اردو ادب کے بعض مشہور و ممتاز ادیبوں شاعروں کے ساتھ ان کے اپنے بیٹوں کے "حسنِ سلوک" کے چند عبرت خیز واقعات کسی فلم کی کہانی پر مشتمل نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں۔
عامر خان نے اپنے ٹی وی سیرئیل ستیمے وجیتے میں چند عام ماں باپ کو پیش کیا تھا جنھیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں چند خاص مستند شخصیات کے ساتھ ان کی اولاد کے رویّے کا مصدقہ ذکر کیا جا رہا ہے۔
نریش کمار شاد پہلے لاہور ہی میں رہتے تھے۔ وہ اپنے وطن سے نسبت کرکے خود کو شاد نکودری لکھا کرتے تھے۔ ان کے باپ درد نکودری پختہ اور عروضی قسم کے شاعر تھے تقسیم کے بعد دونوں باپ بیٹے انڈیا آگئے تھے۔ ایک مشاعرہ سندور میں ہوا جہاں نریش کمار شاد نے قتیل شفائی کو اپنے باپ درد نکودری سے ملوایا تھا۔
قتیل شفائی نے اپنی خود نوشت "گھنگھرو ٹوٹ گئے "میں شاد اور دردؔ کی بڑی عبرت انگیز روداد بیان کی ہے کہ "باپ بیٹے دونوں بیٹھے پی رہے تھے اور ایک دوسرے کو ڈال ڈال کر پلا بھی رہے تھے شاد نے اپنے والد سے قتیل کوملواتے ہوئے کہا: "یہ میرے والد ہیں درد نکودری۔ آپ نے ان کا نام سنا ہوگا"
قتیل نے کہا: "بالکل سنا ہے۔ اچھے شعر کہہ لیتے ہیں "
باپ بولا: "قتیل صاحب۔ میں جیسا بھی شاعر ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک اچھا شاعر پیدا کیا ہے۔ میرا بیٹا آپ کے سامنے ہے "
نریش کمار شاد کہنے لگے "دیکھو قبلہ والد صاحب ! آپ اس کا کریڈٹ نہ لیجئے۔ آپ اپنی شاعری کی بات کیجئے۔ مجھے آپ نے شاعر پیدا نہیں کیا تھا۔ میں پیدا ہوگیا تھا اور شاید آپ ہی نے پیدا کیا ہے لیکن شاعر میں خود بنا ہوں۔ یہ کریڈٹ آپ نہ لیجئے۔ "
باپ نے کہا "تو بہت بد تمیز ہوگیا ہے۔ باپ سے اس طرح بات کی جاتی ہے۔ "
شاد نے کہا "آپ بیٹے کے کمائے ہوئے نام میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں"
چنانچہ اس بات پر دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ باپ نے بیٹے کو تھپڑ ماردیا اور بیٹے نے باپ کو گریبان سے پکڑ لیا اور ہم (قتیل ) نے بڑی مشکل سے انھیں چھڑایا۔ جب ایک شرابی کی انا غلط راستہ اختیار کرلیتی ہے تو اس کا ہاتھ باپ پر بھی اٹھتا ہے۔ یہ ہاتھ ایک شرابی کا نہیں بلکہ ایک شاعر کی انا کا ہاتھ تھا جو غلط راستے پر چل نکلی تھی۔ " (گھنگھرو ٹوٹ گئے )
پاکستان کے مشہور شاعر و ادیب جمیل یوسف نے ماہ نامہ "الحمراء " لاہور ،اپریل 2013ء میں "بجنگ آمد " کے مصنف کرنل محمد خان کے بارے میں ایک درد ناک واقعہ بیان کیا ہے۔ جب کرنل صاحب نے چک لالہ سکیم نمبر III راولپنڈی میں اپنا عالی شان مکان بنوا لیا تو پنڈی کلب کی رہائش سے اس نو تعمیر شدہ مکان میں منتقل ہو گئے۔ اپنے آخری دنوں میں انھوں نے اپنا وہ نیا مکان امریکہ میں مقیم اپنے اکلوتے بیٹے کے نام ہبہ (GIFT) کردیا۔ (اور GIFT DEED اپنے بیٹے کو بھیج دیا۔) دو تین ماہ کے اندر ہی بیٹے نے وہ مکان اپنی بیوی کے نام منتقل کر دیا۔ کرنل صاحب کی بہو نے اپنے چند لوگوں کے ساتھ آ کر انھیں گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا تاکہ اسے کرائے پر چڑھا کر چالیس پچاس ہزار روپے ماہانہ کرایہ وصول کر سکے۔ کرنل صاحب نے فون پر بہو کی شکایت کی تو اس زن مرید بیٹے نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا :
"ابّا جی میں نے غلطی سے مکان اس کے نام منتقل کردیا ہے۔ اب وہ کہتی ہے میں مکان کی مالک ہوں جو چاہوں کروں۔ وہ میرے کہنے میں نہیں ہے۔ اور نہ میری بات سنتی ہے۔ میں اب کیا کر سکتا ہوں"
جناب جمیل یوسف نے یہ بھی لکھا کہ کرنل محمد خان نے اس ناگفتہ بہ صورتِ حال اور بہو کے اپنے اس مکان پر قبضہ کرنے کی نیت کا اظہار اپنے دوست بریگیڈئیر اسمٰعیل صدیقی سے فون پر کیا۔ گھر کے لان میں بہو مکان پر قبضے کے لیے اپنے چند حواریوں کے ساتھ موجود تھی جب کہ کرنل نے گھر میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ اندر ہی سے اپنے دوست کو فون کرکے بلایا۔ بریگیڈئیر اسمٰعیل صدیقی آئے اور کرنل محمد خان کو اپنے گھر لے گئے کیونکہ بہو قانونی طور پر مکان کی حقدار ہو چکی تھی۔
ظاہر ہے بہو اور بیٹے کے اس رویے سے کرنل صاحب کو سخت صدمہ پہنچا جو جاں کاہ ثابت ہوا اور ان کی صحت تیزی سے بگڑ نے لگی۔ اسی صدمے کے اثر سے وہ فالج کا شکار بھی ہوئے۔ کرنل محمد خان نے اپنی زندگی کے آخری دن چک لالہ III راولپنڈی ہی میں بیٹی کے ہاں بسر کیے جہاں جمیل یوسف نے آخری بار ان سے ملاقات بھی کی تھی۔
(ماہ نامہ الحمراء۔ لاہور۔ اپریل 2013ء )
سر سید احمد خان کے ساتھ بھی ایسی ہی کچھ صورتِ حال پیش آئی تھی۔ ان کے فرزند ارجمند جسٹس محمود نے انھیں اپنی حویلی سے نکال دیا تھا۔ سرسید ایک صندوق لے کر سڑک پر کھڑے ہوئے تھے کہ ان کے ایک قریبی دوست اسمعیل صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ انھیں سر سید نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے انھیں بے گھر کردیا ہے تو وہ سرسید کو اپنے گھر لے آئے۔ سر سید کہتے تھے اتنی بڑی یونیورسٹی قائم کرنے والا کیا اپنے لیے ایک جھونپڑی نہیں بنا سکتا تھا۔ پتہ نہیں تھا کہ یہ دن دیکھنے ہوں گے۔ مختصر یہ کہ سرسید کو سخت دلی صدمہ پہنچا اور وہ چند ہی دنوں میں انتقال کر گئے۔
لائق اولاد جسٹس محمود کو انتقال کی خبر دی گئی تو اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ سرسید کی تجہیز و تکفین کے لیے ان کا صندوق کھولا گیا تو اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ چنانچہ چندے سے میت اٹھانے کا ارادہ کیا گیا۔ سب سے پہلے سرسید کے قریبی دوست محسن الملک سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے پچاس روپے چندہ دیا یہ کہہ کر کہ یہ آخری چندہ ہے۔ اسی رقم سے سرسید کی موت مٹی کی گئی۔
علامہ اقبال کے لائق و فائق فرزند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح عمری "اپنا گریباں چاک " (مطبوعہ سنگِ میل پیلی کیشنز لاہور نیا اضافہ شدہ ایڈیشن 2006ء ) میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے فرقہ ملامتیہ کے فرد کی طرح بیان کیا :
"والد (اقبال) کی وفات کے بعد میں ان کے نافذ کردہ ڈسپلن DISCIPLINE سے آزاد ہو گیا۔ جن باتوں سے انھوں نے منع کر رکھا تھا میں نے بڑی رغبت سے ان میں سے ہر ایک کو اپنایا۔ صحیح و غلط میں سے غلط اور نیکی و بدی میں بدی کا راستہ منتخب کرنا بہتر سمجھا۔ اگر سر شام گھر میں رہنے کا حکم تھا تو میں آدھی رات سے پہلے گھر میں قدم نہ رکھتا تھا۔ اگر سنیما دیکھنا منع تھا تو ہر روز دو دو بلکہ تین تین شو دیکھتا۔ روزمرہ کے باورچی خانے کا حساب لکھتے وقت پیسوں میں گھپلا کرتا۔ رنگ برنگی ریشمی قمیصیں، مہنگے ولایتی بوٹ اور یورپی انداز کے سلے ہوئے سوٹ ،نک ٹائیاں ،اوور کوٹ ،دستانے اور فیلٹ ہیٹ زیب تن کرتا۔ مئے نوشی ، یورپی طرز کے رقص اور رات کے کھانے کے لیے معروف جگہوں پر جاتا۔ "
اور تو اور جاوید اقبا ل کو بہت گراں گزرتا ہے جب لوگ انھیں علامہ اقبال کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی انا کو ٹھیس لگتی ہے۔ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں صاف صاف لکھا:
"بچپن میں باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو میں نے برا نہیں مانا کیونکہ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔
جوان ہوا تب بھی باپ کے حوالے سے پہچانا گیا۔ یہ میرے لیے پدرم سلطان بود کی بناء پر فخر کا مقام تھا۔
زندگی میں اچھا برا مقام پیدا کیا تب بھی باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو مجھے برا لگا۔ یہ میری "انا" کی نشو و نما میں مداخلت تھی۔
اب بوڑھا ہوچکا ہوں، تب بھی باپ کے حوالے سے میری شناخت ہوتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے میرے والد کے پرستاروں نے مجھے بڑا ہونے نہیں دیا۔ "
علامہ اقبال سے تعلق کو اعزاز کے بجائے بوجھ سمجھنے والے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال جو کچھ ہیں THANKS TO IQBAL ہی تو ہیں۔ خود نوشت سوانح عمریاں توبے شمار لکھی گئیں مگر خریدنے ولا یہ سوچ کر خریدتا ہے کہ علامہ اقبال کے بیٹے نے آخر کیا لکھا ہے۔
جگن ناتھ آزاد کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے وہ بجائے خود کیسے ہی شاعر کیوں نہ رہے ہوں ،علامہ اقبال کے حوالے سے پہچانے جانے پر نازاں تھے۔ انھیں اقبال کا بیشتر کلام ازبر بھی تھا۔ اک ایسے وقت جب کہ ہندوستان میں اقبال کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا جگن ناتھ آزاد نے سرکاری سطح پر علامہ اقبال کی شاعرانہ حیثیت کا احساس کروایا۔ "سارے جہا ں سے اچھا ہندوستان ہمارا" کو ترانۂ ہندی کا درجہ دلایا جو آج بھی برقرار ہے۔
علامہ اقبال کے بے حد قریبی دوست سرشیخ عبدالقادر مدیر "مخزن " کے بیٹے کا بھی یہی حال ہے۔ خود نوشت سوانح عمریوں میں ایک اور شخص کا ذکر انتظار حسین نے کیا ہے جو اپنے باپ کے نام سے بدکتا تھا۔ وہ سر شیخ عبدالقادر کے لائق صاحب زادے ریاض قادر تھے "
(ماہ نامہ الحمراء لاہور مارچ 2013ء )۔
مجھے نہیں معلوم ریاض قادر کی ادبی حیثیت کیا ہے جب کہ سر شیخ عبدالقادر کو ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے۔
اکبر الہ آبادی نے نئی تعلیم کی مخالفت کے باوجود اپنے بیٹے عشرت حسین کو بہ صرف زر کثیر اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجا تھا اور وہاں جاکرجب لائق فرزند نے ماں باپ ہی کو بھلا دیا تو ایک طنز یہ قطعہ (بیٹے سے خطاب ) لکھ کر انھیں احساس دلانے کی کوشش کی تھی۔
عشرتی گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے
کھاکے لندن کی ہوا عہدِ وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سویوں کا مزہ بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں
وہاں سایۂ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
کیسے کیسے دلِ نازک کو دکھایا تم نے
خبرِ فیصلۂ روزِ جزا بھول گئے
بخل ہے اہلِ وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جود و عطا بھول گئے
نقلِ مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ کہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو
جب کہ بوڑھے روِش دینِ خدا بھول گئے
نئی تعلیم کی تحریک چونکہ سر سید احمد خاں نے چلائی تھی اس لیے آخری شعر میں ان پر بھی چوٹ ہے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ عشرت حسین مغربی تعلیم حاصل کرنے کے وجہ سے مشرقی تہذیب والوں کو چشم کم سے دیکھتے تھے۔ ایک موقع پر ایک مغربی تہذیب یافتہ دوست نے قلندرانہ ہئیت کذائی والے اکبر الہ آبادی کی طرف اشارہ کرکے عشرت حسین سے پوچھا:
WHO IS THAT FELLOW ? (یہ کون شخص ہے ؟)
عشرت حسین نے ٹالنے والے انداز میں جواب دیا:
HE IS MY FRIEND (وہ میرے دوست ہیں )
الہ آباد کے جج اکبر الہ آبادی نے صراحت کر دی۔
I AM NOT HIS FRIEND - I AM HIS MOTHER'S FRIEND
(میں اس کا دوست نہیں بلکہ اس کی اماں کا دوست ہوں )
صفیہ اختر کو تڑپنے کے لیے بھوپال میں چھوڑ کر ایک دوسری عورت کے ساتھ جاں نثار اختر ممبئی میں مزے اڑا رہے تھے۔ کم سن جاوید اختر کے دل میں اپنے باپ کے لیے کچھ اچھے جذبات نہیں رہ گئے تھے۔ وہ ساحر لدھیانوی سے مالی مدد حاصل کرتے تھے مگر اپنے باپ جاں نثار اختر سے قطع تعلق کر رکھا تھا حالانکہ جاں نثار بھی ساحر کے گھر پر ہی پڑے رہتے تھے مگر جاوید ان سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
اپنی جد و جہد کے دور میں باپ کے نام کو کیش CASH کروانے کی جاوید نے گلبرگہ و مدراس میں کوششیں بھی کیں۔ چنانچہ جاں نثار اخترؔ نے بعض اخبارات و رسائل میں یہ اعلان چھپوا دیا کہ کوئی لڑکا اپنے آپ کو ان کا بیٹا بتا کر ادبی برادری کو ٹھگ رہا ہے۔ اس سے ہوشیار رہا جائے۔
پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ اپنی شرطوں پر فلمی دنیا کا استعمال کرنے والے جاوید اختر نے اپنی کسی بھی فلم کے گانے جاں نثار اختر سے نہیں لکھوائے۔
وہ گوشۂ گم نامی میں مرے۔
مخفی مبادکہ علامہ اقبال نے بھی اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال سے براءت کا اسی طرح اعلان کیا تھا جب وہ انگلستان میں زیر تعلیم تھے اور سر اکبر حیدری سے اپنے تعلیمی اخراجات کے سلسلے میں تعاون کے درخواست گزار ہوئے تھے۔ انگلستان میں سر اکبر حیدری نے آفتاب کی کچھ مدد بھی کی تھی۔ بعد میں باپ بیٹے میں مصالحت کروانے کے جتن بھی کیے تھے۔
بہار کے ایک سخن ور دوراں جو کمیونسٹ تھے اپنے گھر والوں پر بڑا ظلم کیا کرتے تھے۔ انھیں یہ اندیشہ ہی نہیں تھا کہ ان کا وہ بیٹا جسے وہ پیٹا کرتے تھے کچھ لکھ پڑھ لے گا اور بہ اندازِ جمال باپ کے جلال کی کہانی لکھ ڈالے گا اور ایک ہفتہ وار میں چھپوا بھی دے گا بھلے ہی اپنے نام کے ساتھ باپ کے نام کی نسبت کا لاحقہ بھی رکھے گا۔
حیدرآباد کے مشہور و ممتاز افسانہ نگار اقبال متین اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں جس کا کرایہ چھ ہزار روپے ماہانہ ہے۔ دونوں بیٹے بیرون ملک کما رہے ہیں۔ فلیٹ کا کرایہ دونوں بیٹے ہر ماہ دو دو ہزار روپے بھیجا کرتے ہیں باقی کے دو ہزار روپے اقبال متین ادا کرتے ہیں۔ یہ بات خود اقبال متین نے مجھے بتائی اور اپنا ایک دردناک مطلع بھی سنایا:
وہ ایک سچ مرے مولا مگر نہیں جاتا
مرا قصور یہی ہے کہ مر نہیں جاتا
raoofkhair[@]gmail.com
موبائل : 09440945645
Raoof Khair, Moti Mahal, Golconda, Hyderabad - 500008
رؤف خیر |
تحریر پسند آئی۔ اور اسلوبِ تحریر بھی۔ میں جناب رؤف خیر صاحب کی تحریر پر تبصرہ کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ لڑکپن کے زمانے میں غالباً ایک یا دو لال قلعہ دہلی کے مشاعرہ میں سنا ہے یا پھر اردو اکیڈمی دہلی کے ذریعہ مشاعرہ کی چھپی روداد میں ان کی تحریر (شعری تخلیق) پڑھی۔ آج ایک بہتر اور چشم کشا مضمون پڑھنے کو ملا مجھے خوشی ہوئی۔
جواب دیںحذف کریں