آصف سابع نواب میر عثمان علی خان - علم دوست حکمراں اور کتابیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-10

آصف سابع نواب میر عثمان علی خان - علم دوست حکمراں اور کتابیں

nizam-hyderabad-donations
آصف جاہی خاندان اور سابق ریاست حیدرآباد کے ساتویں اور آخری حکمران نواب میر عثمان علی خان آصف سابع (دور حکمرانی 1911ء تا 1948ء) کو علم و ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔اس گہرے لگاؤ نے علمی و ادبی کتابوں کی قدر دانی اور ان کی اشاعت کے لئے مالی اعانت اور سرپرستی کی شکل اختیار کرلی تھی ۔ علم دوست امراء ، روسا، مصنفین کی تصانیف اور مرتب کردہ کتابوں کی اشاعت اور اشاعت کے بعد خریدی کتب کے لئے فیاضی کے ساتھ مالی اعانت کیا کرتے تھے اور اب بھی اس زمرے سے تعلق رکھنے والے حضرات اس کام کے لئے پیچھے نہیں ہٹتے۔ لیکن نواب میر عثمان علی خان نے اس سلسلے میں اپنی اور اپنی حکومت کی ایک خاص پالیسی متعین کی تھی۔ وہ صرف کسی ادیب یا محقق کی بطور چاریٹی Charity یا حوصلہ افزائی کے لئے مدد کر دینے سے بڑھ کر علمی، تحقیقی اور ادبی تصانیف کی تیاری ، ترتیب اور طباعت کے پراجکٹوں کے لئے منصوبہ بند انداز میں بھاری رقومات ایصال کرتے تھے۔ اس پالیسی پر عمل آوری کانتیجہ یہ نکلتا تھا کہ تصنیف و تالیف اور طباعت و اشاعت کے کام باقاعدگی کے ساتھ منصوبہ بند میں انجام پاتے تھے ۔ اس قسم کے پراجکٹوں کے لئے نواب میر عثمان علی خاں نے جو مالی مدد کی تھی اس کے بغیر علم و ادب کے ان کارناموں کی انجام دہی ممکن نہ ہوتی۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ ریکارڈ اور دستاویزات سے حاصل کردہ مستند مواد تحقیق و توثیق کے بعد اس مضمون میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس مضمون میں چند لغات کی تالیف ، کتابوں کی تصنیف اور ان کی طباعت واشاعت کے سلسلے میں دی جانے والی امداد کا احاطہ کیا گیاہے ۔ان لغات اور کتابوں کے لئے برسوں تک بڑی رقومات دی گئی تھیں اور ان کاموں کو پراجکٹ کی حیثیت حاصل تھی۔

حیدرآبادکی مشہور درس گاہ نظام کالج کے ایرانی پروفیسر آقا محمد علی کو ایران جا کر فارسی لغت ترتیب دینے کے لئے تین سو روپے ماہوار مکمل یافت، دو سو روپے پرسنل الاؤنس اور اخراجات سفر کے ساتھ دو سال کی رخصت منظور کی گئی تھی ۔ دو سالہ رخصت کی مدت ختم ہونے پر پروفیسر آقا محمد علی نے مزید ایک سال کے لیے رخصت منظور کرنے کے لئے درخواست بھیجی۔ نواب میر عثمان علی خاں نے اپنے فرمان مورخہ 25؍جنوری 1923ء کے ذریعہ نصف تنخواہ کے ساتھ ایک سال کی رخصت منظور کی ۔ پروفیسر آقا محمد علی رخصت ختم ہونے پر حیدرآباد کو واپس ہوئے اور نظام کالج میں اپنی خدمت پر رجوع ہوئے ۔ ان کی درخواست پر لغت کی ترتیب کے کام میں مدد دینے کی غرض سے بذریعہ فرمان 16 اگست 1928ء چھ سال کی مدت کے لئے دو سو پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک مددگار اور چالیس روپے ماہوار پر ایک اہلکار کی منظوری دی گئی اس کے علاوہ انہیں ایک چپراسی بھی فراہم کیا گیا اور صادر کے لئے رقمی منظوری بھی دی گئی۔
جب پروفیسر آقا محمد علی مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل نہ کر سکے تو اس کام کی تکمیل کے لئے توسیع منظور کی گئی۔ جب لغت مکمل ہو گیا تو باب حکومت (کابینہ) کی سفارش پر نواب میر عثمان علی خان نے اپنے فرمان مورخہ 5؍اگست 1941ء کے ذریعہ پروفیسر آقا محمد علی کے لئے ساڑھے سات ہزار روپے بطور انعام منظور کئے ۔ یہ لغت بعد میں حکومت حیدرآباد کی جانب سے فرہنگ نظام کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا۔ (اس فرہنگ کی تیاری اور اشاعت کے بارے میں ایک علاحدہ مضمون اس کتاب میں شامل ہے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو لغاب میں پائے جانے والے نقائص سے پاک ایک معیاری اور مستند اردو لغت کی ترتیب و اشاعت کی اسکیم تیار کر کے مالی امداد کی فراہمی کے لئے درخواست کی جس میں انہوں نے استدعا کی کہ اردو کے ایک جامع لغت کی ترتیب کے لئے انہیں ایک ہزار روپے ماہانہ دس سال کی مدت تک دیئے جائیں ۔ اس درخواست پر محکمہ تعلیمات، محکمہ فینانس اور باب حکومت نے اردو کے ایک جامع لغت کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق کو اس کام کے لئے ہر پہلو سے موزوں قرار دیا اور چند شرائط کے ساتھ مالی امداد جاری کرنے کی سفارش کی۔ نواب میر عثمان علی خاں نے فرمان مورخہ 4؍اگست 1930ء کے ذریعہ مولوی عبدالحق کو دس سال تک ایک ہزار روپے ماہانہ امداد دینے کے احکام صادر کئے۔ اردو لغت کی تیاری کے لئے یہ امداد دس سال تک جاری رہی۔ اس کے بعد مولوی عبدالحق کی درخواست پر اس لغت کی طباعت کی غرض سے مونو ٹائپ مشین کی خریدی کے احکام دئیے گئے اور پروف ریڈنگ کے لئے مولوی احتشام الدین کا دو سو پچاس روپے کلدار ماہوار پر ایک سال کی مدت کے لئے تقرر عمل میں آیا۔ اتنے مصارف کے باوجود اردو لغت شائع نہ ہوسکا کیونکہ لغت کا مسودہ حکومت حیدرآباد کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔

فارسی لغت آصف اللغات کی 17جلدیں شمس العلماء ،عزیز جنگ ولا کا ایک نہایت اہم تحقیقی کام ہے ۔ عزیز جنگ ولا کی درخواست پر آصف جاہی خاندان کے چھٹے حکمران نواب میر عثمان علی خان کے والد نواب میر محبوب علی خان (دور حکمرانی 1884ء تا 1911ء) نے آصف اللغات کی ہر جلد کے شائع ہونے پر پانچ سو روپے بطور انعام منظور کئے تے۔ بعد ازاں عزیز جنگ نے نواب میر عثمان علی خان کے حکمران بننے کے بعد ان کی خدمت میں ایک درخواست یش کی جس میں انہوں نے لکھا کہ آصف اللغات کی ہر جلد کی طباعت کے حقیقی مصارف ایک ہزار چار سو ساٹھ روپے ہیں۔ جو امداد انہیں حکومت ہند اور حکومت حیدرآباد سے مل رہی ہے اس کی مجموعی رقم ایک ہزار ایک سو اسی روپے ہے اور یہ رقم اصل مصارف سے دو سو اسی روپے کم ہے ۔ یہ رقم وہ اپنی جیب سے ادا کررہے ہیں ۔ لغت کی فروخت سے بھی ان کے نقصان کی پابجائی ممکن نہیں ہے کیونکہ لغت کے تمام نسخے وہ حکومت، کتب خانوں اور علم دوست حضرات کو بطور نذرانہ پیش کردیتے ہیں اس درخواست پر نواب میر عثمان علی خان نے فرمان مورخہ 6؍جنوری 19ء کے ذریعہ حکم دیا کہ آصف اللغات کی ہر جلد پر جو پانچ سو روپے انعام دیا گیا اور آئندہ دیاجائے گا اس میں دو سو اسی روپے فی جلد اضافہ کیاجائے ۔

فرہنگ آصفیہ نہ صرف نہایت مستند اردو لغت ہے بلکہ یہ ایک نہایت اعلیٰ علمی و تحقیقی کارنامہ بھی ہے فرہنگ آصفیہ کی اشاعت اور خریدی کے لئے آصف جاہی خاندان کے چھٹے حکمران نواب میر محبوب علی خان کے عہد میں حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے مالی امداد جاری ہوئی تھی علاوہ ازیں اس کے مولف سید احمد دہلوی کے نام پچاس روپے ماہوار وظیفہ بھی جاری ہوا تھا۔ نواب میر عثمان علی خان کے ابتدائی عہد حکومت میں سید احمد دہلوی نے ایک معروضہ پیش کیا کہ ان کا وظیفہ ان کے بیٹے کے نام منتقل کردیاجائے ۔ نواب میر عثمان علی خان نے نہ صرف استدعا قبول کرتے ہوئے سید احمد دہلوی کا وظیفہ ان کے بیٹے کے نام منتقل کیا بلکہ سید احمد دہلوی کے لئے دوبارہ بطور خاص پچاس روپے ماہوار تا حیات منظور کئے ۔ یہ احکام فرمان مورخہ 23؍فبروری 1915ء کے ذریعہ صادر ہوئے ۔ سید احمد دہلوی کو دوبارہ وظیفہ جاری ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد دہلی کی ممتاز علمی و ادبی شخصیتوں نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک محضر روانہ کیا جس میں فرہنگ آصفیہ کی اس کے مولف سید احمد صاحب سے نظر ثانی کرواکے اسے دوبارہ چھاپنے کے لئے مالی امداد دینے کی استدعا کی گئی اس کے علاوہ فرہنگ کا ایک خلاصہ اور لغات النساء علاحدہ چھپوانے کے لئے بھی مالی اعانت کی درخواست کی گئی ۔ اس درخواست پر میر عثمان علی خان نے فرمان مورخہ 20؍سپٹمبر 1916ء کے ذریعہ فرہنگ آصفیہ کی طبع ثانی اور اس کی خریدی کے لئے دس ہزار روپے کی منظوری اورخلاصہ فرہنگ کے پانچ سو نسخوں اور لغات النساء کے دو سو پچاس نسخوں کی خریدی کے احکام صادر کئے ۔

اردو کے ممتاز ناول نویس اور صاحب طرز انشا پرداز عبدالحلیم شرر کو نواب میر عثمان علی خان نے اپنی سوانح عمری لکھوانے کے لئے منتخب کیا تھا اور اس کام کے لئے ان کا تقرر سابق میں منظور کئے گئے ایک سو روپے ماہانہ وظیفہ کے علاوہ چار سو روپے ماہوار پر کیا گیا تھا ۔ شرر حیدرآباد آکر اس کام کا آغاز کرچکے تھے کہ نواب میر عثمان علی خان نے ارادہ تبدیل کردیا اور انہوں نے عبدالحلیم شرر سے اپنی سوانح عمری لکھوانے کی بجائے تاریخ اسلام لکھوانے کا ارادہ کیا۔ 27 ؍اگست 1918ء کو نواب میر عثمان علی خان کے یہ احکام صادر ہوئے کہ چار سو روپے ماہوار کی بجائے پانچ سو روپے ماہوار پر تاریخ اسلام تصنیف کرنے کے لئے عبدالحلیم شرر کا تقرر عمل میں آیا ہے وہ اپنے وطن میں رہ کر اس کام کو انجام دیں۔ عبدالحلیم شرر نے مقررہ مدت میں اس کام کا صرف پہلا حصہ مکمل کیا۔ مقررہ مدت میں کام مکمل نہ ہونے پر شرر کی درخواست پر اس کام کے لئے ایک سال کی توسیع دی گئی۔ توسیع شدہ مدت کے ختم ہونے پر عبدالحلیم شرر نے مزید توسیع منظور کرنے کے لئے درخواست دی لیکن ان کی درخواست نا منظور ہوئی اور منظورہ ماہوار رقم موقوف کردی گئی ۔ شرر کو تاریخ اسلام کے دوسرے حصے کو مکمل کرنے میں مزید ایک سال دو ماہ لگے اور انہوں نے اس تکمیل شدہ کام کو ایک درخواست کے ساتھ روانہ کیا جس پر نواب میر عثمان علی خان نے 7؍اکتوبر 1922ء کو یہ احکام جاری کئے کہ عبدالحلیم شرر تین سال کے بعد بلا ماہوار کام کررہے تھے ۔ تاریخ مسدودی ماہوار سے کام مکمل کرنے کی تاریخ تک جو مدت ہوتی ہے اس مدت کے لئے انہیں سابقہ شرح ماہوار کے حساب سے یکمشت رقم ادا کردی جائے ۔ اس حکم کی تعمیل میں شرر کو ایک سال دوماہ کا معاوضہ ایصال کردیا گیا ۔ اس طرح عبدالحلیم شرر نے تاریخ اسلام کی دو جلدیں چار سال دو ماہ میں تصنیف کیں جس کا معاوضہ انہیں پچیس ہزار روپے ادا کیا گیا۔

علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی معرکۃ الآراء تصنیف سیرۃ النبی چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ شبلی نے سیرۃ النبی کے سلسلے میں جو کام کیا تھا اسے ترتیب دے کر ان کے عزیز شاگرد مولانا سلیمان ندوی نے جلد اول اور جلد دوم کی صورت میں شائع کیا اور سیرۃ النبی کی اگلی جلدیں خود تصنیف کیں۔ نواب میر عثمان علی خان نے مولانا سلیمان ندوی کی درخواست پر سیرۃ النبی کی تکمیل کے لئے فرمان مورخہ 9فروری 1919ء کے ذریعہ پہلی بار دو سو روپے کلدار ماہوار امداد منظور کی تھی جو بیس سال کے دوران میں چند درمیانی وقفوں کے ساتھ چودہ سال تک دی گئی ۔ سابق ریاست حیدرآباد کی جانب سے کسی اور تصنیف کو اتنے طویل عرصے تک مالی امداد نہیں دی گئی ۔1920ء کے قریب دارالمصنفین میں انگریزوں کے خلاف سیاسی سر گرمیاں زوروں پر تھیں اس لئے حکومت ہند کی خواہش پر رزیڈنٹ حیدرآباد سے سیرۃ النبی کو دی جانے والی امداد کو مسدود کرنے کے لئے حکومت حیدرآباد کو دو مراسلے لکھے لیکن نواب میر عثمان علی خان نے مجبوری ظاہر کی اور امداد کو مسدود کرنے سے اتفاق نہیں کیا۔ عثمان علی خان کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مولانا سید سلیمان ندوی کس محنت، دقت نظر اور عالمانہ انداز میں سیرۃ النبی کی تصنیف کررہے تھے۔ نواب میر عثمان علی خان مولانا کے علمی مرتبے سے تو واقف تھے لیکن جب انہوں نے مولانا کو باریاب ہونے کا موقع دیاتو انہیں مولانا کی ذاتی خوبیوں کا بھی اندازہ ہو ا۔ چنانچہ انہوں نے مولانا سلیمان ندوی کو معاشی آسودگی فراہم کرنے کی غرض سے 5؍جولائی 1938ء کے فرمان کے ذریعہ مولانا کی ذات کے لئے ایک سو روپے ماہوار جاری کرنے کے احکام صادر کئے۔

حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کی دو جلدیں شائع ہونے کے بعد مالی مشکلات کے باعث تیسری جلد کی تکمیل اور اشاعت میں رکاوٹ اور تاخیر ہورہی تھی ۔اس مرحلے پر خود حفیظ جالندھری مالی اعانت حاصل کرنے کے لئے حیدرآباد آئے تھے ۔شاہنامہ اسلام کی تکمیل کی غرض سے مالی امداد دینے کے لئے جب عرضداشت نواب میر عثمان علی خان کے ملاحظے میں پیش ہوئی تو انہوں نے مالی امداد کی منظوری دینے کی بجائے یہ حکم دیا، شاہنامہ اسلام جویہ تصنیف کررہے ہیں اسکے چند اوراق میں دیکھناچاہتاہوں تاکہ معلوم ہو کس قسم کا کامہے ۔ اس کے ملاحظے کے بعداجرائی ماہورا کے متعلق غور ہوگا ۔ اس حکم کی تعمیل میں شاہنامہ اسلام کی دو جلدیں ان کے ملاحظہ میں پیش کی گئیں جنہیں دیکھ کر انہوںنے فرمان مورخہ 15؍جولائی 1937ء کے ذریعہ حفیظ جالندھری کے نام شاہنامہ اسلام کی تصنیف کے لئے تین سو روپے کلدارماہانہ تین سال کے لئے جاری کرنے کے احکام صادر کئے ۔ جب امداد کی سہ سالہ مدت ختم ہوئی تو امداد کی مدت میں توسیع کے لئے حفیظ جالندھری نے درخواست پیش کی جس پر نواب میر عثمان علی خاننے بذریعہ فرمان مورخہ 15؍ دسمبر 1940ء شاہنامہ اسلام کی تکمیل کے لئے تین سو روپے کلدار ماہوارمزید تین سال کے لئے منظور کئے ۔ اس طرح شاہنامہ اسلام کی تیسری اور چوتھی جلد کی تکمیل اور اشاعت سابق ریاست حیدرآبات کی سر پرستی ہی کانتیجہ تھی۔

پونا کابھنڈارکر اورینٹیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سنسکرت زبان و ادباور ہندوستان کی قدیم ثقافت پر تحقیقی کاموں کے لئے مختص رہاہے ۔اس انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے ایک درخواست کے ذریعہ انسٹی ٹیوٹ کے مختلف کاموں کے علاوہ مہا بھارت کی اشاعت کے لئے رقمی امداد منظور کرنے کی استدعا کی ۔اس درخواست پر نواب میر عثمان علی خان نے فرمان مورخہ 16؍ستمبر 1932ء کے ذریعہ مہا بھارت کی اشاعت کے لئے دس سال کے لئے ایک ہزار روپے کلدار ماہانہ امداددینے کے احکام دئیے ۔ جب یہ دس سالہ مدت ختم ہونے کو تھی تو بھنڈار کر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے اس کام کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے امداد کی مدت میں توسیع کرنے کی درخواست کی ۔ اس درخواست پر مہا بھارت کی اشاعت کی غرض سے مزید ایک سال کے لئے پانچ ہزار روپے کلدار ماہانہ امداد منظورکی گئی۔

اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس قسم کے مزید چند پراجکٹوں کو ریاست حیدرآباد کی حکومت اور نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی مدد ، اعانت اور سر پرستی حاصل ہوئی ہو ۔ اس تعلق سے ریکارڈ دستیاب ہونے پر حاصل تحقیق کسی اورمضمون میں پیش کیا جائے گا۔


ماخوذ:
قدرداں حیدرآباد
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1996
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Nizam VII, Mir Osman Ali Khan, a ruler to promote knowledge and wisdom. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں