روزنامہ 'ممبئی اردو نیوز' 22/اگست میں ندیم صدیقی کی رپورٹ کچھ یوں شائع ہوئی تھی:
سید ید اللہ مہدی حسینی جو ادبی حلقوں میں "پرویز ید اللہ مہدی" کے اسم سے معروف تھے 21/جون 1943 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد) کا متذکرہ خصوصی نمبر "پرویز ید اللہ مہدی نمبر" (فروری/مارچ 2009) ، مشہور ویب سائٹ ریختہ پر آن لائن پڑھا جا سکتا ہے:
حیدرآباد سے انہوں نے ری ایکٹی ویشن کا ڈپلومہ کورس کیا اور بعد ازاں وہ ممبئی منتقل ہو گئے اور ریڈیو کے ذریعے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا کی۔
معروف ادیب فیاض احمد فیضی نے یہ اطلاع دیتے ہوئے مزید بتایا ہے کہ وہ ملک بھر کے ادبی رسائل میں لکھا کرتے تھے۔ ممبئی کے ایک روزنامہ میں ان کا کالم "یہ ہے بمبئی میری جان" بہت مقبول ہوا۔ پرویز ید اللہ مہدی نےایک طویل مدت مشہور ریڈیو براڈ کاسٹر امین سیانی کے ساتھ کام کیا، اسی طرح وہ مشہور فلم ایکٹر فیروز خان کے ادارے میں بھی بطور قلمکار کام کرتے رہے ۔انکی چار کتابیں (چھیڑ چھاڑ، چوڑی کے غلام، کچوکے اور تٗو تٗو مَیں مَیں) شائع ہو چکی ہیں۔ ماہنامہ شگوفہ(حیدرآباد) میں وہ اکثر لکھا کرتے تھے اور شگوفہ نے ان پر اپنا ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا تھا، ان کے دو مزاحیہ ناول "چہ خوب" اور "سگ لیلےٰ" بھی ماہنامہ "شگوفہ" میں قسطوار چھپتے رہے ہیں۔ ان کی خودنوشت سوانحی کتاب "دروغ بر گردنِ راوی" بھی حیدرآباد سے شائع ہوئی ہے۔ طنز و مزاح کے مشہور حیدرآبادی ادارے 'زندہ دلانِ حیدرآباد' سے بھی ان کی وابستگی رہی۔
پرویز یداللہ مہدی کئی برس قبل مع اہلِ خانہ امریکہ منتقل ہو گئے تھے جہاں انھیں رہتے ہوئے بھی ایک مدت ہو چکی تھی ۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے، شکاگو کے ایک ہسپتال میں پیر 20/اگست کی صبح چھ بجے انہوں نے آخری سانس لی۔
ان کے پسماندگان میں بیوہ کے ساتھ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اطلاع کے مطابق ان کا جسدِ خاکی حیدرآباد لاکر سپرد خاک کیا جائے گا۔
Shagoofa,Hyderabad: Parvez Yadullah Mehdi Number : Shumara Number-003
اس خصوصی شمارے کی رسم اجرا کی رپورٹ بھی شگوفہ کے اگلے شمارے میں اس طرح شائع ہوئی تھی:
حیدرآباد ۔ 9 ۔ مارچ 2009 :اسی خصوصی نمبر میں شامل پرویز ید اللہ مہدی کا ایک دلچسپ انشائیہ بعنوان "چلتا پھرتا لٹریچر" ذیل میں مطالعہ فرمائیں۔
ماہنامہ شگوفہ کے خصوصی 'پرویز ید اللہ مہدی نمبر' کی رسم اجرا ادیبوں شاعروں اور شگوفہ کے قارئین و ہمدردوں کے ایک کثیر اجتماع میں انجام دی گئی اور مقررین نے پرویز ید اللہ مہدی کی 40 سالہ ادبی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کو آزادی کے بعد طنز و مزاح لکھنے والوں کی اولین صف کا تخلیق کار قرار دیا ، جنہوں نے اپنی شائستہ مزاح کے ذریعہ عالمی سطح پر زندہ دلی کو پروان چڑھایا ۔
حیدرآباد کے بزرگ ادیب جناب حسن الدین احمد نے اس خصوصی اشاعت کی رسم اجرا انجام دیتے ہوئے شگوفہ کی مسلسل اشاعت پر اظہار تحسین کیا ۔ اور پرویز ید اللہ مہدی نمبر کو ایک اہم خصوصی اشاعت قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز نے 75ء سے باضابطہ مزاح نگاری شروع کی ۔ اور جوں جوں وہ لکھتے گئے ان کے تخلیقی مضامین کا معیار بڑھتا چلا گیا ۔ بیرونی ممالک کے دوروں نے ان کے ذہن یں وسعت پیدا کی اور کینوس وسیع ہوتا گیا ۔
مجھے یقین ہے کہ ان کی غیر مطبوعہ کتابیں دن کی روشنی دیکھ لیں گی تو یہ شہنشاہ ظراف کہلائیں گے ۔۔
ابتدا میں ڈاکٹر مصطفی کمال مدیر شگوفہ نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ شگوفہ کے اولین شماروں میں پرویز ید اللہ کا کلام شایع ہوتا رہا لیکن 1971ء سے تمام نثری پیراؤں میں ان کی تخلیقات شایع ہوتی رہیں ۔ جن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ پرویز کے مطالعے کے بغیر طنز و مزاح کے ارتقا کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔
ڈاکٹر حبیب نثار ( ریڈر حیدرآباد اردو یونیورسٹی ) نے کہا کہ سماجی برائیوں کو اپنے طنز و مزاح کا نشانہ وہ بناتے ہیں جو اپنی عمریں تہذیب و تمدن کے مطالعہ میں صرف کردیتے ہیں ۔ پرویز ید اللہ مہدی نے اپنی تحریروں میں شہری زندگی اس کی عصری حسیت اور مٹتی ہوئی مشرقی تہذیب کے نقوش کو موضوع بنایا ہے ۔
پروفیسر وہاب قیصر نے ’ پرویز ایک طلسماتی شخصیت ‘ کے عنوان کے تحت ابتدا تا تاحال پرویز صاحب سے اپنے تعلقات کا دلچسپ انداز میں جائزہ لیا ۔ اور ایک زندہ دل ادیب کی حیثیت سے پرویز ید اللہ کی تحریروں کا ذکر کیا ۔۔
پروفیسر یوسف کمال نے شگوفہ اور مدیر شگوفہ سے اپنے دیرینہ روابطہ کا ذکر کرتے ہوئے شگوفہ کی عرصہ دراز سے مسلسل اشاعت اور مدیر ڈاکٹر مصطفی کمال کی انتھک محنت کو خراج تحسین پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں پرویز کو یوسف ناظم اور مجتبیٰ حسین کی صف میں جگہ دیتا ہوں ۔ وہ ہمہ جہت ذوق کے ادیب ہیں ۔ پرویز ید اللہ مہدی نے کالم نگاری ، شاعری ، طنز نگاری اور پھر مزاح نگاری سے مستقلاً اپنا رشتہ جوڑ لیا ۔ پرویز کے ہاں مشتاق احمد یوسفی اور مشفیق خواجہ کی طرح کلاسیکل مزاح کی مثالیں ملتی ہیں ۔۔
جناب محمد علی رفعت آئی اے ایس نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ پرویز کی نگارشات میں طنز نہیں بلکہ مزاح اور رجائیت ہے ۔ ان بسیار نویسی کے باوجود پرویز کے مزاح کا معیار کم نہیں ہوتا ۔ اس موقع پر مختلف ادبی و سماجی انجمنوں کی جانب سے پرویز ید اللہ مہدی کی گلپوشی کی گئی ۔ کنوینر جلسہ پروفیسر مجید بیدار نے نظامت کے دوران ماہنامہ شگوفہ کی انفرادیت اور پرویز ید اللہ مہدی کی شخصیت و فن پر اظہار خیال کیا اور آخر میں باذوق سامعین اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔
پرویز ید اللہ مہدی نے تالیوں کی گونج میں اپنے خاص اسلوب میں ان تمام لوگوں سے اظہار تشکر کیا جنہوں نے ان کے فن اور شخصیت پر خیالات کا اظہار کیا ۔ مختلف انجمنوں کی جانب سے مصنف پرویز ید اللہ کی گلپوشی کی گئی ۔ رشید سمیع جلیل نے منظوم خاکہ پیش کیا ۔ اشرف خوندمیری کا منظوم خاکہ جناب سید عبدالقادر ریٹائرڈ آئی جی پولیس نے دلچسپ انداز میں سنایا ۔
***
ہماری ناقص معلومات کے مطابق لٹریچر عرف ادب کی بے شمار قسمیں ہیں جیسے آفاقی ، اوقافی ، رومانی ، جاسوسی ، واقعاتی ، معلوماتی ، برساتی ، جناتی حتیٰ کہ پوشیدہ امراض کی طرح خفیہ لٹریچر بھی ڈھونڈنے سے مل جاتا ہے یہ چوں کہ ' گپت گیان ' کے زمرے میں آتا ہے اس لیے چھپایا نہیں چُھپایا جاتا ہے اور عموماً سرکاری و نیم سرکاری دفتروں کالجوں کے باتھ روموں میونسپلٹی کی موتریوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور ریل کے ڈبوں سے ملحقہ بیت الخلاؤں میں ' مخطوطات ' کی شکل میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے اور عرف عام میں "بیت الخلائی لٹریچر" کہلاتا ہے ۔
بیت الخلائی لٹریچر کا ہر جنم داتا صرف محرر نہیں مصور بھی ہوتا ہے اس لیے یہ لٹریچر اکثر باتصویر ہوتا ہے ہمہ اقسام کے لٹریچر کے ساتھ بیت الخلائی لٹریچر کا ذکر تو خیر برسبیل تذکرہ آگیا ۔ اصل میں ہمارا روئے سخن لٹریچر کی جس نئی اور تازہ ترین قسم کی طرف ہے وہ لٹریچر کے خانوادے میں حالیہ اضافہ ہے اس نومولود لٹریچر کی خوبی یہ ہے کہ اس سے محظوظ ہونے کے لیے دیگر لٹریچر کی طرح علم کے پیاسے کو اس تک پہنچنے کی زحمت نہیں گوارا کرنی پڑتی ۔ کنواں خود چل کر پیاسے تک پہنچ جاتا ہے اور پھر پیاسے کو شرطیہ سیراب بلکہ غرقاب کردیتا ہے اس لیے اگر اس کو چلتا پھرتا لٹریچر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
اب آپ سے کیا چھپائیں کچھ عرصہ پہلے ہم خود اپنی چشم گنہ گار سے چلتے پھرتے لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہیں ۔ ہوا یوں کہ اس روز ہم ہنگنگ گارڈن سے متصل فٹ پاتھ پر ایک خوانچہ والے کے پاس کھڑے لوگوں کو بھیل کھاتا دیکھ کر خوش ہورہے تھے کہ اچانک سامنے والی نسبتاً سنسان اور تنگ گلی سے ایک عدد الٹرا ماڈرن حسینہ جس نے کنجوس کے بٹوے سے زیادہ تنگ جینس اور اس سے زیادہ تنگ جرسی زیب تن کر رکھی تھی ، کسی کٹی پتنگ کی طرح تھاپ کھاتی ڈری ، سہمی ، گھبرائی سڑک کی جانب آتی دکھائی دی ۔ ہم نے جو یہ عجیب نقشہ دیکھا تو ہڑبڑا کر دور تک گلی میں نظر دوڑائی ۔ لڑکی سے تھوڑا پیچھے ہی اس کی گھبراہٹ کا جیتا جاگتا سبب ایک نوجوان کی صورت نظر آگیا ۔ جو تار کے پتنگ کی طرح اس کے پیچھے چلا آرہا تھا گویا اچھا خاصا Chase Scene چل رہا تھا ۔ سڑک پر پہنچتے ہی لڑکی کی جان میں جان آگئی اور پھر اچانک اس کی نظر خوانچے والے کے پاس کھڑے ہوئے حوالدار پر پڑی جو یقیناً اس وقت ڈیوٹی پر تھا کیوں کہ حسب معمول خوانچے والے سے معمول وصول کررہا تھا ۔ لڑکی فوراً سڑک پار کر کے حولدار کے پاس پہنچی ۔ تب تک نوجوان بھی سڑک پر آچکا تھا ۔ لڑکی نے حولدار کو مخاطب کر کے واویلا مچانا شروع کردیا ۔
"حولدار صاحب پلیز مجھے اس لوفر سے بچائیے ۔ بڑی دور سے پیچھا کررہا ہے ۔ فوراً گرفتار کرلیجئے اسے ۔ ڈال دیجئے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ۔۔"
اس دوران نوجوان بھی نزدیک پہنچ چکا تھا ۔ اس سے پہلے کہ حولدار لڑکی کی بات پر عمل کرتا نوجوان ہاتھ جوڑ کر بولا ۔
"حولدار صاحب میں کوئی لچا لفنگا نہیں ۔ شریف آدمی ہوں ۔ زندگی میں کبھی کسی لڑکی کا پیچھا نہیں کیا اور ان کا بھی پیچھا نہیں کرتا ۔ اگر یہ خود مجھے اپنے پیچھے آنے کی تحریری دعوت نہ دیتیں ۔ اگر آپ کو میری بات کا بھروسہ نہیں تو پلیز ذرا ان محترمہ کی جرسی کا جائزہ لیجئے ۔ آپ کو میری بے گناہی کا ثبوت مل جائے گا۔"
اتنا کہہ کر اس نے لڑکی کی پشت بطور ثبوت حولدار کے ملاحظہ میں پیش کردی جس پر جلی حرفوں میں بہ زبان انگریزی لکھا تھا : Follow Me ۔
لڑکی نے جو یوں الٹی آنتیں گلے پڑتی دیکھیں تو وہاں سے رفو چکر ہوجانے ہی میں عافیت جانی ۔ ابھی اس نے دو چار قدم ہی اٹھائے تھے کہ نوجوان نے پیچھے سے جملہ پھینکا ' محترمہ اگر آپ کو راہ چلتوں کی ضیافت طبع کا سامان بننا پسند نہیں تو آئندہ ایسی جرسی پہن کر نکلا کیجئے جس پر لکھا ہو :
"Dont Follow Me"
اس چشم دید واقعہ کے بیان سے بخدا ہمارا مقصد صنف نازک کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں بلکہ اس بہانے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں ایسے کپڑے پہننے کا چلن عام ہو گیا ہے جو مطبوعہ لباس کی تعریف میں آتے ہیں ۔ گویا ان دنوں نئی نسل کی مہربانی سے ملبوسات کا شمار بھی مطبوعات میں ہونے لگا ہے ۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہیں تو مہانگری ممبئی کے کسی بھی بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں کسی مناسب جگہ تھوڑی دیر کھڑے ہوجائیے پھر دیکھئیے غیب سے کیسے کیسے مطبوعہ لباس ، کیسا کیسا ملبوساتی لٹریچر ظہور میں آتا ہے ۔
مثلاً ایک نوجوان اچانک آپ کے پیچھے سے فریم میں داخل ہوں گے ۔ جن کی جینس کی پشت پر واضح الفاظ میں لکھا ہوگا No Entry ۔ نوجوان کے منظر سے فیڈ آوٹ ہوتے ہی ایک چنچل حسینہ سامنے سے نمودار ہوگی جس کی جرسی پر 'مصرع 'کی طرح یہ وارننگ چسپاں ہوگی No Parking پھر اسی حسینہ کے فیگر کو ایک اور نازک اندام کا پیکر کراس کرے گا جس کی امپورٹیڈ جینس پر پیچھے کی طرف یہ گرما گرم فقرہ درج ہوگا Clean Bowled ۔
آپ کی تفریح تباہ کے لیے ہم ایسی بہترین مثالیں پیش کرسکتے ہیں کیوں کہ ممبئی میں رہنے کی پاداش میں ہمارے مقدر میں دیگر لٹریچر کے علاوہ ملبوساتی لٹریچر بھی لکھا ہوا ہے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے ممبئی میں تقریباً پچاس فیصد لوگ مطبوعہ لباس پہنتے ہیں اور بقیہ پچاس فیصد لباس پر مطبوعہ تحریری معمے حل کر کے اپنے علم کی پیاس بجھاتے ۔ ویسے ریڈی میڈ کپڑوں پر زیور طبع سے آراستہ لٹریچر بذات خود مخرب اخلاق نہیں ہوتا ۔ اس میں بظاہر ذم کا بھی کوئی پہلو نہیں ہوتا ، لیکن اس کی اشاعت کے لیے لباس کے حدود اربعہ میں جن مقامات آہ و فغاں کا بطور خاص انتخاب کیا جاتا ہے ان کے دائرۂ اختیار میں آنے والے جسمانی مشمولات ہی دراصل اس اچھے خاصے قابل اشاعت ملبوسات لٹریچر پر خواہ مخواہ ناقابل اشاعت کا لیبل لگادیتے ہیں ۔ اس لیے مطبوعہ لباس کے انتخاب میں احتیاط لازمی ہے بالخصوص خواتین کے لیے کیوں کہ اب لباس ملاحظہ کی چیز نہیں ۔ مطالعے کی چیز بن گیا ہے ۔ ملاحظے میں صرف سرسری نظر سے کام چل جاتا ہے جب کہ مطالعے میں غور و فکر سے کام لینا پڑتا ہے ۔ بعض نظر باز ناظرین کے مطالعے میں اس قدر غور و فکر یعنی گہرائی و گیرائی ہوتی ہے کہ مطبوعہ لباس کے پس پشت پوشیدہ 'لعل و گہر ' تک ان کی رسائی ہوجاتی ہے ۔۔
اس کی بہترین مثال ہیں ہمارے دوست خواجہ جزاک اللہ جز بندی ۔ مطالعے کے بہانے موصوف نظر کی ایک ہی جست میں جز سے گزر کر کل تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر کل کے ایک ایک جز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی واپس لوٹتے ہیں ۔ اب تو خیر سے خواجہ صاحب اس فن میں اس قدر طاق ہوچکے ہیں کہ کپڑوں پر چھپے ہوئے پرنٹیڈ میٹر کو دیکھ کر ہی پیرہن پوش کے کردار ، مزاج ، چال چلن ، عادات اطوار ، خاندان ، ہڈی ، نسل غرض کہ ساری جنم پتری کھول کے رکھ دیتے ہیں ۔ ممدوح کی مطالعہ شناسی کے ثبوت میں ہم یہاں پر صرف ایک ہی واقعہ پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں چند روز پہلے خواجہ صاحب کے ایک منھ بولے بھتیجے نے ان کے پڑوسی پروفیسر سنگساری کی بڑی لڑکی سے اپنے رشتے کی بات چلانے کی درخواست کی تو موصوف طنزیہ لہجے میں بولے ' برخوردار خود کشی کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں ۔ تم یہ Slow Poisoning والا خطرناک راستہ کیوں اختیار کرنا چاہتے ہو ؟ شادی کر کے بالا قساط کیوں مرنا چاہتے ہو' ؟
منھ بولے بھتیجے نے منھ بناکر کہا ۔
"اس لیے کہ میرے باپ دادا نے بھی ایسی ہی قسط وار موت پسند کی تھی" ۔ اس حتمی جواب پر خواجہ صاحب پینترا بدل کر بولے :
"خیر جیسی تمہاری مرضی ۔ ویسے برخور دار تمہیں ایک بات بتادوں ۔ پروفیسر صاحب کی بڑی لڑکی کی کنڈلی میں کسی مرد کے ساتھ نباہ کرنا لکھا ہی نہیں ہے ۔ وہ جس قسم کے مطبوعہ پہناوے استعمال کرتی ہے ان سے نسوانیت ونزاکت کے بجائے 'چنگیزیت اور ہٹلریت ' ٹپکتی ہے ۔ ابھی پچھلے اتوار کی بات ہے کالونی کے گارڈن میں محلے بھر کے لڑکوں کو جمع کر کے کرکٹ کھیل رہی تھی اور جو مطبوعہ شرٹ اس نے پہن رکھی تھی اس پر جلی حرفوں میں لکھا تھا : Danger Zone ۔ اب تم ہی بولو برخوردار جس لڑکی کے لباس پر ایسا جارحانہ پرنیٹیڈ میٹر چھپا ہو اس سے شادی کرنا موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے سے زیادہ خطرناک ہے کہ نہیں ۔ ان کھلم کھلا نشانیوں کے باوجود تم اگر پروفیسر صاحب ہی کے گھرانے سے رشتہ جوڑنے کا تہیہ کر چکے ہو تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ان کی چھوٹی صاحبزادی تمہارے لیے ہر اعتبار سے مناسب رہے گی ۔ بڑی ہی نازک اور چھوئی موئی قسم کی بچی ہے ۔ ایسے کپڑے بھول کر بھی نہیں پہنتی جن پر دندان شکن قسم کے فقرے یا نعرے چسپاں ہوتے ہیں بلکہ اس کے کپڑے نہایت ہی نازک اور معصوم قسم کے فقروں سے آراستہ ہوتے ہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے تمہاری چچی جان سے ملنے آئی تھی ' فارن کی جینس اور جرسی پہنے ، کالی جرسی پر سفید پینٹ سے لکھا تھا "Handle With Care" اور جینس پر تحریر تھا : Don't Touch Me ۔۔"
ہوسکتا ہے چھوٹے شہروں میں آج بھی غیر مطبوعہ لباس رائج ہوں لیکن بڑے شہروں میں مطبوعہ لباس کی مانگ روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اس کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اسے پہننے کے لیے آدمی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ۔ یوں بھی اس کی ایجاد و اختراع کا مقصد جاہلوں کو علی الاعلان عالم ثابت کرنا اور عالموں کے علم کا سر راہ امتحان لینا ہے ۔ چنانچہ مطبوعہ لباس پہننے والوں کی اکثریت اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو بفضل تعالیٰ علم کے ' شر ' سے ابھی تک محفوظ ہے ۔ البتہ کبھی کبھار اپنی بے علمی کی وجہ سے ایسے لوگ تماشا بھی بن جاتے ہیں دور کیوں جاتے ہیں ہمارے پڑوسی قاسم بھائی رسی والا ہی کو لیجئے ۔ آدمی پشتینی جاہل ہیں ۔ اس لیے زندگی کی ہر آسائش ہر سکھ انہیں میسر ہے ۔ سچ ہے فی زمانہ علم آدمی کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کرتا ہے اور جہالت تین وقت سونے کا نوالہ کھلاتی ہے ۔۔
بہر حال کچھ روز پہلے کا ذکر ہے صبح صبح قاسم بھائی بغل میں ایک چھوٹی سی پوٹلی دبائے منھ لٹکائے غریب خانے پر نازل ہوگئے ۔ ہم نے حیرت سے پوچھا : 'کیا بات ہے قاسم بھائی ۔ آج صبح آپ سیر کے لیے تشریف نہیں لے گئے ؟ '
خالص بمبیا لہجے میں بولے ' لے گیا ہوتا بھائی ، پن تشریف کو ریورس گئیر Reverse Gear میں ڈال کر واپس لانا پڑا ' ۔۔
ہم نے گھبرا کے پوچھا ' وہ کیوں ؟ '
بولے ۔ ' ابھی کیا بولے گا ۔ آج سالا گھاٹی گھاٹی میں بڑے چھو کرے کا گنجی بنین ، پین کے بغیچے میں چلا گیا ہوتا ۔ جو وہ پچھلے اٹھواڑے دبائی سے اسمگلنگ کے مال کے ساتھ لایا ہوتا ۔ پتہ نئیں اس کے اوپر سالا ایسا کیا چھپیلا ہے کہ کل تلک جو آدمی لوگ سالا اپن کو دیکھ کے سلام مارتا تھا اپن کا رستہ کھوٹی کر کے سٹے کا نمبر ، مٹکے کا آکڑا پوچھتا تھا آج اپن کو نوی گنجی بنین میں دیکھ کے دور سے سلام مار کے پتلی گلی پکڑ کے نکل گیا ' ۔
اتنا کہہ کر موصوف نے بغل والی پوٹلی ہمارے حوالے کردی اور آگے بولے :
' ابھی ذرا تم اس کو تپاس کے بولو آخر اس کے اوپر فرنگی لوگ کی بھاشا میں کیا لکھیلا ہے ۔ اپن کے واسطے تو سالا کالا اکشر بھینس بروبر ہے ! '
ہم نے پوٹلی کی گانٹھ کھولی ۔ اس میں سے ایک عدد خوبصورت اور نفیس امپورٹیڈ جرسی برآمد ہوئی جس کے سینے پر انگریزی میں لکھا تھا Keep Safe Distance ۔
ملبوساتی لٹریچر کی تمام تر حشر سامانیوں ، ریشہ دوانیوں اور فتنہ انگیزیوں کے باوجود نہ ہم اس کے مخالف ہیں نہ ہمیں اس سے کوئی ذاتی پر خاش ہے ۔ البتہ ایک چھوٹی سی شکایت ضرور ہے اور وہ یہ کہ اس پر کلیتہً انگریزی زبان کا غلبہ ہے جو محض ہماری مرعوب ذہنیت کا نتیجہ ہے ۔ اس لیے ریڈی میڈ کپڑے تیار کرنے والی کمپنیوں کے ارباب مجاز سے ہماری مودبانہ درخواست ہے کہ آئندہ تیار شدہ کپڑوں پر انگریزی کے ساتھ دوسری تمام ہندوستانی زبانوں کے لٹریچر کو بھی برابر کا موقع دیا جائے بالخصوص اردو زبان کو کہ جسے آئے دن اسکولوں اور کالجوں سے بے دخل کیا جارہا ہے ۔ اس طرح یہ بے چاری زبان جامعات میں نہ سہی ملبوسات پر ہی زندہ رہ سکے گی بلکہ سچ پوچھیے تو اردو ادب بالخصوص شاعری کا بڑا حصہ صفحۂ قرطاس سے زیادہ قدیم و جدید ہر طرز کے لباس پر اس طرح فٹ بیٹھتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ ۔ یہاں ہم ثبوت کے طور پر اساتذہ کے کلام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں پہلے جینس کی چستی پر چست بیٹھنے والے مصرعے اور ایک شعر ملاحظہ فرمائیے :
نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا
نالہ پابند نَے نہیں ہے
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
**
نام پستی میں بھی یوں روشن ہمارا ہوگیا
جس طرح پانی کنویں کی تہہ میں تارا ہوگیا
اب ذرا جرسیوں اور شرٹس کو چار چاند لگانے والے موزوں ترین مصرعوں پر ایک نظر ڈالتے چلیں :
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ذرا سوچئے اردو کو کاغذی پیرہن کے علاوہ سوتی ، اونی اور ریشمی پیرہن پر بھی اس کا مقام مل جائے تو اساتذہ کے کلام کے ساتھ دور حاضر کے شاعروں کا نہ صرف مطبوعہ بلکہ غیر مطبوعہ کلام حتیٰ کہ رسائل و جرائد سے شکریے کے ساتھ لوٹائی ہوئی تخلیقات کے بھی شائع ہونے کی صورت نکل آئے گی ۔ یقین مانئیے اگر ایسا ہوگیا تو کیا عجب کہ آگے چل کر پینٹنگ paintings کی نمائشوں کی طرح شعر و ادب سے مزین ملبوسات کی نمائش بھی ہونے لگیں ۔ مشاعروں کے ساتھ ساتھ ملبوساتی لٹریچر کے مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے ۔ پھر اخباروں میں اس طرح کی ادبی خبریں شائع ہوا کریں گی ۔۔
شہر کے مستند شاعروں کے غیر مطبوعہ کلام سے آراستہ ملبوسات کا شاندار مظاہرہ
آئندہ اتوار کو موسیٰ ندی کے بڑے دھوب گھاٹ پر آپ کے پسندیدہ شعرائے کرام کے غیر مطبوعہ کلام سے آراستہ و پیراستہ ملبوسات کی رنگا رنگ نمائش منعقد کی جارہی ہے جس میں استاد نامراد ساقط البحری کی اکلوتی شیروانی صدارتی رسی پر ٹنگی ہوگی ۔ شائقین شاعری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ دنیا کی پہلی اور آخری شیروانی ہے جس پر استاد نامراد کا کل شعری سرمایہ یعنی مکمل دیوان بخط خفی زیور طبع سے آراستہ کر کے فن شاعری کی خامیوں کو فن کتابت کی خوبیوں سے ڈھانکنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔اس نادر روزگار و بے روزگار نمائش میں ڈاکٹر پروفیسر بھر کس ، بدکلامی کا نادر و نایاب مطبوعہ کرتا مہمان خصوصی کی رسی پر ٹنگا ہوگا جس پر پروفیسر موصوف کا بدنام زمانہ مقالہ اردو شاعری میں پرندوں ، چرندوں و درندوں کا مقام و مرتبہ اپنی اصل حالت میں املا و انشا کی تمام تر غلطیوں سمیت بڑی عرق ریزی کے ساتھ چھاپا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ نمائش ہذا میں جن شعرا و شاعرات کے کلام سے مرقوم ملبوسات رونق افروز ہوں گے ان کے اور ان کے ملبوسات کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :
حضرت سوختہ بھڑ بھونجوی کا پاجامہ ، ڈاکٹر شاطر جنجالی کی پتلون ، پہلوان سخن مختصر مستعد پوری کی جیکٹ، حضرت فتنہ دھول پیٹی کی دھوتی، پروفیسر نادانؔ و اناپوری کا اوور کوٹ، جناب چاؤش بارکسی کی لنگی، محترمہ گلبدن خانم گلچیںؔ کا غرارہ، محترمہ نزاکت النساء نزاکت کی شلوار اورمحترمہ حیا بانو حیا کا دوپٹہ
ہم جانتے ہیں کہ سردست یہ محض ایک دیوانے کا خواب ہے۔ اردو کے ایک معمولی ادیب کی خوش فہمی ۔ لیکن یہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے ۔ بس ذرا اردو کو مطبوعہ ملبوسات پر اپنا مستحقہ مقام حاصل کرنے دیجئے پھر دیکھئے ملبوساتی لٹریچر کس طرح کلاسیکی ادب کے ناک کان کاٹتا ہے ۔۔
ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ جلد:42، شمارہ:3۔ شمارہ: فروری/مارچ 2009۔
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ جلد:42، شمارہ:3۔ شمارہ: فروری/مارچ 2009۔
Chalta phirta literature. Humorous Essay by: Pervez Yadullah Mehdi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں