اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن یونیورسٹی - سابق ریاست حیدرآباد کی امداد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-19

اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن یونیورسٹی - سابق ریاست حیدرآباد کی امداد

hyderabad-state-donation-soas-london

ریاست حیدرآباد کے چشمہ فیض سے ریاست اور بیرون ریاست برصغیر کے دوسرے علاقے ہی نہیں بلکہ سمندر پار بیرونی ملکوں کے علاقے بھی سیراب ہوتے تھے۔
ریاست حیدرآباد کے آخری حکمراں آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کی سرپرستی، امداد اور اعانت کے ذریعہ انگلستان (برطانیہ)، بیت المقدس اور عرب ملکوں کے اداروں کی آبیاری بھی ہوئی ہے۔ جن بیرونی ملکوں کے علمی اداروں، درس گاہوں کتب خانوں اور دیگر فلاحی اداروں کو رقمی امداد دی گئی تھی ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ مختصر مضمون انگلستان کے ایک نامور تعلیمی ادارے "اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز، لندن یونیورسٹی" کو دی گئی مالی امداد کے بارے میں قلمبند کیا گیا ہے جو آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز لینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ریکاڈ کے مواد پر مبنی ہے۔

اس اسکول کو ابتداء میں تین سال تک پانچ سو پونڈ سالانہ امداد منظور کی گئی تھی۔ امداد کی توسیع کی درخواست پر ڈھائی سو پونڈ سالانہ امداد مزید تین سال کے لئے جاری کی گئی تھی۔ اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کو چھ سال کی مدت (1928 ء تا 1934ء) تک مالی امداد جاری رکھنے کے بعد اس خیال کے پیش نظر کہ اس ادارہ کو کافی امداد دی جا چکی ہے، امداد کو مسدود کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس اسکول میں اردو ریڈر شپ یا اردو چیر (Urdu Chair) کے قیام کے لئے مالی امداد کو بحال کرنے کی درخواست پر، تین سال بعد یہ مالی امداد پھر جاری کر دی گئی۔
امداد کی کارروائی کا خلاصہ ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز (مدرسہ السنہ مشرقیہ) کی جانب سے مالی امداد منظور کئے جانے کے لئے آصف سابع کی خدمت میں ایک درخواست روانہ کی گئی، جسے آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 12/ ربیع الثانی 1346ھ، 9/اکتوبر 1927ء واپس کرتے ہوئے اس بارے میں باب حکومت (کابینہ) کی رائے طلب کی۔ باب حکومت نے اپنے اجلاس میں غور و خوض کے بعد یہ قرارداد منظور کی کہ اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کو سردست تین سال کے لئے پانچ سو پونڈ سالانہ امداد مناسب ہے۔ جب اس بارے میں ایک عرضداشت مورخہ 4/اگست 1928ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی تو آصف سابع نے اپنے فرمان مورخۃ 16/اگست 1928ء کے ذریعہ اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کے لیے پانچ سو پونڈ سالانہ تین سال کے لئے منظور کئے۔

مذکورہ بالا فرمان کی تعمیل میں مدرسہ مذکور کو پانچ سو پونڈ روانہ کئے گئے جس پر ڈائرکٹر اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز لندن یونیورسٹی نے ایک مراسلہ مورخہ 18/ ستمبر 1928ء صدر المہام فینانس کے نام روانہ کیا۔ جس میں امداد کی منظوری پر آصف سابع کی خدمت میں اپنا عقیدت مندانہ شکریہ ادا کرنے کی درخواست کی۔ بعد ازاں مدرسہ مزکورہ کے ڈائرکٹر نے اپنے دوسرے مراسلے مورخہ 25/اکتوبر 1928ء موسومہ صدر المہام فینانس کے ذریعہ اطلاع دی کہ اس گراں قدر عطیہ کی منظوری کی اطلاع مدرسہ مذکور کی مجلس انتظامی کو دی گئی تھی جس پر مجلس مذکور نے شکریہ کا رزولیوشن منظور کیا تھا۔ اس رزولیوشن کی نقل اپنے مراسلے میں نقل کرتے ہوئے ڈائرکٹر نے استدعا کی کہ اسے آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ شکریے کے دونوں مراسلے علیحدہ علیحدہ عرضداشتوں کے ذریعہ آصف سابع کے ملاحظے میں پیش کئے گئے۔

جب منظورہ عطیے کی مدت ختم ہونے کے قریب تھی تو سر ہارکورٹ ہٹلر نے ایک مراسلہ مورخہ 29/جولائی 1931ء روانہ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ اسکول کی مجلس انتظامی کے صدر کی حیثیت سے ان کی یہ درخواست ہے کہ آصف سابع نے اس مدرسہ کے لئے جو فیاضانہ عطیہ منظور کیا تھا وہ بدستور جاری رہے کیونکہ آصف سابع نے اپنی دریا دلی سے اس مدرسہ کے لیے جو پانچ سو پونڈ سالانہ کی امداد تین سال کے لئے منظور کی تھی اس کی مدت قریب الختم ہے۔ مدرسہ کی کارکردگی کے بارے میں ڈائرکٹر نے اطلاع دی کہ مدرسہ کا کام عمدہ طور پر چل رہا ہے۔ سال گزشتہ 550 طلبہ اس اسکول میں شریک تھے جن میں 87 طلبہ نے عربی، 40 طلبہ نے فارسی اور 44 طلبہ نے اردو کی تعلیم بحیثیت مضمون حاصل کی۔ اس کے علاوہ اسلامی علم و ادب پر بھی خاص لکچروں کا اہتمام کیا گیا تھا نیز تحقیقی کام بھی بہت ہوا ہے۔ اپنے مراسلے کے آخر میں انہوں نے لکھا کہ انہیں معلوم ہے کہ آصف سابع کے عمومی فیضان سے بہت سے ادارے استفادے کے متمنی رہتے ہیں تاہم وہ امید کرتے ہیں کہ اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز پر آصف سابع توجہ مبذول فرمائیں گے جن کی جانب سے ریاست حیدرآباد اور بیرون ریاست کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بہت سرپرستی کی گئی ہے۔

سر ہارکورٹ بٹلر کے مندرجہ بالا مراسلے پر ناظم تعلیمات نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ مدرسہ مذکور کے حالات اور ترقی کے پیش نظر موجودہ امداد میں تین سال کی توسیع منظور کی جا سکتی ہے۔ معتمد تعلیمات نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ صدر المہام فینانس نے لکھا کہ سر ہارکورٹ بٹلر کے مراسلے کے پیش نظر پانچ سو پونڈ سالانہ کی امداد مزید تین سال تک جاری رکھنے سے سررشتہ فینانس کو اختلاف نہیں ہے۔ صدر المہام تعلیمات نے تحریر کیا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ اسکول کی کر کردگی اطمینان بخش ہے اس لئے انہیں مقررہ امداد مزید تین سال تک جاری رکھنے سے اتفاق ہے۔ جب یہ کارروائی باب حکومت کے اجلاس منعقدہ یکم اگست 1932ء میں پیش ہوئی تو اس اجلاس میں اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز لندن کو پانچ سو پونڈ سالانہ کی بجائے ڈھائی سو پونڈ سالانہ امداد آئندہ تین سال کے لئے جاری رکھنے کے بارے میں قرار داد منظور ہوئی، مہاراجہ سرکشن پرشاد صدر اعظم نے ایک عرضداشت مورخہ 24/اگست 1932ء میں، سر ہارکورٹ بٹلر کے مراسلے کا خلاصہ اس پر پیش کردہ سفارشات اور باب حکومت کی قرار داد درج کر کے اسے آصف سابع کے احکام کے لئے پیش کیا۔ آصف سابع نے باب حکومت کی قرار داد کو منظوری دی اور اس بارے میں آصف سابع کا یہ فرمان مورخہ 6/ستمبر 1932ء صادر ہوا۔ کونسل کی رائے مناسب ہے۔ حسب مذکور مدرسہ کو مزید تین سال تک پانچ سو پونڈ کے بجائے ڈھائی سو پونڈ سالانہ کی امداد دی جائے۔

اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کو چھ سال تک امداد جاری رہی، اس کے بعد سر ہارکورٹ بٹلر نے پھر اپنا ایک معروضہ آصف سابع کی خدمت میں روانہ کیا جس کے ساتھ ایک مطبوعہ اپیل appeal بھی منسلک تھی۔ اپنے معروضے میں سر ہارکورٹ بٹلر نے لکھا کہ انہیں آصف سابع کو مزید عطیہ کے لئے زحمت دیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا احساس ہو رہا ہے لیکن وہ یہ بات آصف سابع کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ انگلستان میں السنہ مشرقیہ کی ترقی کا یہ بہت اچھا موقع ہے۔ چونکہ آصف سابع نے ہندوستان میں اشاعت علم کے لئے غیر معمولی سرپرستی کی ہے اور حیدرآباد میں قیام جامعہ عثمانیہ سے ایک عدیم المثال نظیر قائم کی ہے، اس لئے ان کو توقع ہے کہ ان کی پیش کردہ اپیل پر مناسب غور کیا جائے گا۔
اپیل میں یہ بتایا گیا تھا کہ مدرسہ کے لئے ایک عمارت دوسرے مقام پر تعمیر کی جانے والی ہے جس کے لئے مجموعی طور پر دو لاکھ پچاس ہزار پونڈ کا صرفہ عائد ہونے کا اندازہ ہے۔ موجودہ عمارت اور اراضی کی فروخت سے ایک لاکھ پچاس ہزار پونڈ وصول ہونے کی توقع ہے۔ بقیہ رقم ایک لاکھ پونڈ چندے کے ذریعہ وصول کی جا رہی ہے۔
سر رشتہ تعلیمات نے اس بارے میں اس رائے کا اظہار کیا کہ سر ہارکورٹ بٹلر کو اخلاقاً نفی میں جواب دینا مناسب ہے۔ سر رشتہ فینانس نے لکھا کہ اس اسکول کو کم و بیش پینتیس ہزار روپے سکہ عثمانیہ کی امداد جا چکی ہے جو کافی و معقول خیال کی جا سکتی ہے مزید امداد کا دیا جانا باب حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے۔ باب حکومت کے اجلاس میں بھی امداد دئے جانے کے بارے میں کوئی قرار داد منظور نہیں ہوئی اور یہ رائے ظاہر کی گئی کہ مدرسہ ہذا کی کافی امداد ہو چکی ہے۔ جب اس کارروائی کی تمام تفصیلات بذریعہ عرضداشت مورخہ 4/دسمبر 1934ء آصف سابع کی خدمت میں پیش ہوئی تو انہوں نے اپنے فرمان مورخہ 15/اپریل 1935ء کے ذریعہ حکم دیا کہ اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کو کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ قبل ازیں کافی رقم دی جا چکی ہے۔
اس حکم کی تعمیل میں امداد مسدود کر دی گئی لیکن کچھ عرصہ بعد سر ڈینسین راس، ڈائریکٹر اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز کی یادداشت مورخہ 18/نومبر 1936ء وصول ہوئی جس میں اطلاع دی گئی کہ مدرسہ مذکور کے شعبہ اردو کے لئے ریڈر شب کے قیام کی تجویز ہے جسے دی نظامس ریڈر شب ان اردو [The Nizam's Readership in Urdu] کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے استدعا کی گئی کہ اس کے لئے مالی امداد منظور کی جائے اور اگر اس درخواست کو منظوری حاصل نہ ہو سکے تو سابق میں چھ سال تک جو امداد فیاضانہ طور پر دی گئی تھی اس کو بحال کیا جائے۔
اس یادداشت کے بارے میں صدر المہام تعلیمات نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ان کے خیال میں اسکول آف اورنٹیل اسٹیڈیز لندن یونیورسٹی میں اردو ریڈر شب کے قیام میں مدد دینا مناسب ہوگا کیونکہ اردو زبان کی سرپرستی کرنا اس ریاست کی مستقل پالیسی ہے۔ انہوں نے مدرسہ مذکور کی امداد کو اردو ریڈر شب کے لئے از سر نو تازہ کرنے کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے دریافت کیا کہ سر رشتہ فینانس کو کس قدر امداد منظور کرنے سے اتفاق ہے؟ اور آیا یہ امداد درس گاہ مذکور کے شعبہ عربی کے لئے عطا کی جائے یا شعبہ اردو کے لئے؟
سر رشتہ فینانس نے اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ سابقہ امداد کے بحال رکھے جانے سے سر رشتہ ہذا کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ امداد آیا شعبہ اردو کے لئے ہو یا شعبہ عربی کے لئے اس کی نسبت باب حکومت سے جو تصفیہ کیا جائے گا اس سے سر رشتہ فینانس اتفاق کرے گا۔ جب یہ کارروائی باب حکومت کے اجلاس منعقدہ 5/اگست 1937ء میں پیش ہوئی تو اس میں یہ قرار داد منظور کی گئی کہ ڈھائی سو پونڈ سالانہ کی امداد اردو چیئر (Chair) کے لئے مرحمت کی جا سکتی ہے۔
سر اکبر حیدری صدر اعظم نے عرضداشت مورخہ 24/اگست 1937ء میں سر ڈینیسن راس کی یادداشت کا خلاصہ، اس پر صدر المہام تعلیمات و سر رشتہ فینانس کی رائے اور باب حکومت کی منظورہ قرار داد درج کر کے اسے آصف سابع کے ملاحظے اور احکام کے لئے پیش کیا۔ آصف سابع نے باب حکومت کی قرار داد منظور کرتے ہوئے حسب ذیل فرمان مورخہ 16/ستمبر1937ء صادر کیا:

کونسل کی رائے کے مطابق مدرسہ مذکورہ میں اردو ریڈر شب بنام (The Nizam's Readership in Urdu) قائم کرنے کے غرض سے ڈھائی سو پونڈ سالانہ ہماری گورنمنٹ کی طرف سے منظور کئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ:
قدرداں حیدرآباد
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1996
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Hyderabad State donation to School of Oriental Studies London University. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں