ترکی بہ ترکی - پرویز یداللہ مہدی - از پروفیسر اشرف رفیع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-21

ترکی بہ ترکی - پرویز یداللہ مہدی - از پروفیسر اشرف رفیع

parvez-yadullah-mehdi
سید ید اللہ مہدی حسینی جو ادبی حلقوں میں "پرویز ید اللہ مہدی" کے اسم سے معروف تھے 21/جون 1943 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 20/اگست 2018 کو بعمر 75 سال شکاگو (امریکہ) میں انتقال کر گئے۔ حیدرآباد میں تعلیم کے بعد انہوں نے ممبئی منتقل ہو کر ریڈیو کے ذریعے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا کی تھی اور ملک بھر کے ادبی رسائل میں لکھا کرتے تھے۔
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد) نے اپنا ایک خصوصی نمبر (فروری/مارچ 2009) بطور "پرویز ید اللہ مہدی نمبر" شائع کیا تھا۔ جس میں پروفیسر اشرف رفیع کا تحریر کردہ درج ذیل خاکہ موجود ہے۔
آسکروائلڈ نے کہا تھا:
" اگر کسی سے سچی بات کہلوانا ہو تو اسے ایک نقاب دے دو"
ظرافت ایسا ہی ایک نقاب ہے۔ اس نقابی دور میں مزاح و ظرافت کے معنی اور وسعتوں کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ مزاح اب ، حیات کے تغیرات و انقلابات کے ساتھ زندگی کے گہرے مشاہدے اور مجاہدے سے عبارت ہے۔ بے حسی ، بے کیفی ، بے دری ، بے دردی ، بے ایمانی اور بے سمتی کے دور میں ، اظہار مدعا کے لیے نقاب سے زیادہ بے نقابی کی ضرورت ہے ، اردو ادب نے ہر زمانے میں یہ رول بڑی بے جگری سے ادا کیا ہے۔ جیسے جیسے اقدار زندگی بے معنیٰ ہوتے گئے تیزی اور تیزابیت میں اضافہ ہوتا گیا ، انیسویں صدی کے نصف آخر میں تو اودھ پنچ اور جواباً نکلنے والے پنچوں ، نے طنز و مزاح کووقت کی ضرورت سمجھا ، بلکہ ادب کی ایک لازوال صنف بھی بنادیا۔ اس کے ساتھ ہی ، مزاح نگاروں پر بڑی اہم ذمہ داریاں بھی آپڑیں۔ مختصر یہ کہ طنز و مزاح اور فکاہیہ نگار وہ زبردست اور ماہر مصور ہیں جو بے سروسامانی کے عالم میں سنگلاخ چٹانوں کو اپنے دست صناعی سے آئینہ بنادیتے ہیں تاکہ سامنے کامنظر ان میں صاف صاف نظر آسکے۔ اس آئینہ میں حسن کی جلوہ سامانیوں کے ساتھ قبیح کی قباحتیں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں۔ انہیں سامنے لانے کے لیے مزاح نگار کو عقل و خرد اور حکمت و دانائی سے کام لینا پڑتا ہے۔۔

حیدرآباد جس کی فرخندہ بنیادی عرصہ ہوا قصۂ پارینہ بن چکی ہے ، سدا سے گہوارۂ علم و ادب رہا ہے۔ اس شہر فسوں نے اپنے اور پرائے کا فرق کیے بغیر ، علم نوازی اور سرپرستی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، شاہوں ، درباروں اور امرا کا تو ذکر ہی کیا۔ دکن کے چند جیالوں اور جوانوں نے سماج کی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا دینے کے لیے " زندہ دلان حیدرآباد " اور " شگوفہ " کی بنیاد ڈالی۔ سسکتی ہوئی اور دم توڑتی ہوئی شاہی کے زمانے میں ، نالگو برادران ( 1۔ عبدالرحمٰن صاحب ، 2۔ جعفر حسین صاحب ، 3۔ سید معز الدین ملتانی صاحب ، 4۔ قیوم صاحب ) نے سماجی پشتہ بندی کا اہم کام انجام دیا تھا۔ لیکن آج ، زندہ دلوں نے اپنی تمام تر بے نوائی اور بے سروسامانی کے ساتھ خزاں رسیدہ چمن میں شگوفے کھلادیئے۔ شاہد صدیقی ، حمایت اللہ ، مجتبیٰ حسین ، مسیح انجم ، رؤف رحیم ، پرویز یداللہ مہدی ، طالب خوندمیری ، ڈاکٹر رشید موسوی ، ڈاکٹر حبیب ضیاء نے زندگی کے خارزار میں اپنی گل افشانی گفتار سے راہیں نہ صرف ہموار کیں بلکہ معطر بھی کردیں۔ مجتبیٰ حسین قطب از جانمی جنبد تو ہوہی چکے ہیں۔ پرویز ید اللہ مہدی کی پرواز بھی طنز و مزاح کے میدان میں کسی سے کم نہیں ۔ ان کا مزاح ، خاکوں اور انشائیوں سے بھی آگے وسعتوں کی تلاش میں نکل چکا ہے۔

مزاح نگار کی مجبوری یہ ہے کہ وہ خود ساختہ نہیں ، خدا ساختہ ہوتا ہے۔ پرویز کے نام کا درمیانی جز خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ پرویز یداللہ مہدی کی ظرافت اور مزاح کچھ " ادھر کی چیز " ہے جو ان کے خمیر میں شامل ہے۔
پرویز کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا۔ ان کی پہلی تخلیق " اپٹوڈیٹ بیوی " مزاحیہ نظم ہے جو روزنانہ انقلاب ممبئی میں شائع ہوئی۔ پہلا افسانہ " لیکن " وہ بھی مزاحیہ جو ماہنامہ "بانو" دہلی میں شائع ہوا۔
۔۔۔۔۔۔ اردو کے موقر رسالوں جیسے بانو ، شمع ، روبی ، خاتون مشرق ، زیور ( پٹنہ ) وغیرہ میں بے شمار افسانے شائع ہوئے۔ زیادہ تر افسانے نیم مزاحیہ ہوا کرتے تھے۔ لہذا بہت جلد طنز و مزاح کے میدان کی طرف قلم کی باگیں موڑ دیں یعنی :
" رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور "
پرویز ید اللہ مہدی نے صرف انشایئے اور خاکے ہی نہیں لکھے انہوں نے اپنی مزاح نگاری کے جوہر ڈراما نگاری ، کالم نگاری ، ناول نگاری اور سفر ناموں میں بھی دکھائے ہیں۔ بیربل کا پوتا اور بڑے خاں کا بلاوڑ ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی ڈرامے ریڈیو سے نشر ہوچکے اور اسٹیج پر پیش ہوچکے ہیں۔ مزاحیہ ڈراموں کا مجموعہ " تو تو میں میں " 1978 ء میں منظر عام پر آچکا ہے۔

پرویز کی کالم نگاری کا آغاز رہنمائے دکن کے ہفتہ وار ایڈیشن سے ہوا۔ " شگوفہ " میں" چکروں " کے عنوان سے کالم نگاری کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ " یہ ہے بمبئی میری جان " کے عنوان سے بمبئی کے روزنامہ " انقلاب " میں تقریباً پندرہ برس تک کالم لکھتے رہے۔
پرویز نے ناول بھی لکھے ہیں۔ ان کے دو ناول " چہ خوب " اور " سگ لیلیٰ " ماہنامہ شگوفہ میں قسط وار شائع ہوتے رہے۔ خاکہ نگاری میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ فری لانس کمرشیل رائٹنگ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ فلمی دنیا ، ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے وابستہ ہیں۔
مزاحیہ مضامین کے چار مجموعے چھیڑ چھاڑ 1975 ء ، چوڑی کا غلام 1977 ، ٹائیں ٹائیں فش 1984 اور کچوکے 1993ء میں طبع اور شائع ہوچکے ہیں۔

اب ان کے مزاحیہ مضامین کا پانچواں مجموعہ " ترکی بہ ترکی " منظر عام پر آیا ہے۔ کتاب کا نام اس کتاب کے پیش لفظ بعنوان " ترکی بہ ترکی " پر رکھا گیا ہے جس کو مصنف نے "پس و پیش لفظ" کی معنی خیز اور پرلطف ترکیب سے نوازا ہے۔ پس و پیش میں پیش لفظ لکھنے یا نہ لکھنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پیش لفظ کے مزاج ، وسعت ، حدود اربعہ ، تاویلات ، متعلقات اور تعلیقات پر نہایت ہی مدلل و پر معنی بحث کی ہے۔
کتاب کے کاپی رائٹ والے صفحے ہی سے پرویز کے مزاح اور اس کی اڑان کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ترکی بہ ترکی کی قیمت اس طرح لکھتے ہیں ، جیسے مہر کی رقم لکھی جاتی ہے " مبلغ سو روپئے ، سکہ رائج الوقت ، دس امریکی ڈالر "۔
اپنے ایک اور مجموعے "کچوکے " میں قیمت دفتری انداز میں لکھتے ہیں۔ ترکی بہ ترکی کے حقوق محفوظ کرنے کا انداز بھی بڑا دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں "جملہ حقوق بحق مصنف بلاوجہ محفوظ "
کچوکے کا بھی یہی انداز ہے "جملہ حقوق بحق مصنف خواہ مخواہ محفوظ "۔

پرویز یداللہ مہدی کے انشائیوں اور مضامین کے عنوانات بڑے شگفتہ ، انوکھے اور چونکادینے والے ہوتے ہیں۔ جیسے کرکٹ نامہ ، گدھا گشت ، جنت امکانی ، اردو کے شیر سے انگریزی کے شیئر تک اور مارکٹنگ گائیڈ جدید۔

ترکی بہ ترکی کے مضامین کیا ہیں ؟ وحدت میں کثرت کی جلوہ سامانی ہے۔ ان میں انشایئے ، شاعری ، پیروڈی ، افسانے ، ڈرامے اور خاکے سبھی کا لطف آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے میں شامل طویل ترین مضمون " مارکٹنگ گائیڈ جدید " 45 صفحات پر محیط ہونے کے باوجود اکتاہٹ پیدا نہیں کرتا۔ کمرشیل رائیٹنگ اور ٹی وی سیریلز کے اسکرپٹ لکھنے کے تجربے سے پرویز نے یہاں بڑا استفادہ کیا ہے۔ قاری کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے اپنے طویل مضمون کو مختلف ذیلی عنوانات میں بانٹ کر تسلسل کے بوجھ کو ہلکا کردیا ہے۔ اس ترکیب سے قاری نئے عنوان کے تحت آگے بڑھتی ہوئی بات یا واقعہ میں کھوجاتا ہے۔ مارکٹنگ گائیڈ کو چودہ پندرہ مختلف ، بامعنی اور دلچسپ عنوانات دے کر قاری کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

الکٹرانک میڈیا نے ہماری زندگی کو کس حدتک متاثر کیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انسان ، فطری طور پر تخریب پسند ہے۔ خود تخلیق اول کے وقت فرشتوں نے انسان کی اسی کمزوری کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میڈیا کے اصلاحی اور فلاحی پہلو ، معاشرے پر اتنے اثر انداز نہیں ہوتے جتنے غیر اخلاقی اور تخریبی پہلو اثر پذیر ہوتے ہیں۔ ہمارے اخلاقی اور تہذیبی اقدار کی زوال پذیری میں بڑا دخل میڈیا کا ہے جس کا جادو سبھی پر چل رہا ہے۔ خصوصاً ایسے دیس میں جو تعلیمی اور معاشی اعتبار سے اب تک پچھڑا ہوا ہے اس دیس میں میڈیا پر چک اینڈ کنٹرول مضبوط تر نہ ہوتو معاشرہ بہت جلد غیر متوازن ہوجائے گا اور انسان اور انسانیت کی یافت مستقبل قریب میں مشکل ہوجائے گی۔ ایسے نازک مرحلے میں مزاح نگار مسیحا بن کر سامنے آتا ہے۔ پرویز کی قوت مشاہدہ ، دور بینی دوروں بینی کے علاوہ تہذیبی اور معاشرتی ادراک بڑا تیز ہے وہ حال سے مستقبل کا اندازہ ہی نہیں لگاتے ، اندیشہ بھی کرلیتے ہیں۔ مارکٹنگ گائیڈ میں بڑی درد مندی کے ساتھ ٹیلی ویژن کے پروگراموں اور اشتہاروں پر پر اثر طنز کرتے ہیں۔

پرویز کا طنز بڑا تیکھا اور تیز اثر ہے۔ بات ہورہی ہے بیوی کی ، جو ٹی وی لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ حصہ فنی اعتبار سے افسانے ، ڈرامے اور فکاہیے کا لطف تو دیتا ہے مگر بین السطور تنبیہ و تعریض بھی کرتا ہے ، طنز کے تیر بھی برساتا ہے ، ہم پر ، معاشرے ، مذہبی اداروں پر اور سیاسی اجارہ داروں پر۔۔
پرویز کبھی قاری کو ہنسانے کی دانستہ شرارت نہیں کرتے۔ وہ کبھی اپنے انکشافات اور مشاہدات کو بڑے تازہ ، شگفتہ انداز میں ایک آدھ جملے میں یا چند الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے پیش کردیتے ہیں۔ ایسے جملے اور فقرے جہاں قاری کو محظوظ کرتے ہیں ، وہیں ذہن کے دریچوں پر دستک بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں
اٹھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
دو مثالیں پیش ہیں :

(1) ان کا کلام نہیں چلتا ، چہرہ چل جاتاہے
(2) وہ واقعی میاں بیوی ہے یا بیوی میاں !

ایک اور نسبتاً طویل مثال ملاحظہ ہو :
" شاعروں کو دور درشن میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ کیوں کہ شاعر لوگ ایک تو اپنا کلام گاکر سناتے ہیں یا دوسرے مشکل الفاظ کو اشاروں اور بھاؤتاؤ کی مدد سے درشکوں کے بھیجے میں اتار دیتے ہیں۔ "

ایک ذہین انشا پرداز کا ، ادب کے ساتھ ساتھ انفس و آفاق کا بھی مطالعہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس کا ایک وسیع اور وقیع فلسفیانہ نقطہ نظر بھی ہوتا ہے جو صحت مند سماج کی تشکیل کے تانے بانے بنتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی تحریروں میں وسعت و ہمہ گیری پیدا ہوجاتی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ بہ عنوان " ترکی بہ ترکی " میں ، پرویز ایک فلسفی کی طرح سامنے آتے ہیں ، جو اپنے "مشورہ نواز " اور " مشورہ باز " احباب کو اپنی فلسفیانہ تاویلات سے مات دیتے چلے جاتے ہیں اور کہنے کی تمام باتیں اس طرح کہتے ہیں جیسے کچھ کہا ہی نہیں۔ آخر میں بڑی معصومیت سے اپنا مقصد نکال ہی لیتے ہیں اور پیش لفظ تیار ہوجاتا ہے۔

عصری زندگی میں سائنس پر غیرمعمولی زور دیا گیا ہے۔ سائنس نے مادے کو تو ہمارے شعور میں داخل کردیا ہے۔ لیکن جذبات و احساسات کو زندگی سے آہستہ آہستہ نکال باہر کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مادیت پرستی نے ، فکر و احساس جذبات و اخلاص سبھی کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا ایک ہولناک عدم توازن کا شکار ہورہی ہے۔ مزاح نگار معاشرے کا بڑا ذی شعور اور زود حس شخص ہوتاہے۔ کوئی محسوس کرے یا نہ کرے ، وہ ہر لمحہ ، ہر واقعہ کو صحیح پس منظر و پیش منظر میں سب سے پہلے سمجھ لینے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانا ، انہیں روشنی دکھانا اپنا فرض سمجھتاہے۔ پرویزیداللہ مہدی نے اعلیٰ و ادنیٰ ، آپ بیتی و پربیتی ، رہزن و رہبر سرکار و بازار سب کی کمزوریوں ، خامیوں ، غیر متوازن رویوں ، بے ایمانیوں کا پول ہنستے ہنساتے کھول دیاہے۔ " کرکٹ نامہ " کے اختتامی حصے میں مصنف نے اسپورٹس اسپرٹ کی طنابیں دور تک کھینچتے ہوئے انہیں فسادات سے جوڑ دیا ہے۔

کائنات میں بعض چیزیں بے کار محض نظر آتی ہیں لیکن جب کسی مرد دانا کی نظر ان پر پڑتی ہے تو ہمیں اس کی حقیقت اور اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ ایسے کئی واقعے آپ کے بھی دیدہ و شنیدہ ہوں گے ، چھوٹے اور بڑے پردے پر بارہا دیکھا بھی ہوگا ، نظر سے گزرے اور ذہن سے اتر بھی گئے ہوں گے۔ بعض ایسے صاحب کمال بھی ہوتے ہیں جو مکھی کو"پردھان " بنادیتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے اس مضمون کی طرف جس میں دور درشن کی ایک خاتون نیوز ریڈر کو سماچاروں کی پیش کشی کے دوران ایک عدد مکھی بری طرح زچ کرتی ہے۔ پرویز نے اس مضمون میں اتنی سی مکھی کو لے کر ایک افسانہ کھڑا کردیا ہے جس میں صداقتوں کا طوفان امڈ آیا ہے۔

ایک جگہ مزاح کی تعریف کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ مزاح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
" جس مزاحیہ تخلیق میں زبان و بیان کی شائستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہو وہ مزاح ہے"۔
اپنے مضمون "پسلی پھڑک اٹھی نگہ انتخاب کی " کے صفحہ 115 پر غیر مستور ، مستورات کے ملبوسات کا مختصر سا جغرافیہ بیان کرتے ہوئے بڑے شائستہ انداز میں سب کچھ کہہ دیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ وہ لباس " غیر شرعی بلکہ غیر مرئی "کی تعریف میں آتے ہیں۔ "
طنز و مزاح میں تشبیہ و استعارے سے بڑا کام لیا جاتا ہے۔ یہ خیالات کی ترسیل کا بڑا پراثر اور معنی خیز ذریعہ ہے جو قاری کو مصنف کی فکری گہرائیوں اور گیرائیوں تک لے جاتا ہے۔ پرویز نے اس حربے کو بڑی تازگی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ان کی تشبیہیں اور استعارے واقعی نادر اوراچھوتے ہیں ، جن میں معنی و مفہوم کا ایک جہاں آباد ہے۔ مثلاً
1۔ میک اپ روم انچارج نے یوں ہمیں اپنی تحویل میں لیا جیسے ہم آدمی کے بچے نہیں مال غنیمت کی پوٹلی ہوں۔ "
2۔ " تاہم شباب کے باب میں نرس نہیں کسی اسمگلر کا پرس تھی "۔
3۔ فیشن اصل میں اس بلا کا نام ہے جو سیاسی نیتاؤں اور فلمی ابھینیتاؤں کے قول و قرار کی طرح ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔

پرویز یداللہ مہدی رعایت لفظی ، خوبصورت اور اچھوتی تراکیب سے کام لے کر بڑا لطف پیدا کردیتے ہیں ایسی مثالیں بے حد و حساب ہیں مثلاً تہمد نہیں تہمت ہے ، سمجھ دانی ( یعنی عقل ) ماڈرن زن اور غوطہ زن ، مشورہ نواز ، مشورہ باز مشاعرے اور معاشرے ، یاران برائے نام وغیرہ۔۔
پرویز نے اپنے ادبی سفر ( جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے ) کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ پھر مختلف راہوں سے ہوتا ہوا ، ان کا سفر طنز و مزاح تک آپہنچا۔ طنز و مزاح میں جہاں ان کی ادبی شخصیت کی دوسری جہتیں اپنی جگہ نکالتی رہی ہیں ، وہیں شاعر بھی اپنا وجود منواتا آ رہا ہے۔
وہ شاعر اب پیروڈی کرتا ہے یا تصرف سے کام لیتا ہے مثلاً ۔۔۔

سنو اے غافلان خطۂ برباد !
اس کو کہتے ہیں کرکٹ آرائی
تیری نگاہ نے کیا کام لاجواب کیا
گدھے کو لاکھوں نشانوں میں انتخاب کیا
نظارے کو بھی تاب نہیں جس لباس کی
تعریف کیا کرے کوئی ایسے لباس کی

طنز اگر کھلا ہو تو ہجو اور دلآزاری تک پہنچ جاتا ہے۔ اصلاح کے بجائے انتقام کی آگ بھڑکاتا ہے۔ طنز ہوتو ایسا ہو خاطر پہ کسی کی بارنہ ہو ۔ زبان کی شائستگی ، برجستگی اور شگفتگی ، طنز و مزاح کے بارے میں کہتی ہے:
صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا۔
مزاح نگار معاشرے کے ساتھ چلتا ہے۔ خردمندوں کی خرد کو زمام دیتا ہے۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا ہے۔ گیت گاتا ، نوحہ کرتا اور رجز پڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی کام پرویز نے کیا ہے۔ گویا کہتے ہیں :
نغمہ کجا و من کجا ، ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را

ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ جلد:42، شمارہ:2۔ شمارہ: فروری 2009۔
یہ بھی پڑھیے :
چلتا پھرتا لٹریچر - پرویز ید اللہ مہدی
پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
ہیروئین کا کتا - مزاحیہ افسانہ از پرویز ید اللہ مہدی
چھیڑ چھاڑ - پرویز یداللہ مہدی کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
Parvez Yadullah Mehdi, a prominent name of Urdu Humour. Essay by: Prof. Ashraf Rafi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں