سقوط حیدرآباد کا پس منظر - از معین الدین عقیل و عمر خالدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-17

سقوط حیدرآباد کا پس منظر - از معین الدین عقیل و عمر خالدی

suqoot-e-hyderabad
محققین ڈاکٹر عمر خالدی (ایم۔آئی۔ٹی امریکہ) اور ڈاکٹر معین الدین عقیل (ٹوکیو یونیورسٹی جاپان) کی مرتب کردہ کتاب "سقوط حیدرآباد" المیۂ سقوط مملکت آصفیہ حیدرآباد سے قاری کو چشم دید اور معاصر تحریروں کے ذریعے آگاہ کرتی ہے۔ یہ اہم دستاویزی کتاب ان کے لیے ہے جنہیں (سابقہ) مملکت آصفیہ حیدرآباد سے کوئی نہ کوئی نسبت رہی ہے اور جنہوں نے سقوط حیدرآباد کا سانحہ نہیں دیکھا مگر اس کے عواقب و اثرات کو محسوس کرنا چاہتے ہوں۔ اسی کتاب کا ایک اہم مضمون ذیل میں پیش ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں مملکت آصفیہ کی جغرافیائی صورت اس طرح تھی کہ ساری مملکت چاروں طرف سے ہندوستانی علاقوں اور صوبوں سے گھری ہوئی تھی۔ مملکت کی 85 فیصد آبادی ہندو تھی یا ہندو کہلاتی تھی کیوں کہ "آدی باسی" قبائل اور دیگر قومیتیں بڑی تعداد میں تھیں جو اپنے آپ کو ہندوؤں میں شمار نہیں کرتی تھیں۔ پھر حیدرآباد کی آبادی کا بڑا حصہ "پست اقوام" پر مشتمل تھا جو خود کو 'ہندو' کہلانا پسند نہ کرتیں۔ کچھ قلیل تعداد عیسائیوں، سکھوں، پارسیوں اور بدھ مت کے پیروؤں کی بھی تھی۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریبا 13 فیصد تھا اور یہ زیادہ تر شہروں یا قصبات میں آباد تھے۔ سرکاری زبان "اردو" تھی مگر عوام کی اکثریت تلنگی، کنڑی اور مرہٹی بولتی تھی۔


سیاسی طور پر مملکت پر آصف جاہی حکمرانوں کا مکمل اقتدار تھا۔ 1919ء سے انتظام مملکت میں ایک نئے نظم و نسق کا آغاز ہوا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں اس وقت کی ہندوستانی سیاسی تحریکوں کے زیر اثر مملکت میں بھی جمہوری تحریکیں ابھرنے لگیں۔ 1927ء کے آس پاس "مجلس اتحاد المسلمین" کا قیام عمل میں آیا جس کے ساتھ ساتھ "آریا ساج"، "ہندو مہاسبھا" اور "حیدرآباد اسٹیٹ کا نگریس" بھی وجود میں آئیں اور مملکت میں فرقہ وارانہ سیاست فروغ پانے لگی۔ یہاں تک کہ انگریزوں سے طویل تر جدوجہد آزادی کے بعد ہندوستان تقسیم ہو گیا اور جنوبی ایشیا میں دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آ گئیں۔
چناں چہ حیدرآباد کی ہندو اکثریتی سیاسی اور فرقہ پرست جماعتوں نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ چوں کہ (ان کے خیال میں) حیدرآباد نسلی، لسانی، جغرافیائی اور معاشی و تہذیہی اعتبار سے ہندوستان (بھارت) کا جزو ہے، اس لئے حیدرآباد میں جمہوری حکومت قائم کی جائے اور ریاست حیدرآباد کا ہند یونین (بھارت) میں انضمام ہو۔


حکومت حیدرآباد کا موقف یہ تھا کہ آزادی ہند کے نتیجے میں برطانوی اقتدار اعلی کا خاتمہ ہو چکا اور دیسی ریاستیں بھی مکمل طور پر آزاد ہو چکیں گویا وہ اس حیثیت پر واپس جا چکیں، جو برطانوی استعمار و اقتدار سے پہلے انہیں حاصل تھی۔
بھارت کی حکومت انڈین نیشنل کانگریس اور حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس اور دیگر ہندو جماعتوں کا دعوی یہ تھا کہ جمہوری دور میں اکثریت پر اقلیت کی بالادستی جائز نہیں اس بنیاد پر وہ حکومت حیدرآباد سے غیر مشروط طور پر بھارت میں شمولیت پر اصرار کرتی رہیں۔ ان کے مقابلے میں حیدرآباد کے مسلمانوں کی اکثریت کا یہ مطالبہ تھا کہ حیدرآباد بھارت اور پاکستان دونوں سے علیحدہ رہے اور ایک آزاد و خود مختار مملکت کی حیثیت سے جنوبی ایشیا میں اپنے نئے دور کا آغاز کرے۔


حیدرآباد اور دہلی کے درمیان 1947ء کی ابتداء سے مستقبل کے سیاسی تعلقات کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے نتیجے میں نومبر 1947ء میں دونوں فریقین کے درمیان ایک "معاہدۂ انتظام جاریہ" طے پایا جس کے ذریعے آئندہ کے تعلقات کا پرامن طور پر حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
لیکن بھارت کی نیت شروع سے خراب تھی۔ وہ جلد یا بدیر مملکت حیدرآباد کو اپنے میں ضم کرنے کا تہیہ کر چکا تھا۔ اس وقت اس کے پیش نظر سوال یہ نہیں تھا کہ آیا مملکت کا انضمام ہو یا نہ ہو بلکہ یہ تھا کہ یہ انضام فوری ہو یا اس میں تاخیر گوا را کی جا سکتی ہے؟
بدقسمتی سے اس وقت کے مسلمان حیدرآبادی قائدین نے بھی دور اندیشی، فراست اور سنجیدگی کا ثبوت نہیں دیا۔ "مجلس اتحاد المسلمین" کے قائدین کو بھارت کی اصل نیت اور اس کی فوجی سیاسی اور معاشی قوت کا یا تو اندازہ نہ تھا یا پھر وہ جانتے بوجھتے ہوئے تمام تر ایک ایسا مہلک خطرہ مول لے رہے تھے جو مسلمانوں کے لئے یقینا ہر طرح نقصان دہ ثابت ہوا۔


بھارت سے ٹکراؤ کی صورت میں کیا سنگین نتائج ہو سکتے تھے، اس کا حقیقی اندازہ اس وقت کم لوگوں کو تھا۔ "اتحاد المسلمین" کے قائدین لال قلعہ پر آصفی پر چم لہرانے کی بات کر رہے تھے اور دعوی یہ بھی تھا کہ:
"وہ دن دور نہیں جب خلیج بنگال کی لہریں اعلی حضرت حضور نظام کے پاؤں چومیں گی"۔
1948ء کا نصف سے زائد عرصہ امید و بیم میں گزر گیا۔


اگست 1948ء سے ہندو تحریکوں اور سازشوں کے نتیجے میں اور بھارتی حکومت کی سرپرستی میں مملکت کے سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت ہنگامے شروع ہو گئے اور مسلمان آبادیوں پر مسلح ہندوؤں، یہاں تک کہ بھارتی فوج کے حملے و وقتاً فوقتاً ہونے لگے۔ تا آں کہ 12 اور 13 ستمبر کی رات کو بھارتی فوجوں نے بیک وقت پانچ محاذوں پر اچانک اور بڑے پیمانے پر حملہ کردیا۔
اس حملے میں بھارتی فضائیہ نے بھی حصہ لیا اور بیدر اور ورنگل کے ہوائی اڈوں پر زبردست بمباری کی۔ حیدرآبادی فوج نے کچھ تو وسائل کی کمی اور کچھ بے دلی اور کچھ غیر منظم صورت میں کسی خاص تیاری کے بغیر بھارت کی بری اور فضائی فوج کے حملوں کا جواب دینے یا ان سے دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں موثر اور کارگر نہ رہیں۔
ہاں 'مجلس اتحاد المسلمین' کے رضا کاروں نے بڑی بہادری سے بھارتی فوج کا مقابلہ کیا۔ مگر فریقین میں مقابلہ برا بری کا قطعی نہ تھا۔
چناں چہ 18 ستمبر 1948ء کو حکومت حیدرآباد کی ہدایت پر حیدرآبادی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے۔


اس طرح دکن میں مسلمانوں کے چھ سو سالہ قابل رشک اور قابل فخر اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔


یہ بھی پڑھیے:
کیا سقوط حیدرآباد کی یاد میں یوم نجات منانا درست ہے؟ - از: ڈاکٹر حسن الدین احمد
زوال حیدرآباد کی کہانی - از: علیم خان فلکی
17 ستمبر- یوم نجات نہیں یوم ماتم - از: رشید انصاری
ریاست حیدرآباد کا پولیس ایکشن یا فوجی ایکشن؟ - از: قاری ایم ایس خان
سقوط حیدرآباد کے اسباب - از: رشید انصاری

***
ماخوذ از کتاب:
سقوط حیدرآباد (مصنف: عمر خالدی اور معین الدین عقیل)

The Fall of Hyderabad, its scenario and consequences.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں