پروفیسر سید محمد عقیل رضوی (پ: 10/اکتوبر 1928 ، م: 20/دسمبر 2019)
چند دن قبل الہ آباد میں انتقال کر گئے۔ اردو میں ترقی پسند تنقید کی بنیاد ڈالنے والے یہ ممتاز نقاد فراق گورکھپوری کے شاگرد تھے۔ ان کا تعلق اس نسل سے تھا جس نے سجاد ظہیر، فیض اور مخدوم محی الدین کے دور کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ پروفیسر عقیل نے اپنی زندگی کے تقریباً 70 سال اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزارے ہیں اور آپ کی تصنیفات کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔ پروفیسر صاحب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات 1995 میں شائع کروائی تھی۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ دلچسپ سوانحی کتاب پیش خدمت ہے۔ تقریباً ساڑھے چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 24 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
کتاب کے دیباچہ بعنوان "سب کہنے کی باتیں ہیں" میں مصنف لکھتے ہیں ۔۔۔سوانح حیات تو ان کے لائق مطالعہ ہوتے ہیں جو تاریخ بناتے اور بتات ہیں۔ یا پھر ایسے لوگوں کے جنہوں نے دنیا میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں جن سے ملک و قوم کی تقدیریں بدلی ہیں۔
یہ ادیبوں اور شاعروں نے کیوں اپنی سوانح عمریاں لکھی ہیں؟
بات یہ ہے کہ خودنوشت سوانح، ادیب یا شاعر کی خود اپنی تلاش ہیں۔ دوسرے تو اس کے اشعار اور تحریریں پڑھ کر ہی ان کی حیثیت کے ایک رخ کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ لیکن بہت سی باتیں زندگی کی ایسی ہوتی ہیں جب تک انسان خود نہ بتائے، دوسروں کو مشکل سے معلوم ہوتی ہیں۔ پھر کبھی کبھی انسان خود اپنا بھی تجزیہ چاہتا ہے یا اپنے مصائب، مسائل اور خوشیوں کا پھر سے مزہ خود بھی لینا چاہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کرنے کا خواہشمند۔
بہرحال میں نے تو یہی سوچ کر یہ سب باتیں لکھی ہیں کہ زندگی کے جس کیف و کم سے میں گزرا ہوں، اگر وہ کچھ دیر کے لیے دوسروں کو بھی بہلا سکیں یا پھر میری خامیاں دوسروں پر بھی عیاں ہو جائیں تو کیا ہرج ہے کہ خودنوشت ایک طرح کا کنفشن [Confession] بھی تو ہے۔
میں نے ہمیشہ یہی سوچا ہے کہ انسان خطا و نسیان کو بہرحال مرکب ہے، وہ غلطیاں بھی کرتا ہے اور اس سے اچھے کام بھی انجام پاتے ہیں۔ اس میں نیکیاں بھی ہیں اور خباثتیں بھی۔ جنہیں انسان اپنے برتاؤ سے ظاہر کرتا رہتا ہے۔ بس یہی اس کا اصل روپ ہے باقی سب ملمع۔ انسان نے علم و ادب، تہذیب و تمدن سے اس جانور کو سدھایا ہے جو اس نے اندر چھپا بیٹھا ہے۔ تاہم کارزار حیات میں کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ہیں جب یہ سدھایا ہوا جانور بےمہار ہو جاتا ہے۔ پھر بقول تلسی داس ع
تب لگ پنڈت مورکھ اور تلسی ایک سمان
خودنوشت سوانح عمری میں ایسی صورتوں کا بھی اظہار ہونا چاہیے تاکہ انسان کے اندر چھپے ہوئے جانور کا بھی مطالعہ ہو سکے۔
راقم الحروف نے اپنی اس خودنوشت میں ظاہرداری، بےجا تفاخر اور ادعائیت سے کہیں کام نہیں لیا ہے بلکہ پوست کندہ حالات لکھ دئے ہیں۔ اس میں گفتنی بھی ہے اور ناگفتنی بھی۔ میں نے کسی کی دلآزاری کی کہیں کوشش نہیں کی ہے۔ ہاں جنہوں نے بلاسبب میری دلآزاری کبھی کی ہے صرف ان کے واقعات لکھ دئے ہیں اور بس۔ اس بیان واقعہ میں شاید اگر کہیں تلخ صورت یا مبالغے کی لہر پیدا ہو گئی ہو مگر واقعات سب صحیح و درست ہیں۔ اس نوشتے میں کہیں معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا ہے اور مجھے اس میں کبھی مزہ نہیں ملتا۔ ہاں ازراہ مزاح کسی کے لیے کچھ لکھ دیا ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
چند الفاظ اس سوانح عمری کے نام کے سلسلے میں بھی۔
شام کے وقت، گاؤں کی طرف واپسی پر چرواہوں کے گلے کے پیروں سے اڑتی دھول، ڈوبتے سورج کی روشنی کو دھندلا دیتی ہے۔ یہی "گئو دھول" ہے۔ یہاں اسے ایک طرح سے 'شامِ زندگی' سمجھ لیجیے۔
***
نام کتاب: گئو دھول
خود نوشت سوانح حیات از: پروفیسر سید محمد عقیل
تعداد صفحات: 441
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 24 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Gau Dhool_Syed Mohammad Aquil.pdf
گئو دھول - خودنوشت :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | سب کہنے کی باتیں ہیں | 6 |
2 | میرے بھائی اسے کوردہ کہا کرتے تھے | 10 |
3 | ایدل پور، میری تعلیم اور شرارتوں کی جولانگاہ | 18 |
4 | جلتا ہوا کھیت اور پٹتے ہوئے کسان | 24 |
5 | نئے دوست، نیا ماحول اور نئی شرارتیں | 28 |
6 | پھر اسکول چھوٹ گیا ۔۔۔ | 52 |
7 | نیا سفر | 63 |
8 | کوشکِ سلطاں میں چند دن | 68 |
9 | پھر وہی شامِ الم | 75 |
10 | کراری - اپنے تاریخی پس منظر میں | 86 |
11 | کہانیاں کیا کیا | 92 |
12 | نسب نامہ | 99 |
13 | خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا | 102 |
14 | کہاں سے ہم کہاں | 114 |
15 | خبر تحیر عشق سن | 133 |
16 | الہ آباد آزادی کے بعد | 156 |
17 | نیا افق اور نئی منزلیں | 182 |
18 | جنگل جنگل گھوما ہوں | 198 |
19 | بمبئی ہماری بانہوں میں | 209 |
20 | نظر نہیں ہے تو کیا! نظریہ تو ہے | 220 |
21 | باغِ نشاط کے گلو | 242 |
22 | دکن ملک بھوتیج خاصا اَ ہے | 260 |
23 | پھر الہ آباد | 287 |
24 | دامن نئے نئے ہیں | 301 |
25 | اور بستی نہیں یہ دلی ہے | 309 |
26 | ایک بےرس کہانی | 326 |
27 | لندن بارِ دگر | 334 |
28 | اسگر تو آج بن میں | 341 |
29 | تازہ ہوا کے جشن | 351 |
30 | جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے | 360 |
31 | سنار بانگلہ | 368 |
32 | معترض کے منہ سے ہے کتا بندھا | 376 |
33 | مگر کوئی بنارس شاہدے ہست | 384 |
34 | یوں کراچی میں ہوں | 396 |
35 | مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو | 415 |
Gau Dhool. Autobiography by Syed Mohammad Aquil, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں