اقبال اور قادیانیت - مضمون از تاراچرن رستوگی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-14

اقبال اور قادیانیت - مضمون از تاراچرن رستوگی

allama-iqbal-and-qadianiat-by-taracharan-rastogi

یہ موضوع خاصا متنازعہ فقط اس لئے سمجھا جا رہا ہے کہ جناب اعجاز احمد نے جو اقبال کے بڑے بھائی کے فرزند رشید ہیں اپنی تصنیف "مظلوم اقبال" میں ایسے شواہد پیش کئے ہیں کہ بہتیرے مذہب زدگان جوابات بالصواب نہیں دے سکے۔ میرے پیش نظر مظلوم اقبال نہیں ہے ، حیدرآباد سمینار کے دوران (اپریل 1986ء) کتاب ہذا کی صرف ورق گردانی ہی کر سکا۔ لہذا میرے دماغ میں فقط ایک دھندلا دھندلا خاکہ ہی رہ گیا ہے۔ مزید برآں ایک کتاب اور اس موضوع سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ وہ کتاب ہے "خد و خال اقبال" جس کو امین زبیری نے 1955ء-1962ء میں سپرد قلم کیا تھا۔ حسن اتفاق کہئے یا سوء اتفاق کتاب ہذا کا مسودہ مجھے دہلی میں دیکھنے کو مل گیا تھا۔ "خد و خال اقبال" کو ناشر کی تلاش تھی۔ امین زبیری صاحب 86 سال کی عمر میں سنہ 1986ء میں انتقال فرما گئے۔
انیس جیلانی اور دیگر احباب کی مساعی جمیلہ سے یہ کتاب امین زبیری صاحب کے انتقال کے بعد شائع ہوئی۔ یہ کتاب قابل اجتناب و تحقیر کیوں سمجھی جاتی ہے؟ عقل سلیم چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی مدعا کی منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔ بہر کیف، کتاب مرحوم کے بعد شائع ہو گئی اور پاکستان میں شائع ہوئی حالانکہ کتاب تک رسائی نہ ہو سکی مگر مجھے محتویات کا علم ہے۔


مذکورہ کتب رجال الاقبال میں خاصی قابل ذکر تکفیر سمجھی جاتی ہیں۔ رجال الاقبال سے میری مراد ان لوگوں سے ہے جو اقبال کے شعر و افکار کو مخصوص زاویہ دینے کے لئے بوجوہ سرگرم کار رہے ہیں۔ اردو تنقید کو فروغ پذیر ہونے ہی نہیں دیتے۔ انگریزی ادبیات جو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے اور انگریزی زبان دنیا بھر میں رواں دواں بولی سمجھی جاتی ہے، اس کی تنقید میں منفی و مثبت ایسے مصلطحات کبھی تنقید کے ساتھ دیکھنے میں نہیں آتے۔ مگر اردو میں اگر آپ تعریف و توصیف کرتے ہیں تو آپ کی تنقید مثبت قرار دی جائے گی ورنہ منفی دلائل کا اثر صرف ایسے لوگوں پر نہیں ہوتا جو افہام و تفہیم کو ضروری نہیں سمجھتے، ان کی بات پر ایمان بالغیب لانے ہی پر آپ اچھے تنقید نگار سمجھے جاسکتے ہیں۔


"مظلوم اقبال" اور "خد و خال اقبال" دراں حالانکہ یہ دونوں کتابیں اقبالیات کے مطالعہ میں اہم کردار کی حامل نظر آتی ہیں اور ان سے کسی نہ کسی سطح پر رجوع کرنا ضروری سمجھتا ہوں، بایں ہمہ اس مضمون میں ان دونوں تصنیفات سے صرف نظر کرتا ہوا میں درج ذیل چند باتوں پر توجہ منعطف کرانا چاہتا ہوں۔


پنجاب کے ایک صاحب جناب کنہیا لال گابا جو معروف بیرسٹر اور انگریزی مصنف تھے ، مشرف بہ اسلام کئے گئے اور ان کا اسلامی نام خالد لطیف گابا رکھا گیا۔ MOTHER INDIA کے جواب میں گابا صاحب کی تصنیف UNCLE SAM جواب باصواب قرار دی جا سکتی ہے۔ تقسیم ملک کے بعد گابا صاحب دہلی آ گئے تھے۔ 1974ء میں ان کی خود نوشت سوانح عمری FRIENDS & FOES کو انڈین بک کمپنی نے شائع کیا۔ نہ جانے کیوں میرے دماغ میں یہ خیال کئی بار ابھرا تھا کہ ہو نہ ہو کنہیا لال کو خالد لطیف کے نام نامی سے اقبال ہی نے نوازا ہوگا۔ سوانح عمری پڑھی، میرا خیال درست ثابت ہوا۔


ملاحظہ ہو صفحہ 105 ، اسلامی نام اقبال ہی نے تجویز کیا تھا، اور انہوں نے اقبال کی موجودگی میں مذہب اسلام قبول کیا تھا۔ یکم مارچ 1933ء کو (ص104)۔ گابا صاحب K.L.GANBA تھے اور یہی رہے بھی۔ صفحہ 221 پر گابا صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ: اقبال نے اپنی وفات سے چند دن پیشتر یہ کہا تھا کہ قیام پاکستان مسلمانوں کو غیر مخلوط برکت ثابت نہ ہوگا۔ اقبال کی زندگی محرومیوں اور ناکامیوں کا شکار تھی۔ انہوں نے ایک بہت نو عمر لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ لہٰذا کچھ ازدواجی مسائل پیدا ہو گئے تھے ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنے بڑے ذہین لڑکے آفتاب اقبال سے نفرت کرنے لگے ۔ آخر کار آفتاب اقبال کو عاق کر دیا۔ (ص:124)


آفتاب اقبال سے میرے کچھ تعلقات تھے۔ آفتاب نے مجھ سے کہا تھا کہ ان کے والد ماجد کو اپنی نئی بیوی پر شک پیدا ہو گیا تھا اور اسی شک سے مجبور ہو کر آفتاب کو گھر بدر کر دیا گیا۔ آفتاب کی تعلیم ہائی اسکول سطح تک قادیان ہی میں ہوئی تھی اور وہ آخر دم قادیانی خیالات ہی کا حامی اور علم بردار رہا۔ اقبال کے بڑے بھائی کے خاندان والے جو ہنوز قادیانی ہی ہیں آفتاب کی مدد کرتے رہے، مزید برآں دیگر سرکردہ قادیانیوں نے بھی استعانت سے گریز نہیں کیا۔ یہ بات اقبال کو بقول آفتاب گراں گزاری اور وہ قادیانیوں سے بھی برہم ہو گئے۔
ملحوظ رہے ، علامہ اقبال کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد مثلاً علامہ کے بڑے بھائی کے خاندان کے افراد اور علامہ کا عاق شدہ لڑکا آفتاب اقبال بھی قادیانیت عقائد پر قائم رہے اور قائم ہیں۔ آفتاب اقبال نے یو۔ این۔ او سے ایک خط مجھے لکھا تھا جو میرے اس استفسار سے متعلق تھا کہ علامہ اقبال سے متعلق اچھی رائے نہ رکھنے کے باوجود نام کے ساتھ اقبال کیوں لکھتے ہو اور آفتاب کا جواب تھا:
"۔۔۔ 'گہرا طنز' اقبال ہی سے ابھرتا ہے اور میرے ساتھ روا رکھا گیا ناروا سلوک ہمیشہ اقبال کے پس منظر میں رہے گا۔"
خط انگریزی میں تھا۔


واقعات کی روشنی میں علامہ اقبال اسی زمانے سے قادیانیوں سے بد ظن ہو گئے تھے ، یہ بات صاف طور پر واضح معلوم ہونے لگتی ہے۔
اقبالیات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ علامہ کی ذہنی تربیت شمس العلماء سید میر حسن مرحوم کی رہین منت تھی ، علامہ نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے ؎

وہ شمع بار کہ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھکو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو

سید میر حسن مرحوم ایک طرف سر سید کی تحریک کے روح رواں تھے تو دوسری طرف حضرت مرزا صاحب (قادیانی) کے مداحوں میں تھے۔ علامہ اقبال کے نگارشات ملاحظہ ہوں۔

Amongst the present muslims of the sub continent, Mirza Gulam Ahmed Qadiani is the greatest religious thinker. - (Indian Antiquary, Sept., 1900)


علی گڑھ کالج میں اقبال نے 1911ء میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
"میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالم گیر ذات نے ڈالا ہے ، ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد ہونا چاہئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت پیش نظر رکھیں۔ پنجاب میں اسلامی سیرت کا نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں۔"
(ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، مطبوعہ 1919ء)


"مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرما چکے ہیں ، نیز یہ کہ ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک تمثیل پیدا ہوگا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے۔"
(اخبار مجاہد، لاہور، 13, فروری 1935ء)


جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رجعت مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اس کا مشابہ ہے اس خیال سے اس تحریک پر ایک طرحح کا عقلی رنگ چڑھ جاتا ہے۔"
(رسالہ علامہ اقبال کا پیغام ملت اسلامیہ کے نام، ص:22،23)


جماعت احمدیہ عقائد میں ایک مرکزی عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ زندہ نبی ہیں اور ان کی روحانی تجلیات سے دنیا ہمیشہ منور ہوتی رہے گی۔ مسیح موعود کی بعثت مسیح کی ذاتی بعثت نہ ہوتی ، بلکہ وہ آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ بشکل بُروز ہوگی۔ علامہ اقبال کو یہ عقیدہ معقول نظر آتا تھا اور انہوں نے اس سلسلے میں ایک مکتوب مورخہ 19,جون 1916ء میں لکھا:
"کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانہ میں مقبول ہو اور رسول اللہ ﷺ پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں۔"
(مکاتیب اقبال حصہ اول ص 41)


اسی سلسلے میں علامہ کا مکتوب مورخہ 20,اپریل 1922ء توجہ طلب ہے:
"حال کے ہیئت داں کہتے ہیں کہ بعض سیاروں میں انسان یا انسانوں سے اعلیٰ تر مخلوق کی آبادی ممکن ہے ، اگر ایسا ہو تو رحمۃ للعالمین کا ظہور وہاں بھی ضروری ہے ، اس صورت میں کم از کم محمدیت کے لئے تناسخ یا بُروز لازم آتا ہے۔"
(مکاتیب اقبال، حصہ اول ص:117)


لاہور کے مولانا محمد علی کی تصنیف THE RELIGION OF ISLAM بہت مقبول ہوئی۔ محمد مرمڈوک پکتھال، جسٹس عبدالرشید، شیخ عبد القادر ، علامہ اقبال نیز دیگر صدہا دانش وروں نے مولانا محمد علی کی کاوش کو سراہا، ملاحظہ ہو ں ڈاکٹر محمد اقبال کے الفاظ:

I have glanced through parts of it and find it an extremely useful work, almost indispensable to the student of Islam. (Letter Dated: Feb 2, 1936)


جب سعد اللہ لدھیانوی نے حضرت مرزا غلام احمد کے خلاف ایک دشنام آگیں نظم کہی تو علامہ اقبال نے ایک طویل نظم کہی جو آئینہ حق نما (ص:107) میں مشمول ہے۔ چند اشعار یہ تھے:

واہ سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی
خوب ہوگی شہروں میں قدر دانی آپ کی
آفتابِ صدق کی گرمی سے گھبراؤ نہیں
حضرتِ شیطاں کریں گے سائبانی آپ کی
بات رہ جاتی ہے دنیا میں نہیں رہتا ہے وقت
آپ کو نادم کرے گی بدزبانی آپ کی
قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل
واہ کیا اسلام پر ہے مہربانی آپ کی

ملحوظ رہے ، علامہ ایف۔اے کلاس کے طالب علم تھے۔

یہ بھی پڑھیے:
اقبال کے نام پر مذاق - شورش کاشمیری
فائق باپ کی لائق اولاد
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شعری انفرادیت

روزنامہ نوائے وقت 15؍نومبر 1935ء کے مطابق منیر ٹریبونل کے سامنے شہادت دیتے ہوئے مولوی غلام محی الدین خاں قصوری نے کہا:
"مسٹر محمد اقبال نے بھی پانچ سال بعد 1897ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کرلی تھی۔"
ملحوظ رہے علامہ کے والد مرحوم اور علامہ کے برادر اکبر پہلے ہی بیعت کرچکے تھے۔
ڈاکٹر محمد حسین لاہور کے مشہور معالج، اقبال کے دوست تھے۔ ڈاکٹر صاحب احمدیہ تھے اور انہوں نے ہزاروں روپے جماعت احمدیہ لاہور کو دئے۔ ڈاکٹر صاحب احمدیہ جماعت کے سر گرم معاون رہے تھے۔


1932ء میں چودھری محمد احسن صاحب کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے علامہ اقبال نے منجملہ دیگر امور تحریک احمدیت پر قدرے روشنی ڈالنے کی غرض سے لکھا کہ:
"باقی رہی تحریک احمدیت، سو میرے نزدیک لاہور کی جماعت میں بہت سے ایسے افراد ہیں، جن کو میں غیرت مند مسلمان جانتا ہوں اور ان کی مساعی میں ان کا ہمدرد ہوں۔۔۔ اشاعتِ اسلام کا جوش جو ان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے۔۔۔"
(ص:230، مکاتیب اقبال حصہ دوم، مکتوب بنام چودھری محمد احسن)


ذکر اقبال، مظلوم اقبال ، خد و خال اقبال وغیرہ تصانیف میں احمدیہ فرقے سے اقبال کے نزدیکی تعلقات اور متعدد بار علامہ اقبال کا ان کے سرکردہ اراکین سے رجوع کرنے کے متعلقات کو اس مضمون میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ آخری تجربہ پیش کرنے کے پیشتر علامہ مرحوم کے وصیت نامہ پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اپنی گرتی صحت کے یپش نظر علامہ اقبال نے ایک دستاویز 13؍اکتوبر 1935ء کو تیار کی جس میں علامہ نے اپنے فرزند جاوید اقبال کو بھی وصیت کی، جو درج ذیل ہے :
"جاوید کو میری عام وصیت یہی ہے کہ وہ۔۔۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ خوش گوار تعلقات رکھے، میرے بڑے بھائی کی اولاد سب اس سے بڑی ہے ان کا احترام کرے۔۔۔ مدد کی ضرورت ہو اور اس میں مدد کی توفیق ہو تو اس سے کبھی دریغ نہ کرے۔۔ ان کا ہمیشہ احترام ملحوظ رکھے اور ان سے اپنے معاملات میں مشورہ لیا کرے۔۔۔"
(ص:56-59 ، فقیر سید وحید الدین: روزگارِ فقیر سے)


ملحوظ رہہے ، علامہ اپنے برادر اکبر کے فرزند رشید اعجاز احمد (جو ابھی حیات ہیں) سے محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ علامہ اقبال کی معتد بہ نگارشات اعجاز صاحب ہی کی مہربانی سے دستیاب ہوئی ہیں۔ اعجاز صاحب احمدیہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ کو اس حقیقت کا علم تھا ہی، لہٰذا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ علامہ اقبال احمدیہ لاہوری جماعت کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔
پنڈت جواہر لال نہرو کے بیان کے جواب میں جو کچھ اقبال نے لکھا، اس کو مطالعہ میں لانا بیکار محض ہے، علامہ کی ہمدردیاں مضمرات ذہنی سے بالا تر تھیں، تاویلات کے دروازے البتہ کبھی بند نہیں ہوتے۔

علامہ اقبال سے متعلق کتب ڈاؤن لوڈ کیجیے ۔۔۔
اقبال اور اس کا عہد - مضامین جگن ناتھ آزاد - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
اقبال کی اردو نثر - ترتیب از ڈاکٹر عبادت بریلوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
اقبال اور مغربی مفکرین - مضامین جگن ناتھ آزاد - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
***
تارا چرن رستوگی۔ بیرباری، گوہاٹی (آسام)، 81016۔
ماخوذ از رسالہ: شاعر - اقبال نمبر (حصہ اول)، جنوری تا جون 1988ء
مدیر: افتخار امام صدیقی

Allama Iqbal and Qadianiat. Essay: Taracharan Rastogi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں