بانو قدسیہ (پ: 28/نومبر 1928 ، م: 4/فروری 2017)
اردو اور پنجابی زبان کی مقبول و معروف افسانہ/ناول نگار اور ڈراما نویس کی آج 91 ویں سالگرہ ہے۔
ممتاز افسانہ/ناول نگار اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی اہلیہ بانو قدسیہ، ادبی دنیا میں اپنے ناول "راجہ گدھ" کے سبب مشہور ہوئیں۔ ان کے ایک ڈرامے "آدھی بات" کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔
بانو قدسیہ کے افسانوں کا آخری مجموعہ "آتش زیرِ پا" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 10 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
بانو قدسیہ کے ناول "راجہ گدھ" سے ایک اقتباس :میں نے انسان کو شہر بساتے اور حق مانگتے دیکھا ہے۔۔۔ جان لو صاحبو! جب کبھی سڑک بنتی ہے اس کے دائیں بائیں کا حق ہوتا ہے، جو مکان شہروں میں بنتے ہیں باپ کے مرتے ہی وارثوں کا حق بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ چلو اور چل کر دیکھو جب سے انسان نے جنگل چھوڑا ہے اس نے کتنے حق ایجاد کر لیے ہیں۔ رعایا اپنا حق مانگتی ہے، حکومت کو اپنے حقوق پیارے ہیں، شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے حق مانگتی ہے، استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد اپنا حق مانگتا ہے۔اصلی حق کا تصور اب انسان کے پاس نہیں رہا، کچھ مانگنا ہے تو اصلی حق مانگو۔۔۔ جب محبت ملے گی تو پھر سب حق خوشی سے ادا ہونگے، محبت کے بغیر ہر حق ایسے ملے گا جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے ۔۔۔۔
منزہ احتشام گوندل، بانو قدسیہ کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ۔۔۔بانو قدسیہ نے افسانے بھی لکھے۔ مگر راجہ گدھ ان کی باقی تمام تحریروں کو کھا گیا۔ان کا ایک افسانہ ایسا ہے کہ جس کا میں زکر کرنا چاہوں گی۔اس افسانے کا نام "انتر ہوت اداسی" ہے۔ یہ ایسا افسانہ ہے جو خالصتاً نسائی لہجے کا ہے۔اس میں عورت کے گہرے دکھ اور کرب کچھ ایسے سترنگی چادر اوڑھ کے سامنے آتے ہیں کہ بڑے بڑوں کے پتے پگھل جائیں۔عورت جس کا سب سے بڑا اعزاز اور امتیاز ممتا ہے،جب وہ بچے کو پیٹ میں اٹھائے ہوتی ہے تو ہر کوئی اس سے پوچھتا ہے کہ یہ کس کا ہے؟آخر ایک دن وہ پھٹ پڑتی ہے اور کہتی ہے کہ کسی کا نہیں ،یہ میرا ہے۔یہ میرا بچہ ہے۔عورت کا اپنی کوکھ پر بھی اختیار نہیں۔اس کا اپنے جسم پر اختیار نہیں۔حتی کہ اپنے دماغ پر بھی اختیار نہیں،وہ کچھ ہٹ کے سوچتی ہے تو بھی پتھر کھاتی ہے۔یہ واحد افسانہ ہے جس میں بانو قدسیہ نے عورت کے دکھ کی وکالت کی ہے۔ ان کی باقی سبھی تحریریں ایک خاص نکتہء نظر کے تحت لکھی گئی لگتی ہیں۔جس میں سمجھوتے کرنے کی تعلیم،برداشت کرنے کا سبق،مٹ جانے اور فنا ہوجانے کی مشقیں نمایاں ہیں۔یہ سب اسباق بجا سہی ،میں نہیں کہتی کہ غلط ہیں۔مگر میرے پاس ان سب باتوں سے اتفاق کرنے کا جواز بھی نہیں ہے۔
***
نام کتاب: آتش زیرِ پا
مصنف: بانو قدسیہ
تعداد صفحات: 255
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 10 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Aatish Zer E Pa _ Bano Qudsia.pdf
آتش زیرِ پا - افسانے از بانو قدسیہ :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | ذات کا محاسبہ | 9 |
2 | خورد سال | 22 |
3 | ہزار پایہ | 27 |
4 | اقبالِ جرم | 34 |
5 | الزام سے الزام تک | 39 |
6 | بہوا | 59 |
7 | پہلا پتھر | 64 |
8 | خود شناس | 87 |
9 | چھمو | 109 |
10 | واماندگئ شوق | 127 |
11 | مات | 149 |
12 | حسن خاتمہ | 165 |
13 | توبہ شکن | 177 |
14 | پسپائی | 204 |
15 | پیا نام کا دیا | 218 |
16 | ہوتے ہواتے | 231 |
Aatish Zer-e-Pa, selected short stories by Bano Qudsia, pdf download.
توبہ شکن
جواب دیںحذف کریںٹوبہ شکن
جواب دیںحذف کریں