دینی مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹی کے نظام میں اردو درس و تدریس : ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-06-09

دینی مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹی کے نظام میں اردو درس و تدریس : ایک جائزہ

urdu-teaching-studying-university-level-madrasa-students-rejoinder
آل انڈیا مدرسہ اسٹوڈنٹس فورم، دینی مدارس کے ان فارغین کی تنظیم ہے جنہوں نے برج کورسس کے ذریعے عصری تعلیمی میدان میں قدم رکھا اور کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے بانی اور موجودہ کل ہند صدر ڈاکٹر محمد عادل خان ہیں جو بی یو ایم ایس کے بعد آج کل لکھنو سے ڈاکٹر آف میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ مضمون ڈاکٹر عادل کی فیس بک ٹائم لائن سے ماخوذ ہے۔

ڈاکٹر صدف فاطمہ مومناتی کے مضمون "دینی مدارس کے فارغین اور یونیورسٹی کے نظام میں اردو درس و تدریس" میں موجود غیر تحقیقی رویوں کا جائزہ:


ڈاکٹر مومناتی کے مضمون میں تین چیزوں کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کی گئی ہے
1۔ اردو ادب کے خلقیہ سے فارغین مدارس کی ناواقفیت
2۔ برج کورس کی ناکامی
3۔ فارغین مدارس کے لئے تین سالہ ہیومینٹیز کورس
پہلا موضوع اردو ادب کا خلقیہ ہے اور پورے مضمون کی بنیاد اسی موضوع پر ہے، ہم اس موضوع کو بعد کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں، اور دوسرے موضوع "برج کورس کی ناکامی" سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں!


1۔ برج کورس کی ناکامی:
ڈاکٹر مومناتی صاحبہ نے دو بڑے دعوے کئے ہیں:
1۔ سید حامد صاحب جب علی گڑھ کے شیخ الجامعہ تھے تب انہوں نے سیاسی مفادات کے تابع ہوکر پہلی دفعہ برج کورس شروع کیا تھا۔


2۔ موجودہ یک سالہ برج کورس ناکام ہے!
پہلا دعوی اسی کی دہائی سے متعلق ہے لہذا ہم نے تحقیق کی اور اس عہد کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم "پروفیسر راشد شاز صاحب" سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ سید حامد صاحب کے دور میں صرف مدارس کی ڈگری کو منظوری دی گئی جو کہ اب تک جاری ہے، لیکن سید حامد صاحب نے اپنے دور اقتدار میں کسی طرح کے برج کورس کی شروعات نہیں کی تھی ہماری تحقیق کے مطابق جب شروعات نہیں ہوئی تو ایک سال کے بعد اس کی ناکامی کا دعوی خود بخود باطل ہوجاتا ہے، ہاں اگر ڈاکٹر مومناتی صاحبہ کے پاس اس سلسلے میں کچھ پختہ ثبوت موجود ہوں تو اسے پیش کرکے اپنے دعوے کو سچا ثابت کر سکتی ہیں!
ڈاکٹر مومناتی نے موجودہ برج کورس کے سلسلے میں تین دعوے کئے
1۔ مولانا آزاد کا برج کورس ناکام ہوگیا کیونکہ مدارس کی تعلیم اور برج کورس مشن میں تضادات تھے۔
2۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کبھی برج کورس شروع نہیں کیا
3۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا برج کورس ناکام تجربے کے باجود چل رہا ہے!


ڈاکٹر مومناتی نے یہاں بھی تحقیق کرنا ضروری نہیں سمجھا اور اپنے بڑوں کی بتائی باتیں ایسے لکھ دیں جیسے کوئی وحی ہو۔ ہماری تحقیق کے مطابق اسلم پرویز صاحب نے جب مولانا آزاد میں برج کورس شروع کیا تو انہوں نے اس کے لئے باقاعدہ تعلیم کا بندوبست نہیں کیا، بلکہ جن جن کورسیز کے لئے برج کورس شروع کیا گیا تھا ان شعبوں کے ذمہ داران کو یک سالہ تعلیم کی ذمہ داری سپرد کر دی تھی۔ چونکہ ان شعبوں کے ذمہ داران کو اضافی کام کرنا پڑ رہا تھا اور کوئی مالی فائدہ نہیں ہو رہا تھا لہذا ان کی عدم توجہی سے یہ کورس چل نہ سکا۔ اس میں طلبہ کی تعلیم کا کوئی تضاد نہیں تھا اور ہم یہ دعوی کیوں کر رہے ہیں اس کی دلیل ہم آگے دینے والے ہیں، خلاصہ یہ کہ محترمہ کا یہ دعوی بھی جھوٹا ہے۔
محترمہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے متعلق یہ دعوی کیا ہے کہ وہاں برج کورس کبھی شروع ہی نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک بڑا جھوٹ ہے، دہلی کے رہنے والے ہمارے دوست محمد عمر برج کورس جامعہ ملیہ اسلامیہ سے فارغ ہیں اور فی الحال دہلی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، وزارت نے برج کورس کو تین سال کے لئے فنڈز دئے تھے جب یہ فنڈز ختم ہوئے تو جامعہ نے یہ شعبہ بند کردیا۔
محترمہ نے تیسرا دعوی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے برج کورس کے متعلق کیا ہے، کہ وہ ناکامی کے باجود اب بھی چل رہا ہے، یہ خود ایک طرح کا جھوٹ ہے۔ برج کورس سے اب تک دس بیچ نکل چکے ہیں، یعنی فارغین کی تعداد تقریبا 750 سے 900 کے درمیان ہوگی۔ ہر سال برج کورس سے کم سے کم 4 سے 6 طلبہ شعبہ قانون میں، کم سے کم 5 سے 10 شعبہ سوشل ورک میں، کم سے کم 5-10 طلبہ عالمی زبانوں میں، کم سے کم 20 طلبہ سوشل سائنسز میں، اور بقیہ آرٹس کے مضامین بشمول اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔ مزید اب تک جن لوگوں کو میں جانتا ہوں ان میں سے 8 سے 10 فارغین الگ الگ کالج اور اسکول میں انگلش زبان کے اساتذہ بن چکے ہیں۔
کتنے ایسے ہیں جو بہار میں سیاسیات کے اساتذہ ہیں، کتنے ایسے ہیں جو سول کورٹ اور ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس کر رہے ہیں، ہمارے کلاس میٹ ہارون رشید رانچی ہائی کورٹ میں ہیں، ایک دوسرے کلاس میٹ منفعت سہارنپور سول کورٹ میں ہیں، ایڈووکیٹ مختار عالم بنگال میں ہیں، ابو اسامہ، ساجد علی، محمد مطلوب، شرافت علی، سرور عالم، عتیق احمد، عبد الرحیم، محمد فیصل وغیرہ ۔۔۔ ان میں سے اکثر نے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ شمشاد عالم جج بننے کی تیاری کر رہے ہیں، یعقوب مرتضی قانون میں پوسٹ گریجویشن کر رہے ہیں، محمد نہال قانون میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ کاشف اللہ، محمد زکریا، بشری عبد القدیر، جمیل جوہر قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ عظمی سعدیہ سیاسیات سے پوسٹ گریجویشن کر رہی ہیں، اظہار احمد لندن برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے لینگویج میں پوسٹ گریجویشن کر رہے ہیں، عمر شمس سوشل ورک سے پوسٹ گریجویٹ ہیں اور ایک کمپنی کے برانچ مینیجر ہیں، قیس احمد قیس، نور الاسلام، محمد آباد یہ حضرات سوشل ورک سے پوسٹ گریجویشن کر رہے ہیں۔ محمد انس، جاوید عالم، محمد تنویر چینی زبان کے گریجویٹ ہیں۔ محمد آصف گریجویشن کے بعد چینی یونیورسٹی سے دو سالہ ڈپلومہ کرچکے ہیں۔ محمد نجیب اللہ معاشیات سے بی اے کے بعد ایم بی اے کرچکے ہیں، یش نواز جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ماس کام کر رہے ہیں، محمد شاہنواز عالم معاشیات سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، محمد قاصد اسپینش میں پوسٹ گریجویٹ ہیں اور اسپین میں ایک سال درس دے چکے ہیں۔
اور یہ وہ نام ہیں جو دماغ پر زور دیے بغیر لکھے جا رہے ہیں، اگر مکمل فہرست نکالی جائے اور اب تک کے تمام بیچز کی تعلیمی سرگرمیاں دیکھی جائیں تو محترمہ مومناتی صاحبہ کے دعوی "ناکامی کے ساتھ چل رہا ہے" کے غبارے سے مکمل ہوا نکل جائے گی۔
ہم نے مولانا آزاد جامعہ کے بیان کے تحت ایک دعوی کیا تھا کہ "تعلیم کے تضاد کے سبب برج کورس ناکام نہیں ہوا" اس کی دلیل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا برج کورس ہے، اگر مولانا آزاد یونیورسٹی کا برج کورس بھی AMU کی طرح ترتیب دیا گیا ہوتا اور اس پر اسی طرح توجہ دی جاتی تو وہ بھی کامیاب رہتاـ


2۔ اردو ادب کے خلقیہ سے فارغین مدارس کی ناواقفیت:
ڈاکٹر مومناتی صاحبہ کا بنیادی موضوع اردو ادب کا خلقیہ ہی تھا، خلقیہ سے مراد وہ تمام عوامل ہیں جنہوں نے اردو ادب کی تشکیل، ترقی، اور اس کے مزاج پر اثر ڈالا، جیسے تاریخ، ثقافت، سماج، سیاست، اور ادبی تحریکیں۔
ڈاکٹر مومناتی نے اپنے مضمون میں اسی پر بحث کی ہے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فارغین مدارس کے اندر کچھ ایسی کمیاں ہیں جو ان کو اردو ادب کے خلقیہ کو اپنانے نہیں دیتی ہیں۔
یہ ایک بڑا دعوی ہے، اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مثالی نمونہ موجود ہو جس سے موازنہ کرکے بتایا جا سکے کہ فارغین مدارس میں وہ مخصوص کمیاں کیا ہیں جو دیگر طلبہ میں نہیں ہیں۔ موازنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں، پہلا یہ کہ اردو ادب کے اکابرین کی تحریروں و تقریروں سے موازنہ کیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے (جو زیادہ قابل قبول ہوگا) کہ فارغین مدارس کی ڈگری کو جس ڈگری کے مساوی قرار دے کر داخلہ دیا جاتا ہے، اسی ڈگری کے حاملین سے ان کا موازنہ کیا جائے کیونکہ اساتذہ کے پاس برسوں کا تجربہ ہوتا ہے جبکہ نئے نویلے فارغ مدرسہ کے پاس تجربہ نہیں ہوتا۔ تو ان دونوں کا موازنہ تو کسی صورت میں درست نہیں معلوم ہوتا، لیکن اگر ہم بارہویں پاس طالب علم (جس کی ڈگری کے مساوی عالمیت کی ڈگری مانی جاتی ہے) سے ایک فارغ مدرسہ کا موازنہ کریں تو زیادہ درست ہوگا کیونکہ دونوں کی ڈگری بھی مساوی ہے، دونوں کا سفر بھی ایک ساتھ جاری رہنے والا ہے، جبکہ دونوں کے نصاب میں تفاوت ہے یعنی بارہویں پاس طالب علم نے اردو کو بطور مضمون پڑھا ہے جبکہ فارغ مدرسہ نے اردو کو بطور مضمون نہیں پڑھا، (ایسا محترمہ مومناتی صاحبہ نے بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے)۔
اب سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے کب اور کیسے دونوں کا موازنہ کیا، کیا اردو ادب سے متعلق جو کمیاں فارغین مدارس میں انہوں نے نوٹ کی ہیں وہ بارہویں جماعت کے فارغ میں نہیں ہیں؟ کیا وہ ایک مثالی نمونہ ہے؟ کیا اس کو اردو کے خلقیہ سے مکمل واقفیت ہے؟ اگر اس میں یہ تمام خوبیاں ہیں تو ڈاکٹر صاحبہ کی تحقیق درست ہوگی لیکن اگر یہ خوبیاں اس میں نہیں ہیں تو ڈاکٹر صاحبہ نے کس بنیاد پر صرف فارغین مدارس کی تعلیم کو نشانہ بنایا ہے؟
ہماری تحقیق کے مطابق بارہویں جماعت سے فارغ طالب علم اور مدرسے کے فارغ طالب علم کا اردو میں کوئی موازنہ ہی نہیں ہے، فارغین مدارس اردو درست طریقے سے لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، عربی و فارسی پر پکڑ ہونے کے سبب مصادر سے واقف ہوتے ہیں ہجے و تلفظ درست کرتے ہیں، جبکہ اسکولی طالب علم کو ان میں سے اکثر کا علم نہیں ہوتا، حالانکہ ان کے نصاب میں اردو داخل ہے۔ یہاں اہل مدارس یونیورسٹی اساتذہ کو ایک تیار مال دے رہے ہیں جن پر صرف ادب کی پالش کرنی ہوتی ہے، جبکہ اسکول خام مال بیچ رہے ہیں جن کو پہلے پختہ کرنا ضروری ہوتا ہے پھر پالش کی باری آتی ہے، سوال یہ ہے کہ بی اے آنرس میں اساتذہ ادب کی پالش بھی نہیں کر سکتے؟ کیا ان کو پالش کیا ہوا مال چاہیے؟


ایک مثال سے ہم بات کو مزید واضح کریں گے:
احسن ایوبی، حسن خان، نایاب حسن، آصف انظار، ثقلین حیدر، محمد علم اللہ، محمود ابن العریضی، محمد عامر، ارشد ہمراز، نسیم خان، عبد اللہ ثاقب، حذیفہ صبیح، عمران عاکف، شہلا کلیم، عالیہ پروین، زیبا سیف، انجشہ قندیل، اور خود ڈاکٹر صدف فاطمہ یہ سبھی اور ان جیسے بے شمار افراد ابھرتے ہوئے اردو ادیب و شعراء اور صحافی ہیں جو مدارس سے فارغ ہیں، کیا ان کے مثل آپ چند ایسے نوجوان اردو ادیب و شعراء کے نام پیش کر سکتے ہیں جو اسکول سے بارہویں پاس کر کے آئے ہوں؟
مزید اردو کے خلقیہ سے کیا مراد ہے؟ کیا اردو ادب صرف وہی ہے جو جدید طبقہ سمجھتا ہے؟ کیا ادب کا مطلب صرف رومانس اور تخیل ہے؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر علم اللہ نے جو بات لکھی ہے وہ بالکل درست معلوم ہوتی ہے:


"یہ کہنا کہ اہلِ مدارس میں ادبی ذوق کی کمی ہوتی ہے، اور اس کا سبب مذہبی تعلیم ہے، ایک سطحی مشاہدہ ہے جس میں نہ تو دینی تعلیم کی گہرائی کو سمجھا گیا ہے، نہ ہی اس کے ادبی پہلوؤں کو۔ سب سے پہلے، قرآنِ مجید خود فصاحت و بلاغت کا عظیم شاہکار ہے، جس کی زبان نے عربی ادب کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ نبی کریم ﷺ کی احادیثِ مبارکہ، خطبات، اور دعائیں، عربی ادب کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھی جاتی ہیں۔ کیا یہ سب ادبی ذوق کے بغیر ممکن ہے؟
مدارس میں جو عربی ادب پڑھایا جاتا ہے، اس میں "معلقات سبع"، "قصائد حماسہ"، "الکامل للمبرد" اور "البیان والتبیین" جیسی گہری اور فصیح کتابیں شامل ہیں۔ ان میں نہ صرف فنی نزاکتیں، عروض و بلاغت کے اصول، اور شعری جمالیات سکھائی جاتی ہیں، بلکہ زبان کی وہ تربیت بھی دی جاتی ہے جو طالبِ علم کو ادیب بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اہلِ مدارس نہ صرف ادب کے قاری ہوتے ہیں بلکہ کئی دفعہ خود بھی بلند پایہ شاعر اور ادیب بن کر ابھرتے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی، مولانا ظفر علی خان، اکبر الہ آبادی، اور علامہ اقبال جیسے بزرگوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے دینی پس منظر سے نکل کر ادب کو ایک نیا رخ دیا۔
رہی بات اسکول سسٹم کی، تو وہاں جدید ادب کی جھلک تو ملتی ہے، لیکن زبان کی مضبوطی، فصاحت، اور گہرائی اکثر مفقود ہوتی ہے، کیونکہ زبان کو صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، اس کی تہذیبی اور فکری بنیاد کو نہیں سکھایا جاتا۔ ادب صرف "رومانس" یا تخیل نہیں ہوتا، بلکہ ادب وہی ہے جو انسان کے اخلاق، فکر، جذبات اور روح کو جلا بخشے۔ اور یہی چیز دینی تعلیم کی اصل روح ہے۔ لہٰذا، مذہبی تعلیم کو ادبی ذوق کے خلاف سمجھنا نہ صرف تاریخی طور پر غلط ہے، بلکہ اس سے خود ادب کی اصل روح کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔"

اسکولوں میں اردو کی تعلیم کو لے کر جناب اطہر فاروقی صاحب نے 1994 میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک بھر میں اردو کی اسکولی تعلیم کمزور ہو رہی ہے، اور اس کے جانکار کم ہورہے ہیں، آج تیس سال کے بعد یہ حالت مزید خراب ہو چکی ہے، اردو میڈیم اسکول تو گویا ناپید ہوچکے ہیں، اور انگلش کا ایسا زور چل رہا ہے کہ لوگ اردو کو دقیانوسی زبان سمجھ بیٹھے ہیں، ایسے حالات میں مدارس سے آنے والی کھیپ پر بغیر کسی تحقیق کے سوال کھڑے کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے!


3۔ فارغین مدارس کے لئے تین سالہ ہیومینٹیز کورس
ڈاکٹر صاحبہ نے مضمون کے اخیر میں ایک عاجزانہ اور ہمدردانہ درخواست کی ہے کہ چونکہ مدارس کی تعلیم میں بہت سی کمیاں ہیں لہذا یک سالہ برج کورس کے بجائے تین سالہ کورس ہونا چاہیے، ہم اس ہمدردی اور فکر مندی کے لئے ڈاکٹر صاحبہ کے شکر گزار ہیں، لیکن مندرجہ بالا سطور میں جو باتیں کہیں ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کے کسی کورس کی ضرورت مدارس کے فارغین کو نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس اسکول کے طلبہ کے لئے ایک یا دو سالہ اردو کورس شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں ان کو درست اردو لکھنا پڑھنا اور سمجھنا سکھایا جائے، مصادر و منابع کے متعلق تعلیم دی جائے، اور تلفظ و ہجے پر خاص توجہ دی جائےـ فارغین مدارس کے تعلق سے اتنا ضرور ہے کہ سائنس کے شعبوں کے لئے کچھ سوچا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ ان کو ڈائریکٹ ایم اے میں داخلہ نہ دیا جائے!


اردو ادب کے خلقیہ کے تعلق سے آخری بات یہ ہو سکتی ہے کہ ڈاکٹر صدف فاطمہ خود جامعۃ المؤمنات کی فارغہ ہیں، اور جب وہ خود اردو ادب کے خلقیہ کو سمجھ سکتی ہیں تو دیگر فارغین مدارس کے لئے اردو ادب کا خلقیہ سمجھنا اتنا مشکل کیسے ہو سکتا ہے؟

***
بشکریہ:
ڈاکٹر محمد عادل خان فیس بک ٹائم لائن

Urdu teaching and studying at University level by Madrasa students - a Rejoinder by: Dr. Mohammad Adil Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں