افکار و حوادث - عبدالمجید سالک کے تین دلچسپ کالم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-22

افکار و حوادث - عبدالمجید سالک کے تین دلچسپ کالم

عبد المجید سالک (پ: 12/ستمبر 1894 گرداسپور ، م: 27/ستمبر 1959 لاہور)
اردو کے نامور شاعر، صحافی، افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔ 1920ء میں وہ مشہور روزنامہ "زمیندار" کے عملۂ ادارت میں شامل ہوئے تھے، پھر 1927ء میں انہوں نے مولانا غلام رسول مہر کے اشتراک سے روزنامہ "انقلاب" جاری کیا جس کے ساتھ وہ اکتوبر 1949ء میں اس کے خاتمے تک وابستہ رہے۔ عبد المجید سالک روزنامہ اخبار "انقلاب" میں ایک کالم "افکار و حوادث" کے نام سے لکھا کرتے تھے، یہی کالم ان کی پہچان بن گیا۔ ان کے منتخب شدہ غیرسیاسی کالموں کا ایک مجموعہ "افکار و حوادث (جلد اول)" کے عنوان سے محمد حمزہ فاروقی نے مرتب کر کے 1991ء میں شائع کیا تھا۔ اسی کتاب سے تین منتخب کالم پیش ہیں۔

کالم: انقلاب۔ جلد:3 ، نمبر:274، یک شنبہ۔ 19/مئی 1929ء۔ سنڈے ایڈیشن۔
ہندوستان عجب بدقسمت ملک ہے۔ اس کی مصروفیتیں تو روز بروز مغربی ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن عادتیں بدستور مشرقی ہیں۔ ہندوستانیوں نے اخبار نویسی مغرب سے سیکھی لیکن اخبار نویس کی مصروفیات کا اندازہ لگانے میں ہمیشہ مشرقیت کا ثبوت دیا۔ مدیر "افکار" بارہا لکھ چکا ہے کہ میں بے حد مصروف رہتا ہوں اس لئے ملاقات کرنے والے حضرات میری مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر اپنی عادات میں اصلاح فرمائیں تاکہ مجھے مروت کے مشرقی اصول کو خیرباد نہ کہنا پڑے لیکن ملاقاتی حضرات بدستور بےتکلفی پر عمل پیرا ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جب مدیر "افکار" ہر شخص سے صاف کہہ دیا کرے گا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔

ان ملاقاتی حضرات میں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم تو ان زیرک و فہیم حضرات کی ہے جو کسی ضروری کام کے بغیر کبھی تشریف نہیں لاتے اور جب آتے ہیں فی الفور کام کی بات کہہ کر اس کا شافی جواب پا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسے مہربانوں کی تعداد روز افزوں فرمائے۔
دوسری قسم ایسے حضرات کی ہے جو یوں تو کسی ضروری کام ہی کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں لیکن نہایت طویل مزاج پرسی اور ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے کے بعد حرف مطلب زبان پر لاتے ہیں۔ خاکسار فوراً ان کی بات کا جواب دے دیتا ہے، اس امید پر کہ شاید اس جواب کے بعد مخلصی کی صورت نکل آئے لیکن وہ
حضرات جواب سننے کے بعد مطمئن ہو کر اور بھی زیادہ پاؤں پھیلا دیتے ہیں اور نہایت فراغت کے ساتھ دنیا جہان کے قصے، ادھر ادھر کی باتیں، واقعات پر تبصرہ اور حالات پر رائے زنی شروع کر دیتے ہیں اور خاکسار دل ہی دل میں اپنے وقت کے خون ہو جانے کا ماتم کرتا رہتا ہے۔

تیسری قسم بے انتہا تکلیف دہ ہے۔
ان حضرات کی تشریف آوری کا کوئی قطعی مقصد نہیں ہوتا محض "نیاز حاصل کرنے" کے لئے تشریف لاتے ہیں حالانکہ اکثر حالت میں خاکسار کو ان کی خدمت میں اس سے پیشتر پچیس دفعہ نیاز حاصل کرنے کا شرف نصیب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر "حصول نیاز" کی مدت مختصر ہو تو خیر اسے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ حضرات نہایت ڈٹ کر بیٹھتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب ان کا اٹھنا میرے لئے بالکل مفید نہیں رہتا۔

خاکسار دن کے وقت تحریر کا کام نہیں کرتا کیونکہ تنہائی اور یک سوئی دن کے وقت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ گرمی ہو یا جاڑا، بہار ہو یا خزاں، ہر روز رات کے دو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے چونکہ اس وقت کوئی خلل انداز نہیں ہوتا اس لئے کام بسہولت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک چوتھی قسم کے خطرات ہیں جو خاکسار کے وقت پر شب خون مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایک صاحب کا ذکر ہے، آپ پچھلے دنوں رات کے بارہ بجے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے متعجب ہو کر پوچھا:
"حضرت اس وقت کہاں ؟"
فرمانے لگے: "سینما دیکھ کر آیا تھا سڑک پر آپ کے لیمپ کی روشنی دیکھی، جی میں کہا، چلو سالک صاحب سے تھوڑی دیر گپیں ہانگیں"۔
لاحول ولا قوة الا باللہ۔ گپوں کے لئے کتنا موزوں وقت تلاش کیا ہے۔
مرتا کیا نہ کرتا۔ نہایت مری ہوئی آواز سے کہا: "تشریف لے آئیے"۔
آپ آکر بیٹھ گئے کچھ بات شروع کرنے والے ہی تھے کہ خاکسار نے چپ سادھ لی اور لکھے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خدا جانے کیا کچھ فرماتے رہے، کوئی لفظ خاکسار کی سمجھ میں آیا، کوئی نہ آیا، لیکن ایک مقررہ وقفہ سے "ہوں ہوں" برابر کرتا رہا تاکہ بالکل ہی بے مروتی اور بدتمیزی ظاہر نہ ہو۔ اگر خاکسار کی جگہ کوئی اور شخص اور ان حضرت کی جگہ خاکسار ہوتا تو دوسرے شخص کو اس قدر مصروف دیکھ کر اور اس کی بے معنی ہوں "ہوں ہوں" سن کر پانچ منٹ بھی بیٹھنا گوارا نہ کرتا لیکن حضرت ممدوح کامل ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے اور جب تشریف لے گئے تو پانوں کی تھالی اور سگریٹ کی ڈبیا خاکسار کے دل کے طرح ویران پڑی تھی۔

دوسرے دن ایک مجلس میں ان حضرت سے ہمارا سامنا ہو گیا۔ آپ بے تکلفی سے فرمانے لگے:
"رات تو آپ بے انتہا مصروف تھے"۔
ایک بذلہ سنج دوست پاس کھڑے تھے، کہنے لگے:
"جی ہاں عمر بھر میں سالک پر ایک ہی مصروفیت کی رات آئی ہے اور وہ شبِ گزشتہ تھی"۔
وہ حضرت کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ خاکسار نے موقع پا کر نہایت متانت سے منہ بنا کر کہا کہ:
"مجھے کبھی غصہ نہیں آتا لیکن جو شخص رات کے وقت میرے کام میں خلل انداز ہو، اسے جان سے مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کروں میری یہ خواہش بالکل اضطراری ہے۔ مجھے تو اس پر قابو نہیں لیکن احباب کو ضرور احتیاط کرنی چاہیے"۔
وہ حضرت نہایت غور سے میری بات سنتے رہے پھر چپ چاپ ایک طرف چل دئے اور آج تک رات کے وقت کبھی تشریف نہیں لائے۔ جان کتنی عزیز شے ہے۔

کالم: انقلاب۔ جلد:4 ، نمبر:21، یک شنبہ۔ 7/جولائی 1929ء۔ سنڈے ایڈیشن۔
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اخبار نویسوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو اس "ودیعت نخوست" کا مقابلہ کر کے دن کو کچھ وقت آرام کے لئے نکال لیتے ہیں۔ ہاں ایک ہم ہیں کہ ہمیں کسی وقت بھی آرام کا موقع نہیں۔ اگر دوپہر کے وقت ذرا سی دیر کمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ جائیں تو بلامبالغہ لیٹتے ہی دو مصیبتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک تو بدقسمتی سے ہمارے سرہانے ٹیلیفون لگا ہے۔ دوسرے ملاقاتیوں نے بھی دوپہر ہی کا وقت موزوں ترین قرار دے رکھا ہے۔ جہاں ذرا آنکھ لگی ٹیلی فون کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی۔ فوراً ریسیور اٹھایا تو آواز آئی:
"لالہ گورداس مل جی کو بھیج دو، آٹے کا سودا ہو گیا"۔
لاحول ولا قوة الا باللہ۔
ہم نے نہایت عاجزی سے جواب دیا:
مگر صاحب، یہ تو انقلاب کا دفتر ہے"۔ یہ سنتے ہی وہ "اوہو" کہہ کر رخصت ہو گئے اور ہماری نیند اور آرام کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے۔
اب ہم پھر مطمئن ہو کر اور کروٹ لے کر جو لیٹے تو ابھی پانچ سات منٹ ہی گزرے تھے کہ پانچ چھ معززین کے بوٹوں کی آہٹ نے چونکا دیا۔ آنکھیں مل کر جو دیکھتے ہیں تو خان سرفراز علی خان بہادر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر صوبہ سرحد، آقائے حمید گل کوہستانی، ایجنٹ صاحب اخبارات نصیر آباد ، مولانا عباس علی سوداگر کلاہ و لنگی پلنگ کے پاس کھڑے مسکرا رہے ہیں۔
"اخاہ - السلام علیکم۔ معاف فرمائیے رات بھر جاگنا پڑتا ہے ، اس لئے ذرا لیٹ گیا تھا۔ تشریف لائیے۔ ارے چپراسی ، جاؤ آپ حضرات کے لئے لائم جوس کی بوتلیں لے آؤ"۔
حضرات خوانین کرام نے ازراہ معذرت فرمایا کہ:
"معاف فرمائیے ، آپ کو ہم نے بے موقع تکلیف دی، لیکن ہم بہت دور سے آئے ہیں اور آج ہی رات واپس چلے جانے کا ارادہ ہے"۔
سوال کیا۔ "ارشاد فرمایئے، کوئی خاص خدمت میرے لائق ؟"
جواب ملا بونہی زیارت کے لئے حاضر ہو گئے تھے۔ ( ایک صاحب زادہ کی طرف اشارہ کر کے) یہ بچہ آپ کے 'افکار و حوادث' بہت شوق سے پڑھتا ہے۔ اس کا اصرار تھا کہ سالک صاحب کا نیاز ضرور حاصل کروں گا۔ ہم نے صاحب زادے صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کی تعلیم وغیرہ کے متعلق کچھ سوالات نہایت سرپرستانہ انداز میں کئے کچھ مشورے بھی دئیے۔ اس کے بعد گفتگو شورش افغانستان کے مختلف پہلوؤں پر ہونے لگی اور کامل ایک گھنٹے بعد یہ حضرات مرخص ہوئے۔

اب ہم نے پھر نیند کا سلسلہ شروع کرنا چاہا۔ ذرا غنودگی طاری ہوئی تھی کہ پریس کا آدمی بھاگا ہوا آیا اور دور ہی سے نہایت مضطرانہ انداز سے بولا:
"سالک صاحب جی، پریس میں بجلی کا فلوس اڑا گیا۔ بجلی گھر والوں کو فون کیجیے"۔
یہ فلوس اڑ گیا، درحقیقت "فیوز" تھا جس نے پنجابی محاورے کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ہم نے ٹیلی فون سنبھالا اور بجلی گھر والوں سے کہہ دیا کہ فوراً آؤ اور اپنی اس حماقت کی تلافی کرو۔ انہوں نے دس پندرہ سوالات کر ڈالے۔ مسلم پرنٹنگ پریس کہاں واقع ہے؟ آپ کا نام کیا ہے؟ آپ کا فون کا نمبر کیا ہے؟
اس قصے سے فارغ ہو کر پھر لیٹے تو ہیڈ کلرک صاحب اور پریس منیجر حسابات لے کر آن پہنچے اور خواب راحت نے ہم سے ہمیشہ کے لئے مفارقت اختیار کر لی۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

کہتے ہیں بادشاہ میں اکیس پیروں کی کرامت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک اخبار نویس میں بھی کم از کم سات پیروں کے برابر تو ضرور ہے۔ اگر ہم میں اتنی کرامت نہ ہوتی تو اس بے آرامی کی زندگی کے باعث اب تک کبھی کے انتقال کر چکے ہوتے۔

کالم: انقلاب۔ جلد:5 ، نمبر:15، پنج شنبہ۔ 19/جون 1930ء۔
بعض حضرات کی بے تکلفی نہایت دل چسپ ہوتی ہے۔ سہسوان ضلع بدایوں میں ایک صاحب نے عطر تیل کا کارخانہ جاری کیا ہے اور حال ہی میں مہتمم "انقلاب" کے نام ذیل کا مکتوب بھیجا ہے۔
مزاج شریف، گزارش یہ ہے کہ ہم نے حال میں عطر تیل کا کام شروع کیا ہے۔ جس کے لئے آپ کی عنایت کی بھی ضرورت ہے ، لہذا جناب ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک مسلم کے ساتھ یہ عنایت فرمائیے کہ آپ کے خریداران اخبار کے ایک ہزار پتے چاہئیں ، لذا جو قیمت ہو اس سے مطلع فرمائیے۔ امید ہے کہ مثل اور اخباروں کے آپ بھی مجھ جیسے ناچیز پر اپنا کرم فرمائیں گے۔

گویا ان حضرت کے نزدیک ہم اخبار فروش نہیں بلکہ "پتا فروش" ہیں۔ ہمارا پیشہ یہی ہے کہ بہت سے شریف آدمیوں کے پتے کسی نہ کسی طرح حاصل کر لیں اور اس کے بعد ان کو بازار میں بیچنا شروع کر دیں اور ہر طرف صدا لگاتے پھریں:
"پتے لے لو پتے ! ایک روپے کے دس، دس روپے کے سو، سو روپے کے ہزار، تازہ بہ تازہ ہیں۔ پتے لے لو پتے"۔

جناب نے یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ :
"ہم ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک مسلم کے ساتھ یہ عنایت کریں"۔
بندہ پرور، جب قیمت اور معاوضے کا سوال درمیان میں آ گیا تو پھر مسلم اور غیر مسلم پر کیا موقوف ہے، جس کی ناک پر ٹکا رکھ دیجئے گا، وہی آپ کا کام کر دے گا، لیکن وہ کوئی احمق اخبار ہوں گے جو اپنے پتے چند روپے کے معاوضے میں آپ کے حوالے کر دیں۔ "انقلاب" والوں سے یہ توقع نہ رکھیے۔

ماخوذ از کتاب:
افکار و حوادث (جلد اول)، از: عبدالمجید سالک۔ (اشاعت: 1991ء)

Three columns by Abdul Majeed Salik, Editor of Inquilab

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں