مجتبیٰ حسین ، ہمارے زمانے کے اردو نثر نگاروں میں ایک جانا پہچانا مقبول و معتبر نام ہے جو انشائیہ نگار بھی ہیں، طنز و مزاح نگار اور خاکہ نویس بھی۔ ان کی جنوں جولانیوں کا دوسرا میدان ان کے پرلطف و شگفتہ سفرنامے بھی ہیں۔ ان کا ایک سفرنامہ "جاپان چلو جاپان چلو" تعمیرنیوز پر پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش کیا جا چکا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے اب تک کے تحریر کردہ تمام سفرناموں (جاپان، یوروپ، سابق سوویت یونین، مسقط، سعودی عرب، دوبئی اور امریکہ) کو حسن چشتی (شکاگو، امریکہ) نے 'سفرناموں کی کلیات' کی صورت میں مرتب کیا ہے۔
تعمیرنیوز کے ذریعے یہ دلچسپ و یادگار "کلیاتِ سفرنامہ" پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ساڑھے تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 16 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
پرنٹیڈ کتابی شکل میں یہ یادگار تصنیف (قیمت: 250 روپے) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ویب سائٹ سے آن لائن خریدی جا سکتی ہے:
مجتبیٰ حسین کے سفرنامے - مجتبیٰ حسین - ₹250.00
اس کتاب کے مرتب حسن چشتی، مقدمہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔مجتبیٰ حسین کی جنوں جولانیوں کا دوسرا میدان ان کے سفرنامے بھی ہیں۔ وہ ملک میں اور بیرونِ ملک بھی طویل سیاحت کر چکا ہے، اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ اس کے سفرنامے گو مختصر ہیں مگر اپنی دلکشی، تجسس آفرینی اور قدر و قیمت میں بہت سے طویل سفرناموں پر بھاری ہیں۔
غالب نے کہا تھا:
اگر بہ دل نہ ځلد ہر چہ از نظر گزرد
زہے روانئ عمرے کہ در سفر گزرد
(دل میں تو مناظر جب چبھتے ہیں کہ آپ کسی پسماندہ و درماندہ ملک کی سیر کریں اور وہاں کی بدحالی دیکھ کر رنجیدہ ہوں)۔
مجتبی نے پہلا سفر (29 ستمبر 1980ء سے یکم نومبر 1980ء تک) اس ملک کا کیا جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی تباہی کو جھیلا تھا، اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ انسان پلک جھپکتے میں موت کی نیند سو گئے تھے۔ آج وہی جاپان دنیا کا سب سے بڑا منعتی ملک ہے اور الیکٹرونکس کی دنیا میں "لمن الملک الیوم" کا ڈنکا بجا رہا ہے۔ وہاں کے مناظر اس کے دل میں چبھے مگر جاپان کی بدحالی پر نہیں بلکہ اپنے ملک کی خستہ حالی پر۔ یہ مختصر سا سفر نامہ، جاپان کی ایک دلکش تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ اردو میں مقبول ہوا، اس کا ہندی میں ترجمہ بھی ہوا اور خود جاپانی زبان کے لباس میں بھی اس کو پیش کیا گیا۔ یقین ہے کہ اس آئینے میں جاپانیوں نے اپنے ملک اور معاشرت کی ایک سچی عکاسی دیکھ کر ہی اس کو پسند کیا ہوگا۔
مجتبیٰ کے دوسرے مختصر سفر ناموں کا 'مجموعہ کلام' سفرِ لخت لخت کی شکل میں شائع ہوا تھا (جون 1995ء)۔ اس میں پیرس، لندن، کناڈا اور امریکہ کے سفر (27 فروری 1984ء سے 30 اپریل 1984ء)، سابق سوویت یونین کے سفر (27 ستمبر 1986ء تا 28 اکتوبر 1986ء)، سعودی عرب کے سفر (دسمبر 1989ء) کی روداد لکھی گئی ہے۔
"سفر لخت لخت" کی اشاعت کے بعد مجتبی حسین نے مسقط (دسمبر 1995ء)، دوبئی (ستمبر 1996)، سعودی عرب بغرض حج (1996) اور امریکہ (24/اپریل تا 5/جولائی 2000) کے سفر کئے جن کی سرگذشت انھوں نے روزنامہ 'سیاست' میں اپنے کالم میں لکھی۔ یہ قسطیں کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئی تھیں۔ اب انھیں بھی اس مجموعہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
آج کے زمانے میں دنیا کا کوئی گوشہ ناپیمودہ بھی نہیں رہا ہے اور سفر کے لئے بھی صرف وقت اور پیسے کی ضرورت ہے۔ سفر ناموں میں کوئی نیا انکشاف مشکل ہی سے ہو سکتا ہے۔ لیکن مجتبیٰ کی سیاحتوں کی کچھ خصوصیات ہیں۔ ایک تو وہ اپنے سفر کا بیان ایسے دلچسپ انداز میں کرتا ہے کہ وہ کوئی نیا تجربہ معلوم ہونے لگتا ہے، دوسرے وہ جہاں بھی جاتا ہے وہاں اردو زبان کو تلاش کرتا ہے یا حیدرآبادی تہذیب اسے تلاش کر لیتی ہے۔ وہ نئی شخصیات سے ہمارا تعارف کراتا ہے، خود ان سے بہت جلد مانوس ہو جاتا ہے تو وہ شخصیات ہمیں بھی مانوس معلوم ہونے لگتی ہیں۔ مجتبیٰ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی نظر صرف دوستوں کی خوبیوں اور دلکش پہلوؤں پر ٹھہرتی ہے اس لیے وہ جن شخصیات سے ہمارا تعارف کراتا ہے وہ ہمیں بھی اپنی دوست محسوس ہوتی ہیں۔
وہ جہاں بھی جاتا ہے وہاں کے تاریخی آثار یا اداروں کا تعارف بھی اس طرح پیش کر دیتا ہے کہ وہ صرف اعداد و شمار کی کھتونی نہیں ہوتے بلکہ ضروری اور بنیادی باتیں قاری کے سامنے آ جاتی ہیں۔ جن مقامات کی اس نے سیر کی ہے ان کے بارے میں بہت سی اہم معلومات ضمناً مل جاتی ہیں۔ وہ خوشدلی کا دامن بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اس لیے اس کا ہر بیان ایک اکائی بن جاتا ہے کہ اسے شروع کرنے کے بعد آپ ادھورا نہیں چھوڑ سکتے۔
میں نے "مجتبی حسین کی بہترین تحریریں" کا انتخاب کر کے دو جلدوں میں شائع کیں تو ان کا استقبال توقع سے کہیں زیادہ گرمجوشی سے کیا گیا۔ پہلی جلد کا ایک ایڈیشن چھ ماہ کے اندر ہی ختم ہو گیا اور اسے دوبارہ چھاپا گیا۔ اب احباب کی فرمائش ہوئی کی تیسری جلد بھی مرتب کی جائے جو مجتبیٰ حسین کے اب تک لکھے گئے سارے سفرناموں پر مشتمل ہو۔ اسے مجتبی حسین کے سفر ناموں کی کلیات کہا جا سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجتبیٰ حسین نے اس کی اجازت دی اور اب یہ کتاب آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
- حسن چشتی
2/نومبر 2002 (شکاگو، امریکہ)۔
مجتبیٰ حسین کے فن پر ماہرین کی چند آرا ۔۔۔* شمس الرحمن فاروقی
ایسا لطیف مزاح اور ایسی سشتہ زبان اردو میں آج شاذ ہی کسی کو نصیب ہو
* مشفق خواجہ
مجتبی حسین بلاشبہ ہمارے عہد کے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں اور ہمارا عہد ان کی تحریروں میں ایک منفرد انداز سے جلوہ گر ہے۔
* خوشونت سنگھ
مجتبی حسین کے سفر ناموں کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے آپ پر بنسنے کا زبردست حوصلہ رکھتے ہیں۔
* نثار احمد فاروقی
پچھلی نسلوں نے ہمارے لیے طنز و مزاح کا جو ورثہ چھوڑا تھا مجتبیٰ حسین نے اس کو اور اس کی خصوصیات کو نہ صرف محفوظ رکھا ہے بلکہ اس کو زمین سے گہرائی تک اور عام آدمی کے زندہ مسئلوں سے دور تک جوڑ کر زیادہ وسیع اور بامعنی بنا دیا ہے۔
* ضمیر جعفری
مجتبی حسین نے اس صدی کے آشوب کو ملائم کرنے اور قابل برداشت بنانے میں عہد آفریں حصہ لیا ہے۔
* مغنی تبسم
مجتبی حسین کو واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں کمال حاصل ہے۔ ان کا مشاہدہ جزیات بین ہے اور اس وصف کو کام میں لاکر وہ کسی واقعہ کے مضحک پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ کسی واقع کو محسوس بنا کر پیش کرنا اور اس کردار کی جیتی جاگتی تصویر کھینچ دینا مجتبیٰ حسین کے فن کا خاص وصف ہے۔
* مظہرامام
مجتبی حسین بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں لیکن وہ طنز سے بھی بےحد خوبصورت کام لیتے ہیں۔ مجتبی حسین طنز بھی کر رہے ہوں تو وہ تعصب یا بغض و عناد سے عاری ہوتا ہے۔ ان کے فن کا نمایاں نظر انسانی ہمدردی ہے۔ مزاحیہ ادب کو مزاحیہ ہونے سے پہلے ادب ہونا چاہیے۔ ہمارے اکثر مزاح نگار اس فرق کو فراموش کر جاتے ہیں۔ مجتبی حسین کی تحریریں اپنے اسلوب، طریقۂ اظہار اور زبان و بیان کی جمال آفرینی کے باعث ادب کے بلند درجہ پر فائز ہیں۔
* وحید اختر
اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان کے مزاحیہ ادب کی بھرپور نمائندگی کون سا شہر کرتا ہے تو بلاجھجک حیدرآبادکا نام لوں گا اور اگر یہ دریافت کیا جائے کہ حیدرآباد کی نمائندگی کون کرتا ہے تو میں نے دریغ ایک ہی نام لے سکتا ہوں اور وہ ہے مجتبیٰ حسین۔ جو خصوصیت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی حیدرآبادیت ہے۔
یہ کتب بھی ڈاؤن لوڈ کیجیے:
جاپان چلو جاپان چلو - مجتبی حسین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
چہرہ در چہرہ - شخصی خاکے از مجتبیٰ حسین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
***
نام کتاب: مجتبیٰ حسین کے سفرنامے
از: مجتبیٰ حسین
مرتب: حسن چشتی
تعداد صفحات: 366
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 16 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Mujtaba Hussain ke Safarnamey.pdf
فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | مقدمہ (حسن چشتی) | 9 |
اول | جاپان (1980) | 15 |
1 | جاپان چلو ، جاپان چلو | . |
2 | خوش رہو اہل وطن | . |
3 | ٹوکیو میں ہمارا ورود مسعود | . |
4 | ٹوکیو میں یاد ابن انشا کی | . |
5 | پروفیسر سوزوکی ، اردو اور مسز سوزوکی | . |
6 | جاپان میں اردو | . |
7 | جاپان میں مزید اردو | . |
8 | جاپان میں ہم لکھ پتی بن گئے | . |
9 | مہذب پانی اور غیرمہذب پانی | . |
10 | یونیسکو کی چھتری | . |
11 | بلٹ ٹرین میں کبھی نہ بیٹھو | . |
12 | خموشی گفتگو ہے | . |
13 | جاپان میں اسلام | . |
14 | ٹوکیو کے بازاروں میں | . |
15 | حرف آخر | . |
دوم | یوروپ (1984) | 123 |
1 | دو باتیں | . |
2 | او دیس سے جانے والے بتا | . |
3 | سفر کرنا ہمارا مردانہ ہوائی جہاز میں | . |
4 | لندن میں ہمیں دفن کرنے کی تیاریاں | . |
5 | قیام الدین کے گھر ہمارا قیام | . |
6 | برطانیہ میں دھوم ہماری زباں کی ہے | . |
7 | کچھ ذکرِ خیر و شر ساقی فاروقی کا | . |
8 | کچھ نقی تنویر کے بارے میں | . |
9 | پیرس میں مسرور خورشید نے ہمیں مسرور کیا | . |
سوم | سابق سوویت یونین (1986) | 185 |
1 | ایروفلوٹ میں ہمارا پہلا سفر | . |
2 | ہم تاشقند سے بول رہے ہیں | . |
3 | ہم نے اردو میں ازبیک کھانا کھایا | . |
4 | ازبیکستان کے ادیبوں کے درمیان | . |
5 | دنیا کے غفورو ایک ہو جاؤ | . |
چہارم | مسقط (عمان) (1995) | 219 |
1 | پھر وہی مسقط کے رات دن | . |
2 | مسقط کی صفائی اور قصہ اردو شاعر کا | . |
3 | بابائے مسقط، گلبرگہ کے رہنے والے ہیں | . |
4 | کچھ حیدرآبادیوں کے بارے میں | . |
پنجم | سعودی عرب (1996) | 236 |
1 | لبیک اللھم لبیک | . |
2 | اور ہم حاجی بن گئے | . |
3 | ہم مدینہ سے بول رہے ہیں | . |
4 | مدینہ میں انتخابی نتائج کو جاننے کی بےچینی | . |
ششم | دوبئی (1997) | 252 |
1 | دوبئی سے واپسی | . |
2 | جشن سے کس کو رستگاری ہے | . |
3 | کچھ باتیں دوبئی کی | . |
4 | نجم الحسن رضوی! تم کہاں ہو؟ | . |
5 | کچھ امجد اسلام امجد کے بارے میں | . |
ہفتم | امریکہ (2000) | 279 |
1 | ہم نے ایک ہی دن میں چار مرتبہ بریک فاسٹ کیا | . |
2 | ذکر امریکیوں کی خوش اخلاقی کا | . |
3 | ہم نے واشنگٹن میں مخدوم کو یاد کیا | . |
4 | رچمنڈ کی پہلی ادبی محفل | . |
5 | قصہ ہمارے امریکہ آنے کا | . |
6 | امریکی بزرگوں کے درمیان | . |
7 | ذکر امریکہ کے اردو اخبارات کا | . |
8 | مشتاق احمد یوسفی سے تجدید ملاقات | . |
9 | ہمارے چاہنے والے | . |
10 | گڈ مارننگ کو گڈ بائی | . |
11 | ہم نے امریکہ میں گلبرگہ کو دریافت کیا | . |
12 | ذکر حسن چشتی اور ان کے شکاگو کا | . |
13 | لالی چودھری کا لاس اینجلس | . |
14 | فیملی دھوبی سے فیملی مزاح نگار تک | . |
15 | امریکی کانگریس کی عمارت میں نمازِ جمعہ | . |
16 | ڈاکٹر عابد اللہ غازی اور اقراء فاؤنڈیشن | . |
17 | امریکہ کے ماضی میں ہمارے ماضی کی ملاوٹ | . |
18 | کچھ یادیں امریکہ کی | . |
Mujtaba Hussain ke safarnamey, travelogues by Mujtaba Hussain, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں