کیا سقوط حیدرآباد کی یاد میں یوم نجات منانا درست ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-18

کیا سقوط حیدرآباد کی یاد میں یوم نجات منانا درست ہے؟

fall-of-hyderabad

اپنا تو اصول یہ رہا کہ:
جو کہو سچ کہو، جو لکھو سچ لکھو، مشعل آدمیت کو بجھنے نہ دو
اپنے جس ہاتھ میں تھامتے ہو قلم، تم کو اس ہاتھ کے آبرو کی قسم

اگر سیاسی عینک لگا کر فرقہ وارانہ رنگ میں دیکھا جائے تو 17/ستمبر شاہی دور سے نجات حاصل کرنے کا دن ہے۔ اور جو کوئی اس دن کو ایک بہتر حکومت کو فوجی قوت کے ذریعہ ختم کرنے کا دن قرار دیتا ہے اسی کو فرقہ پرست قرار دیا جاتا ہے۔ ستم کو انصاف اور ظلم کو مصلحت قرار دینے کی سیاست اور بدترین تعصب و تنگ نظری کی وجہ سے حقیقی واقعات کو عبرتناک حد تک مسخ کر دیا گیا ہے۔ حقائق پر دبیز پردے پڑ چکے ہیں اور واقعات کو اس نوبت پر لا دیا گیا ہے کہ سچ اور اصولی باتیں بھی اجنبی سی لگتی ہیں۔
اہل حیدرآباد کی اکثریت کے سامنے میر عثمان علی خان کے عہد کو غلط انداز میں پیش کر کے ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ عوام کے سامنے حقائق کو بلا کم و کاست پیش کرنا عوام کے حقیقی مفاد میں ہوتا ہے۔ میر عثمان علی خان کا دور اس لائق ہے کہ اس تعلق سے عوام کو حقائق سے واقف کرایا جائے۔ کچھ دانشوروں اور اہل قلم نے تاریخ کو کریدنے کی کوشش ضرور کی لیکن ان میں اکثریت ان کی تھی جو واقعات کے چشم دید گواہ نہ تھے۔ انہوں نے واقعات کا تجزیہ ان تحریرات، بیانات اور صحافت کی روشنی میں کیا جو سراسر یکطرفہ تھے۔ مثلاً ریزیڈنس کے مراسلات وغیرہ کی روشنی میں۔

راقم الحروف حضور نظام سے خاندانی وابستگی کے باوجود شاہی دور میں بھی شاہ پرست (Royalist) نہیں رہا اور جمہوریت کو شاہی حکومت کے مقابلہ میں بہتر طرز حکومت قرار دیتا ہے، لیکن گردش ایام کی اس ستم ظریفی کو کیا کہیے کہ آج 17/ستمبر کو موجودہ جمہوریت اور ایک مثالی شاہی حکومت کا تقابل پیش نظر ہے۔
آج کی جمہوریت کی حد تک، جس کو برصغیر ہی نہیں بلکہ تمام دنیا میں عوام بھگت رہے ہیں عیاں راچہ بیاں کا معاملہ ہے۔ اس کے مقابلہ میں حیدرآباد کی شاہی حکومت میں دانشوروں کا ایک پریشر گروپ تھا جس کے نتیجہ میں عوام کی فلاح اور بہبود کے ایسے شاندار کام ہوئے جو تاریخ پر نقش ہیں۔
میر عثمان علی خان کے دور میں روڈ ٹرانسپورٹ کو (Nationalise) کیا گیا، برطانوی ہند میں یہ عمل بعد کو ہوا۔
حیدرآباد میں ہریجنوں کے حالات کی بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے۔ جب برطانوی ہند میں 1931ء میں ہریجنوں کا عظیم الشان اجتماع ہوا تو ایک ریزولیوشن میں ریاست حیدرآباد کا شکریہ ادا کیا گیا کہ وہ ہریجنوں کی تعلیمی بستی کو دور کرنے کے لئے پوری دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے جس کی مثال ہندوستان میں کہیں اور موجود نہیں۔
میر عثمان علی خان کے دور میں پینے کے پانی کی سربراہی (جس کا معقول انتظام آج بھی نہیں)، عدلیہ اور عاملہ کی علیحدگی (برطانوی ہند میں اس کا عمل بعد کو ہوا)، ہےگار کی مسدودی، غار ہائے اجنتہ کی معقول دیکھ بھال، گوکھلے کی یادگار کے طور پران کے نام سے اسکالرشپ کی اجرائی، بیسوں کاموں میں سے چند ہیں۔
علوم و فنون کی ترقی کے لحاظ سے میر عثمان علی خان کا دور ایک درخشاں دور تھا، جس میں بلا لحاظ مذہب، صاحبان علم و عمل کا خوشگوار اجتماع تھا۔ اسی مبارک دور میں اردو ذریعہ تعلیم کی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، اس انقلابی تجربہ کی تفصیل کے لئے خود علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔

آصف جاہی پرچم پر روٹی کا نشان تھا جو اس بات کی طمانیت کے لئے تھا کہ اس پرچم کے زیر سایہ رہنے والی رعایا کو روٹی مہیا کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ راقم الحروف کے علم میں دنیا کے کسی پرچم پر روٹی کا نشان نہیں۔ کسی کمیونسٹ ملک نے بھی اپنے پرچم پر روٹی کا نشان نہیں رکھا۔ یہ انفرادی خصوصیت صرف اور صرف آصف جاہی پرچم کو حاصل رہی:
رزق کا تجھ پر ہے نشان
تو ہے دلوں پر حکمران
اونچی فضا میں رہ بلند

حیدرآباد کے ماضی کو یاد کر کے آج کے حیدرآباد بلکہ سارے برصغیر پر نظر ڈالی جائے تو یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ قدرت نے آخر اس عظیم اور مثالی معاشرہ کو کیوں ختم کیا؟ اور وجوہات کے منجملہ قدرت کا وہ الگ قانون ہے جس کا اظہار ایک انگریز شاعر نے یوں کیا ہے ع
Old order changeth yielding place to new
God fulfils himself in many a way
Lest one good custom should corrupt the world
یہ تو قانون قدرت کی بات ہوئی لیکن یہ بھی قدرت ہی کا قانون ہے کہ دنیا عالم اسباب ہے۔ سقوط حیدرآباد کے پس پردہ ایسے عوامل اور اسباب کارفرما رہے جن کا نتیجہ پورا ملک بھگت رہا ہے اور جو عوامل سقوط حیدرآباد کے ذمہ دار رہے۔

افسوس ناک اتحاد ثلاثہ (یعنی تاج برطانیہ کے نمائندہ وائسرائے، کانگریس اور مسلم لیگ) کے ایک اہم فریق کی حیثیت سے پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے "دو قومی نظرپہ" کو قبول کر لیا۔ ایک خیال یہ ہے کہ ان قائدین کو حصول اقتدار کی جلدی تھی۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ ان کو قومی قائدین کے دوسرے دور (Generation) سے اندیشے تھے (جو بعد میں درست بھی ثابت ہوئے) اس لئے ہر دو قائدین چاہتے تھے کہ جلد اور بہر قیمت اقتدار حاصل کر کے ملک کو صحیح سمت پر گامزن کر دیں۔ مختصر یہ کہ انہوں نے دو قومی نظریہ کو قبول کر لیا۔
ریاست حیدرآبادنے دو قومی نظریہ کو قبول نہیں کیا۔ حیدرآباد میں صرف ی نہیں تمام قومیں سوا دو سو سال امن اور شانتی سے زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ع
پارسی، ہندو، مسلمان یا مسیحی کوئی ہو
ہے دکن کو ہر کوئی اپنی ولایت جانتا
مولانا حالی

اب رہی مسلم حکمران کی بات تو اگر برطانیہ میں آج بھی شاہی حکومت برقرار رہ سکتی ہے (جس کے سربراہ کے لیے مذہباً چرچ آف انگلینڈ سے وابستگی ضروری ہے) تو حیدرآباد میں کیوں نہیں رہ سکتی تھی؟
حیدرآباد بتدریج جمہوریت کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ حیدرآباد میں بادشاہ وقت کو مشورہ دینے کے لیے وزراء کی کونسل تھی جس کا رویہ تھا کہ وہ شاہی فرمان کو "واجب التعظیم" قرار دیتی تھی، اس کو بہر صورت "واجب التعميل" نہیں سمجھتی تھی اور خود میر عثمان علی خاں کا یہ رویہ تھا کہ وہ حزب الاختلاف کا رول ادا کرتے تھے۔ یہاں لفظ "سیکولرزم" کے وجود میں آنے سے بہت پہلے ہی سیکولرزم پر کامیاب عمل آوری ہو رہی تھی۔
حیدرآباد کے سلاطین اور مسلم امراء نے اس ریاست کو کبھی بھی مذہبی ریاست (Theocratic State) تصور نہیں کیا۔ یہ حکمت عملی ریاست کی منفرد خوبی بھی تھی اور ضرورت بھی۔ اسی پر استحکام سلطنت کی بنیاد تھی۔ نواب میر عثمان علی خان اس حکمت عملی پر مضبوطی سے قائم رہے۔ انہوں نے اعلان فرمایا:
"میری حکومت میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ان کے اور ان کے معابد کی نگرانی اور تحفظ میرے آئین سلطنت کا وتیرہ رہا ہے"۔

اس ریاست کے ساتھ جو دانستہ ناانصافیاں اور غیر اصولی حرکات ہوئیں وہ ایک سے زائد ہیں۔
ملک کی آزادی کی جدوجہد کے آخری مراحل میں برطانوی ہند کے ایسے صوبوں کے مسلمان جن کا ہندوستان میں رہنا طئے تھا اور جنہوں نے تحریک پاکستان کی زیادہ تائید کی تھی، مستقبل کے تعلق سے غیر یقینی صورت حال سے دوچار تھے اور اس سے زیادہ غیر یقینی صورت دوسری ریاستوں کے مسلمانوں کی بھی تھی۔ ان کو ہندوستان سے متوقع الحاق میں خطرات محسوس ہو رہے تھے۔ غیریقینی صورت حال اس وجہ سے بھی تھی کہ ملک کی تقسیم کی بات چیت ہو رہی تھی اور دیسی ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والوں میں خود ان کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ لیکن ایسا محسوس کرنا حق بہ جانب ہوگا کہ عیار برطانوی سامراج عمداً آخر وقت تک غیر یقینی صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ حیدرآباد بھی نہایت مضبوط دستوری موقف کے باوجود اس غیریقینی صورتحال سے دوچار تھا۔

1: جب آزادی کی اور ملک کے بٹوارہ کی باتیں ہو رہی تھیں تو حیدرآباد کی خصوصی اور مسلمہ دستوری حیثیت کو یک لخت نظر انداز کر دیا گیا۔ حیدرآباد کے تمام معاہدات راست تاج برطانیہ سے تھے اور حیدرآباد کی حیثیت دوسری تمام دیسی ریاستوں سے بالکل مختلف تھی۔ ملک کے بٹوارہ کے ایک اہم فریق یعنی تاج برطانیہ کے نمائندہ نے تمام معاہدوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، اس کی مسلمہ حیثیت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ایسی حرکت کی جس سے عالم انسانیت سوگوار اور دنیائے اخلاق سرنگوں رہے گی۔
وائسرائے بہادر نے ریاست حیدرآباد کو تمام دیسی ریاستوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ بہ تھی پہلی صریح ناانصافی۔

2: دیسی ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو رہا تھا۔ جن کی حکومت برصغیر کے ایک ثلث علاقہ پر تھی۔ یہ عجیب ستم ظریفی رہی کہ ان کی قسمت کے فیصلہ کرنے والوں میں خود ان کی نمائندگی کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ بہ تھی دوسری ناانصافی۔

3: ملک کا بٹوارہ (درست یا غیر درست طور پر) مذہبی بنیادوں پر کیا گیا تو اصول اور یکسانیت کا تقاضا تھا کہ دیسی ریاستوں کی حد تک بھی اسی امر کو پیش نظر رکھا جاتا کہ جس ریاست میں اہل ہنود کی اکثریت ہو ان کا الحاق ہندوستان سے اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو ان کا الحاق پاکستان سے کر دیا جائے۔ لیکن دیسی ریاستوں کی حد تک بہ تصفیہ ہوا کہ وہ حسب ذیل تین میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کریں:
(1) آزاد رہیں۔ (2) ہندوستان میں شریک ہوں یا (3) پاکستان میں۔
تب حیدرآباد کے حکمران نے (جن کی حکومت انگریزوں کی آمد سے پہلے سے موجود تھی)، پہلے اختیار (Option) کو معقول بنیادوں پر قبول کیا۔
دونوں نوزائدہ مملکتیں یعنی ہندوستان اور پاکستان برطانوی پارلیمنٹ کے تصفیہ کے بموجب ابھی ابھی وجود میں آئی تھیں، جن کا مستقبل (اس وقت) غیر یقینی تھا اور ان کے وجود میں آتے ہی سرحدوں پر بدترین کشت و خون کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس قتل و غارت گری کے ذہنی اور نفسیاتی اثرات کی وجہ سے حیدرآباد کی حکومت اور یہاں کے تمام مسلمان اور غیر مسلموں کی بڑی تعداد ہندوستان سے الحاق کے لیے قطعاً تیار نہ تھی۔ اس کا ثبوت یوں فراہم ہوا کہ حکومت بند نے گفت و شنید کے دوران ایک وقت پر استصواب عامہ کی شرط رکھی تو حکومت حیدرآباد نے اس کو قبول کر لیا لیکن حکومت ہند نے اپنی ہی تجویز کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے باوجود حضور نظام نے یہ بھی ارادہ ظاہر کیا کہ مناسب وقت پر وہ ہندوستان سے (پاکستان سے نہیں) الحاق کریں گے۔ اسی بناپر ہم مرتبہ مملکتوں کی حیثیت سے دونوں کے درمیان گفت و شنید شروع ہو گئی اور راضی نامہ اجرائی کار (Stand still Agreement) بھی طے پایا۔ ایسا کوئی معاہدہ پاکستان سے نہیں ہوا۔ حضور نظام کی رعایا کی اکثریت غیر مسلم تھی لیکن وہ ہندوستان میں شرکت کے حق میں نہ تھی۔

اصل بات تھی کہ حیدرآباد کو وقت کی ضرورت تھی اور فریق ثانی کو "نئے فقیر کو بھیک کی جلدی" کے مصداق حیدرآباد کو بشمول تمام دیسی ریاستوں کے، جلد از جلد ضم بلکہ ہضم کر لینے کی خواہش تھی۔ حکومتی سطح پر تو سنجیدہ انداز میں بات چیت ہو رہی تھی لیکن پارٹی کی سطح پر اس جلدی کا اظہار نہایت بھونڈے اور نا مناسب طریقہ پر ہوا۔ جس کل ہند کانگریس نے برطانوی حکومت کا مقابلہ گاندھی جی کی قیادت میں عدم تشدد کی بنیاد پر کیا تھا، آزادی حاصل ہونے کے بعد اسی کانگریس نے سردار پٹیل کی سرکردگی اور آر ایس ایس کے اشاروں پر حیدرآباد کے خلاف پرتشدد تحریک شروع کی۔ حیدرآباد کی تمام سرحدوں پر کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے مل کر کیمپ قائم کئے جہاں سے ریاست کے سرحدی مواضعات کے، معصوم مسلم شہریوں پر قاتلانہ حملے ہوتے۔ حکومت حیدرآباد کی جانب سے احتجاج کئے گئے تو حکومت ہند نے کیمپس کی موجودگی کا انکار کیا لیکن پولیس ایکشن کے بعد کانگریسی اور کیمونسٹ قائدین نے ان کیمپس کی موجودگی اور ان کی کامیابی کے بلند بانگ دعوے کئے۔ حیدرآباد کے خلاف آریا سماج اور ہندو مہاسبھا کی جانب سے جھوٹا پروپیگنڈا کر کے ستیہ گرہ تحریک شروع کی گئی۔ آریہ سماج اور ہندو مہاسبھا کے درمیان عقائدی اور اصولی اختلافات تھے۔ آر ایس ایس نے حیدرآباد کی مخالفت میں کلیدی رول ادا کرتے ہوئے دونوں کو متحد کیا۔

اس اچا نک صورت حال کا مقابلہ کرنا ریاست کی فوج اور پولیس کے لئے بہت مشکل تھا۔ ایسے میں مجلس اتحاد المسلمین نے اپنے Volunteers کی خدمات پیش کیں جس کو ناگہانی صورت حال میں ناگزیر سمجھ کر قبول کرنا پڑا۔ غیر سماجی عناصر اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے خاکی وردی پہن کر رضا کاروں کا بھیس اختیار کر لیا۔ نتیجتاً جو لوٹ مار کے واقعات ہوئے، ان کا الزام رضا کاروں پر ڈال کر خوب تشہیر کی گئی۔
گیارہ ماہ کے عرصہ میں شعیب اللہ خان کے قتل کو چھوڑ کر (جس کی خود ایک دلچسپ داستان ہے ) قتل و خون ریزی کا شائد ہی کوئی واقعہ پیش آیا۔ اگر قتل و خوں ریزی ہوئی تھی تو مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی صرف جناب قاسم رضوی اور سرکاری عہدہ داروں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ قاسم رضوی کے خلاف بھی تین مقدمے دائر کئے گئے۔ الند شریف قتل کے مقدمہ سے حکومت، ثبوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے دستبردار ہو گئی۔ شعیب اللہ قتل کے مقدمہ میں عدالت العالیہ نے مرافعہ میں سزا کو منسوخ کر دیا۔ جس سے ظاہر ہو گیا کہ پولیس ایکشن سے قبل جو پروپیگنڈا کیا گیا تھا اس کو ثابت نہ کیا جا سکا۔

ہندوستان کے ایک حصہ کی حیثیت سے اگر ریاست کی علحدہ حیثیت برقرار رہتی جیسا کہ پنڈت نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کی عین خواہش تھی یا کم از کم الحاق کے لئے عجلت کے ساتھ فوجی کارروائی نہ کر کے حیدرآباد کو مناسب وقت ملتا تو صرف ابل حیدرآباد بلکہ ملک کے لئے بہت بہتر ہوتا۔
حیدرآباد کی تہذیب و ثقافت میں وہ خزانے موجود تھے جن کی "برطانیہ زدہ" ہندوستان کو ضرورت تھی۔ یہ ایک قومی فرض ہے اور قرض بھی کہ دور عثمانی کے اعلی اقدار اور قابل تقلید کارناموں کو ہم وطنوں تک پہنچایا جائے اور نئی نسل کے لئے ایسا مواد مہیا کیا جائے جو اس کے لئے نشان راہ کا کام دے۔

یہ بھی پڑھیے:
سقوط حیدرآباد - از عمر خالدی اور معین الدین عقیل - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

***
ماخوذ از کتاب:
لفظ لفظ آرزو (مصنف: ڈاکٹر حسن الدین احمد۔ سن اشاعت: 2010ء)

The Fall of Hyderabad, its consequences and realities.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں