ہیروئین کا کتا - مزاحیہ افسانہ از پرویز ید اللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-09

ہیروئین کا کتا - مزاحیہ افسانہ از پرویز ید اللہ مہدی

heroine-ka-kutta

نوٹ:
اس افسانے کے کردار، واقعات، مقامات سب فرضی ہیں صرف کتا اصلی ہے۔

اس کے چار پاؤں تھے حسب معمول خوف ناک پنجوں سمیت۔ ایک عدد دم تھی، حسب عادت ٹیڑھی۔ ایک عدد رال ٹپکاتی ہوئی تھوتھنی، حسب دستور خونخوار، دو عدد کان تھے، حسب روایت مفلر کے سروں کی طرح جھولتے۔ دو عدد بٹن جیسی آنکھیں تھیں، حسب حال چمکتی ہوئیں …… غرض یہ اس کے بدن کا ایک ایک انگ، ایک ایک عضو کتے کی طرح تھا۔ اور کیوں نہ ہو وہ تھا بھی تو کتا، ایک ایک انچ کتا، لیکن اس کے باوجود بیشتر فلم سازوں کی نظر میں وہ کتا نہیں شیر تھا۔ یوں بھی وہ کوئی معمولی کتا نہیں تھا۔ ان تمام کتا چھاپ خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہیروئین کا کتا تھا۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی نمبر ون ہیروئن ترانہ بزمی کا چہیتا اور منظورنظر۔ اگر وہ کسی فلم ساز کی طرف مہر کی نظر سے دیکھ لیتا تو اس کے کشت دل میں بہار آجاتی اور اگر کسی پر قہر کی نگاہ ڈال دیتا تو کشتوں کے پشتے لگے جاتے۔۔
انڈسٹری کے مشہور افواہ بازوں کا قیاس تھا کہ چند برس پیشتر جب ترانہ یوروپ میں منعقد ہونے والے ایک انٹرنیشنل فلم فیسٹویل میں اپنی ایک فلم کی نمائش کے سلسلے میں وہاں گئی تھی، تب ”ایوارڈ“ نہ ملنے کے غم کو دور کرنے کے لیے لوٹتے ہوئے یہ شیر جیسا کتا اپنے ساتھ لے آئی تھی۔ اس وقت یہ شیر سائز کے اعتبار سے بلی جتنا ہی تھا، لیکن ترانہ کی نظر میں یہ کتا نہیں اکادمی ایوارڈ تھا، اوسکر (Oscar) ایوارڈ کی ٹرافی تھا، اس لیے یورپ سے لوٹتے ہی اس نے ایک زبردست پریس کانفرنس بلائی اور پھر بڑے فخر سے اپنے کتے کی رسم رونمائی انجام دیتے ہوئے اس کے بارے میں یہ تاریخی انکشاف کیاکہ یہ کوئی معمولی شہری کتا نہیں بلکہ شادی کتا ہے، جس کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت پر جاکر بلکہ وکٹوریہ کی شاہی کتیا سے ملتا ہے …… اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کے لیے اس نے ثبوت کے طور پر کتے کے مطبوعہ شجرہئ خاندانی کی زیراکس کاپی بھی اخبار نویسوں میں اشاعت کے لیے تقسیم کیں۔ ترانہ کا یہ پبلی سٹی اسٹنٹ (Publicity Stunt ) بڑا کارگر ثابت ہوا۔ غالباً یہ کسی فلمی ہیروئن کا پہلا کتا تھا جس کی تصویروں کے ساتھ خاندانی شجرے کی کاپیاں بھی مختلف فلمی رسالوں اور اخباروں میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فلمی حلقوں میں ترانہ کے امپورٹیڈ کتے کی دھاک بیٹھ گئی۔ (یوں بھی ہم ہندوستانیوں کی شروع سے یہ کمزوری رہی ہے کہ ہر غیر ملکی اور امپورٹیڈ چیز سے فوراً مرعوب اورمتاثر ہوجاتے ہیں، چاہے وہ کتا ہی کیوں نہ ہو۔)
ترانہ نے صرف ابتدائی پبلی سٹی پر ہی بس نہیں کی، بلکہ اپنے کتے کے ”نام کرن سنسکار“ کے سلسلے میں ایک فائیواسٹار ہوٹل میں زور دار پارٹی کا اہتمام کرکے ساری فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچادیا۔ یہ سارا ہنگامہ چونکہ کتے کے دم قدم کی برکت کا نتیجہ تھا، اس لیے شراب، کباب اور شباب کی بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانے سے پہلے ہر مہمان نے ترانہ کے نئے مہمان کے قدموں میں اس طرح لوٹیں لگائیں جیسے ایک وفادار کتا اپنے مالک کے قدموں میں لوٹ لگاتا ہے۔۔ کتے کے نام کے سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف مشورے دیئے۔ کسی نے اس کا نام کسی مشہور برٹش اداکار کے نام پر رکھنے کی تجویز پیش کی تو کوئی اسے بالی ووڈ کے کسی مشہور ہیرو کے نام سے بلانے پر بضد تھا۔ لیکن ترانہ نے اپنے کتے کا نام وہی رکھا جو اس نے پہلے سے سوچ رکھا تھا یعنی”راکی“ جو خالص انگریزی نام تھا۔ لوگ تو خالص دیسی کتوں کے نام انگریزی نام رکھنے سے بھی نہیں شرماتے، جب کہ ترانہ کا کتا خالص ولایتی بھی تھا اور بقول اس کے شاہی خاندان سے تھا۔
اس سے قطع نظر کہ راکی، واقعی شاہی کتا تھا یا واہی تباہی کتا، یہ بات قابل رشک ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے دن ضرور پھر گئے۔ ترانہ کا سکریٹری برسوں سے جس کمرے میں اپنا دفتر سجائے پروڈیوسروں کے ساتھ تاریخوں کے جھگڑے اور انکم ٹیکس کے لفڑے نبٹایا کرتا تھا، اس کمرے کو لکڑی کی دیوار سے دو حصوں میں تقسیم کرکے نصف حصہ راکی کی رہائش گاہ میں تبدیل کردیا گیااور یوں آدمی اور کتا دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ بلکہ آگے چل کر راکی نے اتنی ترقی کرلی کہ بے چارا سکریٹری اس کے آگے بھی دم ہلانے لگا۔
ویسے ترانہ کا سکریٹری بڑا ابن الوقت اور گرگٹ صفت آدمی تھا۔ وقت پڑنے پر گدھے کو باپ اور باپ کو گدھا کہنے سے نہیں چوکتا تھا۔ لیکن راکی کے سامنے اس کی ساری ابن الوقتی، چاپلوسی، موقع پرستی دھری کی دھری رہ گئی۔ وہ جب کبھی راکی کو امپورٹیڈ صابن کے جھاگ سے لبالب بھرے ”باتھ ٹب“ میں نہاتے، نفیس اور آرام دہ بستر پر سوتے، چینی کی چمک دار پلیٹوں میں وٹامن سے بھرپور بریک فاسٹ لنچ اور ڈنر کھاتے اور شان سے کاروں میں گھومتے دیکھتا تو اس دل میں بھی یہ حسرت سر ابھارنے لگتی کہ کاش وہ آدمی نہیں کتا ہوتا! لیکن قدرت نے اسے آدمی بناکر خوش نصیبی کا یہ دروازہ اس پر بند کردیا تھا، اس لیے کتے کو ٹھاٹ کرتا دیکھ کر وہ دل مسوس کر رہ جاتا بلکہ کبھی کبھی جھنجھلاہٹ میں کتے کا غصہ بیوی بچوں پر اتار ڈالتا، یعنی انہیں بھنبھوڑنے اور کاٹنے کو دوڑ پڑتا۔
ترانہ کی زندگی میں راکی کی آمد سے پہلے سکریٹری کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ فلمی حلقوں میں وہ ترانہ کی ناک کا بال کہلاتا تھا۔ اس کی مرضی کے بغیر نہ تو وہ کوئی فلم سائن کرتی، نہ کسی کہانی یا کسی رول کو پسند یا رد کرتی تھی لیکن راکی نے آتے ہی سکریٹری کے یہ سارے حقوق اس سے چھین لیے۔ گویا کل تک جو حقوق صرف سکریٹری کے نام محفوظ تھے وہ اچانک غیر محفوظ ہوگئے۔ اب ترانہ کہانی سنتے وقت سکریٹری کی جگہ راکی کو اپنے پہلو میں بٹھانے لگی تھی۔ جس کہانی کو سن کر راکی جماہیاں لینے یا اونگھنے لگتاوہ فواً اس کہانی کو بکواس کہہ کر رد کردیتی۔ اور جس کہانی کے اتار چڑھاؤ راکی کے کان کھڑے کردیتے اور اس کی دم کسی ٹی۔ وی ایریل کی طرح کھڑی ہوجاتی وہ جھٹ سے اسے پسند کرلیتی بلکہ اس فلم میں کام کرنے کے لیے اپنا معاوضہ تک کم کرنے کو تیار ہوجاتی۔
راکی کی یہ دخل درمعقولات، صرف ترانہ کی ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری کے معمولات پر بھی اثر اندازہونے لگی۔ اب وہ ترانہ کے ساتھ سیٹ پر بھی جانے لگا۔ جہاں اس کے شاہی مرتبے کا اس حدتک خیال رکھا جاتا کہ ڈائرکٹر فوراً اپنی کرسی اس کی خدمت میں پیش کردیتا اور پھر جتنی دیر تک راکی کرسی پر براجمان رہتا، ڈائرکٹر کسی دست بستہ غلام کی طرح ہاتھ باندھے اس کے آگے کھڑا رہتا۔ اگر کبھی اتفاق سے سیٹ پر راکی چھینک بھی دیتا تو مارے ہیبت کے بے چارے پروڈیوسر کی ناف ٹل جاتی کیوں کہ ترانہ فوراً شوٹنگ ”پیک اپ“ (Pack - Up) کروا کے راکی کو لے کر شہر کے سب سے مہنگے ڈاگ اسپیشلسٹ کی ڈسپنسری میں پہنچ جاتی جس کا سارا صرفہ خرچہ غریب پروڈیوسر کو اپنی فلم کے بجٹ میں سے چکانا پڑتا۔
کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر کمال کو زوال ہے۔ ہر نشہ اپنی انتہا کو پہنچ کر اُتر جاتاہے۔ شہرت کی شراب کا نشہ جب ٹوٹتا ہے تو آدمی کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ وہ اس بری طرح ٹوٹتاہے کہ پھر کبھی نہیں جُڑ پاتا۔ ایک دن ترانہ کی زندگی میں بھی یہ موڑ اچانک آگیا۔ برسوں تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے کے بعد اس کے حسن و شباب کو بڑھتی عمر کا گہن لگنا شروع ہوگیا تھا جسے میک اپ کی دبیز تہیں بھی چھپانے سے قاصر ہوچکی تھیں۔ دوسرے ان ہی دنوں جنوبی ہند سے نئی ہیروئینوں کی ایک ایسی سرسبز و شاداب کھیپ ہندی فلموں میں آئی تھی، جو ترانہ سے کم عمر بھی تھیں اور اس سے زیادہ سیکسی بھی۔ البتہ جہاں تک ٹیلنٹ یا اداکاری کی صلاحیتوں کا سوال تھا، یہ ساری نوآموز اور نوعمر ہیروئین مل کر بھی ترانہ کی فن کارانہ صلاحیتوں کی گرد کو نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ لیکن فلموں کے شوقین فن کو نہیں ہیروئین کے تن کو اور اس کے جوبن کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے پروڈیوسروں کی فوج نے اپنے کالے دھن سے بھری بوریوں کے منہ ان نئی سیکسی ہیروئینوں کی طرف کھول دیئے
ہیروئین کی حیثیت سے ترانہ کی مانگ بالکل ختم ہوگئی۔ اب اسے صرف بڑی بہن، بھابی اور ماں کے رولز کی آفرس ہونے لگیں۔ جو اس نے جھنجھلاہٹ، غصے اور ناعاقبت اندیشی کے باعث ٹھکرادیں۔ اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے وہ پردہ سیمیں سے قریب قریب ”فیڈ آوٹ“ ہوگئی۔
کام ٹھپ ہوا تو روپے پیسے کی ریل پیل بھی بند ہوگئی۔ چنانچہ لکشمی کے روٹھتے ہی ترانہ کی چاروں طرف مکھیوں کی طرح بھنبھنانے والے چمچے بھی غائب ہوگئے۔ اس کا سکریٹری جو پہلے ہی راکی سے خار کھائے بیٹھا تھا، استعفادے کے بغیر ہی چلتا بنا۔ یہاں تک کہ ترانہ کی ماں جواس کی اصل ماں تھی اور اس کا ماما جو اصلی ماما نہیں تھا بلکہ اس کی اصلی ماں کا اصلی عاشق تھا، اور دونوں کا مقصد حیات محض ترانہ کی دولت پر داد عیش دینا تھا، وہ بھی ایک رات چپکے سے رفوچکر ہوگئے۔ اب گھر میں صرف ترانہ تھی اور اس کا وفادار کتا راکی۔
پہلے راکی گھر میں آزادی سے گھومتا تھا، صرف شوٹنگ کے وقت اس کے گلے میں پٹہ باندھا جاتا تھا، لیکن اب گھر میں بھی ترانہ اسے پٹہ باندھنے لگی تھی، محض اس اندیشے کے تحت ہوسکتا ہے اس بُرے وقت میں دوسروں کی طرح راکی بھی اس کا ساتھ چھوڑ جائے۔ انسانوں سے ترانہ کو اس قدر چرکے لگے تھے کہ وہ یہ بھی بھول گئی کہ راکی ایک کتا ہے آدمی نہیں۔
کہاوت مشہور ہے کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ اسی طرح ایک بار جو فلمی چمک دمک کی زد میں آجاتا ہے وہ پھر کہیں اور نہیں جاتا، یہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے۔ چنانچہ ترانہ نے بھی اپنی زندگی کا آخری جوا کھیلا، اپنی ذاتی فلم بنانے کا پروگرام بنایا اور یوں تھوڑی بہت پونجی جو اس نے سب سے چھپا کر اپنے بڑھاپے کے لیے اٹھا رکھی تھی وہ اسے بھی داؤ پر لگانے کو تیار ہوگئی۔
ایک پٹے ہوئے ہدایت کار کا انتخاب کرنے کے بعد ایک ایسے ہیرو کو اپنے مقابل کام کرنے کے لیے راضی کیا، جس کی بی کلاس فلموں میں تھوڑی بہت جو مانگ تھی وہ ترانہ ہی کی دین تھی کیوں کہ برسوں پہلے جب ترانہ فلمی آسمان پر چاند کی طرح جگمگاتی تھی، یہ ہیرو جھاڑو تارے کی طرح کام کی تلاش میں اسٹوڈیوز کے چکر کاٹا کرتا تھا۔ مارکیٹ کی ایک بھی ہیروئین اس کے مقابل کام کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ایسے عالم میں ترانہ نے اس کے ساتھ کام کرنے کا خطرہ مول لیا اور اس طرح ترانہ کی مہربانی سے اسے نہ صرف چانس ملا بلکہ وہ خاصا چل بھی نکلا۔ اور آج ترانہ کے آزمائشی دور میں ہیرو کی رضامندی اصل میں پرانا قرض چکانے کا بہانہ تھا۔
ترانہ کی فلم تین چوتھائی مکمل ہوئی تھی کہ ہیرو کو مدراس کے ایک پروڈیوسر کی آفر آئی جس میں جنوبی ہند کی اس قتالہ کو اس کے مقابل کاسٹ کرنے کا لالچ دیا گیا تھا جو اس وقت دیس بھر میں دھوم مچائے ہوئے تھی۔ اب ہیرو کو ترانہ جیسی ناکام اور پٹی ہوئی ہیروئین کے مقابل مزید کام کرنا اپنے روشن مستقبل پر سیاہی پھیرنے کے برابر معلوم ہوا۔ چنانچہ اس نے ترانہ کی فلم چھوڑنے کے لیے ایک گھناونی چال چلی۔ اگلے ہی دن وہ پلان کے مطابق اپنی چہیتی کتیا کو لے کر سیٹ پر پہنچا، جہاں معمول کے مطابق راکی بھی موجود تھا۔ ایک اعلیٰ نسل کے کتے نے جب اپنی ہم رتبہ و ہم قوم کتیا کو دیکھا تو اس کی رال ٹپک پڑی۔ ہیرو بس اسی موقع کا منتظر تھا۔ چیخ چیخ کر اس نے سارا سیٹ سر پر اٹھالیا ”اس حرامی کتے کی یہ مجال کہ میری معصوم کتیا کو بری نظر سے دیکھتا ہے۔ میں ایسے گندے ماحول میں ایک منٹ بھی نہیں رک سکتا!“
اس اعلان کے ساتھ ہیرو، غصہ سے آگ بگولا ہونے کی شان دار ایکٹنگ کرتا ہوا اپنی کتیا کو لے کر نہ صرف سیٹ سے بلکہ ترانہ کی فلم سے بھی ہمیشہ کے لیے ”واک اوٹ“ کرگیا۔ ترانہ بے بس، مجبور بیٹھی سوچتی رہی کہ یہ احسان فراموش ہیرو محض اتنی سی بات پر اس کی فلم ادھوری چھوڑ گیا کہ راکی نے اس کی کتیا کی طرف صرف دز دیدہ نظروں سے دیکھ لیا تھا جب کہ وہ خود جس زمانے میں کچھ نہیں تھا۔ اس کی طرف ہمیشہ بھوکی اور ہوس ناک نظروں سے دیکھا کرتا تھا بلکہ اسے اس وقت تک چین نہیں پڑا تھا جب تک وہ ترانہ کی جوانی سے جی بھر کر کھیل نہیں لیا تھا!
اس سے پہلے کہ ترانہ کی فلم اسکرین کا منہ دیکھے، بغیر ہی ڈبہ میں چلی جاتی، ڈائرکٹر نے ایک نئی راہ سجھائی، بولا ”میڈیم گھبرایئے نہیں۔ آپ کی فلم بنے گی اور ہیرو کے بغیر ہی بنے گی۔ برسوں سے انڈسٹری میں ایسا ہی ایک واقعہ ہوچکا ہے۔ ہیرو نے ناراض ہوکر اسی طرح فلم ادھوری چھوڑ دی تھی لیکن ڈائرکٹر نے جو جادوئی فلمیں بنانے میں ماہر تھا، فوراً کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اپنا جادوئی ڈنڈا گھماکر ہیرو کو طوطا بنادیا اور پھر اس طوطے کے ساتھ فلم مکمل کر ڈالی:ترانہ نے مایوس لہجے میں کہا ”لیکن نہ تو ہماری فلم جادوئی ہے اور نہ ہی اب ایسے ٹرینڈ طوطے ملتے ہیں۔“
ڈائرکٹر نے پورے اعتماد سے جواب دیا ”یہ ضروری نہیں کہ ہیرو کو طوطا ہی بنایا جائے۔ اس کی جگہ ایک کتا بھی لے سکتا ہے۔ میں کہانی میں رد وبدل کرکے ہیرو کو قتل کے جرم میں جیل بھجوادوں گا۔ پھر اس کی جگہ اس کے وفادار کتے سے کام لوں گا جو اصل مجرموں کا پردہ فاش کرکے آخر میں ہیرو کو باعزت بری کروا کے جیل سے باہر لے آتا ہے۔“
ترانہ نے تذبذب آمیز لہجے میں پوچھا ”مگر ایسا ٹرینڈ کتا تمہیں ملے گا کہاں؟“
ڈائرکٹر نے راکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا ”بغل میں کتا اور شہر میں ڈھنڈورا! مجھ پر بھروسہ رکھئے میڈم، مہینے بھر کے اندر اندر راکی کو اس طرح سدھاؤں گا کہ بڑے بڑے سُپر اسٹارس کی چھٹی کردے گا۔“
ڈائرکٹر نے یہ بات اس لیے بھی پورے وثوق کے ساتھ کہی تھی کہ فلمی دنیا میں مقدر آزمانے سے پہلے وہ ایک سرکس میں جانوروں کو سدھانے کی خدمت پر مامور تھا، اور جانوروں کی نفسیات سے کافی حدتک واقف تھا۔ چنانچہ اس کا یہ تجربہ راکی کو سدھاتے وقت بڑے کام آیا اور یوں اس نے بہت جلد راکی کی فلم میں کام کرنے کے لائق بنادیا۔
راکی کی اداکاری سے زیادہ اس کی وفاداری کی وجہ سے فلم مکمل ہوگئی اور ریلیز بھی۔ البتہ حسب موقع فلم تو نہیں چلی، خلاف توقع راکی چل نکلا۔ ممبئی اور چینئی سے راکی کو دھڑا دھڑ آفرس آنی شروع ہوگئیں۔ اس طرح تھوڑے ہی عرصے میں اس نے چھوٹے بڑے بیزز کی آٹھ دس فلمیں سائن کرڈالیں، اور یوں ایک بار پھر ترانہ کی زندگی میں اچھے دن لوٹ آئے مگر اس تبدیلی کے ساتھ کہ اب راکی، ترانہ کے سجے سجائے بیڈروم میں رہتا ہے اور ترانہ راکی کے سابقہ نصف کمرے میں۔ اب راکی کسی سپر اسٹار کی طرح کیمرہ کے سامنے اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتا ہے اور ترانہ مستقل کیمرے کے پیچھے ہوتی ہے۔
لکشمی کو دوبارہ ترانہ پر مہربان ہوتا دیکھ کر اس کی اصلی ماں، اس کا نقلی ماما، اس کاسکریٹری، اس کے سابقہ چمچے ایک ایک کرکے پھر اس کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنے آپہنچے، لیکن ترانہ نے انہیں دھکے دے کر نکال دیا۔ اب ترانہ کو ان کی بالکل ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ انسانوں کی جگہ اب اس نے پرندے پال لیے تھے۔ طوطے مینائیں، چڑیاں جو بُرے سے بُرے وقت میں بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے تھے کیوں کہ ترانہ بزمی نے انہیں خوب صورت پنجروں میں قید کررکھا تھا!

یہ بھی پڑھیے:
پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
ڈاکٹر بیدل کا دل - مزاحیہ ڈرامہ
چھیڑ چھاڑ - پرویز یداللہ مہدی کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" ، ماہ فروری 2009

Heroine ka kutta. Humorous short story by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں