نواب عماد الملک کا ترجمۂ قرآن مجید حیدرآباد دکن میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-09

نواب عماد الملک کا ترجمۂ قرآن مجید حیدرآباد دکن میں

Nawab Imad-ul-Mulk Syed Hussain Bilgrami Quran translation
نواب عماد الملک بہادر کی ہمہ پہلو شخصیت حیدرآباد کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے ۔ وہ ریاست حیدرآباد کی ایک عظیم شخصیت ہی نہیں تھے بلکہ تاریخ ساز شخصیت بھی تھے۔سالار جنگ اول کے طلب کرنے پر وہ 1873ء میں حیدرآباد آئے اور یہیں کے ہورہے ۔ سالار جنگ اول کے انتقال تک عماد الملک ان کے پرسنل اسسٹنٹ اور پرائیوٹ سکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس کے علاوہ نواب میر محبوب علی خان آصف سادس کے پرائیوٹ سکریٹری اور سالار جنگ سوم کے دور مدار المہامی میں ان کے مشیر بھی مقرر کئے گئے تھے۔ ریاست حیدرآباد میں عماد الملک کو اونچے عہدے مل سکتے تھے لیکن ان کی دلچسپی اور خواہش پر انہیں محکمہ تعلیمات میں رکھا گیا اور وہ عرصہ دراز تک دیگر خدمات کے علاوہ بلا کسی وقفے کے محکمہ تعلیمات کی متعمدی اور نظامت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ ریاست حیدرآباد میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز اور اس کی توسیع اور اشاعت ان ہی کی کوششوں کی رہین منت ہے۔ عماد الملک کو ان کی اعلیٰ قابلیت اور صلاحیتوں کے باعث انڈین لیجسلٹیو کونسل اور انڈیا کونسل کا ممبر بھی منتخب کیا گیا تھا ۔ عماد الملک ماہر نظم و نسق اور ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ ایک عالم، ادیب، محقق ، مترجم اور دانشور بھی تھے ۔ ان کے علمی ذوق، کتابوں سے محبت اور علم و ادب کی سرپرستی کے چرچے آج بھی سننے میں آتے ہیں۔ علم و ادب سے محبت اور لگاؤ کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہر اچھے علمی و ادبی کام کی تکمیل میں دلچسپی لیتے تھے خود مالی اعانت کرتے تھے اور سفارش کرکے دوسروں سے اور حکومت سے بھی مالی امداد دلواتے تھے ۔
نواب عمادالملک بہادر اپنی سرکاری ملازمت اور دیگر اہم ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باعث تصنیف و تالیف کے لئے زیادہ وقت نہ دے سکے ۔ تاہم
Memoirs of Sir Salar Jung.
Historical & Descriptive Sketch of H.H. The Nizam,s Dominion.
انگریزی مضامین، مقالات، خطبات اور نظموں کا مجموعہ، اردو مضامین، مقالات اور خطبات کا مجموعہ رسائل عمادالملک اور قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ۔۔ یہ تمام تصانیف ان کی یادگار ہیں۔ ان میں ان کاانگریزی ترجمہ قرآن مجید سب سے اہم اور قابل قدر کام سمجھاجاتا ہے جسے انہوں نے نہایت محققانہ اور عالمانہ کدو کاوش سے کیا تھا۔ اس مضمون میں آندھرا پردیش آرکائیوز کے ریکارڈز کے مواد کی بنیاد پر عماد الملک کے عظیم کارنامے ترجمہ قرآن مجید سے واقف کروانے کی کوشش کی جارہی ہے جو اب تک اپنی تمام تر تصنیفات کے ساتھ علمی دنیا کے علم میں نہیں ہے ۔
نواب عماد الملک کو قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کے کام سے غیر معمولی دلچسپی تھی ۔ انہوں نے 1910ء میں اس کام کا آغاز کیا اور تقریباً دو سال تک وہ یہ کام تنہا انجام دیتے رہے ۔ انہیں اس کام کو تیزی سے آگے بڑھانے میں دقت پیش آڑہی تھی کیونکہ اسن کام میں ان کا کوئی معاون و مددگار نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک مددگار کے لئے مالی امداد منظور کرنے ے لئے درخواست پیش کی۔ بعد ازان ایک اور درخواست کے ذریعہ انہوں نے بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے رقمی امداد جاری کرنے کی استدعا کی ۔ ان کی درخواست پر امداد کے لئے فوراً منظوری دی گئی۔ عماد الملک کی ان درخواستوں اور ان پر حکومت کی جانب سے کی گئی کارروائی کے خلاصے کے مطالعے سے نہ صرف عماد الملک کے ترجمے کی خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں بلکہ ان کی شخصیت کے چند اہم پہلو اور حکومت کی نظر میں ان کے بلند مقام کا بھی بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے ۔
عماد الملک نے اپنی درخواست مورخہ 22 فروری1912ء میں لکھا تھا کہ کوئی دو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے وہ کلام مجید کا انگریزی ترجمہ کررہے ہیں۔ اس عرصے میں یہ کام علالت،سفر اور دیگر اسباب کی وجہ سے ملتوی بھی رہا۔ جہاں تک وہ واقف ہیں قرآن مجید کے انگریزی زبان میں صرف تین ترجمے ہیں جن میں سے ایک ترجمہ بھی صحیح نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ان ترجموں میں محاورات وغیرہ کی بہت سی غلطیاں موجود ہیں۔ صرف راڈول کا ترجمہ ایک حد تک اس عیب سے پاک ہے ۔ انگریزی ترجموں کے علاوہ فرانسیسی میں ایکا ور جرمن زبان میں دو ترجمے ہیں۔ جرمن زبان کا ایک ترجمہ قرآن مجید کی اتباع میں مسجع عبارت میں کیا گیا ہے ۔ عماد الملک نے اپنے ترجمے کے بارے میں لکھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ترجمہ لفظ بہ لفظ ہو اور زبان بھی حتی الامکان شستہ اور آراستہ ہو ۔ ثقیل الفاظ نیز لاطینی و یونانی زبانوں کے الفاظ سے احتراز کیاجائے ۔ انہوں نے قرآن مجید کی چند سورتوں کا اپنا انگریزی ترجمہ انگلستان کے عربی زبان کے تین مشہور اساتذہ کو دکھایا تھا جنہوں نے ترجمے کو پڑھ کر بہت تعریف کی تھی اور یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ان کے ترجمے کو تمام سابق تراجم پر فوقیت حاصل رہے گی۔ عمادالملک نے اپنی درخواست میں بتایا کہ وہ اس وقت تک چھ سورتوں کا ترجمہ کر چکے ہیں اور اب ساتویں سورت کا ترجمہ کررہے ہیں لیکن اس کام میں جو دقت پیش آرہی ہے اس کے پیش نظر بعض اوقات ان کو مایوسی ہوتی ہے کہ وہ شاید اس کام کو پورا نہ کرسکیں۔ اس کام کی دقتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ عربی زبان کے لحاظ سے ان کو عربی لغات، تفاسیر قرآنی اور وہ کتابیں جو قرآن شریف کے معانی و مطالب پر روشنی ڈالتی ہیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ انہوں نے ایسی متعدد بیش قیمت کتابیں خریدی ہیں اور ابھی بعض کتابوں کی ضرورت ہے جنہیں وہ خرید لیں گے ۔ اس کے علاوہ انہیں انگریزی کے بڑے بڑے لغات، انجیل اور اس کی تعلیمات سے متعلق کتابیں بھی درکار ہیں۔ عمادالملک نے یہ لکھا کہ ان کو اس کام میں ایک مددگار کی ضرورت ہے جس میں انگریزی کتابوں سے استفادے کی لیاقت نہ بھی ہو تو نہ سہی لیکن اگر وہ ان کو عربی کتابیں دیکھنے کی محنت سے نجات دلائے تو ان کو بہت اطمینان ہوگا ۔ انہوں نے استدعا کی کہ آصف سابع ایک مددگار کے لئے دیڑھ سو تا دو سو روپے ماہور منظور فرمائیں ۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ وہ اپنیکام کے لئے کسی صلے یا معاوضے کے خواہاں نہیں ہیں اور نہ وہ کوئی ایسا اقرار نامہ لکھنے پر آمادہ ہیں جس سے ان کی آزادی میں خلل پڑے۔ انہیں اس کام سے عشق ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حتی الامکان سرعت اور مسرت کے ساتھ اس کام کو انجام دینے کی کوشش کریں گے اور انہیں توقع ہے کہ اگر ان کی صحت اور دیگر حالات اجازت دیں تو وہ اس کام کو اٹھارہ مہینوں یا زیادہ سے زیادہ دو سال میں مکمل کرلیں گے ۔ مسٹر گلانسی، صدر المہام(وزیر)فینانس نے عماد الملک کی درخواست پر یہ رائے دی کہ نواب عمادالملک بہادر کو عربی اور انگریزی کے عالم و ادیب کی حیثیت سے بڑی شہرت حاصل ہے اور اس لحاظ سے ان کا خیال ہے کہ یہ ترجمہ اس ریاست کی شہرت اور نیک نامی کا باعث ہوگا۔ لہذا انہیں یہ رائے دیتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ عمادالملک بہادر کو دو سال کے لئے ایک مددگار دیاجائے جس کی تنخواہ دیڑھ سو روپے تا دو سو روپے ماہانہ ہوگی ۔ مہاراجہ کشن پرشاد مدار المہام(صدر اعظم) نے صدرالمہام فینانس کی رائے سے اتفاق کیا۔ آصف سابع نے ان سفارشات کی روشنی میں فرمان مورخہ 7 مئی 1912ء کے ذریعہ حکم دیا کہ عماد الملک کو کلام مجید کے انگریزی ترجمے کے لئے ایک مددگار جس کی تنخواہ دیڑح سو دو سو روپے ماہانہ تک ہو دو سال کے لئے دیاجائے ۔ اس فرمان کے جاری ہونے پر محکمہ فینانس کی جانب سے صدر محاسب کے نام ضروری ہدایات جاری کردی گئیں۔ عمادالملک نے نظامت تعلیمات کو لکھا کہ فی الوقت انہیں صرف ایک سو پچیس روپے ماہانہ کی ضرورت ہے اور یہ رقم ہر ماہ صدر محاسبی سے طلب کر کے ان کے پاس روانہ کی جائے ۔ نظامت تعلیمات کی جانب سے اس سلسلے میں برآور دروانہ کرنے پر صدر محاسبی نے اسے اس اعتراض کے ساتھ واپس کردیا کہ برآورد نام کے ساتھ آنی چاہئے ۔ بغیر نام کے رقم جاری نہیں ہوسکتی۔ اس اعتراض کے ساتھ یہ ہدایت دی گئی کہ برآورد میں مددگارکا نام درج کرکے روانہ کیاجائے ۔ اس اعتراض کے بارے میں عماد الملک نے جواب دیا کہ آصف سابع نے اپنی عنایت سے جور قم قرآن مجید کے ترجمے کے لئے منظور کی ہے وہ محض مددگار کی تنخواہ میں صرف نہیں ہوگی بلکہ مددگار کی تنخواہ کے علاوہ کتابوں کی خریدی اور پروف کی طباعت وغیرہ میں بھی صرف ہوتی رہے گی کیونکہ انگریزی ترجمے کو نظر ثانی ، تصحیح و اصلاح کے لئے چھپوانا ضروری ہے ۔ اور اس میں قابل لحاظ رقم صرفہوتی ہے ۔ وہ ان اخراجات کو منظورہ امدادسے پورا کرنا چاہتے ہیںتاکہ کسی دوسرے سے مدد کی درخواست کرنے کی ضرورت نہ رہے ۔ اس کام میں اخراجات ایسے متفرق اور غیر معین ہیں کہ وہ ان اخراجات کا باقاعدہ حساب پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے امداد کے لئے جو درخواست دی تھی اس میں یہ لکھ دیا تھا کہ اگر امداد بلا شرط منظور نہ ہو تو اس کے قبول کرنے میں ان کو تامل ہوگا ۔ انہوں نے اس بات کی صراحت کی کہ وہ اس قدر ذمہ داری لے سکتے یہں کہ اس امداد میں سے ایک پیسہ بھی سوائے قرآن شریف کے ترجمے کے کسی اور کام میں صرف نہ ہوگا ۔ انہوں نے استدعا کی کہ مددگار کے نام و تفصیلی اخراجات کی پابندی کے بغیر اندرون منظور امداد جس قدر رقم وہ طلب کریں اس کی اجرائی کے لئے صدر محاسبی کو ہدایت دی جائے ۔ عماد الملک کی درخواست پر محکمہ فینانس سے صدر محاسبی کے نام ہدایت جاری کردی گئی مگر اس سلسلے میں آصف سابع سے صراحت کے ساتھ احکام حاصل کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ ساری کارروائی ان کے ملاحظے اور احکام کے لئے پیش ہوئی اور آصف سابع نے فرمان مورخہ 18اکتوبر 1912ء کے ذریعہ یہ احکام جاری کئے ، کہ ہر ماہ اندرون دو سو روپے جس قدر رقم عمادالملک بہادر طلب کریں وہ بلا کسی قیدوحساب کے ادا کردیں۔
حکیم عبدالقوی ایڈیٹر صدق جدید(لکھنو) کے مضمون نواب عمادالملک بہادر اور ان کا انگریزی ترجمہ قرآن ، مطبوعہ روزنامہ سیاست مورخہ 3جنوری 1988ء سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عمادالملک نے ترجمے کے کام کا کب آغاز کیا تھا اور اس کام میں انہیں کن حضرات کا تعاون حاصل تھا ۔ حکیم عبدالقوی لکھتے ہیں کہ 1910ء میں مولانا شبلی نعمانی نے قرآن مجید کے ایک مستند انگریزی ترجمے کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اس کام ک لئے نواب عمادالملک کو سب سے زیادہ اہل سمجھا گیا تھا۔ جب عمادالملک سے اس کام کو ہاتھ میں لینے کی استدعا کی گئی تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ وہ اس کام کا آغاز کرچکے ہیں اور روزانہ چار گھنٹے اس کام پر صرف کرتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کے مشورے پر عماد الملک نے اپنے ترجمے کے مسودے کے اجزاقسط وار مولانا شبلی نعمانی کے پاس بھیجنا شروع کئے تاکہ اس ترجمے کے بارے میں محققین اورعلماء کی رائے حاصل کی جاسکے ۔ ترجمے کے کام کے سلسلے میں عماد الملک اور شبلی نعمانی میں مراسلت کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس دوران شبلی نعمانی نے عماد الملک کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ترجمے کے مسودے شبلی نعمانی کے ایک قریبی عزیز مولانا حمید الدین فراہی کو دکھا کر ان کی رائے معلوم کرلیا کریں۔ مولانا فراہمی عربی کے جید عالم کے علاوہ گرائجویٹ بھی تھے اور اس کام کے لئے بے حد موزوں تھے۔ عماد الملک نے یہ مشورہ بخوشی قبول کرلیا۔
بد قسمتی سے نواب عمادالملک اپنی دیگر مصروفیات ،ع لالت اور ضعیف العمری کے باعث یہ اہم کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے ۔ عمادالملک کا انگریزی ترجمہ سورہ اول فاتحہ سے بیسویں سورہ طہ (پارہ 16) تک ہے۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد آئی۔ اے ۔ ایس(ریٹائرڈ) کے بیان کے مطابق محققین اور علماء سے صلاح و مشورے کی غرض سے بیس سورتوں کے اس انگریزی ترجمے کی سو، دیڑھ سو کاپیاں بطور پروف چھاپی گئی تھیں۔ اس کی ایک کاپی ڈاکٹر صاحب کے پاس محفوظ ہے۔ بعد ازاں یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔
اس ترجمے کی قدروقیمت اور وقعت کا اندازہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی رائے سے کیاجاسکتا ہے جو درج ذیل ہے ۔
عمادالملک کا اہم ترین کارنامہ جو تنہا ان کے بقاء و نام کے لئے کافی ہے وہ ان کا انگریزی ترجمہ قرآن مجید ہے۔ جن لوگوں نے انگریزی تراجم کو قرآن مجید سے مقابلہ کرکے پڑھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ سیل، راڈول، پامروغیرہ کے ترجمے کس قدر ناقص ہیں۔ مذہبی تعصبات و مخالفانہ در اندازیوں سے قطع نظر کر کے ان حضرات نے معمولی عبارتوں کے سمجھنے میں بھی ایسی شدید و فاحش غلطیاں کی ہیں کہ سارے مطالب قرآنی مسخ ہوکر رہ گئے ہں۔ اس بزرگ قوم کے ا س احسان سے قوم قیامت تک سبکدوش نہیں ہوسکتی کہ انہوں نے اس مقدس فرض کو بہترین صورت سے انجام دیا۔ ان کے ترجمے کا اعجاز یہ ہے کہ باوجود انتہائی احتیاط اور لفظی پابندیوں کے التزا م کے سلاست و روانی میں بھی کسی اہل زبان کے ترجمے سے کم نہیں ۔ اگرچہ اس کا سخت افسوس ہے کہ فاضل موصوف کی کبر سنی، ضعف صحت و اضمحلال قوی کی بنا پر اس کی توقع نہیں کی ترجمہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ تاہم اس کے جس قدر اجزاء تیار ہوچکے ہیں وہ منتہائے تحقیق و کاوش کا نمونہ ہیں اور اس پایے کے ہیں کہ انہیں کو نواب عمادلملک کے آیات کمال کا سرنامہ بنایاجائے ۔ در حقیقت اگر نواب صاحب کی ساری زندگی کا صرف یہی ایک کارنامہ ہوتا تو اس آفتاب کے سامنے دوسروں کے خدمات ماہ و انجم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔(تذکرہ مصنف از مولانا عبدالماجد دریا آبادی مشمولہ رسائل عمادالملک)
انتہائی حیرت کی بات ہے کہ یہ ترجمہ شائع نہیں ہوا ہے ، جب کہ قدرداں حیدرآباد کی قدردانی اور بر وقت اشتراک کی وجہ سے دوسرے اس قسم کے بہت سے کام منظر عام پر آچکے ہیں۔ نواب عمادالملک کا یہ گنج گراں مایہ کسی پوشیدہ خزانے کی طرح ہنوز پوشیدہ ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نواب عمادالملک کے اس عظیم کارنامے ، ترجمہ قرآن مجید کو نامکمل سہی شائع کیاجائے تاکہ ساری علمی دنیا اس کارنامے سے واقف ہوسکے۔


ماخوذ:
قدرداں حیدرآباد
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1996
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Nawab Imad-ul-Mulk Syed Hussain Bilgrami's Quran translation. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں