سنجیو کمار - بالی ووڈ فلم نگری کا ایک عظیم فنکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-24

سنجیو کمار - بالی ووڈ فلم نگری کا ایک عظیم فنکار

sanjeev-kumar

سنجیو کمار (پ: 9/جولائی 1938، اصل نام: ہری ہر جیٹھالال زری والا)
کی 6/نومبر 1985 کو سہ پہر کے لگ بھگ پونے تین بجے دل کی حرکت بند ہو جانے سے وفات ہو گئی تھی۔ اسی دن ان کی والدہ کی بھی برسی تھی، اس لیے اداسی کے عالم میں وہ اپنے گھر پر اکیلے ہی تھے۔ اتفاق سے ان کا بھتیجہ اودے بھی گھر میں نہیں تھا، جس سے وہ بےحد پیار کرتے تھے۔ اچانک انہیں الٹی ہوئی، فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر کے آنے پر وہ کہنے لگے کہ ذرا ہم شیو کرکے نہاتے ہیں، پھر آرام سے چیک اپ کرائیں گے۔ یہ کہہ کر جب وہ باتھ روم جانے لگے تو باتھ روم تک پہنچنے سے پہلے ہی ان پر دل کا دورہ پڑا اور وہیں ان کا جسم ٹھنڈا ہو گیا۔ ڈاکٹر ڈرائینگ روم میں ان کا انتظار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد سنجیو کمار کا قریبی دوست سچن ملنے آیا اور سیدھا باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ سنجیو یعنی ہری بھائی کا خاکی جسم فرش پر بےجان پڑا ہوا تھا۔ انہیں مرے ہوئے لگ بھگ آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا۔

اناً فاناً ساری فلم انڈسٹری میں شور مچ گیا کہ سنجیو کمار چل بسے۔ ان کے گھر پر فلمی ستاروں اور دیگر فلمی ہستیوں کا ہجوم پہنچ گیا۔ سنیل دت، امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا، راجیش کھنہ، ونود کھنہ، راجندر کمار، او۔پی۔رلہن، شام رلہن، سائرہ بانو، شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹل، راج ببر، دیپک پراشر، میک موہن، ونود مہرا، پرکاش مہرا، جتیندر، پونم ڈھلوں، زرینہ وہاب، زینت امان، راکیش روشن، جیکی شراف، انیل کپور، انو ملک، دیو کمار، دارا سنگھ، پریکشت ساہنی، وکرم، اکبر خان، سنجے دت، ستین کپو، مالا سنہا، دیو آنند، چیتن آنند، منوج کمار، شمی کپور، رشی کپور، رندھیر کپور، راجیو کپور، رنجیت، شکتی کپور، پروڈیوسر کرشنا مورتی، متھن چکرورتی، امریش پوری، سبھاش گھئی، کنال کپور، بی۔آر۔چوپڑا، یش چوپڑا، رضا مراد، دھیرج کمار، پریم چوپڑا، سریندر موہن، رتی اگنی ہوتری، انیل شرما، سریش اوبرائے، نمی، نوشاد وغیرہ بہت سارے لوگوں نے سنجیو کمار کے آخری درشن کیے۔
8/نومبر کو صبح ٹھیک دس بجے ایک گاڑی پر سنجیو کمار کا جسد خاکی رکھا گیا اور ارتھی کا جلوس سانتاکروز جوہو شمشان کی طرف روانہ ہو گیا۔ بھیڑ اتنی تھی کہ پولیس بھی پریشان ہو گئی تھی کیونکہ لگ بھگ ساری فلم انڈسٹری امڈ آئی تھی۔ جرنلسٹس، فوٹوگرافرز اور ویڈیو شوٹنگ کرنے والے مسلسل اپنا کام کرنے میں مصروف تھے۔ سنجیو کمار کے بھتیجے اودے نے چتا میں آگ لگائی۔ آگ کے شعلے بلند ہوتے گئے اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ آنسوؤں کے سیلاب میں لوگوں نے اپنے پیارے "ہری بھائی" کو وداع کیا۔

سنجیو کمار کا اصلی نام ہری ہر جیٹھالال زری والا تھا۔ ان کا جنم 9/جولائی 1938ء کو بمبئی میں ہوا تھا۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی، ایک زمانے میں ان کا نام قریب قریب ہر ہیروئین کے ساتھ وابستہ رہا۔
اس میں ہیما مالنی کا نام سرفہرست ہے۔ پھر سلکھشنا پنڈت سے عشق ہوا اور سنجیو کا آخری عشق جے۔شری۔ٹی کے ساتھ تھا۔ عجیب بات یہ رہی کہ پہل سنجیو کی طرف سے ہوتی تھی اور جب بات شادی تک پہنچی تو سنجیو میدان سے بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔ بیماری کے بعد تو وہ کہا کرتا تھا کہ میں اس عمر اور اس بیماری کے ساتھ شادی کر کے کسی لڑکی کی زندگی برباد کرنا نہیں چاہتا۔

امریکہ سے آنے کے بعد سنجیو نے راہی، قتل، کانچ کی دیوار اور بدکار کو مکمل کروایا۔ اس کی نامکمل فلموں میں ہیرے جواہرات، سامنا، زندگی ایک سفر، انسان کی اولاد، دو وقت کی روٹی، پروفیسر کی پڑوسن اور ترپتی شامل ہیں۔ پروڈیوسر جانی وہسکی کی "عداوت" بھی شامل ہے جو سنجیو کی بیماری کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکی تھی اور ابھی پچھلے ہی دنوں اس کا مہورت ہوا اور سنجیو نے کچھ کام بھی کیا۔ اور سب سے اہم نامکمل فلم ہے: مرحوم کے۔آصف کی فلم "لَو اینڈ گاڈ"۔

سنجیو کمار کی ابتدا ایک ایکسٹرا اداکار کے طور سے ہوئی تھی، مگر اس نے آہستہ آہستہ ایک ایسا مقام بنایا کہ فلمی دنیا کا بہترین اداکار تسلیم کر لیا گیا۔ مشکل ترین رول کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ سنجیو کمار کی مشہور فلموں میں کوشش، کھلونا، موسم، دستک، ترشول، ارجن پنڈت، شعلے، نمکین، نیا دن نئی رات، پتی پتنی اور وہ، انگور، انوبھو، آندھی، شطرنج کے کھلاڑی، ودھاتا اور گرہ پرویش کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مگر خود سنجیو کمار کو اپنی کون سی فلمیں پسند تھیں، یہ بات سنجیو نے ابھی کچھ ہی دن پہلے مسافر کو آر۔کے۔نیر کی فلم "قتل" کی شوٹنگ کے دوران بتائی تھی۔
سنجیو کمار سے مسافر کی ملاقات سینکڑوں بار ہوئی ہوگی مگر اس ملاقات میں، جو آخری ملاقات ثابت ہوئی، مسافر کے پاس ایک ٹیپ ریکارڈر تھا، سنجیو سے مختلف موضوعات پر جو طویل گفتگو رہی، وہ ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ ہوتی گئی۔
اپنی بہترین فلموں سے متعلق سنجیو کمار نے مسافر کو جو بتایا وہ کچھ اس طرح ہے ۔۔۔۔

"آپ نے آج تک بےشمار فلموں میں کام کیا ہے، آپ کا ہر رول سراہا گیا ہے، بہترین اداکار کے طور پر 'دستک' اور 'کوشش' کے لیے نیشنل ایوارڈ بھی آپ کو ملا ہے مگر خود آپ کو اپنا کام کن کن فلموں میں ہسند ہے؟"
"یہ بہت مشکل سوال ہے۔ پھر بھی آپ نے پوچھا ہے تو کچھ سوچنے دیں۔" یہ کہہ کر سنجیو نے آنکھیں بند کر لیں اور کچھ دیر سوچنے کے بعد آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا:
"کھلونا ۔۔ سنگھرش ۔۔ نیا دن نئی رات ۔۔ شعلے ۔۔ انوبھو ۔۔ آندھی ۔۔ موسم ۔۔ ترشول ۔۔ ارجن پنڈت ۔۔ رام تیرے کتنے نام ۔۔ اور جو میری سب سے پسندیدہ اور بہترین فلم ہے: کوشش! اور کون سی فلم رہ گئی ہے؟"

"دیکھا جائے تو 'کھلونا' آپ کے ابتدائی دور کی فلم ہے۔ اس فلم میں پاگل کے رول میں آپ نے حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔ یہ رول آپ کو کس طرح ملا؟ جبکہ اسے بہت سے دوسرے ہیرو حاصل کرنا چاہتے تھے"۔
"میں ہرساد جی کی فلم 'جینے کی راہ' میں ان دنوں ایک گیسٹ رول کر رہا تھا۔ پتا چلا کہ 'کھلونا' بنا رہے ہیں۔ اچھا رول تھا تو بہت سے آرٹسٹ اس رول کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کچھ نے ڈائرکٹ بات کی تو کچھ نے اپنے آدمیوں کے ذریعے پرساد جی تک پیغام پہنچائے۔ میری ایک گجراتی زبان کی فلم تھی جس میں قریب قریب ایسا ہی ایک پاگل کا رول تھا۔ میں نے ایک دن پرساد جی کو وہ فلم دکھائی اور اسے دیکھنے کے بعد پرساد جی نے وہ رول مجھے دے دیا۔"

"آپ کی بہترین گیارہ فلموں کی اس فہرست میں گلزار واحد ڈائرکٹر ہیں جن کی تین فلمیں: آندھی ، موسم اور کوشش اس میں شامل ہیں۔ پھر آپ کی بہترین فلم 'کوشش' بھی گلزار ہی کی ہے۔"
"جی ہاں۔ واقعی آپ نے سچ کہا۔ بات دراصل یہ ہے کہ گلزار جو فلم بناتے ہیں، وہ مجھے ہی سامنے رکھ کر لکھتے ہیں اور مجھے ہی لینا چاہتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی ان کا پروڈیوسر کسی اور کو لینا چاہتا ہے، یا میرے پاس ان دنوں وقت نہیں ہوتا، یا میرے ساتھ کوئی مجبوری ہو تو پھر وہ کسی اور کو لیتے ہیں۔ اسے میں اپنے لیے ایک فخر اور اعزاز کی بات سمجھتا ہوں۔
گلزار کے ساتھ کام کرنے میں لطف بھی بہت آتا ہے۔ بطور ایکٹر کبھی کبھی کوئی بات مجھے سوجھ جاتی ہے تو میں گلزار کو بتا دیا کرتا ہوں اور وہ بات اگر انہیں جچ جائے تو وہ اسے اپنانے میں ہچکچاتے بھی نہیں تھے۔ 'کوشش' کے زمانے میں سیٹ پر گونگے بہرے لوگ آتے تھے۔ میں ان کی حرکات و سکنات دیکھتا تھا۔ ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں نوٹ کرتا تھا۔ ایک بار شوٹنگ کر کے ہم سب جا رہے تھے کہ مجھے ایک بات سوجھی، میں نے گلزار سے کہا کہ اگر ہم شاٹ ایسا لے لیں تو کیسا رہے گا؟ گلزار نے کچھ دیر سوچا اور پھر ویسا ہی شاٹ لے لیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں میں خوب تال میل ہے۔ گلزار صاحب کے ساتھ کام کرنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ دل اور دماغ دونوں سے ہی میں نے ان کی ہر فلم میں کام کیا۔ ان کی فلمیں 'آندھی' اور 'موسم' میں بھی مجھے اپنا رول بہت پسند ہے۔"

"آپ کو 'سنگھرش' کیسے ملی؟ اس وقت تو آپ کا کوئی نام بھی نہیں تھا۔"
"جی ہاں۔ آپ نے صحیح کہا۔ رویل صاحب کی نظر میں اس رول کے لیے کئی نام تھے مگر انہیں میری کچھ بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کے ٹکڑے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میری فلم 'تین چہرے' کی بھی تین چار ریل دیکھیں۔ یہ فلم تین چار ریل سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ پران صاحب کے اس فلم میں تین رول تھے۔ رویل صاحب نے میرے بارے میں پوچھ گچھ کی کہ یہ کون ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ وغیرہ۔ اور پھر یہ رول انہوں نے مجھے دے دیا۔ دراصل انڈسٹری میں میری پہچان بھی 'سنگھرش' کے رول کی وجہ سے ہی ہوئی۔ 'سنگھرش' کے لیے میری سب سے پہلی شوٹنگ شطرنج والے سین کی ہوئی اور وہی سب سے اچھا سین تھا اور ہر جگہ تبصرے کا باعث بنا۔"

"آپ نے جو یادگار فلمیں گنائی ہیں، ان میں 'لَو اینڈ گاڈ' کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ کیا بھول گئے آپ؟"
"بھولا نہیں ہوں۔ وہ فلم مکمل نہیں ہوئی، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو جتنی دماغی اور جسمانی محنت اس کے لیے کی ہے وہ نہ کبھی کسی فلم کے لیے کی اور نہ کر سکوں گا۔ دنوں بھوکا رہا ہوں، فاقے کیے، ورزش کی، وقت پر سونا، وقت پر اٹھنا۔۔۔ کیا کیا محنت نہیں کی اس رول کے لیے۔"

"یہ فلم 'رام تیرے کتنے نام' میں کیا خاص بات ہے جو آپ کو پسند ہے؟"
"اس فلم میں رنگ بہت ہیں، چیلنج بھی تھا۔ کیرکٹر بھی عجیب ہے۔ گاؤں کا سیدھا سا آدمی ہے۔ چڈی پہن کر گھومتا ہے۔ نام ہی ہے: پیٹورام۔ کھاتا ہی رہتا ہے۔ پھر اس میں تبدیلی آتی ہے، کیرکٹر بدلتا ہے۔ وہ امیر بن جاتا ہے۔ بعد میں اس کے بڑھاپے کا زمانہ ہے۔ وہ لڑکی جس سے محبت کرتا تھا، اس کی شادی کہیں اور ہو چکی ہوتی ہے۔ اس سے ایک لڑکی ہوتی ہے۔ اس آدمی کی قربانی۔ اس رول میں کافی کچھ کرنے کو ملا اور مزا آیا۔"

سنجیوکمار کے سوگ کے دوران جب مسافر کی سنیل دت سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا:
"سنجیو کی پہلی فلم میرے ساتھ ہی تھی جس کا نام تھا 'ہم ہندوستانی'۔ میں نے اس سے پہلی ملاقات میں ہی کہا تھا سنجیو! تمہارا اس فلمی دنیا میں اونچا مقام ہوگا کیونکہ تمہارے اندر وہ امنگ، وہ جوش، وہ لگن ہے کہ انسان دور بھی کھڑا ہو تو اس کی نظر تم پر ضرور رکے گی۔ تم محنت کروگے تو وہ مقام تمہیں ضرور ملے گا۔
اس کے بعد چند اور فلموں میں بھی میں نے سنجیو کے ساتھ کام کیا۔ سنجیو نہ صرف ایک اچھے فنکار تھے بلکہ ایک اعلیٰ انسان بھی تھے۔ اتنی مقبولیت پانے کے باوجود بھی جانے کیوں سنجیو نے اپنے آپ سے پیار نہیں کیا۔ ان کی موت بھی کچھ اسی انداز سے ہوئی جیسے گرودت اور میناکماری کی ہوئی تھی۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سارے دیس نے ان کلاکاروں سے پیار کیا، لیکن شاید ان کلاکاروں کو اپنے آپ سے پیار نہیں تھا۔ یہ ہمیشہ اپنی زندگی سے کھیلتے رہے، مگر دنیا والوں کو اپنی بہترین فنکاری کا ثبوت دیتے رہے۔ سنجیو ایک ایسا نام ہے جو فلمی دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔"

شتروگھن سنہا نے سنجیوکمار کے ساتھ اپنی کچھ یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ:
"سنجیو تو میرا یار تھا۔ میں نے اسے ہری بھائی کہہ کر کبھی نہیں پکارا۔ کیونکہ میں اسے سنجیو کمار کے نام سے جانتا تھا اور سنجیو کے نام سے ہی پکارتا تھا۔
علاج کے بعد سنجیو امریکہ سے واپس آیا تو ہم نے سنجیو سے کہا کہ: 'اب تم بالکل ٹھیک ہو گئے ہو، اب تو تمہیں شادی کرنی ہی پڑے گی۔' اس نے جواب دیا تھا: 'کیا ہوگا شادی کر کے؟ بھائی کے بچے ہیں۔ ان ہی کی دیکھ بھال کر لوں تو بہت ہے۔'
اتنی کم عمر میں ایک عظیم فنکار، بہترین انسان اور اعلیٰ دوست مجھے تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔ میں اکثر اس کے گھر آتا جاتا تھا۔ سینکڑوں بار وہاں گیا ہوں گا، لیکن جس شیشے کے کیبن میں وہ سوتا تھا، اس میں میں کبھی نہیں گیا۔ یعنی اس کے جیتے جی نہیں گیا۔ جب وہ اس دنیا سے چلا گیا تو میں پہلی بار اس شیشے کے کمرے میں گیا، اپنے پیارے دوست کا آخری دیدار کیا، جہاں برف کی سلوں کے درمیان اسے رکھا گیا تھا۔ اب چاہیں اسے اتفاق کہہ لیجیے یا تقدیر کا کھیل، سنجیو کی کمی کبھی پوری نہیں کی جا سکتی۔ اس کی زندگی تو ایک ایسی کہانی ہے جو کبھی کبھی کتابوں میں ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔"

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: دسمبر 1985

Sanjeev Kumar, a legend of Bollywood film industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں