آج بھی ہندوستان ہی کے اہل قلم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے اقبال پر بہترین کتابیں شائع کی ہیں۔ اور انہی سے یہاں بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔
- اولاً ڈاکٹر یوسف حسین کی کتاب "روح اقبال" ہے جو مکتبہ دہلی نے شائع کی ہے ۔ اور اب اس کی اشاعت آئینہ ادب نے یہاں بھی کی ہے۔
- دوسری کتاب"اقبال کامل" ، مولانا عبدالسلام ندوی کی تالیف ہے ۔ دارالمصنفین کے اہتمام میں شائع ہوئی۔ یہاں کسی کے پاس اس کے حقوق اشاعت نہیں۔
- تیسری کتاب انگریزی میں خواجہ غلام السیدین کی "اقبال کا فلسفہ تعلیم" ہے۔
- چوتھی کتاب مولانا ابوا لحسن علی ندوی کی عربی تالیف ہے۔جو انہوں نے اقبال کے افکار و سوانح پر تحریر کی ہے ۔ اور دمشق سے شائع کی ہے۔
- اس کے علاوہ بعض دوسرے مصنفین کی بیش قیمت کتابیں اور مقالے بھی ہیں جو علی گڑھ ، جامعہ ملیہ اور الہ آباد یونیورسٹیوں کے فاضل اہل قلم نے ترتیب دئیے ہیں۔ اور جن سے علامہ اقبال کے فکر و نظر کی سینکڑوں راہیں تشنگان علم پر کشادہ ہوتی ہیں۔۔۔
اے طائرِ لاہوتی ! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
۔۔۔ تصویروں کی نمائش کی جا رہی ہے ۔ اور اس کے لئے انعام بھی رکھے گئے ہیں لیکن اس سے اقبال کی تعلیمات کو قطعی فائدہ نہیں پہنچتا۔ علامہ اقبال کے مصوری سے متعلق خاص نظریات تھے۔ کسی کو نوازنا مقصود ہے، تو اقبال ہی کے نام پر کیوں ؟ کوئی اور راستہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔۔۔
۔۔۔ جن لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں دو چار علامہ اقبال کے ہاں سال ششماہی پھیرے ڈالا کرتے تھے لیکن انہیں(الا ماشاء اللہ) اقبالیات میں کوئی درجہ و مقام حاصل نہیں ۔۔۔ ان میں اکثر اقبال کی موت کے بعد ان کے احباب بن گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو اقبال کے ہاں وہ درجہ حاصل تھا جو بڑے آدمیوں کے ہاں کورنش بجا لانے والوں کا ہوتا ہے ۔
اقبال نے لوگوں سے کیا فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ سوچنا بھی ان کی عظمت کے منافی ہے۔ انہوں نے اقبال سے کیا حاصل کیا ۔۔۔ وہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہے۔ معلوم ہوتا ہے قدرت نے ان پر فہم اقبال کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ صرف ان کے نام پر کہانیاں گھڑ کے سنا دیتے ہیں۔ یا پھر غلط تفسیریں۔
اقبال کے خطوط چھپ چکے ہیں ۔ اقبال نامہ کی جلد اول میں 267 اور جلد دوم میں 187 خطوط ہیں۔ اگر اس جماعت کے کسی شخص کے نام کوئی خط ہے تو ان کے کسی استفسار کا جواب ہے۔ لیکن خود علامہ نے جن لوگوں سے علم و ادب اور دین و شریعت میں استفسار کیا یا استاذ الکل کہا اس خانوادے کا ایک فرد بھی ان میں نہیں ۔
یہ لوگ بتا سکتے ہیں کہ اقبال نے انہیں کبھی کوئی خط لکھا، کسی تحریر میں ذکر کیا؟ اب اس اعتماد سے سامنے آ رہے ہیں گویا دربار اقبال کے نورتن تھے۔ اقبال پر اگر کوئی شخص بات کر سکتا ہے تو وہ سید نذیر نیازی ہیں۔ کوئی قلم اٹھا سکتا ہے تو وہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی ، خواجہ عبدالوحید، مولینا غلام رسول مہر اور ڈاکٹر سید محمد عبداللہ ہیں۔ لیکن ان سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ کار پردازوں کو یقین ہے کہ ان کی شخصیت کے سامنے ان کا چراغ مدھم ہو جائے گا۔ مزید برآں خویش پروری یا اقربا نوازی کا جو سلسلہ جاری ہے، اس کے منقطع ہونے کا امکان ہے؟
ہم یہ با ت بہت جلد منظر عام پر لائیں گے کہ علامہ اقبال کے"حلقہ سخن" میں جو لوگ اب شریک ہو رہے ہیں ۔ ان کی اکثریت برطانوی حکومت کے جاسوسوں پر مشتمل تھی۔ اور ان کا کام علامہ اقبال کی ذہنی سرگزشت حکومت تک پہنچانا تھا۔ بعض لوگ ان میں وہ بھی تھے ،جنہیں علامہ اقبال سے ایک آدھ دفعہ شرف ملاقات ہوا۔ اور بس۔ دو چار بزرگ جو اب پیش پیش ہیں، انہیں علامہ اقبال نے اپنے بنگلہ سے دھکے مار کر نکال دیا تھا کہ وہ معلومات حاصل کرنے آتے اور سرکار تک جھوٹی سچی خبریں پہنچاتے ہیں۔ کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہر قسم کا خطرہ مول لے کر ان لوگوں کو بے نقاب کریں؟ انشاء اللہ چٹان ہی یہ فرض انجام دے گا۔
بحوالہ: (ہفت روزہ چٹان، 13/فروری 1961ء)
ماخوذ: اقبالیاتِ شورش ، ترتیب و تدوین: مولانا مشتاق احمد ، اشاعت: اکتوبر 2003۔ ناشر: احرار فاؤنڈیشن لاہور
ماخوذ: اقبالیاتِ شورش ، ترتیب و تدوین: مولانا مشتاق احمد ، اشاعت: اکتوبر 2003۔ ناشر: احرار فاؤنڈیشن لاہور
The fun in the name of Iqbal. Article by Agha Shorish Kashmiri
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں