شبِ قدر کی عظمت - خرم مراد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-09

شبِ قدر کی عظمت - خرم مراد

خرم مراد (1932-1996) عالم اسلام کے معروف دانشور اور تحریک اسلامی کے ایک ممتاز رہنما تھے۔ 1953ء میں کراچی سے بی۔ای (سول انجینئرنگ) اور 1958ء میں امریکہ سے انہوں نے ایم۔ایس کی ڈگری اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ وہ پاکستان کے ایک ممتاز انجینئر تھے اور مشہور مشاورتی فرم "ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنگ انجینئرز [ACE]" میں بطور چیف انجینئر اور ڈائرکٹر ڈھاکہ، ایران اور سعودی عرب میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے رہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کی تعمیرنو میں بھی آپ نے حصہ لیا تھا۔ آپ کی تصنیف "رمضان اور انقلابِ زندگی" کے ساتویں اور آخری طویل مضمون "شب قدر کی عظمت" کے آخری چند اہم پیراگراف پیش خدمت ہیں۔
ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔
( القدر - 97: 1-تا-5)

سورۂ قدر وہ سورہ ہے جس میں شب قدر کی نسبت سے قرآن مجید کا مقام، اس کی عظمت اور اس کی اصل حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سورہ سے قبل ، سورہ علق میں پہلی وحی کے نزول کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی رات کے وقت اور فجر سے کچھ قبل نازل ہوئی۔ اس سورہ میں جب بات شروع ہوتی ہے تو یہ نہیں فرمایا کہ کیا چیز اتاری ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے :
ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔
(القدر - 97:1)

گویا کہ جو چیز اتاری گئی وہ اتنی جانی پہچانی ہے اور جس سیاق و سباق میں یہ بات ہو رہی ہے، اس میں یہ بات اتنی روشن اور واضح ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ قرآن مجید کو اتارا گیا۔
چنانچہ بہت سے ترجمہ کرنے والوں نے ترجمہ ہی اس طرح کیا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے۔ اگرچہ بعض مترجمین نے ترجمے میں قرآن مجید کا لفظ تو استعمال نہیں کیا ہے لیکن اس بات کو واضح کیا ہے کہ اس سے اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے ، جس کا تذکرہ پچھلی سورت (سورۃ العلق) میں ہو چکا ہے۔ یہ بات بھی قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر بیان ہوئی ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو رمضان المبارک کے مہینے میں اتارا:
"رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔"
(البقرہ - 2:185)

ان دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 'لیلۃ القدر' رمضان المبارک ہی کی ایک رات ہے۔ سورۃ الدخان کے آغاز میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
قسم ہے اس کتاب مبین کی کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیر وبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ یہاں خیروبرکت والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے۔
(الدخان - 44 : 2-3)

وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔
(القدر - 97:5)

قرآن مجید کے نزول کے لحاظ سے 'سلٰمٌ' کے ایک معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ یہ وہ رات ہے جس میں قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کے احکام نازل ہوتے ہیں اور قرآن کی حفاظت اور تحفظ کا نظام مکمل طور پر موجود ہے اور اس میں کوئی تغیر و تبدل یا تحریف کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔
یہ رات طلوع فجر تک رہتی ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب تہجد اور سحری کا وقت ختم ہوتا ہے ، صبح کاذب ہوتی ہے اور پو پھوٹتی ہے۔ اس سے یہ بات واضح طور پر متعین ہوگئی کہ یہ رات فجر کے وقت تک باقی رہتی ہے۔

ایک اور پہلو جس کا آیت کی تفسیر سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن اپنی جگہ وزن رکھتا ہے ، یہ ہے کہ اس رات میں جو فیصلے کئے جاتے ہیں ، وحی اتار کر انسان کو جس ہدایت سے نوازا گیا اور سلامتی کا جو نظام دیا گیا، یہی وہ چیز ہے جس سے انسان کو صبح کی روشنی نصیب ہوتی ہے۔ یہاں صبح سے میری مراد سورج کا طلوع ہونا نہیں ہے بلکہ وہ صبح ہے جو ظلم کی اندھیری رات کے بعد امن و سکون ، سکھ چین اور عدل و انصاف کو لے کر طلوع ہوتی ہے۔ گویا یہ روشنی مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں زندگی اور امید کا پیغام لے کر نمودار ہوتی ہے۔

روشنی اور تاریکی کا یہ مفہوم براہ راست تفسیر کے دائرے میں تو نہیں آتا مگر ذہن اس طرف بھی جاتا ہے کہ اس رات میں انسان کو جو ہدایت ، کتاب اور روشنی دی گئی وہ انسان کے لئے صبح ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی انسانیت کو امن، چین ، سکھ، تہذیب، و تمدن ، آزادی فکر، ضمیر کی آزادی اور حقیقی آزادی نصیب ہوئی۔

لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کون سی رات ہے؟
اس کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیں۔ البتہ اس حد تک بات یقینی ہے کہ یہ رمضان المبارک کی ایک رات ہے۔ کیونکہ قرآن مجید نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا اور شب قدر میں نازل ہوا۔ بعض علما کے نزدیک یہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہے۔
امام شافعیؒ کے نزدیک یہ سترہ رمضان کی رات ہے۔ اس لئے کہ یہ غزوہ بدر کا دن ہے۔ ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن کے مطابق یہ آخری عشرے کی کوئی ایک رات یا کوئی طاق رات ہے۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو بھی اسی طرح چھپا دیا جس طرح اس نے اپنی اطاعت کو بہت سے نیک کاموں میں چھپا دیا تاکہ آدمی ہر نیک کام کرے۔ اپنے غضب کو بہت سے گناہوں میں چھپا دیا تاکہ آدمی ہر گناہ سے بچے۔ اپنے اسم اعظم کو اپنے سارے ناموں کے اندر چھپا دیا تاکہ آدمی اس کے سارے نام لے ، اسی طریقے سے اس نے رات کو بھی چھپا دیا تاکہ آدمی ہر رات کو اس کے حضور کھڑا ہو، ہر رات کو جستجو اور کوشش کرے تاکہ وہ اس رات کو پا سکے۔ اس رات کی عبادت، اس کے نور اور اس رات میں جو کام انجام پایا ہے اس سے واقف ہو سکے۔

ہمارے لئے اس میں یہ سبق ہے کہ آج دنیا مادیت کا شکار ہو چکی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں بے شمار ترقی ہوئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ بہت تیز ہوگیا ہے۔ جو فاصلے پہلے برسوں میں طے ہوتے تھے وہ اب منٹوں اور سیکنڈوں میں طے ہوتے ہیں۔ جو آواز کہیں نہیں پہنچ پاتی تھی وہ اچانک ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔
بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بہت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن فی الواقع اس صدی میں اخلاق ، روح اور اقدار کی جوموت ہوئی ہے اس کی وجہ سے دنیا کی تاریخ میں یہ صدی سب سے زیادہ خون ریز صدی ہے۔ اس صدی میں انسان کا اتنا خون بہا ہے کہ جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ خون عصبیت ، نسل اور رنگ کے نام پر، مال و دولت اور دنیا کی بین الاقوامی مارکیٹوں پر قبضہ جمانے کے لئے اور کمزور قوموں کو کچلنے کے لئے بہایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی زندگی عدم سکون کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔

ایک نو مسلم محمد اسد، جو یہودی تھے، پھر مسلمان ہوئے اور انہوں نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں، اپنے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ، لکھتے ہیں کہ:
وہ برسوں مسلم ممالک میں پھرتے رہے، اسلام کو سمجھ بھی لیا اور اس کے قائل بھی ہو گئے مگر مسلمان نہ ہوئے۔ ایک دن وہ برلن میں بس میں سفر کر رہے تھے۔ دوران سفر انہوں نے مسافروں کے چہروں کے تاثرات کا جائزہ لیا تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہر شخص کے چہرے پر ایک قسم کی آگ، تپش، سوزش، اور جلن ہے۔ ہر شخص بے چین اور مضطرب نظر آ رہا تھا۔ گھر جاکر انہوں نے قرآن مجید کھولا تو پہلی آیت یہ نظر آئی:
اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
"تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے ، یہاں تک کہ تم اب گور تک پہنچ جاتے ہو۔"
(التکاثر - 102 : 1-2)

گویا کثرت کی ہوس کہ یہ بھی ہوجائے اور وہ بھی ہو جائے ، اس نے تم کو غافل کر دیا ہے اور اب تم اپنی آنکھوں سے جہنم کو دیکھ لو گے۔ اس طرح سے انہیں احساس ہوا کہ ہوس پرستی کی وجہ سے لوگ کس طرح بے چینی اور اضطراب کے جہنم میں جل رہے ہیں اور ان کی زندگی سکون سے محروم ہے۔ یہ واقعہ ان کے قبول اسلام کا باعث بنا۔

غور کیا جائے تو آج ہر شخص مضطرب و بے چین ہے۔ ایک جہنم ہے کہ جو چہروں، دلوں اور زندگیوں میں بھڑک رہی ہے۔ اس کا علاج وہی سلامتی کا پیغام ہے جو شب قدر میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا۔ انسانیت کے لئے امن و چین ، سکون و نجات اور بہتری اگر کسی چیز میں پوشیدہ ہے تو وہ اس کلام الٰہی میں پوشیدہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی نجات اور سلامتی والی رات لیلۃ القدر میں اتارا تھا۔
امت مسلمہ کو اس کتاب کا امین بنایا گیا ہے اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی گئی ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ یہی وہ بات ہے جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس کا کہ اس سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کتاب کی قدر و قیمت کو جاننے، پہچاننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

***
ماخوذ از کتاب:
رمضان المبارک اور انقلاب زندگی (مصنف: خرم مراد)۔
ناشر: آئی۔ایل۔ایم ٹرسٹ، لاہور۔

The greatness of Laylat-al-Qadr. Article: Khurram Murad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں