معاصر پٹنہ - قاضی عبدالودود نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-11

معاصر پٹنہ - قاضی عبدالودود نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

muasir-qazi-wadood-number
ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کی چند ادبی شخصیات نے 1940ء کے وسط میں ایک علمی ادارہ قائم کیا تھا جس کی جانب سے جب ایک ادبی رسالہ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا تو نومبر-1940ء میں اس ادارہ کے ترجمان کی حیثیت سے ماہنامہ "معاصر" جاری ہوا۔ یہ بنیادی طور پر تحقیقی و تنقیدی پرچہ تھا جس کے مقاصد میں بہار کے ادبی ورثے کی بازیافت شامل تھی لہذا اس کے ہر شمارے میں بہار کے گمنام شعرا اور ادبا کے رشحات اور ان سے متعلق مضامین لازماً شائع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر عظیم الدین احمد نے 9 سال، بیدل عظیم آبادی نے 23 سال اور ان کے بعد کلیم الدین احمد نے تقریباً 10 سال (1973ء تا 1983ء) تک اس رسالے کی ادارت کا فریضہ نبھایا۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ معاصر نے خصوصی شماروں کی روایت نہیں ڈالی۔ 'قاضی عبدالودود نمبر' اس کا واحد خصوصی شمارہ ہے جسے معاصر کے تیسرے مدیر کلیم الدین احمد نے مرتب کیا تھا۔
معاصر کا یہی خصوصی شمارہ باذوق قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے بطور پی۔ڈی۔ایف فائل پیش ہے۔ قریباً ساڑھے چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 22 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

ڈاکٹر اکرم وارث اپنے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے بعنوان "اردو میں ادبی صحافت - 1935 سے 1960 تک (اہم رسائل کی روشنی میں)" میں رسالہ "معاصر" کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔
ڈاکٹر عظیم الدین احمد معاصر کے پہلے مدیر مقرر ہوئے تھے۔ ستر (70) صفحات پر مشتمل اس رسالے کے پہلے شمارے میں بارہ (12) مضامین اور مضمون نگاروں میں کلیم الدین احمد، عظیم الدین احمد، حافظ شمس الدین احمد اور پروفیسر اختر اورینوی شامل تھے۔
بہار کے ادبی ورثے کی بازیافت 'معاصر' کے مقاصد میں شامل تھی اس لیے اس کے ہر شمارے میں بہار کے گمنام شعرا اور ادبا کے رشحات اور ان سے متعلق مضامین لازماً شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اہم مخطوطات کے تعارف پر بھی خصوصی دھیان دیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی دیگر موضوعات اور ادب کی دیگر اصناف کے لیے اس رسالے نے اپنے دروازے کبھی بند نہیں کیے۔ اس رسالے میں ناول اور افسانے بھی شائع ہوتے تھے۔ رسالے کے قلمکاروں میں سید حسن عسکری، کلیم الدین احمد، عطا کاکوی، پروفیسر اختر اورینوی، عظیم الدین احمد، ڈاکٹر محمد حسن، قاضی عبدالودود جیسی نابغۂ روزگار شخصیات شامل تھیں۔ نومبر 1940 سے مئی 1949 تک اس کے مدیر ڈاکٹر عظیم الدین احمد تھے جس کے بعد اردو کے جلیل القدر شاعر بیدل عظیم آبادی (ڈاکٹر عبدالمنان بیدل) اس کے مدیر مقرر ہوئے، جنہوں نے ایک طویل مدت (تقریباً 23 سال) تک ادارت کے فرائض انجام دئے۔ ان کے بعد 1973ء میں کلیم الدین احمد اس کے مدیر مقرر ہوئے جو 1983ء میں اپنے انتقال تک ادارتی فریضہ نبھاتے رہے۔ کلیم الدین احمد کے بعد پروفیسر مختار احمد (صدر شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی) اس کے مدیر بنے۔
ابتدا میں یہ رسالہ ماہانہ تھا، پھر فرقہ وارانہ فسادات اور ملک کی تقسیم کے منفی اثرات کے سبب کچھ وقتوں کے لیے اس کی اشاعت بند بھی ہوئی۔ مئی 1949ء میں یہ دوبارہ جاری ہوا۔ علاقائی ادب پر معاصر نے زیادہ زور دیا۔ بہار کے غیرمعروف شعرا اور ادیبوں پر مضامین شائع کیے۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے تراجم بھی کثرت سے اس رسالے میں شائع ہوتے تھے۔ اداریے رسالے کی جان ہوتے ہیں۔ معاصر کے ابتدائی شماروں کے اداریے کلیم الدین احمد کے زور قلم کا نتیجہ ہیں، یہ اداریے "تقریب" کے عنوان کے تحت لکھے گئے۔ اس کے بعد اختر اورینوی نے "گزارش" کے عنوان سے اداریے لکھے۔ اردو کی ادبی صحافت کے فروغ میں اس رسالے نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

معاصر کے اس خصوصی شمارے کے مرتب کلیم الدین احمد، "حرف آغاز" کے عنوان سے مقدمہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔
"دائرہ ادب" نے اب تک 'معاصر' کا کوئی خاص نمبر نہیں نکالا ہے۔ ایک بار تحریک ہوئی تھی کہ اقبال سے متعلق خاص نمبر نکالا جائے لیکن وہ تحریک آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ نمبر نکال کر 'دائرہ ادب' نے اپنی مخصوص روایت سے انحراف کیا ہے۔
قاضی عبدالودود صاحب {پیدائش: 8/مئی/1896ء - وفات: 2/جنوری/1984ء} دائرہ ادب کے رکن نہیں ہیں۔ وہ دائرہ ادب کے جلسوں میں البتہ شریک ہوتے رہے ہیں اور معاصر کا قلمی معاونت کرتے رہے ہیں۔ شاید ان کے زیادہ سے زیادہ مضامین معاصر میں شائع ہوئے ہیں۔
تقریباً نصف صدی سے ان کا محبوب مشغلہ کتب بینی، تحقیق اور مضمون نویسی رہا ہے۔ اگر ان کے سارے مضامین کو اکٹھا کیا جاتا تو نہ جانے کتنی ضخیم جلدیں مرتب ہو جاتیں۔ لیکن انہوں نے اس کی طرف کبھی توجہ نہ کی، کیونکہ انہیں نہ ستایش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا۔ اور ستایش کی تمنا کیسے ہوتی جب صورت حال یہ ہو کہ "ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں"۔ وہ غالب ہوں یا آزاد، شاد ہوں یا عبدالحق ہوں یا مسعود حسن رضوی، خواجہ احمد فاروقی، مالک رام، سید اختر احمد اورینوی ہوں یا اور کوئی، انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔ دو چار دیدہ ور محققوں کے علاوہ کسی نے ان کی قدر نہ کی اور کرتے بھی تو کیسے جب وہ ان کے ناوک کے صید تھے۔ رہا صلہ تو ایک تو گورنمنٹ آف انڈیا نے انہیں دس بارہ سال ہوئے سرٹیفکیٹ آف میرٹ [Certificate of Merit] دی اور ابھی چند دن ہوئے انہیں غالب ایوارڈ ملا۔
یہ شاید اردو ہی میں ممکن ہے کہ کوئی نصف صدی سے زیادہ تحقیق میں غرق رہے اور تحقیقی مضامین لکھتا رہے اور وہ مضامین ہندوستان کے اکثر و بیشتر پرچوں میں چھپتے رہیں لیکن نہ ساہتیہ اکادمی اسے انعام دے، نہ کوئی ادارہ اس کے مضامین کو شائع کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ اور زیادہ دانشور یہ سمجھتے رہیں کہ قاضی عبدالودود صاحب کا مطالعہ تو بہت وسیع ہے لیکن انہوں نے مضامین بہت کم لکھے ہیں۔
اس خاص نمبر کا مقصد یہی ہے کہ یہ غلط فہمی دور ہو جائے اور لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ انہوں نے کتنا لکھا ہے اور کیسا لکھا ہے۔ کتنے کی بات تو ان کے مضامین کی نامکمل فہرست سے واضح ہو جائے گی۔ اور یہ بات بھی واضح رہے کہ ان کے بعض بعض مقالے یا مضامین کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے ۔۔۔ غالب بحیثیت محقق، آزاد بحیثیت محقق، عبدالحق بحیثیت محقق ۔۔۔ یہ صرف تین مثالیں ہیں۔ رہا کیسا تو یہ حقیقت ان مقالوں سے واضح ہو جائے گی جو اس نمبر کی زینت ہیں اور بہت دیدہ ریزی اور کاوش سے لکھے گئے ہیں۔
ان مقالوں میں قاضی عبدالودود بحیثیت محقق کا نقش، روشن اور پائندہ نقش ابھرتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ معاصر کا یہ نمبر ایک جامع تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں قاضی عبدالودود صاحب کے خاندانی حالات، ان کی جیتی جاگتی شخصیت، ان کی وسعت مطالعہ، ان کا طرز تحقیق، ان کی تحقیقی کاوشیں، ان کا سائنٹفک اسلوب، ان کے سیاسی اور مذہبی عقائد، یہ ساری چیزیں پہلی بار صاف صاف نظر آتی ہیں اور آئندہ آنے والوں کے لیے اس کی حیثیت سنگ میل کی ہوگی۔

مجھے خوشی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بزرگوں، مشفقوں اور عزیزوں نے میری دعوت کو رد نہیں کیا اور میری کوششوں کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون کیا۔ میں خاص طور سے عالی جناب فخر الدین علی احمد صاحب صدر جمہوریہ ہند کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اپنی بےانتہا مصروفیتوں کے باوجود میری درخواست پر اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ نکال کر ایک مختصر لیکن جامع اور زریں مضمون اس نمبر کے لیے عنایت فرمایا جس سے اس کی قیمت دوچند ہو گئی ہے۔

***
نام رسالہ: معاصر پٹنہ (شمارہ: اگست-1976)
تعداد صفحات: 456
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 22 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Muasir Qazi Abdul Wadood No.pdf

Direct Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرستِ مضامین
نمبر شمارتخلیقتخلیق کارصفحہ نمبر
الفحرف آغازمرتب (کلیم الدین احمد)7
بافتتاحیہفخرالدین علی احمد (صدر جمہوریۂ ہند)12
1میں کون ہوں میں کیا ہوںقاضی عبدالودود21
2ودود بھائیحمیدہ سلطان47
3ایک خطسید امتیاز علی عرشی51
4قاضی عبدالودودیوسف حسین خاں53
5قاضی عبدالودود صاحبمالک رام59
6ایک قاموسی شخصیتمحمد حسن67
7بت شکن محققگیان چند جین84
8تحقیق کا معلم ثانیرشید حسن خان140
9قاضی عبدالودودمختار الدین احمد151
10قاضی عبدالودوددوارکا داس شعلہ190
11قاضی صاحب - عالم اور انسانسید حسن عسکری205
12قاضی عبدالودود کا نانیہالی خاندانسید شاہ عطا الرحمن228
13۔۔۔ لیکن تو چیز دیگریسید محمد حسنین242
14قاضی صاحبمحمد ذکی الحق271
15قاضی صاحبسید حسن290
16قاضی صاحب - جیسا میں انہیں دیکھ سکاسید محمد صدر الدین فضا306
17کچھ قاضی صاحب کے بارے میںعابد رضا بیدار313
18شاد عظیم آبادی اور قاضی عبدالودودمحمد منصور عالم334
19خطوطقاضی عبدالودود352
20مقالاتِ قاضی عبدالودود کی فہرستمحمد ذکی الحق / محمد منصور عالم408
21قاضی عبدالودود اور سیاسیاتسید انیس الرحمن426
22حرف آخرکلیم الدین احمد441


Muasir, patna, Issue (Aug.-1976), Qazi Abdul Wadood Number, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں