وہ آدمی - رام لعل کی یاد میں : از قیصر تمکین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-16

وہ آدمی - رام لعل کی یاد میں : از قیصر تمکین

ram-lall-qaisar-tamkeen

قیصر تمکین - ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور ادیب ، نقاد اور صحافی تھے جن کا تعلق لکھنؤ سے تھا اور جو بعد میں برطانیہ میں جا بسے۔ ماہنامہ "شمع" دہلی میں افسانوں کے علاوہ بھی ان کے علمی، ادبی، تنقیدی و تحقیقی مضامین بیسویں صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی میں روزنامہ "سیاست" حیدرآباد کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ تقریباً 25 سال قبل روزنامہ "سیاست" میں ممتاز ادیب رام لعل پر ان کا شائع شدہ مضمون، یہاں پیش خدمت ہے۔

اس کے دنیا سے گزر جانے کے بارے میں ایک افواہ سننے میں آئی۔ تصدیق میں دیر ہوئی۔ تب تک اس بارے میں احساس زیاں، ذہنی دھچکے یا فوری رنج و غم کے جذبے قدرے سن ہو چکے تھے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ فوری طور پر کچھ کہنے کی ضرورت نہ رہی۔ اب دھیرے دھیرے کسی دیر اثر دوا کی طرح ایک معمولی اکیلا پن نفوذ کر رہا ہے۔ اور بھولی بسری یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔
آج شمالی ہند کے مختلف شہروں کے وہ سفر یاد آ رہے ہیں جن میں ہم رفیق تھے، وہ دلچسپ شامیں اور ادبی نشستیں یاد آ رہی ہیں جن میں ہم دونوں نے مل کر شرکت کی تھی۔ بہت سے ایسے مباحثے اور جھگڑے بھی یاد آ رہے ہیں جن میں ہم دونوں نے جم کر حصہ لیا تھا۔ ہم تقدیم و تاخیر کا لحاظ کیے بغیر ایک ہی راستے کے راہی تھے۔ کبھی ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں کانٹے چبھے اور کبھی دامن کے چاک اور گریباں کے تار میں کوئی فاصلہ نہ رہا۔ ہم ایسی اختلافی باریک بینیوں میں بھی الجھے کہ دل شکستگی نے پارہ پارہ کر دیا، جیسے ریشم کے کسی نفیس پارچے کو کانٹے دار جھاڑیوں میں ڈال کر گھسیٹ لیا جائے۔ زخموں اور جراحتوں کی شکایت نہ اس آدمی نے کی اور نہ ہم نے۔ ہم نے ہر ناکامی اور ہر شکست کو زندگی کا ایک رخ سمجھ کر انگیز کیا۔ وقت گزر گیا۔ اور مدتوں بعد وہی جراحتیں اور نمک پاشیاں یاد کر کے ہنسے بھی اور خوب لطف بھی اٹھایا۔

ہم دونوں شاعر نہیں تھے۔ غزلچی نہیں تھے۔ ہم نے اپنی محرومیوں اور مایوسیوں کے لیے کسی "رقیب روسیاہ" کو، سماج کو، مقدر کو یا خدا کو الزام دینے کی حماقت نہیں کی۔ ہم دونوں صرف کہانی کار تھے، اخباری مبصر نہیں بلکہ محض وقائع نگار تھے، جو دیکھتے تھے وہی لکھتے تھے۔ اس نے ذرا زیادہ شہرت کے ساتھ زندگی کو دیکھا۔ وہ لٹ لٹا کر آیا تھا۔ تہی دست تھا، تہی دست ہم بھی تھے۔ مگر دونوں کی تہی دستی میں بڑا فرق تھا۔ ہمارے پاس کچھ کھونے یا لٹانے کو تھا ہی نہیں!
سدھارتھ نے تیاگ کیا، وہ مہان بودھی ہو گیا۔ ہم کیا تیاگتے؟ کیا عرفان حاصل کرتے؟ ہمارے پاس تھا ہی کیا؟ لیکن پورے عجز و انکسار کے ساتھ کہنا بھی ضروری ہے کہ جب جھوٹے خداؤں نے اپنی مہانتا کے آڈمبر رچائے تو ہم نے نہ تو ان کی طرف دیکھا اور نہ مانگے کے اجالے سے اپنے غم خانوں میں چراغاں کی کوشش کی۔

وہ سب کچھ چھوڑ کر نئی جگہ آیا تھا۔ اس نے نئی زندگی کی تعمیر میں تن من دھن سے کوشش کی۔ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ مگر یہ کامیابی عام کامیابیوں سے، موٹروں، بنگلوں، جائیدادوں اور گھر میں جدید مصنوعات، اختراعات اور مشینی سہولیات کے نوادر خانے بنانے کی کامیابی سے بالکل الگ تھی۔ اس نے ایک "جینئس کاسکیڈ" کو اپنایا۔
اردو کا ادیب بنا۔ اردو لکھتا پڑھتا رہا اور اردو ہی کے لیے لڑتا رہا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر وہ صرف ہندی کا بن کر رہ جاتا تو مالی اعتبار سے زیادہ مستحکم اور سماجی اعتبار سے زیادہ "بڑا" بن سکتا تھا۔
نئی نسل کی بےتکی نکتہ چینی، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب میں بھی بعض تھکے ہوئے لوگ، کل کے لوگ، یا آرام و اطمینان سے بیٹھ کر نصیحت و تلقین کرنے والے وظیفہ یاب لوگ ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔ زیادہ تر عصری ادیبوں کے منہ سے صرف یہی شکایت سننے کو ملتی ہے کہ آج کے لوگوں کو زبان نہیں آتی، جملے غلط لکھتے ہیں، املا انشاء سے ناواقف ہوتے ہیں۔ فن کے بارے میں ریاض اور خلوص سے کام نہیں لیتے۔ یہی شکایت تو میتھیو آرنلڈ نے بھی کی تھی کہ:
"آج کا ادب ماضی کے مقابلے میں کم مایہ اور حقیر ہے"۔
(یہ بات اس نے کولرج اور ورڈزورتھ کی نئی روش کے تناظر میں لکھی تھی)۔
اس بات کو زیادہ بڑھائے بغیر ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے نئی پیڑھی، نئے سماج اور نئے لوگوں میں نہ تو کوئی "ہمالیائی غلطی" پائی اور نہ ان میں علم و ادب کی کمی محسوس کی۔ ہم نے بقید ہوش و حواس کبھی کسی زبان پر تنقید نہیں کی۔ زبان کوئی بھی کیوں نہ ہو عشائے ربانی کی طرح ناقابل تغیر و تبدل نہیں ہوتی۔ زبان ہمیشہ مد و جزر کی حالت میں رہتی ہے۔ کیا واقعی ہماری صفوں میں کوئی ایسا موسیٰ عمراں موجود ہے جو قطعیت کے ساتھ اعلان کر سکے کہ: "مستند ہے میرا فرمایا ہوا"؟

میں لکھنؤ میں پیدا ہوا تھا۔ وہیں پلا بڑھا۔ 28 برس کی عمر میں اپنا شہر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے "بدیسی" ہو گیا۔ اس میں جلاوطن یا ہجرت کا کوئی تصور نہ تھا۔ "غریب الدیار" اور "غریب الوطن" کی سستی رومانیت زدہ اصطلاح کا بھی دخل نہ تھا۔ کوئی جبر اور مجبوری نہیں تھی، بالکل ذاتی اور اختیاری فیصلہ تھا۔
وہ بھی "بدیسی" تھا۔ وہ جلاوطن تھا۔ میانوالی سے آیا تھا۔ اس کی ہجرت میں "جبر" کا عنصر شامل تھا۔ پھر بھی اس نے کبھی اپنے کو مہاجر، شرنارتھی، جلاوطن یا غریب الوطن نہ کہا اور نہ محسوس کیا۔ وہ میانوالی سے لکھنؤ پہنچا تو اس کی عمر بھی زیادہ سے زیادہ تیس سال رہی ہوگی۔ وہ پوری طرح ہم سے بڑھ کر مقامی اور لکھنوی ہو گیا۔ کون بڑا ثابت ہوگا؟
ہم دونوں میں قدر مشترک "اردو" تھی۔ ہم دونوں کو کبھی "صحیح اردو" لکھنے کا جنون نہ ہوا۔ ہم دونوں نے ہمیشہ آسان سے آسان زبان لکھنے کی کوشش کی۔ بہت کم حضرات یہ محسوس کرتے ہیں کہ آسان زبان لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو غالب کی طرح کا ایک ہی خط لکھ کر دکھا دیں!

ہم دونوں کی اپنائیت اور آفاقیت۔ بلکہ ایک طرح کی مستحکم رشتہ داری میں جو بات سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ ہم دونوں کہانی کی دنیا میں کوششیں کر رہے تھے۔ کہانی کے پیمانے بہت سخت ہوتے ہیں۔ یہاں پوری دنیا کے ادب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پریم چند اور منٹو کی عظمت واضح کرنے کے لیے موپاساں اور چیخوف کی تخلیقات سے واسطہ پڑتا ہے۔
دوسری طرف شعر و شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی کے افق عام طور پر محدود رہتے ہیں۔ شاعروں میں آپس میں رشک و حسد کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ کہانی کی دنیا میں رقابت، جلن اور دھینگامشتی کا اثر عام طور پر کم ہی نظر آتا ہے۔ صرف پشکن، چیخوف، موپاساں، او۔ہنری اور مارک ٹوئن ہی نہیں بلکہ منٹو، عصمت، بیدی، کرشن چندر اور احمد عباس کے بارے میں ہم نے باہمی لاگ ڈانٹ، تو تکار، جلن اور یاوہ گوئی کے فسانے نہیں سنے۔ شاعروں کو دیکھنا ہو تو کسی بھی مشاعرے میں مشاہدہ کر لیجیے۔۔۔ برابر ایک دوسرے پر چھینٹے بازی ہوتی رہتی ہے۔ اگر کسی شاعر کی غزل کامیاب ہو جائے تو دوسرے بڑے بڑے شاعر جل بھن کر کوئلہ ہو جاتے ہیں۔

میری رسم و راہ اور دوستی اور پھر بےتکلفی اس سے جب ہوئی تو وہ ادبی دنیا میں اچھی خاصی معتبر جگہ بنا چکا تھا۔ میں ان دنوں صرف طالب علم تھا۔ پھر بھی ہم دونوں میں ہمیشہ "آپ جناب" کا لحاظ اور خیال رہا۔ ہم نے اپنے مراسم کو کبھی "تم" یا "تو" کی بداحتیاطی سے آلودہ نہیں کیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر بھی "پھکڑ پن" کی غزل خوانی میں نہ داخل ہو سکے۔ بڑا حصہ اس میں خود اس کی شائستگی اور ادب دوستوں کی طرف مروت و اخلاق کا تھا۔ وہ ہم لوگوں سے زیادہ سلیقہ مند اور مہذب تھا۔
اس بات کی توضیح ضروری ہے۔

ہماری طرف کے احباب، خاص طور پر لکھنؤ والے عام طور پر اپنے کو ادب و تہذیب کا ٹھیکہ دار سمجھتے ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ زیادہ تر ناشائستگی اور بداخلاقی کے مظاہر بھی (تحریر و تقریر دونوں میں) انہی اصحاب کی طرف سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے دہلی میں ایک خاص مدت دوسرے خطوں اور علاقوں کے ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ گزاری۔ اس کے بعد بھی مختلف ملکوں اور شہروں میں رہنے اور لوگوں سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوا۔ مگر غیرشائستگی کے جو مظاہر "اردو گہواروں" کے پروردہ حضرات نے پیش کیے وہ تاحال کہیں اور نہیں جھیلنا پڑے۔ ہمارے ایک اچھے ساتھی نے ایک خاصے معتبر ادیب و شاعر کے بارے میں بزعم خود ایک معرکہ آرا مضمون لکھ مارا۔ ادب و فن کی اس سے کیا قابل قدر خدمت ہوئی، اس کے بارے میں تو فیصلہ شاید مشکل ہو، تاہم ان آبگینوں کو پاش پاش کرنے میں یہ مضمون ضرور مفید ثابت ہوا جن کی نزاکت کا لحاظ حضرت انیس کو ہمیشہ رہا اور جن کے احترام کی روایت نے ہی شاعر مشرق کو یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کیا کہ:
"مسلمان کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا"

وہ ذہنی و ادبی سرگرمیوں میں مجھ سے بہت دور رہ کر بھی ہمیشہ قریب رہا۔ مجھے تو یاد نہیں کہ اس نے کبھی یہ کہا ہو کہ میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ اگر میں نے کبھی اس کی کسی کہانی کے ایسے پہلو کی طرف اشارہ کیا جو میری ناقص رائے میں توجہ کا طالب تھا تو اس نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے میری بات سنی، وہ میری کوششوں میں ہمیشہ میرا رفیق رہا۔ اس نے کبھی لنگڑی مارنے کی کوشش نہیں کی (یہ بات بہت سے عزیز دوستوں کے بارے میں کہنا مشکل ہے)۔ وہ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف حصوں اور شہروں میں سفر کرتا رہتا تھا۔ جہاں کہیں ادب اور کہانی کی بحث ہوتی تو وہ میرا ذکر بھی کرتا۔ اس نے میری دو ایک کہانیوں کی اس طرح تعریف کی اور اس طرح جگہ جگہ ان کا ذکر کیا کہ بعض لوگوں کو یہ شبہ ہونے لگا کہ شاید ہم نے بھی وہسکی پسند ادیبوں کی طرح کوئی انجمن تحسینِ باہمی قائم کر رکھی ہے۔

میری لکھنؤ سے روانگی کے وقت اس نے ہنس کر کہا:
"کچھ بھی ہو، آپ ہر پھر کر یہیں آئیں گے"۔
میں نے اس کو لندن سے لکھا:
"آپ بھی ہر پھر کر یہیں آئیں گے"۔
وہ آیا۔ کئی بار مگر یہاں کا ہو کر نہ رہ سکا۔ میرا کہنا بڑی حد تک غلط ہی ثابت ہوا۔
میں بھی کئی بار لکھنؤ گیا۔ لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا کہنا غلط ثابت ہوا۔ ہو سکتا ہے ہمیشہ کی طرح اس کی ہی بات صحیح ثابت ہو۔
فی الحال تو اکیلا پن ستا رہا ہے۔ اب اگر میں جاؤں بھی تو کیا۔
رام لعل تو ہوگا نہیں !!

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔

***
بشکریہ: روزنامہ "سیاست" حیدرآباد
مورخہ: 22/دسمبر/1996 (اتوار ایڈیشن)۔

A memoir on Ram Lal by Qaiser Tamkeen.



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں