ان خیالات کا اظہارنامور افسانہ نگار، سابق صدر شعبہ اردو، یونیور سٹی آف حیدرآباد اور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس نے بازگشت کی جانب سے ممتاز طنز و مزاح نگار انجم مانپوری کی تخلیق "میر کلو کی گواہی" کی پیش کش اور گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام (4/اپریل 2021ء) میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ریڈیائی ڈرامے میں کردار کی بہتات نہیں ہونی چاہیے۔ پروفیسر محمد کاظم نے اس بات کا خیال رکھا اور صرف دو کرداروں کی گفتگو پیش کی۔ انھوں نے وکیل کے لہجے کی جھلاہٹ اور میر کلو کے لہجے کے اطمینان اور تجربہ کاری کو بڑی مہارت سے پیش کیا۔
جناب اسلم فرشوری سابق سینئر پروڈیوسر ای ٹی وی اردو اور سابق پروگرام ایگزیکٹیو آل انڈیا ریڈیو، حیدرآباد نے بہ حیثیت مہمان خصوصی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈراما دراصل زندگی کی اصل ہے۔ بلکہ اس نے اصل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس اصل میں نقل کو ڈھونڈ پانا بہت مشکل ہے۔ ایک زمانے میں ریڈیو کا صدا کار اور ڈرامے کا اداکار ہونا فخر کی بات تھی۔ جب ٹی وی ڈرامے کا آغاز ہوا تو ریڈیو فن کاروں نے صدا کاری کو اداکاری میں بدل دیا۔ ڈرامے میں آسان زبان چھوٹے جملوں اور بے ساختگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ "میر کلو کی گواہی" میں یہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔
ابتدا میں پروفیسر محمد کاظم، معروف ڈراما فنکار و نقاد اور استاد شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی نے "میر کلو کی گواہی" کی پیش کش فن کارانہ مہارت اور عمدگی کے ساتھ کی۔
ڈاکٹر جاوید رحمانی، صدر شعبہ اردو، آسام یونی ورسٹی، سلچر نے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ انجم مانپوری کی تخلیقات ہماری سوسائٹی کی عکاسی کرتی ہیں۔ "میر کلو کی گواہی" ان کی مشہور تخلیق ہے جو زبان و بیان کے اعتبار سے نمایاں اہمیت کی حامل ہے۔ آج ڈرامے میں عمدہ زبان لکھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ بازگشت آن لائن ادبی فورم ایسی تخلیقات کی پیش کش کے ذریعے زبان کا اعلیٰ اور ستھرا مذاق عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
پروگرام کے کنوینر، بازگشت آن لائن ادبی فورم کی مجلس منتظمہ کے رکن ڈاکٹر فیروز عالم استاد شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے انجم مانپوری کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ 1881 میں گیا، بہار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولانا خیرالدین اور مولانا عبدالغفار کی نگرانی میں حاصل کی بعد ازاں شاہی مدرسہ، مرادآباد میں داخلہ لیا۔ ندوہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں علامہ سید سلیمان ندوی ان کے ہم سبق تھے۔ انجم مانپوری نے ایک نیم مذہبی رسالہ "رہنما" جاری کیا۔ تلاش معاش کے لیے لاہور گئے، جہاں مولانا ظفر علی خاں نے انھیں رسالہ "زمیندار" کا سب ایڈیٹر مقرر کر دیا۔ لاہور سے واپسی کے بعد انجم مانپوری نے "ندیم" جیسا معیاری ادبی رسالہ جاری کیا۔ ان کی کتابیں "طنزیات مانپوری"، "مضحکات مانپوری" اور "مرنے کے بعد" کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں بےساختگی اور روانی ملتی ہے۔ ان کا تجربہ و مشاہدہ بے حد گہرا تھا جس کی وجہ سے ان کے مضامین میں سماجی حالات کی حقیقی عکاسی اور عمدہ جزئیات نگاری ملتی ہے۔ افسوس کہ انھیں اتنی شہرت نہ مل سکی جس کے وہ حق دار تھے۔ 1956 میں ان کا انتقال ہوا۔
بازگشت آن لائن ادبی فورم کی مجلس منتظمہ کی رکن ڈاکٹر حمیرہ سعید، پرنسپل گورنمنٹ کالج فار ویمن، سنگا ریڈی نے اس اجلاس کی بہترین نظامت کی اور پروفیسر محمد کاظم کا تعارف بھی پیش کیا۔ بازگشت کے مجلس منتظمہ کی دوسری رکن ڈاکٹر گل رعنا، استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونی ورسٹی، نظام آباد نے جناب اسلم فرشوری کا تعارف کرایا اور پروگرام کے آخر میں جامع اظہار تشکر کیا۔ بازگشت کے تکنیکی مشیر جناب غوث ارسلان نے تکنیکی تعاون پیش کیا۔
اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، پروفیسرغلام شبیر رانا، ڈاکٹر عقیل ہاشمی، جناب ملکیت سنگھ مچھانا، جناب سردار علی، محترمہ صائمہ بیگ، ڈاکٹر ہادی سرمدی، ڈاکٹر محمد زاہد الحق، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر کہکشاں لطیف، ڈاکٹر عشرت ناہید، ڈاکٹر خواجہ محمد ضیاء الدین، ڈاکٹر حنا کوثر، ڈاکٹر محمد امتیاز عالم، ڈاکٹر محمد اکبر، محترمہ فرح تزئین، محترمہ عظمیٰ تسنیم، ڈاکٹر کوثر پروین، جناب فرید احمد، محترمہ فریدہ خاتون، جناب محمد پرویز عالم وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
Anjum Manpuri's Drama 'Meer Kallu ki Gawahi', Baazgasht Online Adabi Forum's program. Press Note by: Dr. Firoz Alam (Mob.:9908201880)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں