جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کا پس منظر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-03

جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کا پس منظر

osmania-university-arts-college

حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کا قیام ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا۔
اس دانش گاہ نے نہ صرف یہ کہ سابق ریاست حیدرآباد میں اعلیٰ تعلیم کی روشنی پھیلائی بلکہ اس مخزن علوم و فنون کی وجہ سے ہمہ جہتی ترقی خاص کر معاشی و صنعتی ترقی کی راہیں کھل گئیں۔ اس عظیم جامعہ کے کیمپس اور عمارتوں کی تعمیر کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ میں نے آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ ریکارڈ کے مواد کی بنیاد پر چھان بین کر کے۔ تحقیق کی مختلف کڑیوں کو جوڑ کرمتعلقہ مطبوعات اور محصلہ مواد کی مدد سے یہ مضمون قلمبند کیا ہے جس میں کیمپس کے لئے دور دور تک پھیلی ہوئی اراضی کے انتخاب کے سلسلے میں ابتدائی تجویز سے لے کر فقید المثال آرٹس کالج اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کے منصوبے، معماروں کے انتخاب، ہر مرحلہ پر فیاضانہ رقمی منظوریاں اور آرٹس کالج کی عمارت کے افتتاح کی یادگار تقریب کابیان شامل ہے۔ ان تمام تفصیلات سے واضح ہو گا کہ اعلی تعلیم کی قدر دانی میں بھی حیدرآباد بر صغیر کے دوسرے علاقوں سے پیچھے نہ تھا۔ اس علاقے کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب دوسرے تھے جن میں تاریخی، سماجی اور معاشی اسباب شامل تھے جو دیسی ریاستوں کا مقدر بنے ہوئے تھے لیکن اعلیٰ تعلیم کی اشاعت اور ترقی کے لئے عظیم پیمانے پر جامعہ عثمانیہ کے قیام کے ذریعہ جو جست لگائی گئی تھی وہ نہ صرف دیسی ریاستوں کیلئے بلکہ ملک کے دوسرے حصوں کے لئے بھی لائق تقلید تھی۔

اس جامعہ کی تعمیر کے سلسلے میں منصوبہ سازی اور حکمت عملی میں پون صدی قبل مستقبل کی ضروریات اور تقاضوں کا خاص خیال رکھا گیا تھا جس کا اظہار اس جامعہ کے کیمپس کے طول و عرض اور اس کی وسعتوں سے ہوتا ہے جن میں ضروریات کے سینکڑوں گنا اضافہ کو بہ سہولت سمو دیا گیا ہے اور شاید آئندہ طویل مدت تک بھی یہ احاطہ مسلسل جامعہ کی ترقی پذیر ضروریات کے سلسلہ میں تنگدامانی کا احساس ہونے نہ دے گا۔
جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے ابتداء میں بمقام اڈیکمیٹ 14 سو ایکڑ اراضی کا علاقہ پسند و منتخب کیا گیا لیکن علی نواز جنگ معتمد تعمیرات نے جامعہ کی عمارتوں کو بمقام گولکنڈہ تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی۔ آصف سابع نے اس تجویز کو منظوری دینے کی بجائے جامعہ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے شاہی عمارتوں کی پیش کش کی۔ چونکہ شاہی عمارتوں سے جامعہ کی ضروریات کی تکمیل ممکن نہیں تھی اس لئے یہ اسکیم عملی صورت اختیار نہ کر سکی۔ ملک پیٹھ میں بھی جامعہ کی عمارتوں کو تعمیر کرنے کے بارے میں غوروخوض کیا گیا لیکن یہ اراضی بھی جامعہ کی ضروریات کے لئے کافی نہیں تھی اس لئے آخر کار بمقام اڈیکمیٹ ہی عمارتوں کی تعمیر شروع کرنے کے احکام جاری کئے گئے۔ مقام کے انتخاب کے لئے جنوری 1921ء میں کار روائی کا آغاز ہوا تھا اور اس بارے میں آٹھ سال بعد جنوری 1929ء میں قطعی فیصلہ ہوا اور منظوری دی گئی۔ جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میں محکمہ تعمیرات کے دو انجینئروں کو بیرونی دورے پر روانہ کیا گیا تاکہ وہ ان ممالک کی جامعات کے لئے تعمیر کردہ نئی عمارتوں کا معائنہ کریں۔ ایک بیرونی ماہر فن کا مشیر آرکیٹکٹ کے طور پر تقرر کیا گیا۔ آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کا کام 13/جنوری 1934ء سے شروع ہوا اور نومبر 1939ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ احاطہ جامعہ عثمانیہ میں آرٹس کالج کی عمارت کے علاوہ دیگر عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری رہا ان عمارتوں کی تعمیر پربے دریغ رقومات صرف کی گئیں۔ چونکہ اڈیکمیٹ میں بڑی اور مستقل عمارت کی تعمیر کے لئے کافی عرصہ درکار تھا اس لئے کیمپس میں پہلے عارضی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور جامعہ 1934ء میں توپ کا سانچہ اور کنگ کوٹھی روڈ پر واقع کرایہ کی عمارتوں سے ان نئی تعمیر شدہ عارضی عمارتوں میں منتقل ہوئی۔ آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر پر تقریباً تیس لاکھ روپے صرف ہوئے اور اس عمارت کی تعمیر مکمل ہونے پر آصف سابع نواب میر عثمان علی خان نے 4/دسمبر 1939ء کو ایک تقریب میں اس عظیم الشان عمارت کا افتتاح کیا۔
آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوزمیں اس بارے میں جو سرکاری کار روائیاں دستیاب ہیں ان کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

سر علی امام، صدر اعظم اور دیگر دو عہدیداروں نے جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اراضی کے انتخاب کی غرض سے دو مقامات کامعائنہ کیا تھا۔ ایک تالاب مان صاحبہ کے قریب دو سرا بمقام اڈیکمیٹ۔ قطعہ اول الذکر آبادی کے قریب اور نشیب میں واقع تھا اور وہاں مزید توسیع کی گنجائش نہیں تھی اس لئے اسے ناپسند کیا گیا۔ ثانی الذکر بالاتفاق پسند کیا گیا۔ ایک عرضداشت مورخہ 3/جمادی الاول 1339م 13/جنوری 1921ء میں اس قطعہ اراضی کے بارے میں یہ تفصیلات درج کی گئی کہ قطعہ مذکور بمقام اڈیکمیٹ، باغ لنگم پلی سے کوہ مولا علی کو جانے والی سڑک پر لوکل اسٹیشن سے دو فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ یہ مرتفع مقام متعدد ٹیلوں پرمشتمل ہے، جہاں سے شہر کا خوش نما منظر پیش نظر رہتا ہے۔ ان ٹیلوں پر جامعہ عثمانیہ کی عمارتیں، تدریسی اسٹاف کے رہائشی مکانات اور بورڈنگ ہاؤز بنائے جا سکتے ہیں۔ اس کے عقب میں وسیع میدان ہے جو کھیل اور تفریح گاہ کے کام میں لایاجا سکتا ہے۔ چلکل گوڑہ کے خزانہ آب سے مقام مذکور کو پینے کا پانی سربراہ کیا جا سکتا ہے۔ اڈیکمیٹ کے قطعہ اراضی کے بارے میں تفصیلات درج کرنے کے بعد عرضداشت میں لکھا گیا کہ جامعہ عثمانیہ کے لءے چودہ سو ایکڑ اراضی حاصل کرنے کی تجویز کی گئی ہے تاکہ آئندہ مزید توسیع کی گنجائش رہ سکے اور جامعہ کی عمارتوں کے قریب دوسری عمارتوں کے تعمیر ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔ اس اراضی کا 25 سالہ معاوضہ سر سری طور پر دو لاکھ قرار پایا ہے اور عہدیدار خاص کی طرف سے تشخیص کے بعد بموجب تشخیص رقم ادا کی جائے گی۔ عرضداشت کے آخر میں آصف سابع سے سر سری برآورد رقمی دو لاکھ کی منظوری صادر کرنے کی درخواست کی گئی۔
آصف سابع نے جامعہ عثمانیہ کی عمارات کے لئے اڈیکمیٹ کا مجوزہ علاقہ پسند نہیں کیا۔ وہ کسی دور دراز مقام کی بجائے اندرون شہر جامعہ عثمانیہ کی عمارات تعمیر کروانا چاہتے تھے چنانچہ ان کا جو فرمان مورخہ 10/جمادی الاول 1339ھم 20/جنوری 1921ء صادر ہوا تھا اس کا متن درج ذیل ہے۔

کیا جامعہ عثمانیہ کے لئے ہائی کورٹ وغیرہ کی مانند اندرون شہر کوئی جگہ تجویز نہیں ہو سکتی۔
اڈیکمیٹ جیسے دور دراز مقام کی بہ نسبت ہائی کورٹ کی عمارت کے قریب ہی کوئی عمدہ مقام تجویز ہو تو زیادہ مناسب رہے گا۔ اس بارے میں صیغہ متعلقہ سے جلد کیفیت پیش ہو۔
آصف سابع کے مذکورہ احکام کی تعمیل میں مجلس اعلی جامعہ عثمانیہ کے اجلاس میں یہ مسئلہ پیش ہوا جس میں مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ کے اراکین کے علاوہ چیف انجینئر شریک معتمد تعمیرات اورمعتمدمجلس آرائش بلدہ بھی مقام کے انتخاب کی نسبت مشورہ دینے کے لئے مدعو کئے گئے تھے۔ مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ کے سامنے یہ کیفیت پیش ہوئی کہ آصف سابع کا فرمان صادر ہونے کے بعد اکبر حیدری معتمد تعلیمات، کرامت اللہ شریک معتمد تعمیرات اور راس مسعود ناظم تعلیمات نے ان کل اراضیات کا معائنہ کیا جو اندرون شہر رود موسی کے کنارے واقع ہیں۔ ان میں دو قطعات قابل غور تھے۔ ایک مستقل عمارت سٹی ہائی اسکول اور دوسرا قلعہ گولکنڈہ کے پریڈ گراؤنڈ کے قریب کا علاقہ۔ اول الذکر اس قدر وسیع نہیں ہے کہ جامعہ عثمانیہ کی ضرورت کے لئے کافی ہو سکے اور آخر الذکر شہر سے اس قدر فاصلہ پر ہے جس قدر اڈیکمیٹ۔ مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے تمام امورر غور کرنے کے بعد بالاتفاق طے پایا کہ آصف سابع کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے کہ جملہ حالات کے پیش نظر اڈیکمیٹ کا مقام جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے بہترین ہے۔ مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ نےہ تجویز کیا کہ جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے ماہر فن آرکٹیکٹ کا انتخاب ایک کمیٹی میں کیا جائے جس کے اراکین سر اعلی امام، صدر اعظم، گلانسی، صدر المہام فینانس، اکبر حیدری، معتمد تعلیمات اور کرامت اللہ، شریک معتمد تعمیرات ہوں۔ نیز جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر مشرقی طرز پر ہو اور ہندوستان کے قدیم اسلامی طرز تعمیر Indo Saracenic کو ترجیح دی جائے۔ جب مذکورہ بالا تفصیلات ایک عرضداشت کے ذریعہ آصف سابع کے ملاحظہ اور احکام کے لئے پیش کی گئیں تو آصف سابع کا حسب ذیل فرمان مورخہ 12/ذی قعدہ 1339ھم 18/جولائی 1921ء صادر ہوا۔
جب کہ جامعہ عثمانیہ کے لئے اڈیکمیٹ سے بہتر دوسری جگہ دستیاب نہیں ہو سکتی ہے تو مجلس اعلیٰ اور صدر اعظم کی رائے مناسب ہے۔ حسبہ جامعہ عثمانیہ کی عمارات کی تعمیر کے لئے اڈیکمیٹ میں چودہ سو ایکڑ اراضی حاصل کی جائے اور حصول اراضی و تصفیہ معاوضہ کے لئے ایک عہدہ دار مقرر کیا جائے اور جامعہ عثمانیہ کی عمارات کے لئے ماہر فن کا انتخاب ایک کمیٹی کے ذریعہ سے کیا جائے جس کے صدر نشین صدر اعظم اروارکان صدر المہام فینانس، معتمد تعلیمات ومعتمد تعمیرات، شاخ عام مقرر ہوں۔ جامعہ عثمانیہ کی عمارات کی تعمیر مشرقی طرز پر ہو اور ہندوستان کے قدیم اسلامی طرز کو ترجیح دی جائے۔
مذکورہ بالا فرمان کی تعمیل میں ماہر فن کے انتخاب کے لئے مجوزہ کمیٹی کا انعقاد عمل میں آیا جس نے ماہر فن کے انتخاب کے بارے میں اپنی رائے پیش کی۔ باب حکومت نے ایک قرار داد میں مہر علی فاضل کے تقرر کی اس بنیاد پر سفارش کی کہ وہ پانچ سال سے جدید عمارتوں کی تعمیر پر مقرر ہیں اور جن کی ذاتی نگرانی میں عدالت العالیہ، سنی ہائی اسکول مکمل ہو چکے ہیں اور عثمانیہ جنرل ہاسپٹل زیر تعمیر ہے۔ ماہر فن کے انتخاب کے لئے کمیٹی کی رائے اور باب حکومت کی قرار داد کو ایک عرضداشت میں درج کر کے اسے آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا گیا۔

آصف سابع نے حسب ذیل فرمان مورخہ رجب 1340ھم 8 مارچ 1922ء کے ذریعہ مہر علی فاضل کے تقرر کی منظوری دی۔
باب حکومت کی رائے مناسب ہے، حسبہ عمارات جامعہ عثمانیہ اور دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے لئے ایک مستقل جائداد وآرکٹیکٹ کی قائم کر کے اس پر مہر علی فاضل کا تقرر کیا جائے اور ان کو اس خدمت کے ماہوار ابتدائی ایک ہزار تین سو روپے با اضافہ پچاس روپے سالانہ ماہوار انتہائی ایک ہزار پانچ سو روپے دی جائے۔ مگرمہر علی فاضل کے تیار کئے ہوئے نقشہ جات پر بصورت ضرورت باہر کے بہترین ماہر فن سے وقتاً فوقتاً مشورہ لیاجا سکتا ہے۔
اڈیکمیٹ میں جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے سلسلہ میں ابتدائی نوعیت کے کام کا آغازہوا اور آصف سابع نے فرمان مورخہ 7/اکتوبر1922ء کے ذریعہ اڈیکمیٹ میں واقع منظورہ مقام کی زمین کو ہموار کرنے اور سڑکیں بنانے کے لئے ایک لاکھ روپے کی برآورد منظور کی۔

آصف سابع جامعہ عثمانیہ کی عمارتیں علی نواز جنگ کی نگرانی میں تعمیر کروانا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں حسب ذیل فرمان مورخہ 20 جمادی الثانی 1343ھم 27جنوری 1924ء جاری کیا۔
میں نے قبل ازیں صادر کیا تھا کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارتوں کی تعمیر علی نواز جنگ معتمدتعمیرات کے زیر نگرانی ہونی چاہئے جس کے وہ ذمہ دار رہیں گے۔ اس کے معنی یہی ہیں کہ ان عمارات وغیرہ کے نقشوں کی تیاری بر آوردات کی ترتیب کا کام بھی ان سے متعلق رہے گا۔ پس ان کو حکم دیا جائے کہ برآوردات مذکور مرتب کر کے حسب ضابطہ بذریعہ عرضداشت میری منظوری حاصل کریں۔
علی نواز جنگ، معتمد تعمیرات کے بارے میں فرمان صادر ہونے پر انہوں نے ایک خط اظہر جنگ کو تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے گولکنڈہ کا مقام بہت موزوں ومناسب رہے گا۔ آصف سابع نے علی نواز جنگ کے اس خیال کو قابل اعتنا سمجھا اور اس پر غوروخوض کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے احکام صادر کئے۔ اس بارے میں آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 10 شعبان 1342ھم 17 مارچ 1944ء صادر ہوا تھا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
معتمد تعمیرات علی نواز جنگ کا خط موسومہ اظہر جنگ ملفوف ہے۔ اس میں معتمد تعمیرات نے اپنا خیال تعمیر عثمانیہ یونیورسٹی سے متعلق جو ظاہر کیا ہے وہ ایک حد تک قابل غور ہے۔ پس ان امورات پر غور کرنے کے لئے تین اشخاص کی ایک کمیٹی منعقد کی جائے جس میں ایکرکن معتمد تعمیرات علی نواز جنگ۔ دوسرے ایک رکن باب حکومت مثلاً تلاوت جنگ اور تیسرے رکن حیدر نواز جنگ شریک رہیں اور ممکن ہو تو ایک اور رکن صیغہ تعلیمات سے مثلاً مسعود جنگ کو شریک کر لیا جائے اور مذکور کمیٹی تمام امورات پر غور کر کے اپنی رائے باب حکومت میں پیش کرے اور باب حکومت اپنی رائے کے ساتھحکم مناسب کے لئے میرے ملاحظے میں کار روائی پیش کرے جس کے لئے ایک ماہ کی مہلت کافی ہے۔

آصف سابع کے مذکورہ بالا حکم کی تعمیل میں کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ وہ اس امرپر غور کرے کہ جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے گولکنڈہ کا مقام مناسب ہو گا کہ نہیں۔ کمیٹی کے تین اجلاس ہوئے اور کمیٹی نے جو رپورٹ مرتب کی تھی وہ باب حکومت کے اجلاس میں پیش کی گئی۔ باب حکومت کے بعض ارکان نے جن میں صدر اعظم بھی شریک تھے اڈیکمیٹ کے اس رقبہ اراضی کا معائنہ کیا جو عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارتوں کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ معائنہ کے وقت علی نواز جنگ معتمد تعمیرات بھی موجود تھے جنہوں نے اس رقبہ اراضی کی نسبت یہ اعتراضات کئے تھے کہ اس مقام پر آبرسانی کے انتظامات میں ناقابل حل دشواریاں پیدا ہوں گی اور جملہ ضروریات کے لیے پانی نہیں پہنچ سکے گا اور دوسرے یہ کہ مجوزہ ڈرینج اسکیم سے اندیشہ ہے کہ اس علاقے میں مضر صحت اثرات پیدا ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر باب حکومت میں قرار داد منظور ہوئی کہ اڈیکمیٹ کا مقام یونیورسٹی کے لئے مناسب و موزوں مقام نہیں ہے اور باب حکومت کو گولکنڈہ کے مقام پر یونیورسٹی کی عمارتیں تعمیر کرنے سے اتفاق ہے۔ یہ تمام تفصیلات ایک عرضداشت میں درج کی گئیں اور اس عرضداشت کے ساتھ علی ناوز جنگ معتمد تعمیرات کا خط اور کمیٹی کی رپورٹ آصف سابع کے احکام کے لئے پیش کی گئی۔ اس عرضداشت پر آصف سابع نے گولکنڈہ کے مقام پر جامعہ عثمانیہ کی عمارتیں تعمیر کرنے کی منظوری دینے کی بجائے خود اپنی رہائش کے لئے تعمیر کردہ عمارتوں کو جامعہ عثمانیہ کے لئے فراہم کرنے کا پیشکش کیا۔ اس بارے میں ان کا حسب ذیل فرمان مورخہ 25 ذی الحجہ 1342ھم 28 جولائی 1944ء صادر ہوا۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے لئے عمارتیں تعمیر کرنے کا جو مسئلہ اس وقت زیر غور ہے اس کے متعلق میں نے بعد غوروخوض بسیار یہی مناسب سمجھا کہ اس کے لئے میں خاص اپنے تعمیر کردہ عمارتیں دیدوں۔ یعنی کل نذری باغ( جس میں کہ اس وقت میرا قیام ہے ) کل عثمان منشن و کل مدرسہ عالیہ تاکہ سب ضرورتوں کو یہ مختلف عمارتیں کافی ہو سکیں جو نہایت وسیع وشاندار عمارتیں ہیں جن کی لاگت میں صرف خاص نے لاکھوں روپیہ لگایا ہے اور مدرسہ عالیہ کا میدان کھیل کود کے واسطے زیادہ موزوں ہے۔ اس کے سوا یہ مقام وسط شہر میں واقع ہے جہاں کی آب و ہوا ہمیشہ نہایت پاک و صاف رہتی ہے اور طرہ یہ کہ شہر سے بھی زیادہ بعد مسافت نہیں ہے۔ پس ان خوبیوں کے مد نظر دیوانی کی عمارتیں یونیورسٹی کے لئے تعمیر کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ البتہ ان عمارتوں وزمیں ہائے متعلقہ کو ایک شرط سے دیا جاتا ہے کہ باضابطہ ان کی لاگت سے متعلق بر آوردات مرتب ہوں اور جو کچھ لاگت ان کی قرار پائے وہ دیوانی یکمشت صرفخاص کو ادا کر دینے پر صرفخاص ان کو دیوانی کے تفویض کر سکتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی کم از کم 5 سال کی مہلت صرفخاص کو دی جائے تاکہ جو لوگ و سامان کہ اس وقت ان عمارتوں میں ہے وہ دوسری جگہ منتقل ہو سکے۔

جامعہ عثمانیہ کے لئے شاہی عمارتوں کا پیشکش کئے جانے کے بعد باب حکومت نے عمارتوں سے متعلق مواد جامعہ عثمانیہ سے طلب کرنے کی اجازت مانگی تاکہ یہ اندازہ کیا جا سکے کہ جامعہ کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کے لحاظ سے کتنی اور کس وسعت کی عمارتیں درکار ہوں گی۔ فرمان مورخہ غزہ ربیع الاول 1343ھم یکم اکتوبر 1924ء کے ذریعہ یہ حکم دیا گیا کہ یونیورسٹی سے مطلوبہ مواد طلب کر کے اس کو ایک کمیٹی میں پیش کیا جائے جس کے اراکین فصیح جنگ معتمد مال، مسعود جنگ ناظم تعلیمات اور علی نواز جنگ معتمد تعمیرات ہوں۔ کمیٹی کی رائے باب حکومت میں پیش کر کے اس کے نتیجے سے بذریعہ عرضداشت اطلاع دی جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں مجلس اعلی جامعہ عثمانیہ سے مطلوبہ مواد طلب کر کے مجوزہ کمیٹی میں پیش کیا گیا جس میں جامعہ عثمانیہ کی ضروریات کا اندازہ کیا گیا اور شاہی عمارتوں کے نقشہ جات کو سامنے رکھ کر اس امر پر غور کیا گیا کہ آیا شاہی عمارتیں جامعہ عثمانیہ کی ضروریات کے لئے مکتفی ہو سکتی ہیں۔ کمیٹی ان امور پر کافی غوروخوض کے بعد حسب ذیل نتائج پر پہنچی۔

1) جو ارضی مرحمت کئے جانے کی تجویز ہے اس کا رقبہ تیس ایکر ہے۔ اس قدر رقبہ جامعہ عثمانیہ کی اولین تعلیمی و انتظامی عمارتوں اور قیام گاہ طلبہ کیلئے ناکافی ہے۔
2) شاہی عمارتوں میں 500 سے زیادہ طلبہ کی رہائش کے لئے گنجائش نہیں ہے جب کہ جامعہ عثمانیہ کے لئے جو کہ رزیڈنشیل یونیورسٹی ہے ابتدا میں کم از کم 500 سے زیادہ طلبہ کی رہائش کا انتظام لازمی ہے اور بعد میں 2000 طلبہ کا۔

مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر کمیٹی نے رائے دی کہ شاہی عمارتوں اور متصلہ اراضی سے جامعہ عثمانیہ کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ ایک عرضداشت مورخہ 22 ذیعقدہ 1343ھم 5 جون 1925ء کے ذریعہ کمیٹی کی رپورٹ آصف سابع کے ملاحظہ اور احکام کے لئے پیش کی گئی۔ اس عرضداشت پر آصف سابع کا کوئی فرمان صادر نہیں ہوا اور تقریباً تین چار سال کی مدت تک جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ اس دوران سرکاری دفاتر اورسکریٹریٹ کے دفاتر کے لئے مقام کے انتخاب اورعمارتوں کی تعمیر کامسئلہ چھڑ گیا تھا۔ اسی اثنا میں بمقام ملک پیٹھ ابتدا میں جامعہ عثمانیہ اور بعد ازاں سرکاری دفاتر اور سکریٹریٹ کے دفاتر کی عمارتیں تعمیر کرنے کی تجویز پیش ہوئی۔ آصف سابق نے ملک پیٹھ میں سرکاری دفاتراور سکر ریٹریٹ کے لئے عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میں تجاویز پیش کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی۔ اس کمیٹی نے متفقہ طور پر رائے دی کہ ملک پیٹھ کامقام سکریٹریٹ کی عمارتوں کی تعمیر کے لئے موزوں نہیں ہے۔ اس کے چند وجوہ بیان کرتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ آصف سابع کی خدمت میں معروضہ پیش کیا جائے کہ اڈیکمیٹ میں یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر کی اجازت فوراً مرحمت فرمائی جائے جس کی شدید ضرورت ہے اور یونیورسٹی عمارتوں کی تعمیر سکریٹریٹ اسکیم کی تابع نہیں ہے۔ اس بارے میں باب حکومت میں قرار داد منظور کی گئی کہ جامعہ کے لئے موزوں عمارتوں کی عدمموجودگی میں حکومت کو سالانہ کرایہ کا کثیربار برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر اڈیکمیٹ میں عمارتوں کی تعمیر کی جلد اجازت مرحمت ہو جائے تو تعلیم میں سہولت او مصارف میں کفایت ہو گی۔ کمیٹی کی سفارشات اورباب حکومت کی قرار داد ایک عرضداشت مورخہ 26 جمادی الثانی 1347م 9 دسمبر 1928ء میں درج کر کے اسے آصف سابع کے احکام کے لئے پیش کیا گیا۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ 5 شعبان 1347 ھم 17 جنوری 1929ء کے ذریعہ حکم دیا کہ اڈیکمیٹ میں یونیورسٹی کی عمارتوں کی تعمیر شروع کر دی جائے۔
جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کے لئے مقام کے انتخاب کا قطعی فیصلہ ہو جانے کے بعد بلڈنگ کمیٹی نے سر رشتہ تعمیرات کے دو انجینئروں سید علی رضا اور سید زین الدین حسین خان کو جاپان، امریکہ، یورپ، مراکش، مصر، شام اور عراق روانہ کرنا طے کیا تاکہ یہ انجینئر ان ممالک کی جامعات کی نئی تعمیر کردہ عمارتوں کا معائنہ کریں اورکسی موزوں اورآرکیٹکٹ کا نام تجویز کریں جس کا بطور مشیر آرکٹیکٹ تقر رکیا جا سکے۔ باب حکومت نے ان انجینئروں کی تعیناتی، تنخواہ والا الاؤنس اوربر آورد سفر کی منظوری دینے کی سفارش کی اور آصف سابع نے فرمان مورخہ 26 ربیع الثانی 1349ھم 20 ستمبر 1930ء کے ذریعہ دونوں انجینئروں سے متعلق تجاویز کو منظوری دی۔
آرکٹیکٹ کے تقرر کے بارے میں سرحیدر نواز جنگ نے لندن سے ایک ٹیلیگرام مورخہ 2اکتوبر1930ء روانہ کیا جسمیں انہوں نے لکھا کہ ارنسٹ جامپر کو چند شرائط کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کا آرکیٹیکٹ مقرر کرنے کے لئے حکومت کی ضروری منظوری حاصل کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ علی رضا اور سید زین الدین نے ارنسٹ جامپر کی سفارش کی ہے کہ سراسنگ طرزتعمیر کے یہ بہترین ماہر ہیں اور انہوں نے قاہرہ کی چند نفیس عمارتوں کے نقشے تیار کئے ہیں۔ ان کی شرائط ملازمت انہوں نے اورعلی نواز جنگ نے سر رچرڈٹرنچاور مہدی یار جنگ کے مشورہ سے طے کی ہیں۔ سب کی رائے یہ ہے کہ ارنسٹجاسر اس کام کے لئے نہایت موزوں ہوں گے اور ان کا فوراً تقر رہونا چاہئے۔ باب حکومت نے اپنیاجلاس منعقدہ 16 اکتوبر 1341 فم 22/اکتوبر 1931ء میں ایک قرار داد منظور کی کہ ارنسٹ جاسپر کا تقرر یونیورسٹی عمارتوں کے لئے بطور آرکیٹکٹ منظور کیا جا سکتا ہے۔ ایک عرضداشت میں اس کار روائی کی ساری تفصیلات اور باب حکومت کی قرار داد کو درج کر کے اسے آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 24 جمادی الثانی 1350ھم 5 نومبر 1931ء ارنسٹ جاسپر کے تقرر کی منظوری دیدی۔
مختلف نوعیت کے کاموں اورمختلف جائدادوں پرتقر رات کی منظوری دینے کے علاوہ ایک اسکیم برائے تعمیر عمارات جامعہ عثمانیہ کو بھی جس کی مجموعی رقم چونتیس لاکھ آٹھ ہزار ایک سو ساٹھ روے تھی آصف سابع نے اپنے فرمان مورخہ 24 ذی الحجہ 1351ھم 20/اپریل 1933ء کے ذریعہ منظور کیا۔

آرٹس کالج کی عمارت کے نقشہ جات ارنسٹ جاسپر، کنسلٹنگ آرکیٹکٹ کے مشوروں سے مرتب کر کے عثمانیہ یونیورسٹی سٹی بلڈنگ کمیٹی میں پیش کئے گئے۔ کمیٹی مذکورہ کے دو اجلاسوں میں اسبارے میں صلاح و مشورہ ہوا اور ان پرپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ اس کالج کی عمارت کی تفصیلی برآوردہ مرتب کی گئی۔ چنانچہ عمارت، فٹنگس اور فرنیچر کی رقم 27 لاکھ 13 ہزار روپے قرارپ ائی۔ ایک عرضداشت میں آرٹس کالج کی عمارت کی 27 لاکھ 3 1 ہزار روپے کی بر آورد کی تفصیلات درج کر کے لکھا گیا کہ عمارت دو منزلہ تجویز کی گئی ہے اور یہ مقامی ساسانی طرز پر ہو گی جس میں بیدر، اورنگ آباد اور بلدو حیدرآباد کی عمارتوں کی اہم خصوصیات شامل رہے گی۔ اس میں دور جدید کی عمارات کی جملہ ضروریات ملحوظ رکھی گئی ہیں۔ اسمیں دوہزار طلبہ کی تعلیم کے لئے گنجائش ہے۔ اس کار روائی کی ساری تفصیلات درجکرنے کے بعد آصف سابع سے 27 لاکھ تیرہ ہزار روپے کی منظوری عطا کرنے کی درخواست کی گئی۔ اس عرضداشت کے ساتھ آرٹس کالج کی عمارت کے نقشہ جات بھی آصف سابع کے ملاحظے کے لئے پیش کئے گئے۔ آصف سابع نے بذریعہ فرمان 6 رجب 1352 ھم 26 /اکتوبر 1933ء آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کی برآورد رقمی 27 لاکھ 13 ہزار روپے منظور کی۔ آصف سابع نے اسی تاریخ کے فرمان کے ذریعہ اقامت خانوں، باورچی خانوں اور ڈائننگ ہالوں کی تعمیرکے لئے نو لاکھ روپے منظور کئے۔
ابتدائی قیام جامعہ سے عثمانیہ کالج، انجینئرنگ کالج، ٹریننگ کالج، دارالترجمہ، دفتر مسجل (رجسٹرار آفس ) اور یونیورسٹی اسٹاف یونین کرائے کی 24 عمارتوں میں کام کر رہے تھے ان عمارتوں کے مالکان نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا کہ جب مدت قریب ختم ہوتی تو وہ کرایہ میں غیر معمولی اضافہ یا تخلیہ عمارت کانوٹس دے دیتے تھے جس سے ارباب جامعہ کو سخت وقت کا سامنا کرنا پڑ رہ تھا۔ بعض عمارتوں کی سالانہ مرمت ٹیکس اور صفائی کے اخراجات بھی متعلقہ کالج کی جانب سے ادا کئے جاتے تھے ان عمارتوں کے کرایے کی جملہ رقم اناسی ہزار دو سو ساٹھ روپے سالانہ تھی۔ ان تمام وقتوں کے باوجود انتظام تشفی بخش نہیں تھا کیونکہ عمارتیں علیحدہ علیحدہ مقامات پر واقع تھیں اور وہ اس مقصد کے لئے تعمیر نہیں ہوئی تھیں جس مقصد کے لئے استعمال میں لائی جا رہی تھیں۔ ان امور کے پیش نظر مجلس اعلی جامعہ عثمانیہ نے یہ تجویز پیش کی کہ جامعہ کیلئے مستقل عمارتوں کی تعمیر ہونے میں پانچ تا دس سال کی مدت درکار ہو گی اس لئے اڈیکمیٹ میں عارضی عمارتیں تعمیر کی جائیں اور کالجوں اور دفتروں کو اڈیکمیٹ میں منتقل کر دیا جائے۔ چونکہ اس وقت اڈیکمیٹ میں تمام سہولتیں مثلاً سڑک، پانی، بجلی وغیرہ بہم پہنچائیج اچکی ہیں اس لئے وہاں عارضی عمارتوں کی تعمیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔ تجویز میں یہ بھی کہا گیا کہ اس میں فائدہ یہ ہے کہ دس سال یعنی مستقل عمارتوں کی تعمیر مکمل ہونے تک جوکرایہ کا بار حکومت کو برداشت کرنا ہو گا، اس سے سبکدوشی حاصل ہو جائے گی اور مستقل عمارتوں کی تعمیر کے بعد اگر ان عارضی عمارتوں سے کام لینا مقصود ہو تو یہ کام میں لائی جا سکتی ہیں۔ یا ان کے انصرام کے بعد ان کامال مسالہ بحد 35 فیصد دوسری عمارتوں کے لئے کام میں لایاجا سکتا ہے۔ جامعہ عثمانیہ کی بلڈنگ کمیٹی نے اس بارے میں یہ قرار داد منظور کی کہ جوعمراتیں جامعہ عثمانیہ کے لئے کرایہ پر لی گئی ہیں انمیں سے بعض کی مدت قریب الختم ہے۔ لہذایہ نہایت ضروری ہے کہ آصف سابع کے ملاحظے میں یہ معروضہ پیش کیا جائے کہ جامعہ عثمانیہ کے موازانہ سے نولاکھ پچاس ہزار روپے عارضی عمارتوں کی تعمیر کیلئے منظور کئے جائیں۔ باب حکومت نے اس بارے میں یہ قرار داد منظور کی کہ جامعہ عثمانیہ کی بلڈنگ کمیٹی کی تحریک قابل منظوری ہے۔ ایک عرضداشت میں عارضی عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میں مذکورہ بالا تمام تفصیلات درج کر کے اسے آصف سابع کے احکام کے لئے پیش کیا گیا۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ 12 رمضان 1352ھم 30 دسمبر 1933ء صادر کرتے ہوئے عارضی عمارتوں کے تعمیر کے لئے نو لاکھ پچاس ہزار روپے کی منظوری دی اور حکم دیا کہ یکم جنوری 1934ء سے عمارتوں کی تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے۔
آصف سابع کی خدمت میں بذریعہ عرضداشت مورخہ 7ربیع الثانی 1953ھم 20 جون 1934ء یہ اطلاع دی گئی کہ ابتدائی مراحل کی تکمیل کے بعد آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کا کام 26 رمضان 1352ھم 13 جنوری 1934ء سے شروع کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح دیگر عرضداشتوں کے ذریعہ اقامت خانوں، باروچی خانوں، و ڈائننگ ہالوں اور عارضی عمارتوں کی تعمیر کے آغاز کر دینے کی بھی اطلاع دی گئی۔ آرٹس کالج اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کے آغاز کی اطلاع ملنے پر آصف سابع نے عثمانیہ یونیورسٹی کے سنگ بنیاد رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چنانچہ معتمد پیشی نے نیم سرکاری مورخہ 11 ربیع الاول 1353ھم 24 جون 1934ء کے ذریعہ معتمد باب حکومت کواطلاع دی کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کے بارے میں آصف سابع نے حسب ذیل حکم دیا ہے۔

عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کے لئے میں نے 19 ربیع الاول یوم دو شنبہ (شام کے ساڑھے پانچ بجے )مقرر کیا ہے (بعد خریطہ در بار بہ چومحلہ) اس کا انتظام کر لیا جائے۔
بعد ازان تاریخ اور وقت میں تبدیلی کے بعد یہ تقریب 22 ربیع الاول 1353ھم 5جولائی 1934ء روز پنجشنبہ ساڑھے چار بجے مقرر ہوئی۔
عارضی عمارتوں کی تعمیر کا کام 25 جمادی الثانی 1353ھم 5 اکتوبر 1934ء کو مکمل ہوا جس کی اطلاع آصف سابع کوبذریعہ عرضداشت دی گئی۔ عارضی عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میں مقام تعمیر کی صفائی اور زمین کی ہمواری کا کام 6/ جنوری 1934ء سے اور تعمیر کا کام 7 مارچ 1934ء سے شروع کیا گیا تھا۔ اس طرح ان عارضی عمارتوں کی تعمیر سات ماہ کے اندر مکمل کر لی گئی۔
ابتداء میں آرٹس کالج کی منظورہ بر آورد میں کارنس اورپیارا پٹ وال Cornice & Parapet Wall کی تعمیر کے لئے انتیس ہزار چھ سو بیس روپے کی گنجائش رکھی گئی تھی لیکن آرکٹیکٹ کی سفارش پر تجویز ہوئی کہ عمارت کی موزونیت کے لحاظ سے اسے مصفاسنگ سماق سے تعمیر کیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی کی سفارش اور باب حکومت کی قرار داد کو ایک عرضداشت میں درج کر کے اسے آصف سابع کے ملاحظے کے لئے پیش کیا گیا جنہوں نے فرمان مورخہ 21 محرم 1357ھم 24 مارچ 1938ء کے زریعہ اس کام کے لئے دو لاکھ اٹھاون ہزار دو سو سینتیس روپے منظور کئے۔ اسی طرح ارنسٹ جاسپر مشیر آریکٹکٹ نے یہ رائے دی کہJack Archآرٹس کالج کی عمارت کے باب الداخلے کی چھت کے لئے موزوں نہیں ہے۔ موزونیت کے مد نظر گنبدنماچھت تعمیر کی جانی چاہئے۔ اس تجویز کے سلسلے میں یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی اور باب حکومت کی سفارشات جب ایک عرضداشت میں درج کر کے آصف سابع کیخدمت میں پیش کی گئیں تو انہوں نے آرٹس کالج کی گنبد نماچھت کی تعمیر کے لئے سینسٹھ ہزار ایک سو روپے کی منظوری دی۔
آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کے لئے ابتدا میں ستائیس لاکھ تیرہ ہزار روپے کی منظوری دی گئی تھی۔ بعض نئے کام انجام دئے گئے جن کے لئے منظورہ برآورد میں گنجائش موجود نہیں تھی اس لئے مزید رقمی منظوریاں دی گئیں۔ آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر پر جملہ مصارف انتیس لاکھ ستانوے ہزار چھ سوچونتیس، روپے ہوئے اور آصف سابع نے یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی اورباب حکومت کی سفارشات پراپنے فرمان مورخہ 7 ذی الحجہ 1362ھم 5دسمبر 1943ء کے ذریعہ زائد مصارفکی منظوریدی۔

آرٹس کالج کی کی عمارت کی تعمیر مکمل ہونے پر عرضداشت مورخہ 6 شوال 1358ھ مطابق 18 نومبر 1939ء کے ذریعہ آصف سابع کی خدمت میں یہ اطلاع بہم پہنچائی گئی کہ ارٹس کالج کی تعمیر کا کام جو 26 رمضان 1352ھ م 13 جنوری 1934ء کو شروع ہوا تھا اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور آصف سابع سے جامعہ کی اس مرکزی عمارت کا افتتاح کرنے کی درخواست کی گئی۔ افتتاح کے انتظامات کے سلسلے میں منجملہ سفارشات کے یہ سفارش بھی پیش کی گئی کہ افتتاح کی تقریب 4 دسمبر 1939ء روز دو شنبہ 4 بجے دن منعقد کی جائے۔ ابتداء میں دفتر پیشی سے معتمد باب حکومت کو آصف سابع کایہ حکم روانہ کیا گیا کہ 4 دسمبر افتتاح کی تاریخ مناسب ہے مگر افتتاح ساڑھے دس بجے صبح اور ایٹ ہوم چار بجے سہ پہر رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ چونکہ افتتاح کی تقریب بڑے پیمانے پر منعقد کی جانے والی تھی اس لئے اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک دن میں دوبار بڑے پیمانے پر انتظامات کرنا وقت طلب تھا۔ خود آصف سابع کوایک ہی دن میں دو بار ان تقاریب میں شریک ہونا پڑتا تھا۔ اس لئے افتتاح اور ایٹ ہوم کا وقت 4 دسمبر 4 بجے سہ پہرمقرر کرنے کی اجازت حاصل کر لی گئی۔
آصف سابع آرٹس کالج کی کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر اڈریسوں کا جو جواب پڑھنے والے تھے اخبارات میں اس کی اشاعت کے بارے میں ان کاحسب ذیل حکم مورخہ 21 شوال 1358 ھم 3 دسمبر 1939ء معتمد باب حکومت کے نام وصول ہوا۔
افتتاح آرٹس کالج کے موقع پر کل جو جواب اڈریس میں پڑھوں گا اس کی نقل کونسل کی اطلاع کی غرض سے منسلک ہے۔ لہذا مناسب ہو گا کہ یوم سہ شنبہ آئندہ یہاں کے لوکل اخبارات میں طبع کرنے کی غرض سے یہ دے دیا جائے اور اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے زیر نگرانی مہدی یار جنگ ٹائمس آف انڈیا کو دیا جائے۔
آصف سابع نے مقر رہ پروگرام کے مطابق 4 دسمبر 1939ء کو آرٹس کالج کی عمارت کا افتتاح انجام دیا۔ اس موقع پر امیر جامعہ اور انجمن اتحاد طلبہ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے آصف سابع کی خدمت میں دو سپاس نامے پیش کئے گئے۔ ان سپاس ناموں کا جواب دیتے ہوئے آصف سابع نے آرٹس کالج کی عمارت کو ریاست حیدرآباد کی مختلف قوموں کے درمیان صدیوں پرانے باہمی میل جول، باہمی دوستانہ مراسم اور خوشگوار تعلقات کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا:
اس عمارت کی طرز تعمیر بھی اردو زبان کی طرح ہندو اور مسلمان قوموں کے طرز سے مرکب ہے اور اس کے ستونوں اور در و دیوار کے نقش و نگار میں دونوں قوموں کی کاریگری اور ان کے تمدن اور تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس طرح یہ عمارت بھی علامت ہے اس باہمی میل جول اور باہمی دوستانہ مراسم اورخوشگوار تعلقات کی جو صدیوں سے میری ریاست کی مختلف قوموں میں چلے آتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے باشندے ہمیشہ آپس میں شیر و شکر ہو کر رہے ہیں اور ایسے تعلقات کو قائم رکھنا میں اپنا اور اپنی رعیت نوازی کا فرض سمجھتا ہوں۔
آصف سابع نے اپنے جواب ایڈریس کو ختم کرتے ہوئے دعا کی خلاق علم و فضل رب العالمین اس جامعہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا کرے اور مدت مدید تک میرا ملک اس کے فیض سے بہرہ اندوز ہوتا رہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ:
قدرداں حیدرآباد
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1996
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

The background of construction of Buildings of Osmania University Campus. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں