علی گڑھ میں میڈیکل کالج کا قیام - سابق ریاست حیدرآباد کا عطیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-15

علی گڑھ میں میڈیکل کالج کا قیام - سابق ریاست حیدرآباد کا عطیہ


سابق ریاست حیدرآباد کی حکومت نے اپنے حکمران نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی گہری شخصی دلچسپی کے نتیجے میں جامعہ عثمانیہ قائم کی جو بر صغیر کی تاریخ میں اپنی طرز کی منفرد جامعہ تھی جہاں ایک ہندوستانی زبان کو جامعاتی سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا عظیم تجربہ کیا گیا تھا۔ اس جامعہ نے خطہ دکن میں علم و فن کے مینار نورکی حیثیت سے ہر طرف روشنی پھیلائی اور اس کے قیام کے ساتھ ہی یہ خطہ نئی تہذیب اور ترقی کے اس عہد کی دہلیز پر پہنچ گیا جس کی کرنیں مغربسے مشرق کی طرف ہمارے ملک کے بعض حصوں میں پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ریاست حیدرآباد نے علم وتہذیب کی دنیا کو جامعہ عثمانیہ ہی نہیں دی بلکہ اپنے طرز کی قومی تعلیم میں عظیم اور تاریخ ساز کردار ادا کرنے والے ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بھی اس کے آغاز سے اس کی توسیع اور ترقی میں اہم ترین رول مالی امداد اور سرپرستی کے ذریعہ ادا کیا۔ تقریباً نصف صدی پہلے تک یہ جو سلسلہ جاری رہا اور اس دوران میں حیدرآباد سے بھیجی گئی لاکھوں کی امداد آج کے قدر زر کے حساب سے کروڑوں پر بھاری ہے۔
سابق ریاست حیدرآباد نے بیرونی ریاست کے جن تعلیمی اداروں کو مالی امداددی ان میں سب سے زیادہ مالی امداد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو دی گئی۔ سر سید احمد خان کے خوابوں کی تعبیر 1875ء میں ایک ابتدائی مدرسے سے مدرسۃ العلوم علی گڑح کیشکل میں ظاہر ہوئی تھی۔ اسی وقت سے حکومت ریاست حیدرآباد اسمدرسے کے لئے یکمشت اورمستقل سالانہ امداددیتی رہی جسمیں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہا۔ آخری آصف جاہی حکمران نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے دور حکمرانی میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام اور اس کی توسیع و ترقی کے لئے کئی بار گراں قدر عطیے جاری کئے گئے جن میں 1912ء اور 1930ء میں دئے گئے پانچ لاکھ اور دس لاکھ روپے کے عطیے قابل ذکر ہیں۔ ان گرانقدر عطیوں کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے 1945ء میں میڈیکل کالج کے قیام کے لئے مزید امداد جاری کرنے کی استدعا کی۔ اس مضمون میں اسی میڈیکل کالج کے لئے حکومت ریاست حیدرآبات کی جانب سے دی گئی دس لاکھ روپے کی امداد کے بارے میں تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں جو آندھر اپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کے مواد پر مبنی ہیں۔ یہ مواد پہلی بار منظر عام پر آ رہا ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے احمد سعید خان نواب چھتاری، صدر اعظم ریاست حیدرآباد کے نام اپنے طویل انگریزی مکتوب مورخہ 28؍اگست 1945ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو مختلف موقعوں پر ریاست حیدرآباد سے دی گئی مالی امداد کا تذکرہ کرتے ہوئے میڈیکل کالج کے قیام کے لئے مزید امدادمنظور کرنے کا سر سید احمد خان کا خواب صرف اس فیاضانہ امداد کی وجہ سے پورا ہوا تھا جو کہ انہیں ریاست حیدرآباد سے ملی تھی۔ اس کے بعد ایم۔ اے او کالج کے ارتقاء کے ہر مرحلے پر آصف جاہی حکمران نے اپنی شاہانہ فیاضی کا ٹھوس اور واضح ثبوت دیا۔ علی گڑھ میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے تیس لاکھ روپے کا سرمایہ درکار تھا۔ اس موقع پر آصف سابع نے پانچ لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اسی طرح پرنس آف ویلز سائنس کالج کا قیام اسی وقت عملی شکل اختیار کر سکا جب کہ آصف سابع نے دس لاکھ روپے کا گرانقدر عطیہ منظور کیا۔ ہم نے ہمیشہ اپنی شدید ضرورت کے موقع پر حیدرآباد کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھا اور آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ بڑی حد تک آصف سابع کی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے ہیں۔ اس وقت ملک میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ڈاکٹروں ڈنٹل سرجنوں اور نرسوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بھور کمیٹی (The Bhore Committee) کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہندوستان میں موجودہ بار میڈیکل کالجوں کی بجائے ایک سومیڈیکل کالج بھی کچھ زیادہ نہیں ہوں گے۔ ان حالات کے پیش نظر علی گڑھ میں ایک میڈیکل کالج بشمول انسٹی ٹیوٹ فار ٹریننگ آف نرسس کا قیام اہم اور حقیقی ضرورت ہے۔ ہماری یونیورسٹی کے 4500 طلبہ میں سے 700 سے زیادہ طلبہ حیدرآبادی ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حیدرآبادیوں کی ایک بڑی تعداد میڈیکل کالج کی طرف متوجہ ہو گی۔ نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع پہلی بار 1918ء میں علی گڑھ تشریف لائے تھے اس کے بعد سے حیدرآباد اور علی گڑھ اتنے قریب آ گئے ہیں کہ آج ریاست حیدرآباد کے سرکاری محکمہ جات میں علی گڑھ کے قدیم طلبہ کی بڑی تعداد موجود ہے۔ علی گڑھ مسلم یورنیورسٹی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اس سال ایک میڈیکل کالج کھولنے کی تجویز ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک کروڑروپے کی خطیر رقم درکار ہے۔ میڈیکل کالج کے قیام کے لئے اب تک جو تیس لاکھ روپے کی رقم جمع کیج اچکی ہے اس میں نواب آف بھوپال نے دولاکھ، نواب آف بھاولپور نے دو لاکھ، مہاراجا آف دربھنگہ نے ایک لاکھ، خیر پور اسٹیٹ نے ایک لاکھ، مہارا اجلا آف جودھپور نے پچاس ہزار اور مہاراجا آف کشمیر نے پچیس ہزار روپے کے عطیے دئیے ہیں۔ ہم حکومت ریاست حیدرآباد سے مالی امداد حاصل کرنے میں بڑے خوش قسمت رہے ہیں اور پھر ایک بار ہماری نظریں ہمارے محبوب اور ممتاز چانسلر(آصف سابع) پر لگی ہوئی ہیں جومادر وطن کے ہر فرزند کے لئے باعث فخر اور وجدان کا سر چشمہ ہیں۔
ڈاکٹر سر ضیاء الدین وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تحریک کی تائید میں وائسرے کی ایگزیکٹیو کونسل کے حسب ذیل ارکان نے پر زور سفارشی خطوط لکھئے۔
1۔ سر سلطان احمد( اطلاعات و نشریات)
2۔ ملک فیروز خان نون(دفاع)
3۔ خان بہادر سر محمد عثمان(ڈاک و ہوائیہ)
4۔ سرجے۔ پی۔ سر یواستو(اغذیہ)
5۔ سرجو گندر سنگھ(تعلیم، صحت، اور اراضیات)
6۔ سر محمد عزیز الحق (تجارت، صنعتیں، اور سیول سپلائز)
7۔ ڈاکٹر این۔ بی۔ کھرے (کامن ویلتھ تعلقات)
8۔ سرکونراڈ کا فیلڈ( سیاسی مشیر)

وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی کی درخواست اور وائسرے ایگزیکٹیو کونسل کے ارکان کے سفارشی خطوط کے بارے میں باب حکومت (کابینہ) کے اجلاس میں طے کیا گیا کہ آصف سابع کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا جو خاص تعلق آصف سابع اور ریاست حیدرآباد سے رہا ہے اور وائس چانسلرعلی گڑھ یونیورسٹی کی درخواست کے ساتھ جو سفارشی خطوط منسلک ہیں ان کا لحاظ کرتے ہوئے میڈیکل کالج کے قیام کے لئے حیدرآباد کی جانب سے دس لاکھ روے سکہ کلدار زائد از موازنہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ منظور کئے جائیں تو مناسب ہو گا۔
1۔ کالج کے قیام اور بعد میں اس کے کاروبار چلانے کا کام ایک انتظامی اور تعلیمی کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
2۔ انتظامی کمیٹی مجوزہ کالج کے قیام کے متعلق جملہ مالی منظوریاں دے گی اور موازنہ منظور کرے گی۔
3۔ تعلیمی کمیٹی میں حکومت حیدرآباد کے محکمہ تعلیمات کے دو نمائندے مقرر کئے جائیں گے اور یہ کمیٹی کالج کے فنی معیار تعلیمی انتظامات، نصاب اور تقر رات اساتذہ و عملہ کی ذمہ دار ہو گی۔
4۔ مجوزہ کالج کی سالانہ رپورٹ اور حسابات کی تنقیحی رپورٹ ہر سال حکومت حیدرآباد کو روانہ کی جائے گی۔
5۔ کم از کم دس اور زیادہ سے زیادہ بیس نشستیں حیدرآباد کے طلبہ کے لئے محفوظ کی جائیں گے۔
6۔ مجوزہ کالج میں جراحی اور میڈیسن کی دو چیرز آصف سابع کے نام سے قائم کی جائیں گی۔
احمد سعید خان نواب چھتاری صدر اعظم نے باب حکومت کی متذکرہ بالا قرار داد کو ایک عرضداشت میں درج کر کے اس کے ساتھ ڈاکٹر سر ضیاء الدین کی درخواست اور سفارشی خطوط کی نقلیں منسلک کرتے ہوئے اسے آصف سابع کے احکام کے لئے پیش کیا۔ آصف سابع نے اس عرضداشت پر اپنے فرمان مورخہ 2؍اکتوبر 1945ء کے ذریعہ یدایت دی جن شروط پر ہم چندہ دینا چاہتے ہیں یہ پہلے طے کر لئے جائیں۔ اس کے بعد مجھ سے عرض کیا جائے تو جو کچھ چندہ دینا ہو گا یکم جنوری سال نو کو دیا جائے گا۔
آصف سابع کی ہدایت کی تعمیل میں باب حکومت کی قرار داد میں مندرج شرائط کے متعلق ڈاکٹر سر ضیاء الدین، وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے دریافت کیا گیا۔ انہوں نے شرائط کو قبول کرتے ہوئے لکھا کہ جو امداد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے میڈیکل کالج کو آصف سابع عطا فرمائیں وہ ان کے لئے باعث فخر ہو گی اور جو خدمت وہ اہل حیدرآباد کی انجام دیں گے وہ ان کے لئے باعث افتخار ہو گی۔ مجوزہ شرائط کو قبول کرنے کی اطلاع ملنے پر باب حکومت نے اپنے اجلاس میں یہ قرار داد منظور کی کہ وائس چانسلر نے تمام شرائط کو مکمل طور پر قبول کر لیا ہے اس لئے میڈیکل کالج کے قیام کے لئے حیدرآباد کی جانب سے دس لاکھ روپے کلدار زائد از موازنہ بطور عطیہ دینے کی منظوری دی جائے تومناسب ہو گا۔ آصف سابع نے باب حکومت کی قرار داد کو منظوری دی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں میڈیکل کالج کے قیام کی امداد کے لئے ان کا یہ فرمان مورخہ 3 ؍دسمبر 1945ء جاری ہوا۔ کونسل(باب حکومت) کی رائے کے مطابق مذکورہ اغراض کے لئے ہماری گورنمنٹ کی جانب سے دس لاکھ روپے کلدار کا چندہ بشرائط مجوزہ دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ:
قدرداں حیدرآباد
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1996
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Hyderabad State donation to Medical College at AMU. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں