سقوط حیدرآباد - یہ اہم دستاویزی کتاب ان کے لیے ہے جنہیں (سابقہ) مملکت آصفیہ حیدرآباد سے کوئی نہ کوئی نسبت رہی ہے اور جنہوں نے سقوط حیدرآباد کا سانحہ نہیں دیکھا مگر اس کے عواقب و اثرات کو محسوس کرنا چاہتے ہوں۔
محققین ڈاکٹر عمر خالدی (ایم۔آئی۔ٹی امریکہ) اور ڈاکٹر معین الدین عقیل (ٹوکیو یونیورسٹی جاپان) کی مرتب کردہ یہ کتاب المیۂ سقوط مملکت آصفیہ حیدرآباد سے قاری کو چشم دید اور معاصر تحریروں کے ذریعے آگاہ کرتی ہے۔ اس کتاب کا ہندوستانی ایڈیشن دارالاشاعت کل ہند مجلس تعمیر ملت حیدرآباد کی جانب سے ستمبر 1998 میں سقوط حیدرآباد کی پچاسویں برسی پر اشاعت پذیر ہوا۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ اہم دستاویزی کتاب پیش خدمت ہے۔ تقریباً چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 17 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
کتاب کے تعارف میں کل ہند مجلس تعمیر ملت (حیدرآباد) کے معتمد عمومی کریم رضا لکھتے ہیں ۔۔۔مملکت آصفیہ حیدرآباد، برطانوی ہند میں صرف ایک دیسی ریاست نہیں تھی۔ یہ ہندوستان کے برصغیر میں مغل سطوت و شوکت کی یادگار، ہندوستانی مخلوط تہذیب و تمدن کی آماجگاہ، ہندو مسلم میل ملاپ و باہمی اعتماد کا ایک نمونہ، سارے برصغیر کے اہل علم و دانس اور اہل قلم کی قدردانی کا مرکز اور ان کی پناہ گاہ تھی۔
اس مملکت کے مسلمان اس کو آزاد اور ایک علیحدہ سیاسی وحدت کی حیثیت میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ رعایا کی اکثریت جو ہندوؤں پر مشتمل تھی، ان میں سے جو سیاسی طور پر سرگرم تھے، وہ اس کو انڈین یونین کا جز بنتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کشمکش میں تیزی نہیں تھی لیکن ہندوستانی حکومت کی کاروائیوں، معاشی ناکہ بندی وغیرہ نے تیزی پیدا کر دی اور بالآخر ہندوستانی فوج نے اس پر حملہ کر کے 17/ستمبر 1948 کو ہندوستان کے نقشہ سے مملکت آصفیہ کے وجود کو مٹا دیا۔ مسلمانوں پر جو بیتی وہ ایک دلخراش داستان ہے۔
مملکت آصفیہ حیدرآباد کا سقوط، اپنے اندر کئی عبرتیں رکھتا ہے۔ ہم ماضی پر اور کھوئی ہوئی شان و شوکت پر ماتم و نوحہ کے قائل نہیں، لیکن اپنی ملی و اجتماعی بقا اور SURVIVAL ہی نہیں بلکہ مستقبل میں نئی شکل و صورت میں ملی و اجتماعی شخصیت کے اثبات کی خاطر منزل کے تعین اور چال و رفتار کی تعین کے لیے ماضی سے سبق و عبرت ہی نہیں، جذبہ و احساس لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 17/ستمبر کو کل ہند مجلس تعمیر ملت کی جانب سے "مملکت حیدرآباد اور فوجی حملہ" (جس کو ہندوستان نے پولیس ایکشن کا پرفریب نام دیا ہے) پر اجتماعات منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔
1996ء میں کل ہند مجلس تعمیر ملت کے صدر جناب محمد عبدالرحیم قریشی، یو۔ایس۔اے کے دورہ پر تھے تو جناب ڈاکٹر عمر خالدی نے اس کتاب کی ترتیب کے اپنے منصوبہ سے واقف کرایا اور ہندوستان میں اس کی اشاعت کی تجویز رکھی، جس کو محمد عبدالرحیم قریشی صاحب نے قبول کر لیا۔ اس کتاب کی ترتیب میں ڈاکٹر عمر خالدی کے ساتھ ڈاکٹر معین الدین عقیل بھی شامل ہیں۔ مرتبین نے بہادر یار جنگ اکادمی، کراچی (پاکستان) کو بھی حق اشاعت دیا ہے۔ ہم اس کتاب کو چند تبدیلیوں کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ ہم مرتبین کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہندوستان میں حق اشاعت ہمیں دیا۔
پولیس ایکشن کی تباہ کاریوں پر پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار صاحب کی رپورٹ کا ایک حصہ ڈاکٹر عمر خالدی کی انگریزی کتاب سے ترجمہ کر کے شامل کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی کے پیام کو جناب سید خلیل اللہ حسینی کی تحریر کے ساتھ ایک علیحدہ فصل بنا دیا گیا ہے۔ میر لائق علی صاحب کے ان کارناموں کی روئیداد جو پاکستان میں انہوں نے انجام دیں، حذف کر دی گئی ہے۔
ہر قاری یہ محسوس کرے گا کہ حیدرآبادی معاشرہ کے بارے میں اس کے دونوں پہلو، حسن و قبح پر مضمون اور ادبی تخلیقات موجود ہیں، اس طرح ان شخصیتوں کے دونوں پہلو ملیں گے جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے اس اہم واقعہ بلکہ المیہ میں مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔
امید کہ یہ کتاب سقوط حیدرآباد کے عوامل کے تجزیہ میں مدد دے گی اور ایک اہم تالیف شمار ہوگی۔
کتاب کے ایک باب "اضلاع دکن میں قتل و خون (ایک تعارف)" میں مرتبین لکھتے ہیں ۔۔۔بھارت کے فوجی حملے اور ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل و خون اور ان کی تباہی اور بربادی ، خصوصاً علاقہ مرہٹواڑہ اور بیدر کے لرزہ خیز واقعات کی کچھ تفصیلات پنڈت سندر لال (1886-1981) اور قاضی عبدالغفار (1889-1956) نے ایک رپورٹ کی شکل میں مرتب کی تھیں۔ رپورٹ کے مرتبین نے اپنی یہ رپورٹ اس وقت کے نائب وزیراعظم اور وزیر امور داخلہ سردار پٹیل کو پیش کی تھی، لیکن انہوں نے اس رپورٹ کو دبا دیا اور منظر عام پر آنے سے روک دیا۔
(نوٹ از ادارہ تعمیرنیوز: سندرلال رپورٹ بالآخر حکومت ہند کی جانب سے 2013 میں عوام کے مطالعے کے لیے جاری کر دی گئی ہے جو نئی دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ تعمیرنیوز پر اس کے اردو ترجمے کا خلاصہ یہاں پڑھا جا سکتا ہے: سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی)
اگر ہندو ذہن و کردار کی تاریخ کو پیش نظر رکھیں تو ان صاحبِ اقتدار ہندوؤں کا یہ رویہ ناقابل فہم نہیں رہتا۔ لیکن یہ تاریخ ایسے انسانوں سے بھی خالی نہیں، جو مثال کے طور پر، اس مندرجہ ذیل روایت میں نظر آتے ہیں۔ اردو کے مشہور ادیب پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں (بحوالہ: "ہماری زبان" علی گڑھ، شمارہ: 12/مارچ/1967):
مجھے 1948ء کا لکھنؤ یاد آتا ہے۔ (حیدرآباد کی) سروجنی نائیڈو ریاست اترپردیش کی گورنر ہیں۔ ڈاکٹر وی۔ ایس۔ رام، صدر شعبۂ سیاسیات کے یہاں موسیقی کی ایک محفل ہے۔ سروجنی نائیڈو بھی موجود ہیں۔ اچانک ملٹری سیکرٹری خوش خوش داخل ہوتا ہے اور گورنر سے کہتا ہے:
"مبارک ہو، حیدرآباد فتح ہو گیا"
مگر یہ کیا !!
گورنر یہ فرحت افزا خبر سننے پر خوش ہونے کے بجائے زار و قطار رونے لگتی ہیں۔ لوگ حیران ہو کر ان سے پوچھتے ہیں کہ خوشی کے موقع پر یہ رونا کیسا؟
وہ کہتی ہیں: "خوشی اپنی جگہ پر، مگر میں اس لیے رو رہی ہوں کہ میرے بادشاہ کو یہ دیکھنا پڑا۔"
یہ کیسا بادشاہ تھا، جس کی محبت ہندوستان کی آزادی کی اس سپاہی کے دل میں اس جوش و خروش سے موجزن تھی!!
کتاب کے اسی باب "اضلاع دکن میں قتل و خون (ایک تعارف)" میں معروف ہندوستانی سیاستداں یونس سلیم کے حوالے سے ڈاکٹر عمر خالدی لکھتے ہیں ۔۔۔یہ روداد محمد یونس سلیم صاحب کی ہے، جو بھارت کی سیاست میں معروف ہوئے۔ وہ 1916ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ حیدرآباد میں وکالت کی، 1967ء میں مرکزی حکومت ہند میں نائب وزیر قانون رہے اور پھر 1991ء میں بہار کے گورنر بنے اور کچھ عرصہ پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔ مئی 1969ء کے "شبستان" (اردو ڈائجسٹ، دہلی) میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا نھا جس میں انہوں نے بھارتی حملے کے بعد کے حالات اور واقعات بیان کئے ہیں۔
انہوں نے مجھ سے گفتگو کے دوران کہا:
"آپ جانتے ہیں میرے بال وقت سے پہلے کیوں سفید ہو گئے ہیں؟ یہ بال اس لئے سفید ہو گئے ہیں کہ میں نے حیدرآباد میں پولیس الیکشن کے بعد کنوؤں میں مسلمانوں کی لاشیں سڑتی ہوئی دیکھی ہیں۔ میں نے بیواؤں کی آہ و بکا سنی ہیں، میں نے بہنوں کو بھائیوں کے لئے اور بیٹوں کو اپنے مقتول والدین کے غم میں تڑپتے دیکھا ہے۔ میرے تصور میں بھی نہ تھا کہ میں اپنی زندگی میں ایسے روح فرسا مناظر دیکھوں گا۔ چنانچہ جب میں نے ظلم اور مظلومیت کا یہ تماشہ دیکھا تو میری رانوں کی نیند اڑ گئی۔ میرا ذہنی نظام درہم برہم ہو گیا۔ میرے بال شدت احساس میں وقت سے پہلے سفید ہو گئے۔ میں بوڑھا نظر آنے لگا۔"
جب مسٹر یونس سلیم یہ جملہ کہہ رہے تھے۔ میں ان کے جذبات کی گرمی کا اندازہ لگا رہا تھا۔ میں اس گرمی میں وہ آگ تلاش کر رہا تھا جس کی جستجو میں موسی کوہ طور تک پیچ گئے تھے۔ میں حق گوئی اور بے باکی کی اس حرارت میں قیصر و کسری کی طاقت کو جلتے دیکھ رہا تھا۔ میں اس آگ میں روم کو جلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
حیدرآباد کے ماضی کی بات نکلی تو میں نے پوچھا: "حیدرآباد پر پولیس ایکشن کے وقت آپ کہاں تھے؟"
"میں حیدرآباد میں ہی تھا"۔
میں نے کہا: "اس ایکشن کا کچھ آنکھوں دیکھا حال سنائیے۔"
سوال ختم کرتے ہی میں نے ایسا محسوس کیا جسے میں نے سوال نہ کیا ہو مسٹر يونس سلیم کے جسم پر خنجر کا وار کر دیا ہو۔ کیوں کہ میرا سوال سنتے ہی ان کا چہرہ غم سے سفید ہو گیا۔ چند لمحات تک وہ خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھتے رہے اور پھر ایک ایسی آواز میں جو درد و کرب میں ڈوبی ہوئی تھی، انہوں نے کہا:
"بڑی الم ناک داستان ہے۔ یہ تقسیم کے بعد مجھے پاکستان چلے جانے کے لئے کہا گیا۔ مسٹر غلام محمد سے میرے والد کے تعلقات تھے، تقسیم کے بعد جب وہ حیدرآباد آئے تو انہوں نے مجھے پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن میں نے سوچا جب میں پہلی مرتبہ حیدرآباد آیا تھا تو خوش حالی کا دور تھا۔ حیدرآباد نے مجھے عزت دی، اب حیدرآباد پر وقت پڑا ہے اس لئے مجھے حیدرآباد کی خدمت کرنی چاہیے، چنانچہ میں نے پاکستان جانے کا خیال ترک کر دیا۔ میں اس زمانے میں حیدرآباد کے محکمہ ٹیکس کا سرکاری وکیل تھا اور مجھے تقریبا ایک ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ حیدرآباد پر پولیس ایکشن کے بعد جب اضلاع سے تباہ حال لوگ شہر حیدرآباد میں داخل ہوئے تو میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں دہلی آیا ، پنڈت نہرو اور مولانا آزاد سے ملاقات ہوئی۔ پنڈت نہرو سے میری ملاقات رات کو ساڑھے بارہ بجے ہوئی تھی۔ جب میں نے ان کو حیدرآباد کی کہانی سنائی تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہوں نے پنڈت سندر لال، قاضی عبدالغفار اور عبداللہ مصری کو میرے ساتھ حیدرآباد بھیجا تاکہ میں وہاں کا دورہ کروں۔ میں نے دورہ کیا تو ایسے روح فرسا مناظر دیکھے کہ میرے ہوش اڑ گئے۔ میں نے اکثر دیہاتوں میں لاشیں کھیتوں میں پڑی دیکھیں۔ لاشوں سے کنویں پٹے پائے اور ظلم و ستم کے ایسے واقعات سنے کہ میرا دل دہل گیا۔
ایک دیہات میں جب ہمارے وفد نے کئی لاشوں کو بے گور و کفن سڑتے دیکھا تو میری جو حالت ہوئی وہ تو ہوئی خود پنڈت سندر لال اتنے متاثر ہوئے کہ وہ رونے لگے۔ الغرض ہم نے اپنا دورہ مکمل کرنے کے بعد رپورٹ مرتب کی اور اسے حکومت ہند کے سامنے پیش کیا۔ اس رپورٹ کو سردار پٹیل نے پسند نہیں کیا اور مجھے یہ سزا دی گئی کہ ریاست حیدرآباد میں میری ملازمت ختم کردی گئی۔"
مسٹر یونس سلیم نے میرے سوال کے جواب میں مزید کہا:
"17/ستمبر کو جب پولیس ایکشن ختم ہوا تو ریاست کے جاگیرداروں کی اکثریت سراسیمہ ہو کر حیدرآباد آ گئی۔ خاندان کے خاندان ختم ہو گئے۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ چند ہی دنوں میں میرے سیاہ بال سفید ہو گئے اور میں ہر وقت اداس رہنے لگا۔ جب میں نے مولانا آزاد کو یہ کہانی سنائی تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ میں نے کبھی بھی اس سے قبل ان کو اتنا متاثر نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا:
'حیدرآباد کا بھرم ختم ہو گیا یہ زخم ایک ناسور بن گیا ہے اور اب یہ ناسور میرے ساتھ قبر ہی میں جائے گا'۔"
مسٹر یونس سلیم اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔ یہ خاموشی اتنی سنگین تھی کہ مجھے ایا محسوس ہوا جیسے اس کمرے کی ہوا تک ساکت ہو گئی ہو۔ میں نے سلیم صاحب کے مغموم چہرے کی طرف دیکھا۔ یقیناً ان کی آنکھیں نم تھیں۔ بڑے مقدس تھے یہ آنسو۔
یہ بھی پڑھیے:
***
نام کتاب: سقوط حیدرآباد (چشم دید اور معاصر تحریروں پر مشتمل ، منظر اور پیش منظر)
مرتبین: ڈاکٹر عمر خالدی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل
تعداد صفحات: 398
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 17 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Suqoot E Hyderabad.pdf
سقوط حیدرآباد :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر | |
1 | پیش لفظ (دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو) | کریم رضا | 7 |
2 | اپنی بات | عمر خالدی - معین الدین عقیل | 9 |
3 | فصل اول | (معاشرت حیدرآباد) | 15 |
4 | حیدرآبادی معاشرہ | ابو ظفر موئیدالدین حسن | 16 |
5 | فصل دوم | (ہندوستان کا فوجی حملہ اور سقوط حیدرآباد) | 68 |
6 | سقوط کا پس منظر | عمر خالدی - معین الدین عقیل | 69 |
7 | آپریشن پولو | جنرل جے۔ این۔ چودھری | 73 |
8 | پانچ روزہ جنگ | میر لائق علی | 111 |
9 | حملہ ہند | مرزا ظفر الحسن | 145 |
10 | نشرگاہ حیدرآباد کے آخری لمحے | انور عنایت اللہ | 158 |
11 | فصل سوم | (ہندوستانی حملہ کے عواقب و نتائج) | 168 |
12 | اضلاع دکن میں قتل و خون (تعارف) | عمر خالدی - معین الدین عقیل | 169 |
13 | مرہٹواڑہ کی خونیں داستان | محمد علی خان | 179 |
14 | بیدر کا قتل عام | (نامعلوم) | 206 |
15 | آپریشن پولو کے بعد | پنڈت سندر لال اور قاضی محمد عبدالغفار | 216 |
16 | فصل چہارم | (سقوط حیدرآباد کے اثرات) | 232 |
17 | سقوط حیدرآباد کے معاشی اور سماجی اثرات | عمر خالدی - معین الدین عقیل | 235 |
18 | فصل پنجم | (اک مشورہ ، اک تجزیہ) | 241 |
19 | حیدرآبادی قائدین کے نام | مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی | 242 |
20 | مملکت آصفیہ حیدرآباد کا سقوط | سید خلیل اللہ حسینی | 252 |
21 | فصل ششم | (ڈوبتی کشتی کے ملاح) | 253 |
22 | میر عثمان علی خاں | آصف جاہ سابع | 258 |
23 | میر لائق علی | صدر اعظم | 259 |
24 | میجر جنرل احمد العیدروس | کمانڈر ان-جیف | 270 |
25 | سید قاسم رضوی | صدر مملکتی مجلس اتحاد المسلمین | 271 |
26 | فصل ہفتم | (تخلیقی ادب میں سقوط کا منظر و پس منظر) | 282 |
27 | الف: حصہ نثر | - | 282 |
28 | ایسی بلندی ایسی پستی | عزیز احمد | 283 |
29 | بدلتا ہے رنگ آسماں | واجدہ تبسم | 299 |
30 | ایوان غزل | جیلانی بانو | 309 |
31 | سقوط کے دن ، سقوط کی راتیں | ابراہیم جلیس | 319 |
32 | ب: حصہ نظم | - | 380 |
33 | شیرازہ بہار گل تر بکھر گیا | عمر خالدی - معین الدین عقیل | 380 |
34 | آج دنیا تباہ ہوتی ہے | میر عثمان علی خاں عثمان (آصف سابع) | 385 |
35 | بےکس دکن، غریب دکن، بےنوا دکن | مسعود علی محوی | 387 |
36 | سرزمین دکن کا ہائے زوال | سید حسین ذوقی | 390 |
37 | حیدرآباد ہو گیا تقسیم | سید حسین ذوقی | 391 |
38 | ہم شہیدان وفا تھے | وحیدہ نسیم | 393 |
39 | اک گل تازہ کی خاطر ہم سے گلشن چھٹ گیا | نظر حیدرآبادی | 395 |
40 | کس کا قبلہ ہے صنم زار دکن میرے بعد | نظر حیدرآبادی | 396 |
41 | نشیمن کو روئیں چمن یاد آئے | عزیز قریشی | 397 |
The Fall of Hyderabad, A research work Compiled by: Dr. Omar Khalidi & Dr. Moinuddin Aqeel, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں