سقوط حیدرآباد کے اسباب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-29

سقوط حیدرآباد کے اسباب

سقوط حیدرآباد یعنی سلطنت آصفیہ (جو کہ ہندوستان میں مسلم اقتدار یا سلطنت مغلیہ کی آخری نشانی تھی) کے خاتمے کے 61 برس بعد بھی حسّاس دل والوں (خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہوں، چاہے انہوں نے شاندار آصفی دور دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو) کا یہ حال ہے کہ حیدرآباد، آصفی سلطنت، نظام اور "ممالک محروسہ سرکار عالی حیدرآباد" کا نام یا ذکر پڑھ و سن کر ہی نہیں بلکہ سوچ کر ہی لگتا ہے کہ جیسے سینے پر کسی نے ایک تیر مارا ہو اور ہائے ہائے کی صدا بلند ہو رہی ہو۔ تاہم ایسے بھی بندگانِ خدا ہیں جن کے نزدیک یہ ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس پر کسی قسم کے ملال یا رنج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ حلقہ ¿ فکر ہے جس کے نزدیک مسلمانوں کے عروج و زوال کی کوئی اہمیت تو دور کی بات ہے ان کے نزدیک مسلمانوں کے ملّی تشخص کے تعین و تحفظ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اس مکتب فکر سے وابستہ افراد کے لئے مسلم اقتدار کے حوالے سے آصف جاہی سلطنت کی اہمیت و قدر و قیمت، اسلام، اسلامی تہذیب اور اردو زبان کے لئے آصف جاہوں کی خدمات آصف جاہی دور کی معاشی آسودگی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی حیدرآباد کی منفرد تہذیب جس پر اسلامی اثرات نمایاں تھے اور آصف جاہی سلطنت سے وابستہ مسلم مفادات اور اردو کی ترقی و فروغ کے اسباب وغیرہ) کا وجود یا خاتمہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ ان بے حس افراد کے لئے سقوط حیدرآباد کوئی المیہ یا سانحہ نہیں ہے۔ بلکہ سقوط حیدرآباد کے ذکر کو وہ ماحول کو کشیدہ کرنے کا سبب مانتے ہیں۔ شکر کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے اس قسم کی منفی سوچ رکھنے والوں کی تعداد قلیل ہے ورنہ نہ صرف مرحوم سلطنت آصفیہ کے حدود میں رہنے والے مسلمانوں بلکہ ملک بھر کے مسلمانوں اور ملک سے باہر حیدرآباد کے ماضی سے واقف مسلمانوں کے لئے یہ ایک ایسا سانحہ، ایک حادثہ، ایک المیہ ہے‘ جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔اس موقع پر سقوط حیدرآباد کے اسباب پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ حیدرآباد کے سقوط کے اسباب اور وجوہات ملک کی آزادی سے قبل اور بعد سقوط حیدرآباد (17/ ستمبر 1948ئ) کے واقعات تک محدود نہیں ہےں بلکہ آصف جاہ اول کی رحلت کے بعد سے ہی آصف جاہ اول کے جانشینوں نے سلطنت آصف جاہی کے استحکام کے اقدامات کے ساتھ ہی انگریزوں سے تعلقات قائم کرکے اپنی سلطنت کی جڑوں کو کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ آصف جاہ اول کے جانشینوں میں ناصر جنگ، اور صلابت جنگ نے تخت و تاج کے حصول کے لئے جو جنگیں لڑیں اس میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کو شامل کرکے ناقابل بیان غلطی کی تھی۔ حالانکہ آصف جاہ اول کے وقت انگریزوں نے سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کردیا تھا لیکن یہ آصف جاہ اول کا تدبر اور فراست تھی کہ ان کے دور میں انگریز کوئی گل نہ کھلا سکے لیکن آصف جاہ کے فرزندوں ناصر جنگ اور صلابت جنگ نے انگریزوں کی مدد حاصل کی۔ آصف جاہ دوم نظام علی خاں نے انگریزوں کو نہ صرف جنوبی ہند کی اہم سیاسی طاقت بنا دیا بلکہ انگریزوں کے لئے سارے ملک پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کی۔ آصف جاہ دوم سے زیادہ ان کے درباری انگریزوں کے ہم نوا تھے۔ صلابت جنگ اور نظام علی خاں نے نہ صرف وسیع علاقے (بشمول ساحل سمندر اور بندرگاہیں) انگریزوں کے حوالے کردیں بلکہ 1800ءمیں نظام دوم نے Subsidiary Alliance یا "عہد معاونت" کے ذریعہ حیدرآباد کی آزاد حیثیت بھی ختم کروا دی آصف جاہوں نے انگریزوں کو اپنا محافظ تو بنا دیا لیکن انگریزوں نے کبھی ان کا ساتھ نہ دیا ملک کی آزادی کے بعد جب آصف سابع نے برطانوی حکومت کی دی ہوئی آزادی کا فائدہ اٹھانا چاہا تو برطانوی حکومت کی دی ہوئی آزادی سے محروم کرنے کے لئے انگریز وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آزادی کی جگہ حیدرآباد کو ہندوستان سے الحاق کے لئے مجبور کیا۔ اور برطانوی حکومت اپنے "یار وفادار" کو یکسر بھول گئی آصف جاہی حکمرانوں کی انگریز پرستی ہی ان کے زوال کا اہم محرک ثابت ہوئی۔ٹیپو سلطان کا ساتھ نہ دینے کی ناقابل معافی غلطی کے بعد آصفجاہ پنجم افضل الدّولہ نے 1857ءکی جنگ آزادی کے وقت بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اس بار سالار جنگ اول انگریزوں کے کام آئے تھے اس طرح کبھی میر عالم، کبھی چندر لال، کبھی سالار جنگ اور آخر میں علی یاور جنگ، زین یار جنگ اور ہوش یار جنگ نے نظام کے دربار میں رہ کر حکومت ہند کے مفادات کی حفاظت کی تھی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران آصف سابع نے جو مدد برطانوی سرکار کی کی تھی وہ برطانیہ پر بہت بڑا احسان تھا لیکن انگریزوں نے نہ صرف احسان فراموشی کی بلکہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانونِ آزادی ہند کے تحت جب تمام دیسی ریاستیں اپنے مقام پر واپس ہوگئی تھیں تو وہ علاقے جو مختلف معاہدات اور بہانوں سے برطانوی ہند نے ریاستوںسے چھین لئے تھے وہ واپس کرنا چاہئے تھا۔ اس طرح حیدرآباد کو سریکا کولم، راجمندری ، ایلورو، مچھلی پٹنم ، نظام پٹن، گنٹور، کڑپہ، کرنول، بلاری، اننت پور اور برار کے اضلاع واپس ملنے چاہئے تھے لیکن ایسا نہ کیا جانا صریحتاً دھاندلی ہے۔انگریزوں نے جو کیا سو کیا لیکن اس تعلق سے حضور نظام اور حکومت حیدرآباد نے بھی برطانوی حکومت پر دباو ¿ نہیں ڈالا۔ کیا تو صرف اتنا کیا کہ 9/ جولائی 1947ءکو حضور نظام نے حکومت برطانیہ کو تاج برطانیہ کے نمائندے کے ذریعہ اپنے مو ¿قف اور دولت مشترکہ میں شرکت کی خواہش کے بارے میں ایک مکتوب روانہ کیا تھا لیکن دہلی سے یہ خط لندن نام نہاد "دفتری غلطی" کے سبب روانہ ہی نہیں کیا گیا۔ حضور نظام نے کئی ماہ تک اس خط کے جواب کا انتظار کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حضور نظام کے نمائندے اور خاص طور پر حضور نظام کے دستوری و قانونی مشیر سر والٹر مانکٹن کو اپنا نمائندہ بناکر لندن بھجواتے۔ قطب الدین عزیز نے اپنی مشہور کتاب Murder of A State (مرڈر آف اے اسٹیٹ) میں لکھا ہے کہ جب تاج برطانیہ نے حضور نظام کو اپنے "اقتدار اعلیٰ" سے آزاد کر دیا تھا تو پھر نام نہاد "پروٹوکول" کی پابندی ضروری نہ تھی بلکہ پروٹوکول ہی ختم ہو چکا تھا لیکن اگر انگریزوں نے نظام سے وفا نہیں کی تو خود نظام نے بھی "اپنی وفاو ¿ں کا صلہ" مناسب اور مو ¿ثر انداز میں نہیں مانگا اور یہ ذمہ داری بڑی حد تک حضور کے درباریوں اور خاص طور پر علی یاور جنگ کی تھی جو حضور نظام کے دستوری و قانونی مشیر تھے۔ مگر علی یاور جنگ کو حضور نظام کے مفادات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ حضور نظام کو لارڈ ماونٹ بیٹن پر بڑا بھروسہ تھا مگر یہ حضور نظام کی خوش فہمی و خوش گمانی تھی جو بے حد مہنگی ثابت ہوئی۔حضور نظام نے اعلان آزادی تو کر دیا لیکن آزاد رہنے کی کوئی تیاری نہیں کی تھی حتیٰ کہ فوج کے سربراہ حبیب العید روس تھے۔ جن کی نا اہلی اور فوج کی پیشہ ورانہ قابلیت سے محرومی کی خاصی شہرت تھی اس بڑ بولے جنرل نے متعدد بار حضور نظام، وزیر اعظم لائق علی اور مجلس قائد سید قاسم رضوی کو یقین دلایا تھا کہ اگر ہندوستان سے جنگ ہو تو حیدرآبادی افواج کم از کم تین ماہ مقابلہ کر سکتی ہیں اور یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ تین ماہ میں تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ بندی کروا دے گی۔ علاوہ ازیں عید روس کی وفاداری ان کی صلاحیت کے ساتھ انتہائی مشکوک بتائی جاتی تھی۔ سقوط حیدرآباد کے ضمن میں جس سازش کا ذکر کیا جاتا ہے (جس کی تفصیلات اور اہم کردار ہنوز راز میں ہیں) اس سازش کا عید روس بلاشبہ ایک اہم کردار تھے۔ حیدرآبادی افواج کا عید روس کی زیر کمان رہنا سقوط کی ایک اہم وجہ ہے۔آزادی کے فوراً بعد کشمیر پر پاکستان کے حملے کی وجہ سے، جوناگڑھ پر ہندوستانی افواج نے قبضہ تو کر لیا تھا لیکن پاکستان کی جانب جوابی کارروائی کا خطرہ برقرار تھا نیز دیگر امور میں بھی ہندوستانی حکومت دباو ¿ کا شکار تھی یہ ایسا وقت تھا جبکہ حیدرآباد ہندوستانی حکومت کی مشکلات کا فائدہ اٹھاکر "معاہدہ انتظامیہ جاریہ" کی جگہ اسی انداز اور شرائط کے تحت مستقل معاہدہ کر سکتا تھا لیکن تین تا ساڑھے تین ماہ وقت ضائع کرکے جو عارضی معاہدہ ایک سال کے لئے کیا گیا اس مدت میں وفد کے انتخاب اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے سبب مذاکرات کرکے جو فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا وہ اٹھایا نہیں جا سکا۔معاہدہ انتظامیہ جاریہ کی وجہ سے حیدرآباد کو جو مہلت ملی تھی اس کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ حکومت ہند اپنی شرائط پر ریاست کا انضمام چاہتی تھی جبکہ حیدرآباد مراعات کا طالب تھا۔ مذاکرات کی کامیابی کی توقع پر خاصہ قیمتی وقت ضائع کیا۔ اسی دوران چند بھیانک غلطیاں بھی ہوئیں۔کمانڈر عید روس کے علاوہ حیدرآباد کے دہلی میں ایجنٹ جنرل زین یارجنگ جیسی شخصیت تھی جن کو حکومت حیدرآباد ، حیدرآبادی عوام اور حضور نظام کے مفادات سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کی وفاداری ہندوستان سے وابستہ تھی وہ حکومت ہند کو حیدرآباد کی خبریں اور اہم راز فراہم کرتے تھے اور حیدرآباد کی حکومت اور نظام کو الگ الگ گمراہ کن رپورٹس دیا کرتے تھے دہلی میں ان کی برقراری حیدرآباد کے مفادات کے لحاظ سے شدید نقصان دہ تھی۔ نہ جانے کیوں ان کو برداشت کیا گیا۔
دوسری جانب حیدرآباد میں مقیم ہندوستان کے ایجنٹ جنرل کے ایم منشی نے اپنی قیام گاہ کو حیدرآباد کے خلاف سازشوں اور جاسوسی کا اڈہ بنا لیا تھا حضور نظام کے درباری مثلاً ہوش یار جنگ اور مہدی جنگ منشی سے مل کر خفیہ اطلاعات پہونچاتے، حکومت حیدرآباد نے منشی کی سرگرمیوں پر گہری نظر نہیں رکھی۔مذاکرات کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ سے رجوع ہونے کا فیصلہ اگست 1947ءمیں کیا گیا جبکہ مذاکرات جون 1947 سے قبل ٹوٹ چکے تھے اقوام متحدہ سے رجوع ہونے میں تاخیر بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ حیدرآباد جنگ ہار چکا تھا۔ حیدرآباد کے وفد نے جنگ بندی پر اصرار نہ کرکے بھاری غلطی کی کیونکہ حیدرآباد کی افواج اس قدر جلد ہتھیار ڈال دیںگی یہ توقع کسی کو نہ تھی۔سقوط حیدرآباد کا ایک اہم سبب فوجی کمزوری بھی تھا جنگ عظیم دوم کے بعد جب انگریزوں کا ہندوستان کو چھوڑ دینا طئے تھا تو یہ وہ وقت تھا جبکہ حیدرآباد کو اپنی افواج کو طاقتور بنانا چاہئے تھا لیکن 1945ءتا 1947ءکے اہم وقت میں اس جانب توجہ نہیں گئی اس اہم وقت میں سر مرزا اسماعیل جیسا شخص حیدرآباد کا وزیراعظم تھا جو ہتھیار خریدنے، فوج کو مضبوط بنانے کے ذکر پر کہا کرتے تھے کہ "بھلا حیدرآباد کو کس سے جنگ کرنی ہے!"
قطع نظر اس کے کہ حیدرآباد کو آزاد رہنے کا حق تھا یا نہیں؟ حضور نظام کا یہ فیصلہ کہ وہ ہندوستان میں شریک نہ ہوکر آزاد رہے گا کس حد تک معقول اور مناسب تھا؟ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے پہلے نصف بلکہ 1920ءتا 1947ءکے عرصے میں حیدرآباد حکومت شاہی خاندان اور عوام نے دنیا اور سارے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر یہ مان کر شعور اور بیداری سے رخصت لے لی تھی کہ سلطنت آصفیہ اور آصف جاہوں کی حکومت کو آنے والے دنوں میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ہے اور آنے والے وقت کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش اور فکر تو دور کی بات ایسی باتیں سوچنا بھی بہت کم افراد کو گوارہ تھا۔
سیاسی بصیرت، دوراندیشی سے محرومی، مدبّرانہ قیادت کی کمی، عسکری طاقت بڑھانے پر عدم توجہی اور اپنوں کی غداری اور حکومت ہند کا حیدرآباد کے انضمام کو ہر قیمت پر ممکن بنانا سب مل ملاکر حیدرآباد کے سقوط کے ذمّہ دار تھے۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

The causes behind Fall of Hyderabad. Article: Rasheed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں