاق کیا۔
باب حکومت نے حسب رائے ناظم آثار قدیمہ مالی امداد کی منظوری کی سفارش کی اور آصف سابع نے فرمان مورخہ 8 جولائی 1934ء کے ذریعہ ببلو گرافی آف انڈین آرکیالوجی کی طباعت کی غرض سے پانچ سال کے لئے دو سو روپے سالانہ کی امدادمنظور کی۔ ان احکام کی تعمیل میں ادارہ مذکور کو پانچ سال تک (1934 تا 1938ء امداد دی جاتی رہی۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے ببلو گرافی آف انڈین آرکیالوجی کی تدوین و اشاعت کا کام بند رہا۔ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر ووگل پروفیسر علم آثارلیڈن یونیورسٹی ہالینڈ نے حکومت حیدرآباد کے نام ایک درخواست میں لکھا کہ جنگ کے دوران جرمنی کے مظالم اور غارت گری کی وجہ سے ان کے ملک کی حالت بڑی خراب رہی۔ خوش قسمتی سے انسٹیٹیوٹ جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا اوراب وہ اپنا کام شروع کر سکتا ہے۔ ان دنوں انسٹیٹیوٹ مالی مشکلات سے دو چار ہے۔ انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کو حسب سابق مالی امداد جاری کرنے کی درخواست کی۔
سر رشتہ آثار قدیمہ نے اس درخواست پر لکھا کہ ادارہ مذکورہ کا رسالہ انڈین ببلو گرافی یورپ کے اہم اور مشہور رسالوں میں شمار کیا جاتا تھا اس میں ہندوستان کے آثار پر شائع ہونے والی مطبوعات پر عالمانہ تبصرے شائع کئے جاتے تھے۔ اس رسالے میں سب سے پہلے سر رشتہ آثار قدیمہ حکومت ریاست حیدرآباد کی سالانہ رپورٹوں اور دیگر مطبوعات پر اہم تبصرے شامل رہتے تھے۔ چونکہ اس رسالے کو آرکیالوجی کے ماہر وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے اس لئے امداد کو دوبارہ تین سال کے لئے جاری کیا جانا چاہئے۔ سر رشتہ فینانس نے سر رشتہ آثار قدیمہ کی رائے سے اس صراحت کے ساتھ اتفاق کیا کہ ادارہ مذکور کو 8 نسخے جات بلا قیمت سربراہ کرنا ہو گا۔ باب حکومت نے حسب تحریک سر رشتہ فینانس امداد جاری کرنے کے سلسلے میں قرار داد منظور کی۔ ان سفارشات کی روشنی میں آصف سابع نے تین سال کے لئے مالی امداد کی منظوری دی۔ اس بارے میں ان کا یہ فرمان مورخہ 13/جون 1946ء جاری ہوا۔ کونسل کی رائے کے مطابق اس ادارہ کو دو سو روپے کلدار سالانہ کی امداد تین سال تک جاری کی جائے اس صراحت کے ساتھ کہ یہ اس پرچے کے 8 نسخے بلا قیمت ہمارے ہاں سربراہ کیا جائے۔

سر آسٹن چمبرلین (Sir Austen Chamberlain) نے ایک مکتوب ماہ اپریل 1934ء میں سر اکبر حیدری، صدر المہام فینانس حکومت ریاست حیدرآباد کے نام روانہ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ لندن اسکول آف ہائیجن اینڈ ٹراپکل میڈیسن (London School Of Hygiene & Tropical Medicine) کے لئے حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے مالی امداد عطیے یا چند برسوں کے لئے چندے کی شکل میں جاری کروائی جائے۔ سر آسٹن چیمبرلین کچھ عرصہ قبل برطانوی کابینہ میں سکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا اور فارن سکریٹری جیسے بے حد اہم عہدوں پر مامور رہ چکے تھے۔ سر اکبر حیدری نے نواب کاظم یار جنگ کے نام اپنے مکتوب مورخہ 2/مئی 1934ء کے ساتھ ایک نوٹ روانہ کیا۔
اس نوٹ میں مہاراجہ سر کشن پرشاد، صدر اعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا نے ادارہ مذکور کو دو ہزار پونڈ یکمشت مالی امداد دینے کی سفارش کی تھی۔ اس سفارش کی روشنی میں آصف سابع نے فرمان مورخہ 14/ مئی 1934ء کے ذریعہد و ہزار پونڈ یکمشت کی امداد منظور کی۔ امداد کی منظوری کی اطلاع ملتے ہی سر اکبر حیدری نے سر آسٹن چمبر لین کو بذریعہ تار اطلاع دی۔ سر آسٹن چمبر لین، چیئر من کورٹ آف گورنرس ادارہ مذکور نے سر اکبر حیدری کے تار کے جواب میں مکتوب روانہ کرتے ہوئے لکھا کہ آصف سابع نے ایک نیک کام میں جس دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور جو عطیہ مرحمت کیا ہے اس کی نسبت ادارہ مذکور کی جانب سے نیز ان کی جانب سے آصف سابع کی خدمت میں دلی شکریہ عرض کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ:
قدرداں حیدرآباد
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1996
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Hyderabad State donation to educational institutions of England and Holland. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں