ڈاکٹر مولوی عبد الحق (پیدائش: 20/اپریل، 1870ء، میرٹھ، اترپردیش - وفات: 16/اگست 1961ء ، کراچی)
بابائے اردو کے لقب سے معروف اردو زبان کے عظیم محقق، مفکر، معلم اور ماہر لسانیات رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج اور اشاعت کے لیے وقف کر دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں "بابائے اردو" کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23/مارچ 1959ء کو حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے مولوی عبدالحق کو نوازا تھا۔ مولوی عبدالحق نے تحقیق و حواشی کے ساتھ تقریباً تین درجن کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں، جن میں سے ایک اہم کتاب اردو زبان کے اصول و قواعد پر مبنی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ اردو کی صرف و نحو کو سنسکرت زبان کے قواعد سے اسی قدر مغائرت ہے جتنی عربی زبان کی صرف و نحو سے۔ کسی زبان کے قواعد لکھتے وقت اس کی خصوصیات کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے اور محض کسی زبان کی تقلید میں اس پر زبردستی قواعد اور اصول کے نام سے ایسا بوجھ نہ ڈال دیا جائے جس کی وہ متحمل نہ ہو سکے۔ کوشش یہ ہو کہ جدھر زبان کا رجحان ہو ادھر ہی اس کا ساتھ دیا جائے۔
یہی اہم اور یادگار تصنیف "قواعدِ اردو" تعمیرنیوز کی جانب سے اردو زبان کی اساسیات کو سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے قارئین، طلبا اور ریسرچ اسکالرز کی خدمت میں پیش ہے۔ قریباً پونے چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 13 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
مولوی عبدالحق اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔ میں اردو ہندی کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ یہ بحث میرے خیال میں بالکل بےسود ہے۔ اول تو اس لیے کہ صرف و نحو میں اس بحث کا کوئی موقع نہیں، خصوصاً اس خیال سے کہ اس امر میں تقریباً دونوں ایک ہیں۔ اور سوائے جزوی اختلافات کے، کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دوسرے جو شخص ملک کی مختلف زبانوں کی تاریخ غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ فریقین نے محض سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے۔ دراصل جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔ قدرتی اثرات اور رجحانات کا روکنا اپنے ہاتھوں سے اپنی ترقی کو روکنا ہے۔
بات یہ ہے کہ جب آریہ لوگ اس ملک میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہاں ایک دوسری قوم کو آباد دیکھا، جن کی زبان ان کی زبان سے مختلف تھی۔ ملک کی اصل قوم ان قوی آریاؤں کے حملوں کی تاب نہ لا سکی۔ اس لیے کچھ تو ان میں سے شمالی پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے اور بہت سے جنوبی اور وسطی ہند کے پہاڑوں اور جنگلوں میں جا بسے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ایسے تھے جنہیں اپنے وطن عزیز کی جدائی گوارا نہ تھی۔ اگرچہ وطن دوسروں کے ہاتھوں میں تھا۔ اس لیے نئے حملہ آوروں کی غلامی میں بسر کرنے لگے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ مغلوب و پائمال کی زبان کیا باقی رہ سکتی ہے؟ لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی زبان نے آریاؤں کی زبان یعنی سنسکرت پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا، اور اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قدیم ہندی بولیاں جو پراکرت (عوام کی بولی) کے نام سے مشہور ہیں، اس اثر کا نتیجہ تھیں۔ اور انہیں پراکرت بولیوں سے ہندوستان کی موجودہ آریاوی زبانیں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق سنسکرت سے ایسا ہی ہے جیسے یورپ کی موجودہ رومائی السنہ کو لاطینی سے۔ ان زبانوں کی تعداد عموماً سات شمار کی جاتی ہے یعنی پنجابی، گجراتی، مرہٹی، سندی، اڑیا اور بنگالی۔
ان سب میں ہندی بلحاظ قدامت و اہمیت کے سبب سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ لیکن ابتدا ہی سے اس پر غیروں کی نظریں پڑنی شروع ہوئیں۔ مسلمان جو شمال کی طرف سے اس ملک میں آنے شروع ہو گئے، اس کو اپنی زبان سے متاثر کیے بغیر نہ رہ سکے، اور جو اثر بارہویں صدی سے بڑھنا شروع ہوا تھا وہ آخر میں ایک نئی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔ اور یہی اردو (لشکری زبان) کی اصل ہے۔
یہ دراصل کسی پراکرت یا ہندی کی بگڑی ہوئی صورت نہیں بلکہ ہندی کی آخری اور شائستہ صورت ہے اور اس وقت ہندوستان کی عام ملکی زبان مانی جاتی ہے۔ یہ نہ کسی خاص شخص یا فریق کی ایجاد ہے اور نہ کسی خاص مصلحت اور منشا سے بنائی گئی ہے۔ بلکہ جس طرح اس ملک کی معاشرت و سیاست میں وقتاً فوقتاً مختلف قدرتی اسباب سے تغیرات پیدا ہوئے اور آج انہیں اثرات کی وجہ سے جدید حالت نظر آتی ہے، اسی طرح زبان میں بھی قدرتی اثرات اور رجحانات اور مختلف واقعات سے تغیرات ظہور میں آئے اور اس وقت جو ہم خاص مصلحت کی وجہ سے پرانی شے کو نئی سمجھ کر جو کٹے ہوئے ہیں، صرف ایک دھوکہ ہے۔ اب اتنی مدت کے بعد ان باتوں پر جھگڑا کرنا گویا صدیوں کے واقعات کو جھٹلانا اور قدرتی اثرات اور رجحانات کو الٹا لے جانا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز ایک حالت پر نہیں رہتی، اور جب ہم ہی ایک حالت پر نہ رہے تو ہماری زبان کیوں رہنے لگی؟
اور کچھ نہیں تو اگر صرف اس زبان کے الفاظ ہی کو سرسری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی کتنی قوموں نے بغیر کسی خاص ارادے کے محض قدرتی اثرات کی وجہ سے اس کے بنانے میں حصہ لیا ہے، تو کیا ایک ایسی یادگار کو بگاڑنے کی کوشش کرنا ایک نہایت دردناک فعل نہ ہوگا؟ خصوصاً ایسے عہد میں جبکہ زمانۂ قدیم کے ایک ایک پتھر اور اینٹ کو سینت سینت کر رکھا جاتا ہے۔
اس نہایت مختصر ذکر سے میرا مقصد یہ تھا کہ اردو کی صرف و نحو کو سنسکرت زبان کے قواعد سے اسی قدر مغائرت ہے جتنی عربی زبان کی صرف و نحو سے۔ میرا خیال یہ ہے کہ کسی زبان کے قواعد لکھتے وقت اس کی خصوصیات کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے اور محض کسی زبان کی تقلید میں اس پر زبردستی قواعد اور اصول کے نام سے ایسا بوجھ نہ ڈال دیا جائے جس کی وہ متحمل نہ ہو سکے۔ میں نے حتی الامکان اسی اصول کو مدنظر رکھا ہے اور اس امر کی کوشش کی ہے کہ جدھر زبان کا رجحان ہو ادھر اس کا ساتھ دیا جائے۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے، بہرحال مجھے کوئی دعویٰ نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی مجھے اس کا بھی یقین ہے کہ کتاب اسقام سے خالی نہیں ہے اور اس لیے میں ہر ایک مشورے اور اختلاف کو نہایت شکر و احسان کے ساتھ سننے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔
- عبدالحق
***
نام کتاب: قواعدِ اردو
مصنف: ڈاکٹر مولوی عبدالحق
ناشر: ادبی دنیا، اردو بازار، دہلی (سن اشاعت: 1960)
تعداد صفحات: 384
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 13 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Qawaid-e-Urdu by Dr. Maulvi Abdul Haq.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | مقدمہ (مولوی عبدالحق) | 11 |
1 | قواعدِ اردو | 35 |
2 | فصل اول - ہجا | 39 |
3 | اعراب (یا حرکات و سکنات) | 45 |
4 | فصل دوم - حرف | 55 |
5 | 1 - اسم | 57 |
6 | اسم خاص | 57 |
7 | اسم کیفیت | 58 |
8 | اسم جمع | 59 |
9 | لوازم اسم | 60 |
10 | جانداروں کی تذکیر و تانیث | 63 |
11 | تعداد و حالت | 83 |
12 | اسما کی تصغیر و تکبیر | 91 |
13 | 2 - صفت | 94 |
14 | صفت ذاتی | 95 |
15 | صفت نسبتی | 97 |
16 | صفت عددی | 98 |
17 | صفت مقداری | 103 |
18 | صفت ضمیری | 105 |
19 | 3 - ضمیر | 107 |
20 | ضمیر موصولہ | 112 |
21 | ضمائر استفہامیہ | 114 |
22 | ضمیر اشارہ | 115 |
23 | ضمائر تنکیر | 115 |
24 | صفات ضمیری | 116 |
25 | ضمائر کے ماخذ | 118 |
26 | 4 - فعل | 121 |
27 | فعل حال | 129 |
28 | فعل مستقبل | 133 |
29 | فعل کی گردان | 135 |
30 | حالت | 136 |
31 | گردان افعال | 137 |
32 | طوری مجہول | 143 |
33 | مرکب افعال | 152 |
34 | اسماء و صفات کی ترکیب سے | 163 |
35 | 5 - تمیز | 164 |
36 | حروف | 167 |
37 | حروف ربط | 167 |
38 | حروف عطف | 167 |
39 | حروف تخصیص | 172 |
40 | حروف فجائیہ | 174 |
41 | فصل سوم - مشتق اور مرکب الفاظ | 177 |
42 | فصل چہارم - نحو | 200 |
43 | نحو تفصیلی جنس | 200 |
44 | تعداد | 202 |
45 | حالت | 207 |
46 | فاعلی حالت | 209 |
47 | نے علامت فاصل | 210 |
48 | ندائی حالت | 214 |
49 | مفعولی حالت | 216 |
50 | خبری حالت | 220 |
51 | اضافی حالت | 221 |
52 | طوری حالت | 227 |
53 | صفت | 230 |
54 | صفات عددی | 234 |
55 | ضمائر | 237 |
56 | فعل | 247 |
57 | حالیہ | 249 |
58 | اسم فاعل | 256 |
59 | زمانہ | 256 |
60 | مضارع | 257 |
61 | امر | 261 |
62 | مستقبل | 262 |
63 | فعل حال | 263 |
64 | ماضی | 264 |
65 | ماضی احتمالی | 267 |
66 | ماضی شرطیہ | 268 |
67 | افعال مجہول | 270 |
68 | تمیز | 274 |
69 | حروف | 283 |
70 | حروف ربط | 283 |
71 | میں | 283 |
72 | سے / کے | 285 |
73 | تک | 287 |
74 | پر | 287 |
75 | آگے | 288 |
76 | ساتھ | 288 |
77 | حروف عطف | 289 |
78 | شرط | 291 |
79 | استدراک | 292 |
80 | استثنا | 293 |
81 | علت | 293 |
82 | مقابلہ | 294 |
83 | بیانیہ | 294 |
84 | حروف تخصیص | 295 |
85 | تکرار الفاظ | 297 |
86 | نحو ترکیبی - مفرد جملے - جملے کے اجزا | 305 |
87 | خبر کی توسیع | 309 |
88 | مطابقت | 310 |
89 | مرکب جملے | 320 |
90 | ہم رتبہ جملے | 320 |
91 | تابع جملے | 323 |
92 | تمیزی جملے | 327 |
93 | شرطی جملہ / استدراکی جملہ | 331 |
94 | جملے میں الفاظ کی ترتیب | 334 |
95 | رموز اوقاف | 339 |
96 | علامتوں کا محل استعمال | 341 |
97 | سکتہ | 341 |
98 | وقفہ | 345 |
99 | رابطہ | 347 |
100 | تفصیلیہ | 348 |
101 | ختمہ | 351 |
102 | واوین | 352 |
103 | فجائیہ | 352 |
104 | سوالیہ | 353 |
105 | خط | 353 |
106 | قوسین | 353 |
107 | زنجیرہ | 354 |
108 | عروض | 360 |
109 | وزن | 360 |
110 | بحر | 360 |
111 | ارکان بحر | 360 |
112 | تقطیع | 361 |
113 | اجزائے ارکان | 361 |
114 | ارکان | 361 |
115 | اسما و شمار بحور | 362 |
116 | زحاف | 363 |
117 | خاص زحاف / عام زحاف | 364 |
118 | مرکب زحاف | 366 |
119 | تقطیع | 367 |
120 | بحریں | 372 |
121 | بحر ہزج | 372 |
122 | بحر رجز | 374 |
123 | بحر رمل | 374 |
124 | بحر کامل | 375 |
125 | بحر متدارک | 376 |
126 | بحر متقارب | 376 |
127 | مرکب بحریں | 378 |
128 | خفیف | 378 |
129 | بحر سریع | 379 |
130 | بحر محبتث | 379 |
131 | مضارع | 380 |
132 | منسرح | 381 |
133 | بحر مقتضب | 381 |
134 | اوزانِ رباعی | 382 |
مولوی عبدالحق کی کتاب قواعد اردو کا تنقیدی جائذہ
جواب دیںحذف کریں