زرد پتوں کی بہار - پاکستان سفرنامہ - رام لعل - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-18

زرد پتوں کی بہار - پاکستان سفرنامہ - رام لعل - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

zard-patton-ki-bahar-ram-lal

رام لعل (پ: 3/مارچ 1923 ، م: 15/اکتوبر 1996)
اردو کے قدآور افسانہ و ناول نگار، ڈراما، سفرنامہ و خاکہ نویس اور ایک اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے۔ وہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور جدید دور کی درمیانی کڑی کی ایک اہم شخصیت بھی ہیں۔ رام لعل نے فروری 1980 کی ابتدا میں پڑوسی ملک پاکستان کا سفر کیا تھا، "زرد پتوں کی بہار" اسی سفر کی یادگار ہے۔ واضح رہے کہ میانوانی (پاکستان) رام لعل کی جنم بھومی ہے مگر انہوں نے تاریخ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔ "زرد پتوں کی بہار" ان کا وطن سے وطن کو سفر کی روداد ہے۔ جو انسانی فطرت و جبلت کا سفرنامہ ہے اور ایک فرد کا نہیں بلکہ نسل سے نسل کا سفرنامہ بھی ہے۔
تعمیرنیوز کے ذریعے یہ یادگار سفرنامہ پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 11 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس سفرنامہ کے پیش لفظ میں محمود الٰہی لکھتے ہیں ۔۔۔
اصناف ادب میں خودنوشت سوانح عمری، سفرنامہ اور خطوط اس لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ یہ ہر خاص و عام کا دامنِ دل کھینچ لیتے ہیں اور ان کے مطالعے سے قارئین کے ذوقِ تجسس کو یک گونہ تسکین ملتی ہے۔ ہر چند یہ تینوں صنفیں اپنے عناصر ترکیبی کے لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی عنصر قدرِ مشترک کا درجہ ضرور رکھتا ہے اور اسی قدرِ مشترک کی بنیاد پر کبھی کبھی یہ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیوں کا روپ اختیار کر لیتی ہیں۔ دراصل قاری کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بےحجابانہ فنکار کے دل و دماغ میں اتر جائے اور اس خواہش کی تکمیل میں یہ اصناف بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ کوئی فنکار ان اصناف کی وجہ سے ادب میں اعلا مقام حاصل کر لے لیکن یہ بہرحال ہیں ثانوی اصناف۔ میر، غالب، شبلی، مہدی افادی، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریاآبادی، رشید احمد صدیقی، جوش اور احسان دانش وغیرہ بنیادی طور پر شاعر ہیں یا ادیب و نقاد۔۔۔ لیکن ان میں سے ہر ایک نے ان ثانوی اصناف میں سے کسی نہ کسی کو اس طرح اپنایا کہ اب اس کا شمار ان کے امتیازات میں ہوتا ہے۔ اگر اسے ایک کلیہ مان لیا جائے تو اس کا اطلاق رام لعل کے سفرنامہ "زرد پتوں کی بہار" پر زیادہ بہتر طور پر ہوتا ہے۔ رام لعل بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور افسانہ نگار بھی اتنے قدآور کہ انہوں نے اس صنف کو نئی سمت و رفتار عطا کی اور افسانہ نگاروں کی اس نئی نسل کو حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری سے قریب تر کر دیا جو منزل کی تلاش میں بھٹک رہی تھی۔

کوئی دو سال پہلے رام لعل نے ہندوستان سے پاکستان کا سفر کیا تھا۔ "زرد پتوں کی بہار" اسی سفر کی یادگار ہے۔ لوگ اپنے ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں لیکن رام لعل کے اس سفر کو اس طرح کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ تو ان کا وطن سے وطن کو سفر تھا۔ میانوالی (پاکستان) ان کی جنم بھومی ہے لیکن انہوں نے تاریخ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا۔ جنم بھومی کی یاد کسے نہیں آتی۔ رام لعل بھی اس یاد کو سینے سے لگائے ہوئے تھے اور یادوں کے سائے میں انہوں نے زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور جب ان کی عمر تجربہ کرتے رہنے کے حصار سے نکل کر تجربات کو عبرت و بشارت کا درجہ عطا کرنے کے قلم رو میں داخل ہوئی تو جس انسانی فطرت کو انہوں نے اپنے سینے میں لوریاں دے دے کر سلائے رکھا تھا، وہ بیدار ہو گئی اور اس نے رام لعل کو ان کی جنم بھومی میں پہنچا کے دم لیا۔
"زرد پتوں کی بہار" رام لعل کا نہیں بلکہ انسانی فطرت و جبلت کا سفرنامہ ہے، یہ ایک فرد کا نہیں، نسل سے نسل کا سفرنامہ ہے۔ رام لعل کے اس سفرنامے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا دل دھڑک رہا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہی ادبی تخلیق لازوال بھی ہوتی ہے اور آفاقی بھی جس میں انسانیت اپنے اصل خط و خال کے ساتھ نمایاں ہو جائے۔

- محمود الٰہی
چیرمین مجلس انتظامیہ (اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ)۔
28/اپریل 1982

اس سفرنامہ کے مقدمہ میں ڈاکٹر آغا سہیل لکھتے ہیں ۔۔۔
سفرنامہ ایک معتبر اور وقیع صنف نثر ہے جس کے لیے تبحر علمی کے ساتھ ساتھ وسعت نظر اور وسیع القلبی کی ضرورت ہے۔ ذہنی افق جس قدر وسیع ہوگا، جزئیات تک معروضی رسائی اسی قدر ممکن ہوگی۔ تنگ دل، تنگ نظر، خودپسند اور نرگسی افراد اگر اس صنف نثر سے شغل فرمائیں گے تو ان کی مثال ایک ایسے کریہہ الصوت گوئیے کی سی ہوگی جو اپنے غسل خانے میں اپنی آواز کی خوش فعلیوں سے محظوظ ہو ہو کر چنگھاڑتا ہے مگر اس کے اڑوسی پڑوسی اسے فاتر العقل ہی سمجھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوروپ اور امریکہ کے سفر کی جس کسی کو سعادت حاصل ہو جائے اس پر کم از کم دو چار نہیں تو ایک آدھ سفرنامے کا لکھنا اخلاقاً فرض ہو ہی جاتا ہے اور اسی زعمِ باطل سے مغلوب ہو کر وہ ایسی آئیں بائیں شائیں ہانکتا ہے کہ سفرناموں کے نام پر اس کے باطن کی ساری غلاظت اور اس کے نفس امارہ کی تمام کیچڑ صفحات پر منتقل ہو جاتی ہے مگر پھر بھی ان سفرنامہ نگاروں کو روکنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یا تو یہ خود اپنی موت آپ مر جائیں گے یا اگر زیادہ غیرت آئے گی تو سچ مچ کا ایک آدھ سفرنامہ تو لگے ہاتھوں لکھ کر دے ہی جائیں گے جس سے بہرحال اردو ادب کو فائدہ ہی پہنچے گا۔
رام لعل نے اتفاق سے اسی بھیڑ چال کے زمانے میں یکے بعد دیگرے اردو ادب کو دو معتبر سفرنامے نذر کیے ہیں جن میں سے ایک یوروپ کے ممالک سے متعلق ہے اور دوسرے کا دائرہ اسی برصغیر کے دو ممالک کے مابین قائم ہوا ہے جنہیں ہندوستان اور پاکستان کہا جاتا ہے۔

۔۔۔ قصہ یہ ہوا کہ مسیح الحسن نے جو غلام عباس کی طرح دھیمی رفتار اور آہستہ مزاج کے نرم رو افسانہ نگار ہیں، اپنا معروف افسانہ "مٹی" کسی محفل میں سنایا تو رتن سنگھ اسے سن کر زار و قطار رونے لگا۔ رام لعل بھی وہیں موجود تھا، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، شاید وہ بھی دل کے اندر ہی اندر خوب رویا مگر آنکھیں خشک رہیں۔ یہ رام لعل جو اپنے باطن میں اندر ہی اندر رو لیا، باہر سے بہت باوقار نظر آیا، یہ رام لعل وہی ہے جو اپنے گرد و پیش کے عوامل اور محرکات کا معروضی طور پر تجزیہ کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے اور حقائق سے خواہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں سمجھوتا کر لیتا ہے، وہ الگ بات ہے کہ وہ ان سے متفق نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رام لعل جو تینتیس (33) سال قبل لاہور سے اکھڑ کر ہندوستان گیا تھا اور لکھنؤ میں جا بسا تھا، ساری دنیا میں گھوم گھام کر جب لکھنؤ لوٹا تو دل کا کونہ بدستور اجڑا اجڑا اور سونا سونا سا لگا۔ چنانچہ فروری 1980 میں جب وہ 33 سال کے بعد دوبارہ سرزمین لاہور پر وارد ہوا، ملتان کی سرزمین پر قدم رکھا، میانوالی کی ہواؤں میں سانس لی، کراچی کے احباب کے درمیان وقت گزارا اور لاہور کی خاک کو چوما تو دل کا وہ اجڑا کونا آباد ہو گیا ۔۔۔
کیا سچ مچ وہ کونا آباد ہوا؟ اور کیا سچ مچ وہ سونا پن دور ہوا؟ اس عذاب سے میں بھی گزرا ہوں، مجھے اس کا جواب معلوم ہے، اس جواب کو آپ رام لعل کے اس سفرنامے کی سطر سطر میں ڈھونڈیں گے اور جو جوابات آپ کو سطروں میں نہیں ملیں گے بین السطور یقیناً مل جائیں گے۔۔۔

۔۔۔ بھارت کی نئی نسل جو پاکستان سے واقف نہیں کیونکہ پاکستان بننے کے بعد پیدا ہونے والی بھارتی نسل کو پاکستان سے وہ ذہنی علاقہ نہیں ہے جو ان کے تارک الوطن بزرگوں کو ہے ۔۔۔ رام لعل نے پاکستان کی نئی نسل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا یہ کہہ کر کہ اے نوجوان نسل کے پاکستانی بچو! یہ میرا ہاتھ، یعنی رام لعل کا ہاتھ نہیں ہے، نئے ہندوستان کا ہاتھ ہے۔ میں نئے ہندوستانیوں اور نئے پاکستانیوں کے مابین مصافحہ کرانے کا خواہاں ہوں، اے دونوں ملکوں کے نوجوانو، میرا ہاتھ تھام لو، میں تم دونوں کا تعارف کرانا چاہتا ہوں، کیونکہ میرے بعد تمہارا کوئی تعارف کنندہ بھی نہیں رہے گا۔ میں، اے محسن، اے خرم، اے ساجد، مسعود اور مالک، تمہارا تعارف ونود، وکرم، عبداللہ اور امریک سنگھ سے کرانا چاہتا ہوں۔ اے لاہور، میانوالی، ملتان اور کراچی، میں تمہارا تعارف لکھنؤ، سیتاپور، جون پور اور بمبئی سے کرانا چاہتا ہوں۔ میں جو ایک کمزور سا پل ہوں، چلتے چلتے اور تم سے رخصت ہوتے ہوتے چاہتا ہوں کہ تم ایک مضبوط اور مستحکم پل دونوں ملکوں کے مابین قائم کر لو۔
اس خیرسگالی کے سفر میں پاک و ہند کے قارئین رام لعل کی پرخلوص سطر سطر کے ساتھ ساتھ ہیں کہ دونوں جگہ یہ سفرنامہ یکساں مقبول ہوا ہے۔
رام لعل نے محبتیں سمیٹی ہیں اور محبتیں بانٹی ہیں۔ 'زرد پتوں کی بہار' بسنت بہار ہے پاکستان کی۔ بسنت بہار جب سرسوں پھولتی ہے، کچنار مہکتی ہے، گیندے کے پھولوں پر نکھار ہوتا ہے، گل اشرفی روش روش پر نثار ہوتا ہے۔۔۔ آسمانوں پر پتنگیں اڑتی ہیں، فصل کٹتی ہے اور کسان کھلیانوں کے ڈھیر دیکھ دیکھ کر بھنگڑا ناچتے اور لڈی ڈالتے ہیں، اسی بسنت میں رام لعل کا یہ سفر بسنت رت سے شروع ہو کر بسنت ہی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یقیناً بسنت شناسوں کے لیے (دونوں ملکوں کے قارئین) اس میں سب کچھ ہے اور جنہیں بسنت کی خبر ہی نہیں وہ یقیناً اس میں کچھ نہیں پا سکیں گے۔

- آغا سہیل
لاہور۔ 23/دسمبر 1980۔

یہ بھی پڑھیے:
رام لعل - بائیوگرافی
وہ آدمی - رام لعل کی یاد میں : از قیصر تمکین
***
نام کتاب: زرد پتوں کی بہار (سفرنامۂ پاکستان)
از: رام لعل
تعداد صفحات: 264
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Zard PattoN Ki Bahar.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1پیش لفظ (پروفیسر محمود الہی)8
2نئے ہندوستان کا بڑھا ہوا ہاتھ (ڈاکٹر آغا سہیل)10
3زرد پتوں کی بہار21
4آنکھیں نہ ہوں تو حسرتِ دیدار بھی بہت31
5ماضی کا کرب ، شناخت کا مسئلہ44
6پنجابی عوام - کھلی کتاب58
7ادب ، مکھی اور علامت نگاری69
8باشعور نئی نسل - انسانی رشتے82
9گواہ رہنا میں ایک بار لوٹ کر آیا تھا97
10میانوالی - یادیں ، خواب اور حقیقت114
11کر لیا حائل زمانہ رابطوں کے درمیاں131
12میں نابینا میں نابینا150
13ایک یادگار پنجابی مشاعرہ167
14میں تو ذہنی خندق سے نکل آیا ہوں179
15کراچی میں آمد191
16آدمی ناقابل تقسیم اکائی ہے205
17ذہنی ہجرت - نظریاتی اساس220
18بستی نہ ملی پھر اپنی جیسی236

Zard PattoN Ki Bahar, Pakistan travelogue, by Ram Lal, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں