بیرسٹر ہمایوں مرزا (پیدائش: دسمبر 1870ء، پٹنہ - وفات: 1938ء)
اپنے وقت کے مقبول شاعر، ادیب اور قانون داں تھے۔ ان کے والد سید شاہ الفت حسین (تخلص: فریاد رئیس) کا شمار عظیم آباد (پٹنہ) کی موقر شخصیات میں ہوتا تھا جو کہ ایک بلند پایہ شاعر و مورخ بھی تھے۔ سید ہمایوں مرزا بیرسٹری کی تعلیم کے بعد روزگار کے سلسلے میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے اور یہیں ان کی شادی صغرا بیگم سے انجام پائی جو حیدرآباد (دکن) کی ایک مشہور و معروف علمی، ادبی اور مخیر شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ نصیر الدین ہاشمی کے بقول حیدرآباد کی پہلی افسانہ نگار خاتون تھیں۔ بیرسٹر ہمایوں مرزا نے شادی کے بعد اپنی بیگم کے ساتھ مل کر خواتین کی فلاح و بہبود کے بےشمار کام انجام دئے۔ وہ ابتدا ہی سے ترقی نسواں کے حامی تھے اور اپنی شادی سے قبل ہی خواتین کی تعلیم و ترقی کو فروغ دینے کے لیے 1897ء میں ایک انجمن بعنوان "انجمن ترقئ نسواں" کا قیام عمل میں لایا تھا۔
بیرسٹر ہمایوں مرزا نے اپنی تحریروں کے علاوہ مختلف اقدامات کے ذریعہ سماج میں تعلیمِ نسواں کو عام کرنے، سخت پردہ کے نظام کو ختم کرنے اور خواتین کو سماج میں اہم کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جس کی ایک مثال 1908ء میں موسیٰ ندی طغیانی کے وقت ان کے فقید المثال امدادی اقدامات ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے حیدرآباد کی چند باشعور خواتین کا ایک جلسہ منعقد کیا اور جلسہ میں شریک خواتین کا انتخاب کر کے امدادی کاموں کی ایک کمیٹی بنائی جسے طغیانی سے متاثرہ خواتین کی باز آبادکاری کی ذمہ داری سونپی گئی۔ حیدرآباد میں یہ پہلا موقع تھا جب خواتین نے پردہ سے باہر نکل کر مردوں کے شانہ بہ شانہ سماجی خدمات کو انجام دیا تھا۔ خواتین کی متذکرہ کمیٹی نے جب طغیانی سے متاثرہ خواتین کو راحت پہنچانے کے بےمثال کارنامے انجام دئے تب بادشاہِ وقت میر محبوب علی خاں نے اس کمیٹی کے کاموں کی خوب ستائش کی تھی۔
بیرسٹر ہمایوں مرزا کے نام پر شہرِ حیدرآباد کا ایک محلہ "ہمایوں نگر" آباد ہے۔ دراصل اسی علاقے میں ان کی رہائش اور جائیداد تھی۔ انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ لڑکیوں کے مدرسہ "صفدریہ گرلز ہائی اسکول" کے لیے وقف کر دیا تھا۔ 1938ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو اسی مدرسہ کے احاطہ میں ان کی تدفین عمل میں آئی اور ایک مقبرہ تیار کیا گیا۔ ان کی اہلیہ صغرا بیگم ہمایوں مرزا بھی اپنی زندگی کے بامقصد، فعال اور متحرک 73 برس گزار کر 1958ء میں جب اس دنیائے فانی وداع ہوئیں تو ان کی تدفین بھی وہیں عمل میں آئی۔
صغرا ہمایوں مرزا نے اپنے شوہر کو سوانح عمری لکھنے پر کافی مجبور کیا تھا اور انہی کے اصرار پر بیرسٹر صاحب نے اپنی خودنوشت کو مکمل کیا مگر اشاعت سے قبل ہی وہ دنیا سے وداع ہو گئے۔ ان کی وفات کے سال بھر بعد ان کی اہلیہ صغرا ہمایوں مرزا نے بڑے اہتمام سے 1939ء میں بیرسٹر سید ہمایوں مرزا کی خودنوشت بعنوان "میری کہانی میری زبانی" کو کتابی شکل میں اپنے دیباچے کے ساتھ شائع کیا۔ خودنوشت سوانح عمری کے مطالعے کا ذوق رکھنے والے قارئین کی خدمت میں تقریباً ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل یہی دلچسپ و نادر کتاب پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے ہے۔
نام کتاب: میری کہانی میری زبانی
خودنوشت: سید ہمایوں مرزا
ناشر: صغرا بیگم ہمایوں مرزا، حیدرآباد دکن (سن اشاعت: 1939ء)
تعداد صفحات: 350
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 20 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Meri kahani meri zubani by Syed Humayun Mirza.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں