ریاستِ حیدرآباد دکن جس کا جغرافیائ نقشہ ہر دور میں بدلتا رہا 17ستمبر 1948 تک جب ہندوستانی فوجوں نے نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت تک بھی ایک عظیم رقبہ پر پھیلا ہوا 86ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ 1923میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب' افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوشحالیو شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔۔ لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لئے " مدینہ بلڈنگ " کے نام سے شان دار عمارتیں جو کہ آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لئے وقف تھیں جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لئےرباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں۔
ریاستِ حیدرآباد جس کی تاریخ 13ویں صدی کے آخر میں علأ الدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی' شاہی اور آصفجاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔ موجودہ حیدرآباد تقریباً دو ہزار مربع میل پر مشتمل ایک شہر ہے جسکے باقی حصے ریاستِ آندھرا پردیش' کرناٹک اور مہا راشٹرا میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
ریاستٓ حیدرآباد کی خصوصیت تھی کہ یہ ہمیشہ امن و آشتی کا علمبردار ' ہندو مسلم یکجہتی کی مثال اور علم و ادب نوازی کی ایک ایسی مثال تھا جس کو دنیا تمام کے علمأ و دانشور مفکرین و مورخین نے آکر اپنی خدمات سے مزید چار چاند لگائے۔
ریاستِ حیدرآباد کا قیام
جس وقت نادر شاہ کی فوجوں نے دہلی میں آخری مرد کو تک ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا تھا ایک سفید ریش بزرگ فخر الدین خان نظام الملک جن کے دادا خواجہ عابد نے اورنگ زیب سے اپنی شجاعت کے انعام میں خلیج خان کا خطاب حاصل کیا تھا'نادر شاہ کے قدموں میں اپنی پگڑی رکھ کر انسانیت پر رحم کی درخواست کی تھی۔ نادر شاہ نے اس بزرگ کا احترام کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو واپسی کا حکم دیااور قمر الدین علی خان دکن کے صوبہ دار کی حیثیت سے دکن میں آصفجاہی خاندانِ نظام کی بنیاد رکھی جس وقت 1748ء میں ان کا انتقال ہوا اس وقت ریاستِ حیدرآباد نربدا سے ترچنا پلی تک اور کوکن سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس کے بعد انگریز اور فرانسیسی حکومتوں نے اپنے داخلے کی کوششیں شروع کر دیں اور ان ہی کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں بعد کے جانشینوں میں قتل و بغاوت کے ذریعۂ تخت کے لئے رسہ کشی جاری رہی انگریز کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کی سازشوں نے 1948ء تک بھی خاتمہ ریاست تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور ریاستِ حیدرآباد کی سرحد میں ہر دور میں سکڑتی رہیں۔
تاریخ کاتفصیلی جائزہ لینے پر جو تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں وہ دورِ حاضر کے لئے بھی درسِ عبرت ہیں کہ کس طرح انگریز نے دو صدیوں تک وفاداریوں کے عہد و پیمان کے سلسلے بھی جاری رکھے۔ دوسری طرف سازشوں بلیک میل اور بد عہدی کے ذریعئے کروڑوں کا زر اور زمین لوٹتا رہا۔ جس عظیم دولت کو نظام انگریزوں کے گلے میں سنہری زنجیر سمجھ کر پہناتے رہے انگریز کی بے وفا فطرت کے آگے وہ ایک دھاگے سے زیادہ مضبوط نہ تھی جو 17ستمبر 1948ء کو ایک آن میں ٹوٹ گئی اور نظام ہاتھ ملتے رہے ۔ بے بسی کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہ ملا۔
آغازِ انجام Beginning of the End
ریاست حیدرآباد کا بالاخر ہندوستان میں شامل ہونا ایک منطقی اور فطری امر تھا جس کے اسباب کئی تھے ۔ مثلاً یہ کہ ہندوستان کے نقشے پر حیدرآباد کی ریاست ٹھیک دل کے مقام پر تھی جس کے چاروں طرف جمہوری آزاد ہندوستان کی سرحدیں تھیں ۔ ایک کروڑ 64لاکھ کی آبادی والی اسٹیٹ میں حکمران مسلمان قوم جو کہ آبادی کے لحاظ سے صرف 30لاکھ ) 18%) تھی زیادہ دن اکثریتی فرقہ پر حکمران رہے یہ خارج از امکان تھا۔دوسرے یہ کہ انقلاباتِ زمانہ نے عوام کے ذہنوں میں ساری دنیا میں ہی ایک جمہوری شعور بیدار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں عوام کی اتنی بڑی تعداد کا چاہے وہ مسلمان ہوں کہ ہندو ایک بادشاہ کے ساری عمر زیرِ حکومت رہنا ممکن نہیں تھا۔تیسرے یہ کہ کسی اسٹیٹ کی بقا کے لئے اس کے بین لاقوامی رابطے صرف بندر گاہوں یا ایر پورٹس پر منحصر ہوتے ہیں جو کہ موجود نہیں تھے نہ دفاعی ساز و سامان تھے ( جس سے محرومی کا سہرا بھی انگریز کی شاطرانہ چالوں کے سر ہے ) نہ فوج اور چوتھے یہ کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی عوام نے لاکھوں کی تعداد میں اپنی جان و مال کی قربانیاں دی تھیں جنگِ آزادی کے طویل مرحلے میں مبتلأ ہوئے بغیر انگریز سے آزادی حاصل کر لینا اور قربانیاں دینے والے ہندوستان کے مساوی ملک کا درجہ حاصل کر لینا نہ تو اصولی طور پر ممکن تھا اور نہ عملی طور پر۔ ان وجوہات کی بنأ حیدرآباد کا ہندوستان میں شامل ہو جانا یا شامل کر لیا جانا ایک لازمی امر تھا جو بالاخر ہونا تھا لیکن اگریہ کام عوامی شعور کو بیدار کر کے پُر امن طور پر سامنے آتا تو شائد تاریخ کا شاندار کارنامہ ہوتا لیکن بد قسمتی سے جن حالات میں سقوطِ حیدرآباد ہوا وہ نہ صرف مسلمانوں کی بد نصیبی کی تاریخ کا ایک المیہ ہے بلکہ خود ہندوستان کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے جس کی ذمہ دار ایک طرف وہ ہندوستانی لیڈرشپ تھی جو تعصب اور نفرت کے ذریعۂ حیدرآباد کو بحیثیت ایک مسلم اسٹیٹ کے ختم کرنے کے در پئے تھی تو دوسری طرف وہ مسلمان قیادت تھی جو تعصب کا جواب تعصب اور نفرت کا جواب سے دینے کے جذباتی رویہ ٔ پر کھڑی تھی تیسری طرف سخی و عوام پرور نظام تھے جن کی سیاست نا عاقبت اندیشی اور خام خیالی پر مبنی تھی۔ بقول ابوالاعلی مودودی کے جنہوں نے سقوطِ حیدرآباد سے 9ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ " نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھ جانا یقینی ہے رئس اپنی جان و املاک بچا لے جائگا اور عوام پس جائنگے ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے " ( حوالہ ' زوالِ حیدرآباد کی ان کہی داستان ' از مشتاق احمد خان لاہور ) لیکن افسوس کہ یہ خط قاسم رضوی صاحب نے جوش میں پھاڑ دیا جو کہ اس وقت کی مسلمان قیادت کی سوچ' فکر و دانش کا رخ کے تعین میں ایک اہم ثبوت ہے ۔ اگرچیکہ امت کو نواب بہادر یار جنگ کی صورت میں ایک بار پھر تاریخ کو دہرانے والا انسان مل گیا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ان کو زہر دیکر شہید کر دیا گیا ۔ آخری صدرِ اعظم لائق علی خان اپنی کتاب دی ٹریجڈی آف حیدرآباد میں لکھتے ہیں کہ " نواب بہادر یار جنگ کی موت پر اگر کسی کو خوشی ہوئی تو وہ نظام تھے ۔
قائدِ ملت نواب بہادر یار جنگ کے انتقال کے بعد مسلمان قیادت کی امیدوں کا آخری چراغ گُل ہو گیا اور ملت کی کشتی مسلسل ڈوبتی رہی ۔ نواب میر عثمان علی خان جن افراد کے درمیان تھے ان کی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 13سپٹمبر 1948ء کو ہندوستان کے پولیس ایکشن کے ساتھ ہی سب سے پہلے عثمان آباد میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کی خبر نظام تک پہنچی تو ان الفاظ میں کہ " سرکار قاتلانِ حسین پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے"۔ ( حوالہ " زوالِ حیدرآباد " مظہر علی خان حیدرآباد )۔
مختصر یہ کہ مسلمان قیادت کا یہ ایک ایسا منظر تھا دوسری طرف جبکہ کانگریس پرریاستِ حیدرآباد میں امتناع عائد تھا اس کی مدد سے اسٹیٹ کانگریس' ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج تحریک نے شورش برپا کرنے بیرونِ ریاست ہندوؤں پر مظالم کی فرضی داستانیں پیش کر کے ریاست کے خلاف قومی اور بین الاقوامی رائے ہموار کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اگرچیکہ ان سازشوں کو ہندو مسلم عوام کا تعاون حاصل نہ ہو سکا لیکن حکومت کی خاموشی نے فرقہ واریت کے زہر کے پھیلنے میں مدد کی اور رفتہ رفتہ فسادات ہونے لگے ۔ لاتور کا فساد حیدرآباد کی تاریخ میں اہم فساد اور فرقہ پرستوں کے لئے پہلی بڑی کامیابی کی شکل میں سامنے آیا جس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب سے ایک تنظیم " انجمن دفاع المسلمین " کے نام سے قائم کی گئی جس کا بعد میں مجلس اتحاد المسلمین نام پڑا۔ اس تنظیم کے دستور سازوں نے روزِ اول سے ہی حیدرآباد کے درد ناک انجام کی بنیاد ڈالی۔ اس کے دستور کی سطرِ اول میں جو موقف پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ " مسلمانانِ مملکتِ آصفیہ کی یہ حیثیت ہمیشہ برقرار رہے کہ فرمانروائے ملک کی ذات اور تخت ان ہی کی جماعت کے سیاسی اقتدار کا مظہر ہے۔ اس بنا پر مملکت کی ہر دستوری ترمیم میں فرمانروا کے اقتدارِ شاہانہ کی بقا و احترام مقدم رہے"۔ ( حوالہ مولانا مظہر علی کامل سابق صدر اتحاد المسلمین روزنامہ جنگ 14اگست 1982ء )۔ یہ نقطہ ٔ نظر مسلمانوں کی سیاسی خودکشی کا آغاز بنا اس لئے کہ
" مسلمان اقلئت میں تھے جو سیاسی برتری انہیں حاصل تھی وہ آبادی کی بنا پر نہیں بلکہ خاندانِ آصفیہ کی فرمانروائی اور اقتدار کی رہینِ منت تھی جس کے در پردہ انگریز کی مستقل غلامی کا اقرار بلکہ عہد تھا"۔
1939ء میں تلنگانہ کے علاقے میں کمیونسٹ تحریک نے جنم لیا جن کے قائدین میں مخدوم محی الدین جیسے رہنما و شاعر شامل تھے۔ ایک عرصہ تک یہ تنظیم کانگریس اور رضاکاروں کے درمیان ایک سمجھوتے کا راستہ نظر آئی لیکن بد قسمتی سے جلد ہی فرقہ پرست تنظیموں کا آلۂ کار بن کر رہ گئی اور بجائے حیدرآباد کی آزادی اور ہندوستان میں شمولیت کا پُر امن راستہ اختیار کرتی مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ بن گئی۔ کانگریس کے صدر راما نند تیرتھ نے اس کی مال اور ہتھیار سے مدد کی۔ رضا کار قدیم اسلحہ جیسے بھر مار بندوقوں ' لاٹھیوں اور تلواروں سے لیس تھے جب کہ فرقہ پرست کارندے جدید اسلحہ کے ساتھ تربیت یافتہ سابق فوجیوں پر مشتمل تھے ۔اگر چیکہ دونوں فریق ٹکراؤ کا راستہ اختیار کئےہوئے تھے لیکن فرقہ پرست ہمیشہ ایسے نشانوں پر حملہ کرتے ' قتل و غارت گری مچاتے جہاں رضاکار پہنچتے پہنچتے گھنٹوں بلکہ دن لگا دیتے نتیجہ میں فرقہ پرست اپنا کام کر کے فرار ہو چکے ہوتے اور رضاکار اپنے خونیں انتقام میں ان باقی ماندہ ہندوؤں سے بدلہ چکاتے تو جو اس قضیہ میں بے گناہ ہوتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ ان بے گناہوں کے ساتھ جو کچھ پھر بدلہ کی شکل میں پیش آتا اس کی ہندوستانی پریس میں تشہیر ہوتی ا ور ہندوستانی عوام اور فوج کے دلوں میں حیدرآباد کے ہندوؤں کی تائد میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھتے ۔
حیدرآباد سے کانگریس دشمنی کے اصل اسباب
فی الحقیقت حیدرآباد اور ہندوستان دونوں کی قیادتیں اپنے اپنے مقاصد سے خلوص رکھتی تھیں حیدرآباد یہ چاہتا تھا کہ ایک با وقار سمجھوتے کے ذریعہ ٔ فیصلہ ہو اور ہندوستان یہ چاہتا تھا کہ حیدرآباد مشروط طور پر بغیر کسی مراعات کا مطالبہ کرے ' الحاق کرے ۔ نہرو اور سردار پٹیل کی دور اندیش نگاہیں کسی اسٹیٹ کو مراعات دے کر حاصل کرنے کے وہ نتائج دیکھ رہی تھیں جو کہ آج کشمیر میں پیش آرہے ہیں۔ اس میں سردار پٹیل کی پالیسی میں صدیوں پرانی مرہٹوں کی مسلم دشمنی کا عنصر بھی نمایاں تھا جو کہ اور نگ زیب اور شیواجی سے شروع ہوتی ہے۔
دونوں جانب سے اپنی اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نظام آخری وقت تک بھی لارڈ ماؤنٹ بیاٹن سے حیدرآباد میں ملاقات چاہتے تھے۔ آخری صدرِ اعظم ( وزیرِ اعظم کے لئے صدرِ اعظم کی اصطلاح رائج تھی)۔ میر لائق علیکی مئی 1948ء میں دہلی میں جواہر لعل نہرو سے ملاقاتیں اور اس سے قبل کی مراسلت اور نظام کا جنرل چودھری سے اگریمنٹ یہ کام کے مطالعہ سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ حکومتِ حیدرآباد با وقار سمجھوتے کے ذریعۂ مسلۂ کا حل چاہتی تھی کیونکہ فوجی اعتبار سے پہلے سے ہی بے بس و بے یار و مددگار تھی دوسری طرف ہندوستان کی جانب سے مکمل معاشی Blockade ہو چکا تھا غذائی اجناس ' دوائں و پوسٹ و ٹیلیگراف وغیرہ سب کچھ ہندوستانی بندرگاہوں پر روک دیا گیا تھا حیدرآباد میں داخل ہونے والوں کے لئے ہندوستان کا ویزا حاصل کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ان حالات میں حیدرآباد کا آزادی کا مطالبہ کرنا اور منوانا خارج از امکان تھا۔
دوسری طرف جو مصلحت کار فرما تھی وہی آج الجیریا' مصر ' بوسنیا اور پنجاب وغیرہ میں نمایاں ہے کہ کمزور کا صفایا کرنے کے لئے اس کو تصادم پر مجبور کر دیا جا تا ہے تاکہ ظالم ہونے کا الزام سر پر نہ آئے اس کے لئے پریس پروپگنڈہ بنیاد پرستی جیسی اصطلاحیں (Arms Embargo , TADA, EITA,) جیسے قوانین کے ذریعئے مظلوم کو ظالم بنا کر قومی اور بین الاقوامی رائے کو ظالم کے حق میں ہموار کر دیا جاتا ہے یہی کچھ حیدرآباد میں ہوا۔ رضاکار تنظیم جو حقیقت میں فرقہ پرستی پر مبنی تھی لیکن فرقہ پرستی کے مقابلے میں وجود میں آئی تھی اس کو بہانہ بنایا گیا ۔ یہ گروہ آزاد نوجوان پر مشتمل تھا جو حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا۔ اس کو بہانہ بنا کر پورے حیدرآباد کو رضاکار تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا اس کے قائدین کی شعلہ بیا نی ہر دور میں بلند رہی جو کہ موافقین کے لئے جذباتیت کا سامان پیدا کرتی ہے اور مخالف کے لئے دھمکی کا خوف طاری کر دیتی ہے۔ اس وقت کے نازک حالات میں رضاکار قائدین کی تقریروں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ 6 اپریل 1948ء کو ہندوستان ٹائمز میں ایک فتنہ انگیز خبر شائع ہوئی کہ قاسم رضوی نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا عزم کیا ہے۔ اتحادالمسلمین نے تردید کی کہ اس قسم کی تقریر سرے سے ہوئی ہی نہیں لیکن تیر نکل چکا تھا جو اپنا کام کر گیا اور جواہر لعل نہرو کو پولیس ایکشن کا جواز مل گیا۔ 24 اپریل کو انہوں نے آل انڈیا کانگریس اجلاس میں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ حیدرآباد ہندوستان کے سینے پر ایک نا سور ہے اور الٹی میٹم دیا کہ الحاق یا جنگ دونوں میں سے کسی ایک کے لئے حیدر آباد تیار ہو جائے ۔ سردار پٹیل نے اتحاد المسلمین کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا اور ایک آزاد اسمبلی کے قیام کے لئے بھی سفارش کی۔
ہندوستان کا سخت گیر رویہ اس وقت کے کشمیر کے حالات کو بغور مطالعہ کر نے پر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ آزادی کے ایک سال کے اندر ہی 1948ء میں پاکستان سے جنگ چھڑ گئی حیدرآباد کو مراعات دے کر سمجھوتہ کرنے میں اس کو بھی پاکستان کی وہی پشت پناہی حاصل تھی جس سے خود ہندوستان 'پاکستان و کشمیر تینوں کو جو نقصانات ہوئے اور نصف صدی سے جاری ہیں اسباب حیدرآباد کے خلاف سخت گیر سلوک کو justify کرتے ہیں۔
1947 تا 1948ء ایک سال تک Stands till agreement کے ذریعۂ حیدرآباد پر ایکشن روکا گیا جس کی اہم وجہ یہ تھی کشمیری محاذ پر ہندوستانی فوجیں برسرِ پیکار تھیں اور حیدرآباد اور کشمیر دونوں کے کیسس اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں شامل تھے اس لئے مصلحت کا تقاضہ یہی تھا کہ حیدرآباد کے مسلئے کو ابھی اور مضبوط ہونے تک کسی قسم کی جنگ یا ایکشن سے گریز کیا جاے ۔ٔ اس دوران نظام نے ریاستِ نو پاکستان کو لاکھوں روپئے کی مدد کی اور اور اس کے قیام میں اہم رول ادا کیا مگر بحرحال اتنی رقم تو وہ دے نہیں سکتے تھے جو انگریزوں پر لٹا چکے تھے پر افسوس کہ نظام کی تقدیر میں یہی رہا کہ وہ جس پر اپنا مال لٹاتے وہ انہیں بچانے میں ناکام ہوتا۔ اس دوران نظام جن غلطیوں کا مسلسل ارتکاب کرتے رہے اس کا خمیازہ ناقابلِ اندازہ تھا جنرل ایدروس کا تقرر ' مرزا اسمعیل کا وزیرِ اعظم کے عہدے کے لئے انتخاب جن کی آمد کے ساتھ ہی نواب علی یاور جنگ اور زین یار جنگ جیسے غیر حیدرآبادی متعصب انسانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ نظام ایک طرف تو رضاکاروں سے حکومت کی برأت کا حکومتِ ہند کے سامنے اظہار کرتے رہے اور دوسری طرف 6 مئی 1947کوانہوں نے اپنی سالگرہ کے جشن میں جو کہ رضاکاروں کی طرف سے منایا گیا ہزاروں رضاکار نوجوانوں کو پریڈ کرنے کی اجازت دی۔ اب تصویروں کے ذریعہ ٔ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں تشہیر ہوئی کہ نظام اور رضاکار ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ حالانکہ افتضائے حقیقت ایسی نہیں تھی نظام ہندو سے زیادہ رضاکاروں سے مشکوک رہے۔
جب stand still اکریمنٹ پر ایمان داری سے عمل جاری نہ رہ سکا ہندوستان مسلسل حیدرآباد پر اگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا رہا اور نظام ہندوستان پر الزام لگاتے رہے حل کی نہ کوئی صورت تھی نہ کوئی ایسی شخصیت جو سمجھوتے کی راہ پیدا کر سکے۔ مہاتما گاندھی ایک قیمتی شخصیت تھے جو حیدرآبادی کانگریسی رہنماؤں کی امیدوں کا مرکز تھے لیکن سردار پٹیل کی ایما پر ان کو بھی انسانیت دوستی کے نتیجے میں گولی مار دی گئی
( حوالہ بلٹز The top 10 assassinations نومبر 1976)
حیدرآباد کی سخت ترین معاشی ناکہ بندی ہو چکی تھی ذرایعٔ حمل و نقل کے ساتھ ہی تیل پٹرول اور پینے کے پانی کے لئے کلورین بند ہو گئے شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔ دواؤں کا سلسلہ بہت پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔
فوجی چھیڑ چھاڑ کے واقعات شروع ہو گئےعثمان آباد کی چوکھی پر حیدرآباد کی ایمیگریشن اور ہندوستانی فوجیوں کی جنگ میں بے شمار سیاسی ہلاک ہوئے ۔ راست حملے کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات اور پاکستان کے کود پڑنے کا خطرہ تھا لیکن میجر جنرل چودھری کی My Secret Diary کے بموجب فروری 1948 ء میں منصوبہ کو قطیعت دے دی گئی۔ فوجی کاروائی کا نام " أپریشن پولو " رکھا گیا۔ نظام کے خاندان کی تذلیل کے لئے یہ نام چنا گیا تھا۔ کیونکہ آصفجاہی شاہزادے اور اُمرأ پولو کھیل کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ ماہر بھی تھے۔ ہزاروں روپیوں کی شرطیں بھی لگائی جاتیں ۔ جنرل چودھری اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ" 11 ستمبر 1948ء کو محمد علی جناح کا انتقال کر جانا افسروں اور جوانوں کے لئے ایک فالِ نیک ثابت ہوا۔ گاندھی جی پہلے ہی راستہ سے ہٹ چکے تھے۔ اب جناح بھی نہ رہے حملے کی زبردست تیاریاں شروع ہو گئں۔ ادھر لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نظام کو یقین دلا رہے تھے کہ نہرو حکومت ان کی اچھی طرح حفاظت کرے گی جبکہ نظام کی حیدرآبادی ناکہ بندی کے خاتمہ کی درخواست مسلسل حیلے بہانوں سے ٹالی جا رہی تھی۔ 13 ستمبر کو 4.30 بجے حیدرآباد کی 22 سمتوں سے ہندوستانی فوج داخل ہوئی اور شولا پور کی طرف سے اور دوسرے بیرہ واڑی کی طرف سے سخت ترین حملے رہے۔ حیدرآبادی فوجیں مسلسل پسپا ہوتی رہیں جس کے اکثر کمانڈر مسلمان تھے۔ چار دن تک مسلسل ہزارہا مسلمانوں کے مرنے کی اطلاعات آتی رہیں ورنگل' بیدر اور اورنگ آباد پر اندھدھند بمباری کے ذریعئے لاکھوں انسان خاک میں مل گئے یا پھر بے گھر ہو گئے۔ 16 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ پیش آنے والا تھا اور آیا بھی لیکن ہندوستان نے اس کو نظام حکومت میں چند فرقہ پرست افراد کے خلاف ایک پولیس ایکشن کا نام دے کر مزید وقت لے لیا۔
عجیب پولیس ایکشن تھا جنرل چودھری کی ڈائری کی تفصیلات کے بموجب پولیس کب نفری حسبِ ذیل تھی۔
1)۔ایک بکتر بند برگیڈ جس میں پونا ہارس تیسری کویلری اور سترویں ڈوگرا رجمنٹ کی نویں بٹالین شامل تھی۔
2)تین انفانٹری بٹالین کی تین رجمنٹیں۔
3)فیلڈ آرٹیلری کی تین رجمنٹ۔
4)Anti tank رجمنٹ۔
5)18th کویلری کا ایک ٹروپ۔
6)بکتر بند ڈویزن معہ ایک بکتر بند برگیڈ۔
7)170شرمن ٹینک۔
دوسری طرف جو فوج سامنے تھی اس کو ختم کرنے کے لئے چار گھنٹے کافی تھے۔ لیکن چار دن میں ہتھیار ڈال چکی تھی۔ Stand Still Agreement کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ تمام ممالک حیدرآباد کے معاملے پر ٓگے بڑھنے سے انکار کر چکے تھے۔
17 ستمبر کو جنرل چودھری نے حیدرآباد کے فتح ہوجانے کی دہلی کو اطلاع دے دی۔ نظام کی معیت میں ریڈیو اسٹیشن پہنچ کر انہوں نے نظام سے ایک ہی لکھا ہوا اعلان پڑھوایا کہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔ 17 اور 18 ستمبر کی شب وحشیوں کی عید کی رات تھی جہاں کوئی مسلمان نظر آتا ختم کر دیا جاتا ۔ کمیونسٹوں ' آریہ سماج اور ہندو مہا سبھا کے کارندوں نے فوجیوں کو ایک ایک مسلمان کے گھر اور مال کی نشاندہی کروائی۔ جی بھر کر لوٹا۔ عورتیں بے عصمت ہوئں ۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تفصیل سروجنی نائڈو اور مہاتما گاندھی کے نواسے گانڈھی جیسے ایماندار کانگریسیوں نے بیان کی ہے کہیں ان کی رپورٹیں آج بھی منوں بھر فائلوں کے نیچے پڑی ہونگی جس کے اوپر ہزارہا بھاگلپور و بمبئی جیسے فسادات کی رپورٹیں ہیں۔
جنرل چودھری لائق علی وزارت کی برطرفی اور لائق علی سمیت تمام وزرأ ' قاسم رضوی ' قائدینِ مجلس اتحاد المسلمین رضاکاران کی گرفتاری کا حکم دے دیا ۔ پرنس آف برائر جن کو لائق علی کے بعد وزارت کی تشکیل کا خواب دکھایا گیا تھا نشہ میں مخمور جنرل چودھری کے سامنے وزارت کی تشکیل کی دعوت کے انتظار میں جھک کر کھڑے تھے۔
آج کا حیدرآباد
ریاستِ حیدرآباد ختم ہو گئ لیکن پولیس ایکشن آ ج بھی جاری ہے۔ TADA کے نام ہزاروں مسلمان نوجوان قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار ہیں۔ کانگریس کی مسلم دشمنی کا حال یہ ہے کہ فرقہ پرست شیو سینا و آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے سرغنے مکمل آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ کئی ایک کو حکومت کی جانب سے سیکیورٹی حاصل ہے۔ دوسری طرف وہ نوجوان جو رشوت' چوربازاری' شراب بندی وغیرہ جیسی لعنتوں کے خاتمے کے لئے حکومت کے قوتِ بازو بن سکتے تھے کیونکہ فکرِ آخرت کا تصور ان کا سرماۂ ایمان تھا وہی نوجوان یا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یا پھر مختلف نا انصافیوں کا شکار ہو کر معاشی بد حالی سے دو چار ہیں۔
حیدرآباد و اطراف و اکناف میں ہر سال فسادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حیدرآباد میں تین فسادات بڑے پیمانے پر نظام آباد میں ایک اورنگ آباد میں دو بیدر ظہیرآباد وغیرہ تمام علاقوں میں ایک ایک دو دو بڑے فسادات ہو چکے ہیں تمام فسادات کی وہی رپورٹ ہے وہی اسباب و نتائج ہیں جو یکساں طور پر پولیس ایکشن کی کہانی دہراتے ہیں۔
حل
مسلمان اقلیت میں ہیں تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جہاں اقلیت نے اکثریت کے سر کاٹ کر حکومت یا امن حاصل کیا ہو۔ تصادم سے پرہیز کرتے ہوئے عوامی ربط افہام و تفہیم کے راستہ پر مسلمانوں کو گامزن ہونا چاہئے۔ یہ یقیناً بد قسمتی ہے کہ حالات مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں کہیں جذبات سے اور کہیں عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
توحید کے سچے پیغامبر کے سامنے ہر بڑے مشرک کی تلوار جھک جاتی ہے۔ مسلمان اگر دعوت کے راستہ کو اپنائں تو حضرت عمر ؓ جیسے سردارانِ قریش کی تاریخ آج بھی پلٹ سکتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس سوائے قران اور قرانی تعلیمات پر مبنی کردار کے اور کوئی ایسا ہتھیار نہیں جس کے بل بوتے پر وہ کوئی جنگ جیت سکیں۔اگر وہ کوئی ایسی اجتماعیت اختیار کریں کہ
1)۔جس کا مقصد دعوتِ دین ہو۔
2)۔جس کا سرمایہ علم و تربیت ہو اور افراد با کردار ہوں۔
3)۔جس کا دائرۂ کار علاقے ، مسلک اور زبان سے بالاتر ہو کر پوری انسانئت اور کم سے کم پورا ہندوستان ہو۔
4)۔جس کا عملی ڈھانچہ پورے ہندوستان میں موجود ہو۔
5)۔جس میں تمام معاملاتِ زندگی کو دین کا حصہ سمجھا جاتا ہو۔
6)۔جس میں شورائیت کا نظام ہو شخصیت پرستی شرک و بدعات سے اجتناب ہو۔
ایسی اجتماعیت نہ صرف وقت کا تقاضہ ہے بلکہ دین کے فرائض میں داخل ہے ۔ اگر موجودہ تمام جماعتوں میں ان معیارات پر پوری یا کم سے کم ایک حد تک اترنے والی اگر کوئ جماعت موجود ہو تو مسلمان اس میں شریک ہو جائیں۔اگر کل مسلمان آبادی کا صرف 10% حصہ بھی ایسی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو آج بھی مسلمانوں کی تاریخ ایک بار پھر دوہرائی جا سکتی ہے۔
و لا تہنو و لا تحزنو و انتم الاعلون ان کنتم مومنین
آل عمران آیت 39۔
***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 00966504627452
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 00966504627452
علیم خان فلکی |
The Story of Fall of Hyderabad Deccan - By: Aleem Khan Falaki (jeddah).
سانحہ سقوط حیدرآباد / سقوط حیدرآباد کی کہانی
سانحہ سقوط حیدرآباد / سقوط حیدرآباد کی کہانی
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںزوال حیدرآباد-
جواب دیںحذف کریںزوال حکومت آصفجاہی
زوال اقتدار عثمان علی خان
ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام
عنوان زوال حیدرآباد ہی عجب سا لگتا ہے فاضل مضمون نگار کا انداز دیوانکانہ گفتگو کا سا ہے
جو تفصیل بیان کی گئی ہے بے ربط سی ہے-
انگریز کے ہندوستان چھوڑنے سے جو تبدییلی خلاء اور نئے مقتدر پیدا ہونے تھَ یا ساری دنیا میں ہی جو تبدیلیاں واقع ہو رہی تھین وہ ہندہستان میں کس قسم کی سیاسی تبدیلی لائنگے اور اسکا عام مسلمان کی زندگی پر کیا اثر ہوگا- نہ اس وقت کے مسلمانون کہ اندازہ تھا نہ ہی آجکے مسلمانوں کو اسکا اندازہ ہے-
jo kom halat k sat ap na ap ko
حذف کریںTo me at least "Hyderabad" is not just a name, geographical entity or a political definition, it is rather manifestation of thriving life on its own. Osmania University, Osmania Hospital, Public library, Char Minar and Falak Numa etc. besides being buildings, amenities and facilities are the symbols of concerned people's resolve and determination to lead a dignified and glorified life. Hyderabad thus is a cornerstone of distinct, specific and unique civilization, culture, manners and ethos. It has never been a part of greater India nor a 'province' of any state. Hyderabad on its own has been a fully fledged country and its people are altogether a discrete 'nation' with unparalleled characteristics. The fact was ingeniously elaborated by Fani Badayuni thus: Fani Deecan mein a'akay yeh Oqdah khula kay hum
جواب دیںحذف کریںHindustan mein rehtay haeinHindustan say do'ur!
Before we go any further, let us examine the economic realities existing in the Mamlakath e A'asfiyah Islamiah Hyderabad Deccan. Bulk of the Muslim population had minimum share in agriculture, industry, professional services, trade, commerce and private sector engagements which make almost 95% of the economic activities, whereas Muslims were content and satisfied with about 10 % public sector employments. People were living in harmony, conciliatory and relaxing atmosphere. Govt. never indulged itself in discrimination, oppression or suppression of any community. Nizam's state was one of the most advanced, progressive and prosperous sovereignty in South Asia. According to Muslim traditions Hyderabadis practiced "brain drain" and attracted best and chosen minds and brains from other parts of the sub-continent to come and settle down in the state and contribute towards the advancement of the country. Prevailing prosperity, peace and affability was not to the liking of the people outside Hyderabad and they tried to exploit the ignorant and belligerent portion of the majority community in the name of religion and encourage the sentimental youths to join the "National Guards" created by the Union government with ill intentions. Patriotic, brave loyal and faithful Hyderabadis came out to defend their country and joined the Razakar movement. (to be continued).
بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔لیکن ایک بہت اہم شخصیت کا ذکر پورے مضمون میں کہیںنظرنہیں آیا ؟ جو وفد نظام حیدرآباد نے لیگ آف نیشنس میں بھیجی تھی اس کے صدر 'ڈاکٹر محمد حمید اللہ'۔
جواب دیںحذف کریںThanks for this point out. I will ask the writer of this article. and yeah google search inform us that .... Dr Hamidullah was appointed a delegate by the Nizam to represent the state at the League of Nations.
حذف کریںشکریہ۔ ڈاکٹرمحمدحمید اللہ اور لیگ آف نیشنس کے بیچ جو تبادلہ خیال ہوا تھا وہ بھی کہیں منظر عام پر نہیں آیا۔ سقوطِ حیدرآباد کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان کی شہریت اختیار نہیں کی پیرس میں ایک 'اسٹیٹ لیس سیٹیزن' بن کر رہنا پسند کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا ذکر یہاں اس لیے بھی اہم ہوگا کہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ سلطنت آصفیہ حیدرآباد کے آخری شہری تھے۔
حذف کریںتاریخ دکن پر دو تین کتابیں موجود ہیں۔ میں آپ کے بتائے ہوئے موضوع سے متعلق مواد ان کتب میں تلاش کر کے دیکھتا ہوں۔
حذف کریںویسے ڈاکٹر صاحب کا ایک اور کارنامہ تاریخ اسلام میں یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ یعنی : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد حضرت ہمام ابن منبہ کے صحیفے کی دریافت اور اس کی تدوین۔
سقوط حیدرآباد از ڈاکٹر عمر خالدی اور زوالِ حیدرآباد از محمد مظہرالدین ۔ ان دونوں کتابوں میں تو ڈاکٹر حمید اللہ کا کہیں ذکر نہیں۔ زوالِ حیدرآباد میں بس اس وفد کا ذکر ہے جو لیگ آف نیشنس میں بھیجی گئی تھی۔ لیگ آف نیشنس کا کیا خیال تھا حیدرآباد کے تعلق سے اس کا ذکر کہیں نظر نہیں آیا۔ کسی اور کتاب میں اگر مل جائے تو ضرور بتائیں۔
حذف کریںجی بے شک ڈاکٹر صاحب کے بہت احسان ہیں ملت اسلامیہ پر۔ صحیفہ ہمام بن منبہ، قرآن الکریم کا فرینچ ترجمہ ، فرینچ زبان میں سیرۃ النبی، اور بھی بہت خدمات رہی ہیں آپ کی۔
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںkya ryasat kashmeer main bhe musalman aqliat main thay, Kia yay sab kangrasi ledran or mount batan ke sazish nahee the....? to deprive the muslims of subcontinant from their legal right? without refrundam how could we say that what was the openion/wish of people of several states?
جواب دیںحذف کریںfull informaic article about history of nazam-e-Hadarabad with creadble references.
جواب دیںحذف کریںNadeem Rehman Malik, Thank you for your kind appreciation.
حذف کریںڈاکٹر حمید الله جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے طالبعلم تھے
جواب دیںحذف کریں