پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-23

پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی

padosi-padosan-aur-woh
ہم نے غلطی سے انگریزی فلم Love Thy Neighbour عرف پڑوسی سے وہ کیجئے، دیکھ لی تھی، بس تب ہی سے ہمارے دل میں پڑوسیوں کے لیے ایک بار پھر محبت اور خلوص کا تلاطم بپا ہو گیا، ورنہ اس سے پہلے صرف ایک بار یہ جذبہ پوری شدت کے ساتھ بیدار ہوا تھا۔ لیکن اس کا جو حشر ہوا ملاحظہ فرمایئے۔ موجودہ بستی میں سکونت اختیار کرنے سے پہلے ہم ایک کالونی میں رہتے تھے اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کالونی کے گھر وضع قطع کے اعتبار سے اس قدر مماثلت رکھتے ہیں کہ ہر گھر پہ اپنے گھر کا دھوکہ ہوتا ہے اور ہر گھر والی خواہ مخواہ اپنی معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال اس زمانے میں ہم ہمیشہ اس بات کی کوشش کیا کرتے تھے کہ پڑوسیوں کی خوشی میں بھلے ہی شریک نہ ہوں لیکن ان کے غم بانٹنے میں پیش پیش رہیں، چنانچہ ایک روز جیسے ہی اپنے ایک پڑوسی مسٹر اے۔ کے چندی والا کی بیوی کے انتقال کی خبر سنی، دوڑے دوڑے ان کے ہاں پہنچے اور دھیمے لہجے میں پُرسہ دینا شروع کیا۔
"مجھے یہ روح فرسا خبر سن کر بڑا افسوس ہوا مسٹر چندی والا کہ آپ کی چندی۔۔ ۔ میرا مطلب ہے بیوی اچانک اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ "
ہم اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ مسٹر چندی والا حسرت بھرے لہجہ میں ہماری بات کاٹ کر بولے۔
" کاش آپ کی یہ بات سچ ہوتی۔ " اب ہمارے گڑبڑانے کی باری تھی، انہوں نے آگے انکشاف کیا۔
" آپ رانگ نمبر ڈائیل کر رہے ہیں جناب میں وہ خوش نصیب چندی والا نہیں۔ انتقال در اصل اے۔ کے چندی والا کی بیوی کا ہوا، اور میں بی۔ کے چندی والا ہوں۔ "
وہ تو ہمارے نصیب اچھے تھے ورنہ سرنیم ( Surname ) کی یکسانیت کی وجہ سے پٹ گئے ہوتے، البتہ اس غلط فہمی کے نتیجے میں ہم نے قسم کھائی کہ آئندہ کبھی پڑوسیوں کے دکھ میں بھی شریک ہونے کی حماقت نہیں کریں گے۔ لیکن خدا بھلا کرے اس امریکی فلم کا جس نے ہمیں قسم توڑنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم اس فلم میں پڑوسیوں سے میل جول بڑھانے کے جو سائنٹفک طریقے دکھائے گئے تھے، انہیں اپنے یہاں عملی جامہ پہنانا اپنے جامے اور موم جامے دونوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا، کیوں کہ مغربی ممالک میں پڑوسی سے محبت کرنے کے جو مواقع فراہم ہیں، جو سہولتیں حاصل ہیں اپنے یہاں ان کا عشر عشیر بھی میسر نہیں۔ لیکن یہ جذبہ چوں کہ بڑی شدّومد کے ساتھ بیدار ہوا تھا اور اسے دوبارہ سلانا بھی نا ممکن نظر آتا تھا۔
اس لیے ہم نے سب سے پہلے اس مسئلے پر غور کیا کہ محبت کی ابتدا کس سے کی جائے پڑوسی سے یا پڑوسن سے۔ اس نکتے پر پہنچ کر ہماری ہستی کے منارے ہل گئے۔ ہمارے معاشرے میں پڑوسن سے میل جول بڑھانا معیوب سمجھا جاتا ہے اور جن سرپھروں کے نام اس سلسلے میں سند کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ اس مہم کا آغاز انہوں نے سر سے کفن باندھ کر کیا تھا۔ البتہ ان کفن پوش سرپھروں کے بھیانک انجام کو دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سر سے کفن باندھنے کے لیے، سر کی مضبوطی سے زیادہ دل گردے کی مضبوطی شرط ہے اور دل گردے کے معاملے میں بدقسمتی سے ہم پیدائش ہی سے عجیب و غریب امراض میں مبتلا ہیں۔ اب تک ہمارے دل و گردے کو اتنے پیوند لگ چکے ہیں کہ اب یہ بھی سائیکل کے اس خستہ ٹیوب کی طرح ناقابل استعمال ہو گئے ہیں، جس کے پنکچروں کی اس قدر " وال کنائزنگ " (Valcanazing ) کی جاتی ہے کہ بالآخر وہ وقت آ جاتا ہے جب اسے سائیکل کے پہیئے میں استعمال کرنے کے بجائے کاٹ کر اس کے پیوند دوسرے ٹیوب میں جوڑے جاتے ہیں۔ چنانچہ اپنے خستہ اور شکستہ دل گردے کی حفاظت کے پیش نظر ہم نے اپنی فہرست سے " پڑوسن " کو " بہ یک جنبش قلم " قلم زد کر دیا۔
البتہ پڑوسیوں کے معاملے میں ہم چوں کہ دودھ کے جلے تھے اس لیے راست کسی پڑوسی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے قبل، اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرناضروری سمجھا۔ اس سلسلے میں ہماری نظرِ انتخاب نکّڑ والے " چھپرہ " ہوٹل کے " باہر والے " پر پڑی، جو تھا تو باہر والا لیکن محلے کے ہر گھر کے اندر کی خبر رکھتا تھا۔ اس کا منہ کھلوانے کے لیے ہمیں اپنی جیب کا منہ اس قدر کھولنا پڑا کہ جیب اور دامن کے بیچ کا فاصلہ یکسر مٹ گیا۔ باہر والے نے سب سے پہلے ہمارے قریب ترین پڑوسی ریٹائرڈ پروفیسر بیش بہا خاں عرف بی بی خان کے بارے میں تفصیلی معلومات بہم پہنچائیں جو ہم مختصراً آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب کو محلے کے شریر احباب " پروصفر " کے نام سے پکارتے ہیں اور دیگر شرفا انہیں " پورے صفر " کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ موصوف اپنے گھر کی خواتین کے تعلق سے اس قدر متشکی واقع ہوئے ہیں کہ جب بھی گھر کی دیوار پر کبوتر، کوا، فاختہ یا اس قبیل کا کوئی پرندہ پرمارتا نظر آتا ہے جو خطوط رسانی، کے فرائض انجام دینے میں تاریخی ریکارڈ رکھتا ہو تو موصوف فوراً مشکوک نظروں سے پہلے پرندے کو پھر گھر کی خواتین کو پھر ہر دو کو اس وقت تک گھورتے رہتے ہیں۔ جب تک کہ پرندہ یا گھر کی کوئی خا تون " اُڑن چھو " نہیں ہو جاتی۔ معلومات کے پہلے ہی تھپڑ نے ہمیں خاصا دہلا دیا۔ باہر والے نے ہمارے اندر والے اور باہر والے دونوں کو پیلا پڑتا دیکھ کر ایک آنکھ دبا کر فرمایا۔
" کیوں بابوجی ! سب خیریت ہے نا، کہیں پروصفر صاحب کی کسی لڑکی سے آنکھ تو نہیں لڑا بیٹھے ؟ "
کم بخت نے ایسے چٹخارے دار لہجے میں آنکھ لڑانے کی بات کہی جیسے اس کی نظر میں آنکھ لڑانے اور بلبل لڑانے میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔ پھر مزید بولا۔
" جب تک سلامت ہیں ہم آپ کو کیا غم۔ آپ بس میرا خیال رکھئے بابوجی ! میں پروصفر صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آپ کے دل کی بات ان کی لڑکی تک پہنچا دوں گا۔ مگر پہلے یہ بتایئے آپ کس چھوکری پر لٹو ہوئے ہیں وہ جو گھر سے تو برقع اوڑھ کے نکلتی ہے لیکن بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے برقع جسم سے اتر کر پرس میں چلا جاتا ہے یا پھر اس چھوکری کے اوپر دل آ گیا ہے جو چھت پر چڑھ کے آسمان میں پتنگ کے پیچ اور زمین پہ لوگوں کو لڑاتی ہے۔ "

معلومات کے دوسرے تھپڑ نے ہمیں بری طرح پچھاڑ دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم کہتے باہر والے نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہانک لگائی۔
" وہ دیکھئے بابوجی، پروصفر صاحب سڑک کے بازو والے گڑھے میں اتر رہے ہیں۔ "
اس عجیب و غریب اطلاع پر ہم لپک کر کھڑکی کے پاس پہنچے اور باہر جو دیکھا تو واقعی ایک مختصر ساگول مٹول شخص ٹیلی فون کیبل کے لیے کھودے گئے گڑھے میں اتر رہا تھا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ " پروصفر صاحب اس گڑھے میں کس لیے اتر رہے ہیں ؟ " باہر والا بولا۔۔ ۔
"بابوجی، یہ تو روز ہی اس گڑھے میں چھپ کر اپنے گھر کی عورتوں کی جاسوسی کرتے ہیں کہ کون گھر کے سامنے سے گزرتا ہے، کیا کیا حرکتیں کرتا ہے۔ اور جواب میں گھر کی عورتیں کیا جوابی کارروائی کرتی ہیں۔ "
یہ انکشاف ہماری معلومات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔۔ ۔ ہم نے معلومات محض اس لیے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان کی روشنی میں اگلا قدم اٹھا سکیں، لیکن پہلے ہی پڑوسی کے بارے میں جو انکشافات ہوئے ان کے نتیجے میں بجائے روشنی کے گھور اندھیرا ہمارے ہاتھ لگا۔۔

اگلے دو دن تک ہم یہی سوچتے رہے کہ آیا معلومات کے اس اندھیرے میں ہی ٹھوکریں کھاتے رہیں یا کسی دوسرے پڑوسی کے بارے میں معلومات کا " سوئچ " آن کریں۔ ان دو دنوں میں یہ بھی خیال آیا کہ ہو سکتا ہے باہر والے نے اپنی کسی ذاتی خصومت کی بنا پر پروصفر صاحب کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ اب رہی پروصفر صاحب کی محکمۂ ٹیلی فون کے گڑھے میں اترنے والی حرکت تو ہو سکتا ہے ان کی کوئی قیمتی چیز گڑھے میں لڑھک گئی ہو جسے اٹھانے کے لیے انہیں گڑھے میں اترنا پڑا۔ کیا آدمی صرف مر کر ہی گڑھے میں جاتا ہے۔ ؟ ہم نے تو اپنی ان گنہہ گار آنکھوں سے بیشمار جیتے جاگتے انسانوں کو مختلف گڑھوں میں دفن ہوتے دیکھا ہے۔ کوئی گڑھا بھوک اور افلاس کا ہے تو کوئی سوکھا اکال اور باڑھ کا، کوئی گڑھا فرقہ وارانہ منافرت کا ہے تو کوئی فسادات کے نتیجے میں ناحق مارے جانے والوں کے خون سے بھرا ہے۔۔ ۔ بلکہ اب تو یہ گڑھے اس قدر بھرچکے ہیں کہ حکومت کو چاہیئے کہ ان گڑھوں پر نو ویکنسی ( No Vacancy ) کا بورڈ لگادے۔ !
کافی غور و خوض کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ باہر والے کی فراہم کردہ معلومات پر اندھا دھند بھروسہ کرنے کے بجائے ہمیں خود پروصفر صاحب سے ملنا چاہیئے چنانچہ ’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘ کے مصداق ہم آتش عشق پڑوسی میں کود پڑے۔ سب سے پہلے پروصفر صاحب کو سرِ راہ پکڑنے کی کوشش کی وہ بھی سلام کی ڈور سے، لیکن موصوف نے ہر بار رعونت کی قینچی سے اس ڈور کو کاٹ دیا۔ ہم نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری، جب بھی سامنا ہوتا نئی ڈور باندھ کر سلام کی پتنگ پلاتے، آخر ایک روز ہمارے سلام کے ٹھمکوں اور جھٹکوں نے اپنا اثر دکھایا، موصوف ذراسا پگھلے، یعنی ہمارے اشاراتی سلام کے جواب میں کنایاتی وعلیکم السلام سے نوازا اور اس پہلی پہلی کامیابی پر ہم نے خود اپنی پیٹھ ٹھونکی اور اس طرح اپنی ہمت بندھائی ؂
راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں با توں میں
اور کھل جائیں گے دو چار سلاماتوں میں
( " سلاماتوں " کی اصطلاح پر چونکیئے مت، ضرورتِ شعری کے تحت ہم نے اصل میں سلام کی جمع الجمع بنائی ہے ) جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو چار سلاموں ہی میں موصوف پوری طرح پگھل گئے اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ہمیں یوں لگا جیسے آتشِ نمرود سچ مچ گل گلزار ہو گئی۔ موصوف ہمیں سیدھے ٹیلی فون کیبل کے گڑھے میں لے گئے۔ گڑھے میں اتر کر جو نقشہ دیکھا تو ہماری آنکھوں کا نقشہ بدل کر رہ گیا۔ موصوف نے گڑھے کو اپنا دیوان خانہ بنا رکھا تھا، ایک طرف دو عدد، ہلتی ٹانگوں والی کرسیاں اور چھوٹی سی تپائی پر کچھ کتابیں دھری تھیں تو دوسری طرف ایک عدد صراحی معہ گلاس کے رکھی ہوئی تھی۔ پروصفر صاحب نے حسب توقع ایک عدد کرسی خود سنبھالی اور دوسری ہماری خدمت میں پیش کی اور پھر پہلا سوال داغا۔۔ ۔
" جناب کا اسم گرامی۔۔ ۔ ؟ "
عرض کیا۔۔ ۔ " خاکسار کو شیخ چاند حیاؔ بے حیاؔ کہتے ہیں۔ "
چہک کر بولے۔۔ ۔ " حیاؔ بے حیاؔ دونوں ایک ساتھ یعنی ڈبل ایکٹنگ۔۔ ۔ ! "
ہم نے وضاحت کی۔ " اصل میں یہ دونوں میرے تخلص ہیں قبلہ ! سنجیدہ شاعری میں بے حیاؔ اور مزاحیہ شاعری میں حیاؔ۔۔ ۔ ! "
منہ بناکر فرمایا۔۔ ۔ " شاعری کے مرغ کی چونچ سے سورج کے گولے کو کھینچنے کی کوشش تو نہیں کرتے توبہ استغفار کرتے ہوئے جواب دیا۔۔ ۔
" جی بالکل نہیں کرتا۔۔ ۔ ! "
تبسم فرماتے ہوئے بولے۔۔ ۔ " پھر ضرور ہتھوڑا اور درانتی چھاپ شاعری کر کے ایک طرف ہتھوڑا چلا کر مزدوروں کو الّو بناتے ہو تو دوسری طرف درانتی گھما کر سرمایہ داروں سے اپنا الو سیدھا کرواتے ہو۔۔ ۔ ! "
عرض کیا۔۔ ۔ " جی نہیں۔۔ ۔ میں شاعری کو "کسی اِزم کا پروپگنڈہ"، " کسی تحریک کا ایجنڈا " اور "کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا " نہیں سمجھتا۔۔ ۔ "
اس جواب پر خوش ہو کر بچوں کی طرح تالیاں بجانے لگے۔ پھر پوچھا۔ " شاعری میں فارم کے قائل ہو۔۔ ۔ ؟ "
دریافت فرمایا۔۔ ۔ " کون سا فارم۔۔ ۔ ؟ "
عرض کیا۔۔ ۔ " پولٹری فارم۔۔ ۔ ! "
چہک کر بولے۔ " بہت اچھے ! اب یہ بتاؤ کیا ابھی تک کنوارے ہو۔۔ ۔ ؟ "
کہا۔۔ ۔ " جی اس لمحے تک تو ہوں۔۔ ۔ ! "
اچانک مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے استفسار فرمایا۔ "گھر کی دیواروں کے اُدھڑے ہوئے پلاستر کو چھپانے کے لیے کیلنڈر لگانے کے قائل ہو۔۔ ۔ ؟ " جواباً اثبات میں اقرار کیا تو مزید دریافت کیا۔ " عموماً کس قسم کے کیلنڈر پسند کرتے ہو ؟ قدرتی نظاروں والے یا وہ جن میں حسین دوشیزاؤں کو فطری پیراہن میں دکھایا جاتا ہے۔۔ ۔ ؟ "
عرض کیا۔۔ ۔ " میں در اصل کسی بھی قسم کے کیلنڈر ٹانکنے کا قائل نہیں ہوں۔ "
پوچھا۔۔ ۔ " پھر تاریخ کس طرح معلوم کرتے ہو۔۔ ۔ ؟ "
جواب دیا۔۔ ۔ " جن دوستوں کے ہاں کیلنڈر پائے جاتے ہیں ان کے ہاں جا کر دیکھ لیتا ہوں۔ "
شریر لہجے میں فرمایا۔۔ ۔ " کیا دیکھ لیتے ہو، تاریخ یا کیلنڈر سے جھانکتی ہوئی حسینہ کو۔۔ ۔ ! "
" جی۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔ " ہم بری طرح گڑبڑا گئے۔
پوچھا۔۔ ۔ " کبھی محبت میں چوٹ کھائی ہے۔ ؟ "
سرسہلا کر جواب دیا۔۔ ۔ " جی نہیں کبڈی میں چوٹ کھائی ہے ! "
" بہت خوب ! ویسے محبت کے کھیل کو دیگر کھیلوں سے الگ سمجھتے ہو۔۔ ۔ ؟ "
" جی نہیں۔ " ہم نے ٹھوس لہجے میں کہنا شروع کیا۔۔ ۔۔ "بلکہ میری تو یہ عین خواہش ہے کہ کھیلوں کے " اولمپک " مقابلوں کی طرح محبت کے بھی اولمپک مقابلے منعقد کیے جائیں۔ "
پوچھا۔۔ ۔ " کیا یہ مقابلے پر لطف ثابت ہو سکتے ہیں۔۔ ۔ ؟ "
عرض کیا۔۔ ۔ " بالکل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر تصور کیجئے کہ محبت کے اولمپک مقابلے میں ایک طرف سے " چینی " محبوبہ، یہ کہتے ہوئے میدان میں اترتی ہے " چوں چوں چیاؤں میاؤں چوں چوں چٹاخ " تو دوسری طرف سے " ایرانی محبوب " یہ کہتے ہوئے میدانِ محبت میں کودتا ہے۔۔ ۔ " زبانِ یار من چینی، من چینی نمی چوں چوں نمی چوں چوں۔۔ ۔ "
متحیر لہجے میں فرمایا۔۔ ۔ تعجب ہے محبت کے بارے میں ایک طرف تو اس قدر دور کی سوچتے ہو اور دوسری طرف ابھی تک کنوارے ہو۔ ؟ کہیں کوئی " صیغۂ راز " والی پوشیدہ بیماری تو نہیں۔ "
" جی۔۔ ۔ ی۔۔ ۔ ی۔۔ ۔ بالکل نہیں۔ " ہم سٹپٹا گئے۔
" تو پھر شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔ ۔ ؟ "
عرض کیا۔۔ ۔ " فی الحال ارادہ نہیں ہے۔۔ ۔ "
بولے۔۔ ۔ " کبھی تو کرو گے۔۔ ۔ "
عرض کیا۔۔ ۔ " جی ضرور کروں گا۔۔ ۔ "
بولے۔ " مجھے ضرور یاد رکھنا۔۔ ۔ "
" جی۔۔ ۔ آپ کو۔۔ ۔ یعنی کہ " ہم مشکوک نظروں سے انہیں دیکھنے لگے توگڑبڑا کر بولے :
" لاحول ولاقوۃ۔ میرا وہ مطلب نہیں۔ بلکہ میرا اشارہ اپنی لڑکی کی طرف ہے، دو دو بیاہنے لائق بیٹھی ہیں۔ "
" آپ کا اشارہ کون سی لڑکی کی طرف ہے ؟ " ہم نے بے ساختگی سے پوچھا۔ " وہ جو گھر سے تو برقع اوڑھ کے نکلتی ہے لیکن بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے برقع تہہ کر کے پرس میں رکھ لیتی ہے یا پھر وہ جو چھت پہ چڑھ کے۔۔ ۔ ! "
ہمارا فقرہ ادھورا رہ گیا کیونکہ موصوف نے بری طرح چلآنا شروع کر دیا۔ " نامعقول، پاجی، بدمعاش اٹھو یہاں سے۔ نکلو باہر۔۔ ۔ پولیس۔۔ ۔ پولیس۔۔ ۔ "
اس چیخ و پکار اور پولیس کی للکار پر ہم نے جو گڑبڑا کر باہر نکلنے کی کوشش کی تو پہلے دونوں کرسیوں سے الجھے پھر صراحی اور گلاس سے ٹکرائے۔ پھر پروصفر صاحب کو رگیدتے ہوئے بمشکل تمام اس گڑھے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور جب کھلی فضا میں دوبارہ سانس لینا میسر ہوا تو جی چاہا کہ چلآ چلآ کر ساری خدائی سے کہیں کہ لوگو! تم نے چاند کی سرزمین پر قدم رکھ کر آنے والے خلابازوں کو دیکھا ہو گا لیکن مجھے دیکھو، جو دیدۂ عبرت نگاہ ہوکہ میں ابھی ابھی عذابِ قبر سے گذر کر زندہ اور صحیح سلامت قبر سے باہر آیا ہوں۔ "

عذاب قبر سے ملتے جلتے اس جھٹکے نے اگرچہ آتش عشق پڑوسی پر تھوڑی سی اوس ضرور ڈال دی تھی پھر بھی ہم نے سوچا کیا ضروری ہے کہ ہر پڑوسی پروصفر صاحب کی طرح عجوبۂ روزگار ہو چنانچہ آخری کوشش کا بیڑہ اٹھایا اور کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کیے بغیر ایک شام اس پڑوسی کے در دولت پر جاپہنچے جس کے دروازے پر لگی " نیم پلیٹ " نے ہمیں بارہا متوجہ کیا تھا، سیاہ رنگ کی تختی پر اجلے حروف میں لکھا تھا " آئی۔ ایم۔ کانچ والا "۔ نام کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہم نے بڑی آہستگی سے اطلاعی گھنٹی بجائی کہ انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔ ۔ کچھ توقف کے بعد دروازہ کھلا اور سچ مچ ایک عدد "آبگینہ " نمودار ہوا۔ نازک مہین چھوٹا موٹا سابلّور کے پتلے کی طرح۔ یوں لگا جیسے خالق کون و مکاں نے از راہ مذاق زنانے کی " چیز " مردانے میں بھیج دی ہے۔ ہم نے اس آبگینے کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ " مسٹر کانچ والا ہیں۔ ؟ "
" بالکل ہیں۔ بلکہ اس وقت آپ کے روبرو موجود ہیں۔ " آبگینے نے شرماتے ہوئے فرمایا۔ گویا مسٹر کانچ والا سچ مچ اسم بامسمّیٰٰ ثابت ہوئے۔ ہم نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ وہ فوراً بولے۔۔ ۔ " میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں " چھپرہ ہوٹل " کے باہر والے سے آپ کے بارے میں بہت کچھ سن چکا ہوں۔ میں تو خود آپ سے ملنے کا بے حد مشتاق تھا اچھا ہوا جو آپ مجھ سے ملنے چلے آئے۔ آیئے تشریف لایئے "۔ ہم پر حیرتوں کے بے شمار پہاڑ توڑ کر کانچ والا ہمیں اندر لے گئے۔ گھر کے اندر کی خاموشی صاف بتارہی تھی کہ موصوف ایک دم بے بال و پر آدمی ہیں۔ موصوف نے سب سے پہلے ٹھنڈے مشروب سے ہماری تواضع کی پھر ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں۔ البتہ جب اس گفتگو کا دھارا سیاست، ادب، فلم وغیرہ سے ہوتا ہوا ہماری " مجرد زندگی ’‘ کی چٹان سے ٹکرایا تو ہم نے گھبرا کر اجازت چاہی تو بڑی لگاوٹ سے اٹھلا کر بولے۔ " بیٹھئے نا، ابھی ابھی تو آپ آئے ہیں۔ " اتنا کہہ کر بدلے ہوئے تیور کے ساتھ آگے فرمایا۔۔ ۔ " دورانِ گفتگو جو لوگ گھڑی گھڑی گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں وہ مجھے گھڑی بھر کو بھی اچھے نہیں لگتے اور آپ مجھے پہلی ہی گھڑی میں اچھے لگے ہیں۔ "
اس انکشاف پر ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ غالباً وہ ہماری اس " غیرکیفیت " کو بھانپ چکے تھے اچانک پینترا بدل کر بولے۔۔ ۔ " آیئے پہیلیاں بوجھیں بتایئے وہ کون سی کلی ہے جو کبھی پھول نہیں بنتی۔ " جواب میں ہم انہیں گھورتے رہے کیوں کہ وہ خود ایک پہیلی نظر آ رہے تھے، ہماری خامشی پر مسکرا کر بولے۔ " اتنی آسان پہیلی نہیں بوجھ سکے آپ۔ جناب وہ کلی جوکبھی پھول نہیں بنتی، اکثر گھر کی دیواروں پر نظر آتی ہے۔ یعنی چھپکلی "۔
اتنا کہہ کر خود ہی ہنسنے لگے اور ان کی ہنسی کی گونج پر ہمیں کانچ کے چٹخنے کا گمان ہوا پھر اگلی پہیلی داغی "اب یہ پہیلی بوجھئے " وہ کون سی چیز ہے جو لڑکپن میں مونث ہوتیہے مگر جوان ہو کر مذکر بن جاتی ہے۔ " ہم بھلا ان کی پہیلیاں کس طرح بوجھتے دماغ ہی ٹھکانے پر نہیں تھا۔ چنانچہ خود ہی بولے۔۔ ۔ " ذرا مشکل پہیلی ہے میری بنائی ہوئی ہے نا۔ وہ چیز جو مونث سے مذکر میں تبدیل ہو جاتی ہے، اصل میں پھول ہے۔ کلی جب تک کھلتی نہیں مونث ہوتی ہے اور جب کھل جاتی ہے تو پھول کہلاتی ہے اور پھول ظاہر ہے مذکر ہے۔ " موصوف کی ان عجیب و غریب پہیلیوں اور اس سے زیادہ ان کے عجیب و غریب رویئے نے ہمیں حیرت زدہ کر دیا تھا۔ ہماری حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے مزید فرمایا۔۔ ۔ " اب آخری پہیلی۔۔ ۔ ایک چیز ایسی ہے جو تھوڑی اِدھر ہے تھوڑی اُدھر ہے بتایئے۔ ؟ " ہم اس وقت تک لاوے کی طرح پک چکے تھے اچانک پھٹ پڑے۔ " وہ بیچ ادھر والی چیز آپ ہیں، صرف آپ "۔
بچوں کی طرح چہکاری مار کر بولے۔۔ ۔ " افوہ کتنے ہشیار ہیں آپ کتنا جلدی پہچان گئے۔ "
اور پھر اس سے پہلے کہ یہ آبگینہ خود کو ٹھیس پہچانے کے ارادے سے براہِ راست ہم سے ٹکراتا وہاں سے جو بھاگے تو پھر بھاگتے ہی چلے گئے اور پتہ نہیں کب تک بھاگتے رہے کہ ایک موڑ پر اچانک کسی سے بری طرح ٹکرائے اور پھر اس کو ساتھ لیے ہوئے ہی ڈھیر ہو گئے جب حواس درست ہوئے تو دیکھا کہ ہم ایک ساتھ دو عدد راہ گیروں سے ٹکرائے تھے اور انہیں ساتھ لیے ہوئے محکمہ، ٹیلی فون کے کیبل والے گڑھے میں پہنچ گئے تھے۔ اور سوئے اتفاق کہ وہ دونوں راہ گیر کوئی اور نہیں بلکہ ایک تو پروصفر صاحب تھے اور دوسرا چھپرہ ہوٹل کا باہر والا تھا۔ پروصفر صاحب متشکی لہجے میں غصہ سے پھٹ پڑے۔ " میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ تمہارا رجحان کس طرف ہے۔ مرد آدمی کا کافی عمر تک مجرد رہنا اسے اکثر غلط لتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ "

اس روز ہم کس طرح اس گڑھے سے نکلے اور پھر کیسے گھر پہنچے، اسے جانے دیجئے البتہ اس دن کے بعد سے ہم نے یہ عہد کر لیا ہے کہ اب کبھی پڑوسیوں سے میل ملاپ بڑھانے کی حماقت نہیں کریں گے تاوقتیکہ اس لائق پڑوسی نہیں پیدا ہو جاتے اور پڑوسی و پڑوسن کے درمیان پائی جانے والی " وہ " قسم کی مخلوق پر ایک بار پھر آسمان سے پتھروں کی بارش نہیں ہو جاتی۔۔ ۔ !


Padosi, Padosan aur woh. Humorous Essay by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں