نصیر الدین شاہ فلم کرما سے کیوں ناخوش رہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-18

نصیر الدین شاہ فلم کرما سے کیوں ناخوش رہے؟

naseeruddin-shah
نصیر الدین شاہ (پیدائش: 20/جولائی 1950ء ، بارہ بنکی، اترپردیش)
آرٹ فلموں سے کمرشیل فلموں کی طرف راغب ہونے والے ممتاز اداکار فنِ اداکاری میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ جنون، سپرش، آکروش، البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے، امراؤ جان اور بازار جیسی فلموں سے اپنی سنجیدہ اداکاری کا لوہا منوانے والے اس ممتاز اداکار نے اپنے دوسرے دور میں معصوم، اردھ ستیہ، کرما، تری دیو، سر، مہرہ سے ڈرٹی پکچرز اور ڈیڑھ عشقیہ تک ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
1988ء کے ابتدائی مہینوں میں جب وہ کمرشیل فلموں میں اپنی اداکاری کی پہچان بنا رہے تھے، مشہور فلمی ماہنامہ "شمع" کے شمارہ اپریل:1988 میں ان کا ایک مختصر مگر دلچسپ انٹرویو شائع ہوا تھا، جو یہاں پیش خدمت ہے۔

نامور ہدایت کار رمیش سپی نے 1987ء میں اپنی فلم "زمین" کا آغاز کیا تھا جس میں ونود کھنہ، سنجے دت، رجنی کانت کے ساتھ نصیرالدین شاہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ بعد میں کچھ اختلافات کے باعث نصیر الدین شاہ نے یہ فلم چھوڑ ڈالی۔ ویسے بھی یہ فلم نامکمل رہنے کے سبب ریلیز نہ ہو سکی تھی۔


سوال:
آپ نے "زمین" جیسی بڑی فلم صرف ایک "وِگ" کی وجہ سے چھوڑ دی۔ اس سلسلے میں بہت سی کہانیاں سنی گئی ہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ اصل کہانی کیا ہے؟
جواب:
میرے ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ کمرشل فلموں میں کام کرنا ہے تو اپنا رول مت سنو، صرف یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کس پروڈیوسر اور کس ڈائرکٹر کے ساتھ کام کرنا ہے؟ مجھے اپنے دوست کا یہ مشورہ اچھا لگا۔ اس سے پہلے کمرشل فلموں کرما، غلامی اور مثال میں اپنا رول سن چکا تھا مگر جب فلمیں مکمل ہوئیں تو مجھے احساس ہوا کہ ایسی فلموں میں کام کرنے سے پہلے اپنا رول سننا کوئی ضروری بات نہیں۔ یہ تو ڈائرکٹر کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ آپ کا رول کیا سے کیا کر دے۔
رمیش سپی کے ساتھ کام کرنے کی مجھے خواہش تھی۔ میں نے کہیں سنا کہ فلم "زمین" میں نانا پاٹیکر جو رول کر رہا تھا وہ اس نے چھوڑ دیا ہے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ یہ رول حاصل کرو، مگر میں نے منع کر دیا۔ کچھ دن بعد رمیش سپی نے مجھے اس رول کے لیے خود بلایا اور مجھ سے کہا کہ ایک نیگیٹو رول ہے۔ میں اس سے پہلے دو تین فلموں "مرچ مسالہ"، "بےزبان" اور "حادثہ" وغیرہ میں ایسے رول کر چکا تھا اور یہ رول کر کے مجھے خوشی ہوئی تھی۔ میں نے "زمین" کے لیے ہاں کہہ دی۔ صرف یہ سوچا کہ رمیش کی فلموں میں ویلن کے رول ہمیشہ اچھے اور متاثر کن ہوتے ہیں، اس میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ایک دن کی شوٹنگ کے بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس رول میں وہ کچھ نہیں ہے جو میں نے سوچا تھا۔ جب سے میں نے یہ فلم چھوڑ دی تو مجھ پر الزام لگایا گیا کہ جس وقت سری دیوی ریہرسل کر رہی تھی میں میگزین پڑھ رہا تھا۔ اب آپ بتائیے کہ ہیروئین ڈانس کی ریہرسل کرے تو کیا ضروری ہے کہ ساتھی اداکار صرف ریہرسل دیکھتا رہے؟ خدا جانے ریہرسل کے دوران وہ مجھ سے کیا چاہتے تھے؟
معاملہ وِگ کا بھی تھا۔ جو وگ انہوں نے میرے لیے بنوائی تھی وہ مجھے پسند نہیں تھی اور جو میں نے بنوائی اسے انہوں نے ناپسند کیا۔ اس کے باوجود میں نے کہا کہ: 'آپ باس ہیں، اگر کہیں گے تو آپ کی پسند کی وگ پہن لوں گا مگر سچی بات یہ ہے کہ اس وگ کو پہننا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ یہ وگ پہن کر میں پوری فلم میں دکھی رہوں گا'۔
شاید رمیش کو میری بات بری لگی۔ رمیش نے مجھ سے کہا: 'آگے چل کر کوئی پرابلم نہ ہو، ایسا سوچیے'۔ میں نے جواب دیا: 'میں نے آج تک سو (100) فلموں میں کام کیا ہے، سب سے پوچھیے کہ میں نے کس کا کتنا نقصان کیا ہے؟'
میں سمجھ گیا کہ میری بات سے انکار کیا جا رہا ہے۔ لہذا میں نے وگ اتار کر پھینکی، رمیش سے ہاتھ ملایا اور چلا آیا۔ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میں رمیس سپی کے ساتھ کام نہ کر سکا مگر اس کی خوشی بھی ہے کہ اس وگ کے ساتھ میں نے ایکٹنگ نہیں کی۔


سوال:
"کرما" آپ کی ایک کامیاب ترین فلم تھی مگر بعد میں آپ اس فلم سے بھی ناخوش دکھائی دئے، اس کی کیا وجہ رہی؟
جواب:
"کرما" سے اس لیے ناخوش رہا اور ناخوش ہوں کہ اس میں بھی کچھ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پوری فلم میں میں صرف چیختا چلاتا رہا۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے سائن کرنے سے پہلے سبھاش گھئی نے صرف میری ایک فلم "جنون" دیکھی ہوگی، میری کوئی دوسری فلم نہیں، ورنہ وہ مجھے 'کرما' میں یہ رول نہیں دیتے۔ انہوں نے 'جنون' میں مجھے جیسا دیکھا ویسا ہی 'کرما' میں کرایا۔ البتہ اس فلم سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ میں کمرشل فلم کے ذریعے عام فلم بینوں کے سامنے آیا۔ میرے کیرئر کے لیے تو یہ فلم فائدہ مند رہی لیکن اس میں میرا رول دلچسپ نہیں تھا۔ جن فلم بینوں نے مجھے پہلی بار 'کرما' میں دیکھا انہوں نے مجھے ضرور پسند کیا ہوگا۔ جو میری فلمیں باقاعدگی سے دیکھتے رہتے ہیں انہیں وہ رول اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آخر تم کب تک پردۂ فلم پر چیختے چلاتے رہو گے؟ اگر میرے دل کی بات پوچھیں تو مجھے 'کرما' میں ایکٹنگ کرنے میں کوئی مزا نہیں آیا۔


سوال:
آپ ہمیشہ آرٹ فلموں میں کام کرتے تھے، پھر کمرشل فلموں میں آنے کی کیسے سوجھی؟
جواب:
میں تو ہمیشہ سے کمرشل فلموں میں آنا چاہتا تھا۔ میرٹھ کے قریب سردھنہ جہاں کا میں رہنے والا ہوں، یو۔پی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ میری پہلے دن سے خواہش تھی کہ میرا کام وہاں تک پہنچے جو آرٹ فلموں کے ذریعے وہاں تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ 'بان مریادا' چاہے کیسی بھی فلم ہو مگر یہ فلم وہاں پہنچی۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری کون سی فلم پچاس ہفتے چلی؟ شاید آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ میں نے 'کرما' جیسی کامیاب ترین فلم آج تک پوری نہیں دیکھی۔ یہ بات میں نے سبھاش سے کہی بھی تھی کہ تم نے اپنے دسترخوان پر اتنے بہت سے کھانے سجائے ہیں کہ میں ان سب کو کھاؤں تو شاید بدہضمی ہو جائے۔ اسی طرح "چکرا" باکس آفس پر کامیاب ہوئی تھی مگر میں اس سے مطمئن نہیں تھا اور میں اسے اپنی اچھی فلم بھی نہیں کہتا۔


سوال:
فلم "جلوہ" (ریلیز: جنوری 1987) میں آپ کمرشل فلموں کے ہیرو کے طور پر آئے تھے، اس فلم کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب:
حالانکہ 'جلوہ' کو آل انڈیا پیمانے پر کامیابی نہیں ملی مگر اس کے باوجود انڈسٹری نے مجھے ہیرو کے طور پر ضرور تسلیم کر لیا اور مجھے اس فلم سے صحیح معنوں میں بہت فائدہ ملا۔ کسی زمانے میں مجھے چیخنے چلانے والے رول ملتے تھے۔ 'جلوہ' کے بعد فائٹ چاہتے ہیں۔ اب ایسی بھیڑ چال کو کیا کہا جائے؟


سوال:
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب آپ بھی بھیڑ میں شامل ہو گئے؟
جواب:
جی بالکل نہیں۔ 'زندہ جلا دوں گا'، 'ایکشن'، 'مالا مال'، 'کھوج' اور 'ہیرو ہیرا لال' میری وہ فلمیں ہیں جن میں مختلف قسم کے رول ادا کر رہا ہوں۔ کسی میں کامیڈی ہے، کسی میں سنجیدہ رول ہے، کسی میں نوجوان بنا ہوں تو کسی میں بوڑھا۔ میری یہ فلمیں ریلیز ہونے دیجیے، کسی کو شکایت نہیں ہوگی کہ میں بھی بھیڑ میں شامل ہو کر ایک جیسا کرنے لگا ہوں۔


سوال:
آپ پہلی بار ششی کپور کی بیٹی سنجنا کے ساتھ 'ہیرو ہیرا لال' میں ہیرو کا رول ادا کر رہے ہیں؟
جواب:
فلم کے تعلق سے تو یہ بات درست ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سنجنا نے پہلی بار اسٹیج پر بھی میرے مقابل کام کیا تھا۔ ڈرامہ کا نام "Arms and the man" تھا۔ اس ڈرامہ میں جو رول سنجنا نے کیا تھا، انتقال سے پہلے ان کی ماں جینیفر (وفات: ستمبر 1984) کیا کرتی تھیں۔ ششی کپور اپنی بیٹی کو ایکٹنگ کرتے دیکھنے آئے تھے اور اسی شو کے بعد باپ بیٹی کا ملاپ بھی ہوا تھا۔ فلم 'ہیرو ہیرا لال' میں میرا کیرکٹر یہ ہے کہ وہ فلموں میں ہیرو کی زندگی کو اپنی نجی زندگی میں بھی لے آتا ہے حالانکہ یہ تھری وہیلر چلاتا ہے، بڑا ہی دلچسپ رول ہے۔


سوال:
گلزار کے ٹی وی سریل 'مرزا غالب' میں آپ غالب کا رول ادا کر رہے ہیں، غالب کی بیگم کا رول کون کر رہی ہیں؟
جواب:
(مسکراتے ہوئے:) تنوی اعظمی۔


سوال:
آپ کی سب سے بڑی پہچان آرٹ فلموں سے ہے، اس سمت میں کیا کر رہے ہیں؟
جواب:
ایسی تین فلموں 'رہائی'، 'پسٹن جی' اور 'وسندھرا' میں کام کر رہا ہوں۔ یہ میرا قصور نہیں کہ ایسی فلموں کی تعداد کم ہو گئی ہے اور اس قسم کی فلمیں بنانے والے اگر اب ٹی وی سیرئیل بنانے لگیں تو اس میں میرا کیا قصور یا غلطی؟


سوال:
آپ نے فلم 'مالا مال' میں سنیل گواسکر کے ساتھ کام کیا ہے، انہیں کیسا پایا؟
جواب:
میں سنیل کا پرستار ہوں۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے سنیل کا عہد دیکھا ہے، اس کے کھیل سے لطف اندوز ہوا ہوں۔ میں اپنے پوتوں کو بتا سکتا ہوں کہ میں نے سنیل کو دیکھا ہے اور سنیل نے میرے ساتھ ایکٹنگ بھی کی ہے۔ جب مجھے بتایا گیا کہ مجھے فلم 'مالا مال' میں سنیل کے ساتھ کرکٹ کھیلنا ہے، نصیر تم کیا کرو گے؟ تو میرا جواب تھا سنیل کو بھی تو میرے سامنے ایکٹنگ کرنا ہے، وہ کیا کریں گے؟
سنیل گواسکر نے ہمارے ساتھ دو دن گزارے اور ان کے برتاؤ سے اندازہ ہوا کہ انسان چاہے مقبولیت اور شہرت کی کتنی ہی بلندیوں کو چھو لے، کتنے عالمی ریکارڈ قائم کر دے، اگر وہ بنیادی طور پر اچھا انسان ہے تو غرور یا گھمنڈ جیسی کوئی چیز اسے چھو نہیں سکتی۔ یہی حال سنیل کا ہے۔ کاش ہماری انڈسٹری کے لوگ سنیل جیسی زندگی جینا سیکھیں۔


نصیر الدین شاہ کے چند یادگار فلمی نغمے:
ترچھی ٹوپی والے، او بابو بھولے بھالے (فلم: تری دیو - 1989)
سن سن سن برسات کی دھن سن (فلم: سر - 1993)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: اپریل 1988

Naseeruddin Shah, an interview from April-1988 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں