مخدوم محی الدین - اردو کا شب گزیدہ شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-10

مخدوم محی الدین - اردو کا شب گزیدہ شاعر

مخدوم محی الدین فطرتاً جمال دوست ہیں۔ یہی حال شاعری میں فیض اور نثر میں کرشن چندر کا ہے۔ بعض ترقی پسند شعراء اور ادبا کے یہاں تان رومان پر ہی ٹوٹتی ہے۔ اور انقلاب کا خمیر بھی رومان سے ہی اٹھتا ہے۔ بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ رومان سے ہی انقلاب کی تحریک ملتی ہے۔ اگر مخدوم اور فیض کے یہاں رومان کے سوتے خشک ہو جاتے تو میں سمجھتا ہوں ان کی شاعری کی فنکارانہ اٹھان بھی ختم ہو جاتی۔
شاعری سے جمالیات کا بنیادی تعلق ہے۔ بلکہ شاعری کو شاعری بنانے کا وصف جمالیاتی قدروں میں پنہاں ہے۔ ورنہ ہماری انقلابی شاعری محض نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ مخدوم کی کسی بھی دور کی نظمیں پڑھیے ان کا ذوق جمال ساتھ ساتھ چلتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں جمالیات کی آنچ دھیمی ہے تو کہیں شعلہ بداماں ہے۔ یہی بات مخدوم کی ان نظموں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے ، جو مظاہر قدرت کے حسن کو اپنے اندر سمیٹی ہوئی ہیں، چاہے وہ آسمان کی لوریاں ہوں یا قمر کی چاندی ہو، یا ساگر کا کنارہ ہو۔ ان کا ذوق جمال در آتا ہے۔ اور ان نظموں کی رنگینیوں کو دوبالا کرتا ہے۔ مخدوم کی نظموں میں رومان کچھ اس درجہ سرایت کر گیا ہے کہ ہم ان کی موضوعاتی نظموں کو اس سے الگ نہیں کر پاتے ہیں۔ گویا یہ ان نظموں کا جزو بدن بن گیا ہے ، اکثر یہی ذوق جمال نظموں کے پردوں سے جھانک کر مخدوم کی شناخت کرواتا ہے۔

مخدوم محی الدین کو پڑھتے ہوئے ان کی فنکارانہ صناعی کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔ کہیں کہیں ان سے لغزشیں بھی ہوئی ہیں، اس کے باوجود فن پر ان کی گرفت مضبوط رہتی ہے۔ مخدوم کے یہاں فن کا احترام ملتا ہے ، فن پر ان کی نظر گہری ہے۔ موضوع چاہے کیسا ہی ہو، فن پر ان کی گرفت باقی رہتی ہے۔

مخدوم کی جمالیاتی نظموں میں یاد، انتظار، وصل اور قربت کے مضامین بکثرت آئے ہیں۔ مخدوم یاد اور انتظار کا شاعر ہے۔ اس کا جمالیاتی احساس ماضی سے رشتہ قائم کئے ہوئے ہے۔ اور یہ احسا حال تک جاری ہے۔ ان نظموں میں عشق کے خوبصورت ماضی کا احوال درج ہے۔ ان کا ذہن حال میں رہتے ہوئے غالب کی طرح ماضی کی دھندلکوں کی سیر بھی کرتا ہے۔ "طور" اور "یاد ہے" اس قبیل کی خوبصورت نظمیں ہیں، نظم چارہ گر عشق کے ماضی کا خوبصورت تصور پیش کرتی ہے ، اس نظم کی خوبی اس کی فضا ہے جو آخر تک برقرار رہتی ہے۔ خاص کر نظم کا یہ حصہ مخدوم کے ذوق جمال پر دلالت کرتا ہے۔

دو بدن
اوس میں بھیگتے چاندنی میں نہائے ہوئے
جیسے دو تارہ رو، تازہ دم پھول
پچھلے پہر ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا۔
صف ماتم ہوئی۔
کالی کالی لٹوں سے لپٹ گرم رخسار تک
ایک پل کے لئے رک گئی۔

اس نظم کا انجام شاعر کے کرب کو ظاہر کرتا ہے جو "چارہ گر" سے سوالیہ انداز میں پوچھتا ہے کہ یوں تو تیری زنبیل میں پتہ نہیں کیا کیا ہوگا لیکن شک اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا تو نے نسخہ کیمیا کو پایا بھی ہے یا نہیں۔ ورنہ کیا بات ہے کہ محبت کا مداوا نہ ہو۔
اس طرح ان کی بعض نظموں میں بھی اپنے اندر کرب کا احساس ملتا ہے۔ جیسے "جان غزل" اور "آج کی رات نہ جا" ہے۔ جس میں غم دوراں ایسے در آیا ہے کہ اس سے مفر کی کوئی صورت نہیں ہے۔ شاعر غم دوراں سے فرار نہیں چاہتا ہے۔ وہ تو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے واقف ہے۔ اور اس میں وہ حوصلہ بھی ہے جو اس کو نبرد آزما کرنا چاہتا ہے۔ وہ زندگی کے آلام و مسائل سے کچھ تھک سا گیا ہے اور کچھ دیر کے لئے ا ن سے بے خبر ہو کر محبوب کی ذات میں گم ہونا چاہتا ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ اس کے بعد وہی آلام اس سے بغلگیر ہونے والے ہیں۔ اس قبیل کی نظموں کو پڑھتے ہوئے بسا اوقات یہ احساس بھی جاگزیں ہوتا ہے کہ مخدوم کو تنہائی کا احساس ہے اور وہ خود کو دل کے نہاں خانے میں پنہا پاتا ہے۔ اس کے بعض انقلابی نظموں میں بھی یہ احساس کہیں کہیں در آیا ہے کہ انقلاب اور آزادی کا نعرہ لگانے والا شاعر خود اندر سے ٹوٹ گیا ہے شاید اس کا یہ سبب ہو کہ اس طویل جدوجہد میں اس کا ایک ایک ساتھی اس سے جدا ہو گیا یا عشق میں اس کو جو پناہ ملنی چاہئے تھی نہیں مل پائی ہو۔ یہاں مجھے ڈاکٹر زینت ساجدہ کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے جشن مخدوم کے موقع پر کہے تھے:
"مخدوم شعر سناتا ہے تو مجھے وہ بالکل تنہا نظر آتا ہے ، تنہا مسافر شب گزیدہ جو اپنے دل کا چراغ جلائے سب کے لئے راہ تلاش کر رہا ہو۔"

یہی احساس محدوم کی بیشتر نظموں کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے کبھی یوں لگتا ہے جیسے اس کی آواز تنہائی کا لبادہ اوڑھے دل میں اترتی جا رہی ہے۔

انتظار ادو کی رومانی شاعری کا مستقل موضوع رہا ہے ، میر سے فراق تک سب ہی نے اس پر لکھا ہے اور بہت کچھ لکھا ہے لیکن انتظار کا جو احساس مخدوم کے یہاں ملتا ہے، وہ بہت کم شاعروں کے یہاں آیا ہے۔ مخدوم نے انتظار کی فضا کو جس طرح اپنے اندر سمیٹا ہے وہ ان کی فنکارانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ انتظار کے لئے انہوں نے جو تشبیہات اور استعارات تراشے ہیں وہ ان کے اپنے احساس کے سانچے میں ڈھل کر نکلے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی بہترین نظم "انتظار" ہے۔ خاص کر اس نظم کے یہ دو شعر انتظار کی پوری کیفیت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے

پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے
سجدے مسرور کہ معبود کو ہم پا ہی گئے

وصل کی لذتوں کا بہترین انظار "لمحۂ رخصت" میں ملتا ہے ، کہنے کو یہ نظم ہے، مگر اس میں غزل کا تغزل دبے پاؤں داخل ہو گیا ہے۔ عشق کی وارفتگی، سپردگی کا احساس بڑے والہانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بےخودی کی کیفیت جگر کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔

کچھ سننے کی خواہش کانوں کو کچھ کہنے کا ارماں آنکھوں میں
گردن میں حمائل ہونے کی بیتاب تمنا بانہوں میں
مشتاق نگاہوں کی زد سے نظروں کا حیا سے جھک جانا
اک شوق ہم آغوشی پنہاں ان نیچی بھیگی پلکوں میں
شانے پہ پریشاں ہونے کو بے چین سیہ کاکل کی گھٹا
پیشانی میں طوفاں سجدوں کا لب بوسی کی خواہش ہونٹوں میں
وارفتہ نگاہوں سے پیدا ہے ایک ادائے زلیخائی !
انداز تغافل تیور سے رسوائی کا ساماں آنکھوں میں

مخدوم کی غزلوں میں شعری پیکر جا بجا ملتے ہیں جو قاری کے ذہن کو ادارک، بصارت اور کبھی کبھی سماعت کی طرف منتقل کر دیتے ہیں ان سے مخدوم کی متحرک کیفیات کا جہاں پتہ چلتا ہے وہیں ذہنی انعکاس کی جھلک بھی دکھائی پڑتی ہے۔ ان شعری پیکروں میں ایک فضا ایک احساس رچا ہوا ہے۔ ان میں ایک ایسا سحر ہے جن میں قاری ڈوب سا جاتا ہے ، اور یہ تصویریں آنکھوں کے آگے سے نہیں ہٹتی ہیں

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے چاندنی ہی چاندنی
جیسے وہ خود ساتھ ہیں ان کی جوانی ساتھ ہے
کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لئے

جیسے وہ خود ساتھ ہیں ان کی جوانی ساتھ ہے لیکن خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک در قفس پر کھڑی ہے صبا پیام لئے۔

مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتزال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت ان کے ذہن پر کچوکے لگاتے ہیں۔ جن کے نتیجے میں انقلاب کی آواز بلند ہوتی ہے۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بےحد متاثر ہیں بلکہ اس سے ان کی ذہنی وابستگی ہے۔ اس تاریخی اور سیاسی پس منظر کو سامنے رکھیں اور اس کے سیاق و سباق کو دیکھیں تو سارے نقوش ابھرتے ہیں جن سے ان کی شاعری مملو ہے۔
مخدوم کے زمانے کا جاگیر دارانہ نظام فرسودہ ہو چلا تھا۔ مخدوم نے اس نظام کے کھوکھلے پن کو کھل کر بیان کیا ہے۔ اس نظام کے خلاف کہتے ہوئے ان کے لہجے میں ترشی اور تیزی ہے۔ جنگِ مشرق، موت کا گیت، انقلاب، اندھیرا، تلنگانہ، اور اس قبیل کی دوسری نظموں میں یہ بھی یہ تندی و تیزی پائی جاتی ہے۔ جو ان کی نفسیاتی کیفیات کو خوبی سے پیش کرتی ہے۔ زمیندارانہ نظام نے عدل و انصاف کو جس طرح کچل دیا تھا اور جس طرح کسانوں کے حقوق سلب کر دئے تھے۔ اس کے خلاف کہے بغیر وہ رہ نہ سکے۔ اس معاملے میں کہیں کہیں ان کے یہاں گھن گرج بھی آ گئی ہے۔

مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابل ذکر ہیں۔ نظم 'آزادئ وطن' میں پختگی اور فنی بالیدگی نہیں ہے جو فیض کی نظم 'صبح آزادی' میں ہے۔ البتہ بنگال اور چاند تاروں کا بن زیادہ اثر آفرینی رکھتے ہیں۔ خاص کر 'چاند تاروں کے بن' میں جن علامات، اشاروں، استعاروں اور کنائیوں کے ذریعہ ملک کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس سے نظم کا صوری و معنوی حسن بڑھ گیا ہے۔ یہ نظم 'صبح آزادی' کے برابر رکھی جا سکتی ہے۔ اس نظم میں جو عصری ہیئت ہے وہ اس کو دوسری نظموں سے ممتاز بناتی ہے۔

مناظر قدرت کے مخدوم بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظر قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں۔ بظاہر یہ نظمیں مظاہر قدرت کا ذکر معلوم ہوتی ہیں، لیکن ان نظموں میں شاعر منظر سے کبھی جمال کی طرف آتا ہے تو کبھی انقلاب کی طرف لوٹتا ہے اور کبھی فلسفہ ہائے حیات کی گتھیاں کھولتا ہے۔ ساگر کے کنارے اور قمر میں وہ جمالیات کی طرف لوٹتا ہے۔ تو پچھلے پہر کا چاند اور ستارے میں وہ فلسفہ حیات اور انقلاب کی طرف لوٹتا ہے ان نظموں میں قصیدے کی وہ کروٹ بھی ملتی ہے جسے ہم گریز کہتے ہیں۔ ان نظموں میں کہیں کہیں ڈرامائیات بھی آگئی ہے جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتی ہے۔

مخدوم کی کامیاب نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر ، لخت جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور 'اقبال کی رحلت' قابل ذکر ہیں۔
مخدوم کی نظم "شاعر" پڑھتے ہوئے اقبال کی نظم "محبت" یاد آتی ہے۔ جس طرح اقبال نے نظم محبت میں محبت کے اجزائے ترکیبی کو نمایاں کیا تھا ان ہی خطوط پر مخدوم نے شاعر کے خمیر کا ذکر کیا ہے کہ وہ کن عناصر سے اٹھا ہے۔ یہ نظم فنی اعتبار سے مختصر ہوتے ہوئے بڑی جامع ہے۔ اس میں شاعر کی فطرت کو بڑی خوبی سے سمجھایا گیا ہے۔ بیک وقت شاعر کی فطرت میں اضطراب، تڑپ، بے فکری، آشفتہ سری اور قوس قزح کی رنگینی اور بہار کا جو کیف ہوتا ہے اس کا اظہار شاعر انہ انداز میں کیا ہے۔ مخدوم کو شاعر کی اہمیت کا پوری طرح احساس ہے۔ ان کی نظم میں شاعر کی عظمت اور اہمیت کا ذکر ہی نہیں بلکہ شاعر کی انا اور اس کے اندر پائے جانے والی نرگسیت کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔

زندگی پہ چھائے ہوئے سکوت پر ان کی دو اچھی نظمیں ملتی ہیں۔ ایک 'سناٹا' ہے ، دوسری 'اپنا شہر' ہے۔
خاص طور پر نظم سناٹا کی فضا اور اس کا صوتی آہنگ نظم کی جاذبیت اور معنویت کو بڑھاتا ہے۔ کہنے کو یہ نظم چند الفاظ پر پھیلی ہوئی ہے لیکن اس نظم کا ہر لفظ اپنی جگہ ایک خاص پس منظر رکھتا ہے ، اور ان سارے الفاظ کے تسلسل سے سناٹے کی کیفیت ابھرتی ہے۔ اس نظم میں شہر آشوب کی سی کیفیت ہے۔ کم و بیش یہی بات نظم 'اپنا شہر' کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی وہی کرب اور مرثیت پائی جاتی ہے۔

چغتائی کی تصویر 'قلندر' سے مخدوم بےحد متاثر ہوئے ہیں۔ اور اس سے متاثر ہو کر اپنے تاثرات منظم کئے ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ نظم چغتائی کی خالقانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے وہیں دوسری طرف مخدوم کے نظریۂ فن کی غماز بھی ہے۔ نظم کا ابتدائی حصہ پڑھتے ہوئے "شکوہ" کا آہنگ یاد آتا ہے۔

تری نظروں کی زد کو آسماں والوں سے پوچھوں گا
مکاں والوں سے کیا میں لامکاں والوں سے پوچھوں گا
جنوں کا عام کر دے دہر کو زیر و زبر کر دے
انہیں بے باک نظروں کو ذرا بے باک تر کر دے

بساط رقص میں اقبال پر لکھی ہوئی دو نظمیں ملتی ہیں، جن میں ایک نظم کا عنوان "اقبال" اور دوسری کا عنوان "اقبال کی رحلت" پر ہے۔ یہ دونوں نظمیں جہاں مخدوم کی اقبال سے عقیدت کو ظاہر کرتی ہیں وہیں اقبال اور ان کے پیغام کو خراج تحسین بھی پیش کرتی ہیں۔ اول الذکر نظم فیض کی اقبال پر لکھی ہوئی نظم سے بہتر ہے۔ مخدوم کی یہ نظمیں شعری معنویت کے اعتبار سے بھی لائق مطالعہ ہیں۔

"اقبال کی رحلت پر"
جس رہ نوردِ شوق کو منزل سے عار تھا
جس موج بے قرار کو ساحل سے عار تھا

کس کی نظر نے اس کو نظر بند کر دیا
اس برق جاں نواز کو پابند کر دیا

شعلہ زمیں کا عرش کی گودی میں سو گیا
امت کا شب چراغ اندھیرے میں سو گیا

مخدوم کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے، انہیں زندگی کے مختلف شعبوں کا درک بھی ہے چونکہ وہ عملی انسان تھے۔ اس لئے انہوں نے زندگی کو اچھی طرح قریب سے دیکھا، پرکھا اور برتا ہے۔ ان کی رومانی نظموں میں جہاں زندگی آراستہ و پیراستہ دکھائی دیتی ہے وہیں ان کی انقلابی نظموں میں زندگی بے نقاب اور برہنہ ہے۔ زندگی اور اس کی حقیقتوں سے چونکہ وہ زیادہ قریب رہے ہیں اس لئے ان کی شاعری میں زندگی کا انعکاس ملتا ہے۔
مخدوم کی شاعری میں بڑی لچک ہے وہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں اور عصری حیثیت کو اپنے اندر سمیٹی ہے۔ ان کی شاعری جہاں ہیئت کے نئے نئے لباس زیبِ تن کیے ہوئے ہے وہیں اظہار اور ترسیل کے نئے نئے وسیلوں لو اپنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے تشبیہات و استعارات سے شاعری کو جہاں سنوارا ہے، وہیں واضح اور روشن علامتوں کے ذریعے نئے نئے معنی و مفاہیم پیدا کئے ہیں۔
آج جب کہ قاری مبہم اور غیر واضح علامتوں کا شاکی ہے اور شاعر اور قاری کے درمیان علامتوں کے سبب ذہنی خلیج پیدا ہو گئی ہے اور اس خلیج کو پاٹنے کے لئے جیسی کوشش ہونی چاہئے، نہیں ہو پا رہی ہے، ایسا قاری جب مخدوم کو پڑھتا ہے تو اس کے سامنے علامتوں کا مثبت تصور آتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ علامتوں کا صحیح استعمال شاعری کو کتنا بامعنی بنا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
***
ماخوذ از رسالہ:
نگار (پاکستان) ، جلد:59 ، شمارہ: جولائی/اگست-1980

Makhdoom Mohiuddin, shab-guzaida shair. Article: Qadeer Imtiaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں